نوجوان نسل میں کتب بینی کو کیسے فروغ دیا جائے ؟

میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ صرف مسئلہ کی نشاندہی ہی نہیں ، اس کا حل بھی پیش کرنا چاہیے اور ہو سکے تو اپنے تئیں اسے عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔

اس کے لیے میں نے آج زحال مرزا سے تفصیلی گفتگو کی اور انشاءللہ کچھ خدو خال واضح تو ہوئے ہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
گویا پیپر پرنٹ کی بجائے ای پرنٹ ، اور آپ کے خیال میں یہ بنیادی محرک ہوسکتا ہے ؟
یا پھر آپ کے نزدیک بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ کتاب کی عدم دستیابی ہے ، جو ای پرنٹ کی صورت میں آسان ہوسکتی ہے ؟ (متفق!)
کتاب کو کاغذ کی بجائے سکرین پر پڑھنے کے لئے ای ریڈر ہیں۔ ای ریڈر کے خریدار سنجیدہ کتب بین ہیں۔ یعنی بات گھوم پھر کر کتاب سے وابستگی پر اتر آتی ہے نا کہ تیکنیک سے دلچسپی پر۔ :)
اصل مسئلہ پیپر پرنٹ مہنگا ہونا ہے۔ ایک اچھی کتاب کی قیمت بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے۔ میں کئی مرتبہ صرف اس لیے کتابیں نہیں خرید پاتا کہ جیب اجازت نہیں دیتی۔ ای بکس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ کتاب کی لاگت میں بہت زیادہ کمی آ سکتی ہے بلکہ خریدنے والی کی جیب پر پڑنے والا بوجھ بھی بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔
آپ کی دوسری بات کافی حد تک درست ہے کہ اصل بات کتب سے وابستگی ہے، لیکن ہم نت نئی ڈیوائسز کی رسیا نسل کو آسانی سے کتب فراہم کر کے انہیں ’کسی حد تک‘ اس جانب کھینچ سکتے ہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کیلیے والدین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں، انہیں جو کچھ کرتے یا کہتے دیکھتے ہیں اسی کو نقل کرتے ہیں، اگر والدین گھر میں خود کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو ضرور بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچپسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے (یہ اس خاکسار کا ذاتی تجربہ ہے)، لیکن افسوس وہی بات جو اوپر ایک دوست نے کہی، کتابیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور اس پر ستم یہ کہ بچوں کی کتابیں اور زیادہ مہنگی ہیں، افسوس صد افسوس۔
بالکل درست نشاندہی کی وارث صاحب۔ اس کا ایک بہت ہی سادہ و آسان طریقہ ہے کہ رات کو بچوں کو کہانی کتاب سے پڑھ کر سنائیں۔ ایک تو بڑوں سے کہانی سننے کا لطف تو بچے کو ملتا ہی ہے لیکن اس کے نتیجے میں کتاب سے بھی اس کا ایک تعلق جڑ جاتا ہے۔ اور اگر یہ تعلق ایک بار قائم ہو جائے تو تاعمر برقرار رہتا ہے۔
 
ویسے بھی پائیریسی کی دنیا میں ای بکس کی بھرمار ہے۔مہنگی سے مہنگی اور بہترین سے بہترین کتاب بھی آپکو ڈھونڈنے سے مل جاتی ہے
 

زونی

محفلین
زونی اس کا ایک بہترین حل تو ڈیجیٹل کتب ہیں اور اسی سلسلے میں اردو ویب پر لائبریری کا کام بھی ہوتا ہے اور اس میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگوں کو کتابوں تک رسائی دی جائے تو ان میں شوق اب بھی موجود ہے۔

اس کے علاوہ آپ سوشل میڈیا اور آن لائن سائٹس اور ایپ استعمال کرکے بھی یہ شوق پیدا کر سکتے ہیں یا پہلے سے موجود شوق کو مہمیز کر سکتے ہیں۔

ایک بہت ہی عمدہ کتب بینی اور اس کے فروغ کی سائٹ کا پتہ درج کر رہا ہوں، اسے دیکھنا ذرا بلکہ رجسٹر کر لینا۔

Good Reads


ٹھیک کہا محب ڈیجیٹل کتب واقعی شوقین حضرات کیلئے بہت بڑا خزانہ ھے ،،،،میں خود بھی اکثر اوقات اس خزانے سے مستفید ہوتی رہتی ہوں لیکن وقت کی کمی کے باعث اکثر کتابیں ادھوری رہ جاتی ہیں ۔۔۔۔سائٹ تو واقعی بہت عمدہ ھے اور رجسٹر بھی کر لیا ھے ۔۔
 

زونی

محفلین
چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کیلیے والدین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں، انہیں جو کچھ کرتے یا کہتے دیکھتے ہیں اسی کو نقل کرتے ہیں، اگر والدین گھر میں خود کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو ضرور بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچپسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے (یہ اس خاکسار کا ذاتی تجربہ ہے)، لیکن افسوس وہی بات جو اوپر ایک دوست نے کہی، کتابیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور اس پر ستم یہ کہ بچوں کی کتابیں اور زیادہ مہنگی ہیں، افسوس صد افسوس۔



درست فرمایا آپ نے وارث بھائی ۔۔۔۔میرا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ آغاز کہاں سے کیا جائے کہ نوجوان اس طرف راغب ہو جائیں ،،،، دیکھا یہی گیا ھے کہ بچوں میں شوق والدین کی مرہون منت ہی آتا ھے اور یہی مناسب وقت ہوتا ھے بچوں کو کتب کی طرف راغب کرنے کا لیکن مہ جبین آنٹی نے بہت اچھی بات کی کہ جب والدین میں ہی شوق نہ ہو تو ایسا کیونکر ہو ؟؟؟
میرا ذاتی خیال ھے کہ والدین اور اساتذہ ہی ایسے بنیادی ادارے یا درسگاہیں ہیں جو معصوم زہنوں کو سمت فراہم کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھ کے لگتا ھے کہ والدین اور اساتذہ دونوں اپنا فرض صحیح طور سے ادا نہیں کر پا رہے ہیں ۔
 

زونی

محفلین
یہاں میرا اور محب علوی کا نظریاتی اختلاف شروع ہوجائے گا :)
کتابیں چھپنی چاہیں :)
فروخت ہونی چاہیں اور پبلیشنگ کو فروغ ملنا چاہیے


میں یہی چاہتی ہوں کہ آپ لوگوں کے نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آ جائیں تاکہ ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو ۔۔:)
 

زونی

محفلین
اصل مسئلہ پیپر پرنٹ مہنگا ہونا ہے۔ ایک اچھی کتاب کی قیمت بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے۔ میں کئی مرتبہ صرف اس لیے کتابیں نہیں خرید پاتا کہ جیب اجازت نہیں دیتی۔ ای بکس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ کتاب کی لاگت میں بہت زیادہ کمی آ سکتی ہے بلکہ خریدنے والی کی جیب پر پڑنے والا بوجھ بھی بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔
آپ کی دوسری بات کافی حد تک درست ہے کہ اصل بات کتب سے وابستگی ہے، لیکن ہم نت نئی ڈیوائسز کی رسیا نسل کو آسانی سے کتب فراہم کر کے انہیں ’کسی حد تک‘ اس جانب کھینچ سکتے ہیں۔



بلکل میں آپ سے متفق ہوں ہارڈ کاپی کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جو لوگ افورڈ نہیں کر سکتے ان کیلئے یہ ایک سرمایا ھے ،،،بچوں کو اس طرف راغب کرنا ہی بنیادی بات ھے اور میرا نہیں خیال اسطرح ناشرین کے کاروبار میں کوئی فرق پڑے گا ۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ زونی،

بہت اچھے موضوع کا انتخاب کیا ہے آپ نے یقینا" اس پر بات کرنے سے کم از کم یہ مسئلہ ہی واضح ہو جائے گا۔اس سلسلے میں، میں بھی ایسے ہی سوچتا ہوں جیسے اُوپر بیشتر دوستوں نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔

میں سمجھتا ہوں کتب سے اچھا دوست واقعی کوئی نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ جو بات پرنٹ میں پڑھنے کی ہے وہ مزہ ای بک وغیرہ میں ہرگز نہیں ہے۔ :) کم سے کم مجھے اچھا نہیں لگتا۔بہر حال ای بکس کی موجودگی بھی غنیمت ہے اور ای بکس مطبوعہ کتب کی عدم دستیابی کو کم ضرور کرتیں ہیں۔

کتب سے عدم رغبت کی وجہ ہمارے گھروں میں علمی ماحول کا نہ ہونا ہی ہے جیسا کہ اُوپر کسی دوست نے کہا کہ ماں باپ میں اگر کتب بینی کا رجحان نہ ہو تو پھر بچوں میں بھی کتب بینی کا شوق کہاں سے آئے گا۔ گھر میں کتب بینی نہ ہونے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ٹیلی ویژن اور دیگر الیکٹرانکس کی اشیا (موبائل | کمپیوٹر ) وغیرہ ہیں جو ہماری اکثریت کا بیشتر وقت لے لیتے ہیں اور اُنہیں کسی اور شوق کا نہ تو خیال آتا ہے اور نہ ہی وقت ملتا ہے۔ پاکستان میں کتابوں سے دوری کی ایک وجہ بجلی کی عدم دستیابی بھی ہے۔ :-(

اب رہ جاتے ہیں وہ لوگ جو کسی نہ کسی طرح کتب بینی کی طرف راغب ہو ہی گئے تو اُن کو بھی کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمت اور معاشرتی دوڑ کے باعث وقت کی کمی کتابوں سے دور کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ اسکولز میں تعلیمی ماحول نہ ہونے کے برابر ہے۔ نصابی کتابیں بھی اس انداز میں پڑھائی جاتی ہیں جیسے بوجھ اُتارا جا رہا ہو اور طالبِ علم کو صرف اُتنا ہی بتایا جاتا ہے کہ امتحان میں کامیابی مل جائے۔ ورنہ اساتذہ چاہیں تو وہ بچوں میں کتب بینی کو فروغ دے سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جس معیار پر اساتذہ مقرر کیے جاتے ہیں اُن سے ایسی توقع کرنا بھی عبث ہی ہے۔

میرے ایک دوست میرے ہاتھ میں کتابیں دیکھ کر کہتے ہیں "کتابوں میں کیا رکھا ہے حقیقت کی دنیا میں آ کر دیکھو" سو ہمارے ہاں کتابوں کے بارے میں لوگوں کی "پرسیپشن" (خیالات) اس نوعیت کی ہے۔ اس طرزِ فکر کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

کتابوں سے عدم دلچسپی کی ایک اور وجہ جو کہ بہت بڑی وجہ ہے وہ یہ کہ ہماری قوم میں سہل پسندی اور تفریحاتی رجحانات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ لوگ خشک اور کم دلچسپ موضوعات سے گھبراتے ہیں۔ اس کے برعکس اُن کا رجحان تفریحاتی سرگرمیوں میں بہت زیادہ ہے۔ پکنک پارٹی، ہلہ گلہ اور ناچ گانے اُن کے فارغ وقت کا بہترین مصرف ہیں۔ تفریح پسندی کی حد تو دیکھیے کہ لوگ سڑکوں پر احتجاج میں بھی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا اس قسم کا احتجاج اور کہیں بھی ہوتا ہے؟ پھر ایسے میں کتابیں پڑھنے کا خیال کیسے آئے گا اور کسے آئے گا؟

؎ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کس سے کہیں ہم :D
 

محمداحمد

لائبریرین
بالکل درست نشاندہی کی وارث صاحب۔ اس کا ایک بہت ہی سادہ و آسان طریقہ ہے کہ رات کو بچوں کو کہانی کتاب سے پڑھ کر سنائیں۔ ایک تو بڑوں سے کہانی سننے کا لطف تو بچے کو ملتا ہی ہے لیکن اس کے نتیجے میں کتاب سے بھی اس کا ایک تعلق جڑ جاتا ہے۔ اور اگر یہ تعلق ایک بار قائم ہو جائے تو تاعمر برقرار رہتا ہے۔
سوگئے بچے بھی ٹی وی دیکھ کر
یاد ماں کو اک کہانی بھی نہیں

خاکسار نے حال ہی میں اپنی ایک غزل شاملِ محفل کی ہے اور یہ شعر مختلف النوع ہونے کے باعث اس میں شامل نہیں کیا۔ آپ کی یہ بات پڑھ کر پھر سے یاد آگیا۔ :)
 
ٹھیک کہا محب ڈیجیٹل کتب واقعی شوقین حضرات کیلئے بہت بڑا خزانہ ھے ،،،،میں خود بھی اکثر اوقات اس خزانے سے مستفید ہوتی رہتی ہوں لیکن وقت کی کمی کے باعث اکثر کتابیں ادھوری رہ جاتی ہیں ۔۔۔ ۔سائٹ تو واقعی بہت عمدہ ھے اور رجسٹر بھی کر لیا ھے ۔۔

رجسٹر کر لیا ہے تو مجھے اپنا آئی ڈی بھیج دینا ، ایک دوسرے کی کتابیں دیکھ کر اور ان پر تبصرے کرکے بہت سی کتابوں کا پتہ چلتا ہے وہاں۔
 
یہ بات بالکل درست ہے ڈیجیٹل کتب ان لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں جن کی رسائی ان کتب تک نہیں ۔۔۔۔ خاص طور پر نوجوان نسل میں کتابوں کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنے کے لئے یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور لازم بھی
پر اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیں ساتھ ساتھ بک کلچر کو فروغ دننے کے لئے بھی اقدامات کرنے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔
ذاتی طور پر مجھے جب تک کتاب کو ہاتھ میں لے کر نہ پڑھا جائے تو اک تشنگی کا احساس رہتا ہے

 

مغزل

محفلین
پانچ مراسلے ایسے ہیں ( میں نام دانستہ نہیں لے رہا )جن کی لڑی میں افادیت اور اہمیت نفسِ مضمون کے عین مطابق ہے ۔۔ سو فی الوقت بھی تیل اور تیل کی دھار۔۔۔
مقدور بھر جہل سمیت بعد میں حاضری ہوگی ۔۔ کہ اس موضو ع پر بولتے بولتے حلق خشک کر لیا گزشتہ گیارہ بارہ برسوں میں ۔۔۔۔
 
کل زحال مرزا سے ماڈل لائبریری کو ایک ادارے کے طور پر شروع کرنے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ۔ اس سلسلے میں ایک نیا دھاگہ کھولنے کا ارادہ ہے اسی ہفتہ تاکہ کم از کم ادارے کے نام پر گفتگو ہو جائے اور پھر اس کے خد و خال پر گفتگو ہو سکے۔
 

زیک

مسافر
کتب بینی کو واقعی فروغ دینا چاہیئے اور اس کے لئے والدین کی مثال اہم ہے. البتہ اس بات کا کوئ ثبوت نہیں ہے کہ نئی نسل میں مطالعہ کم ہوا ہے.

دوسری بات یہ کہ پاکستان میں اکثر والدین کورس کی کتابوں کے علاوہ بچوں کا کتابیں خاص طور پر فکشن پڑھنا پسند نہیں کرتے
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں کتابوں کی قیمتیں بھی بہت ہیں جسے ہر کوئی خرید بھی نہیں سکتا۔ مزید یہ کہ جو گلی محلوں میں لائبریریاں ہوتی ہیں، وہاں بھی قیمتیں زیادہ ہونے کے علاوہ معیاری کتابیں بھی موجود نہیں ہوتیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جہاں تک بچوں کی پڑھائی کا تعلق ہے تو بچے صبح اسکول اور شام کو اکیڈیمی، بچا کچا وقت سیپارہ پڑھنے میں، تو وقت کہاں ہے بچوں کے پاس کورس کے علاوہ کتابیں پڑھنے کا۔
 

عثمان

محفلین
اس دھاگے میں بار بار یہ سننے میں آیا ہے کہ پاکستان میں کتابیں بہت مہنگی ہیں۔
کیا کوئی دوست قیمت کا اندازا بتا سکتا ہے ؟ مثلا دس سال پہلے تک مستنصر حسین تارڑ کی تین چار سو صفحات پر مشتمل کتاب تقریبا ڈھائی یا تین سو روپے تک مل جاتی تھی۔
آج کل ایسی کتاب کی قیمت کتنی ہے ؟
 
Top