بہت شکریہ زونی،
بہت اچھے موضوع کا انتخاب کیا ہے آپ نے یقینا" اس پر بات کرنے سے کم از کم یہ مسئلہ ہی واضح ہو جائے گا۔اس سلسلے میں، میں بھی ایسے ہی سوچتا ہوں جیسے اُوپر بیشتر دوستوں نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
میں سمجھتا ہوں کتب سے اچھا دوست واقعی کوئی نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ جو بات پرنٹ میں پڑھنے کی ہے وہ مزہ ای بک وغیرہ میں ہرگز نہیں ہے۔
کم سے کم مجھے اچھا نہیں لگتا۔بہر حال ای بکس کی موجودگی بھی غنیمت ہے اور ای بکس مطبوعہ کتب کی عدم دستیابی کو کم ضرور کرتیں ہیں۔
کتب سے عدم رغبت کی وجہ ہمارے گھروں میں علمی ماحول کا نہ ہونا ہی ہے جیسا کہ اُوپر کسی دوست نے کہا کہ ماں باپ میں اگر کتب بینی کا رجحان نہ ہو تو پھر بچوں میں بھی کتب بینی کا شوق کہاں سے آئے گا۔ گھر میں کتب بینی نہ ہونے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ٹیلی ویژن اور دیگر الیکٹرانکس کی اشیا (موبائل | کمپیوٹر ) وغیرہ ہیں جو ہماری اکثریت کا بیشتر وقت لے لیتے ہیں اور اُنہیں کسی اور شوق کا نہ تو خیال آتا ہے اور نہ ہی وقت ملتا ہے۔ پاکستان میں کتابوں سے دوری کی ایک وجہ بجلی کی عدم دستیابی بھی ہے۔
اب رہ جاتے ہیں وہ لوگ جو کسی نہ کسی طرح کتب بینی کی طرف راغب ہو ہی گئے تو اُن کو بھی کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمت اور معاشرتی دوڑ کے باعث وقت کی کمی کتابوں سے دور کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ اسکولز میں تعلیمی ماحول نہ ہونے کے برابر ہے۔ نصابی کتابیں بھی اس انداز میں پڑھائی جاتی ہیں جیسے بوجھ اُتارا جا رہا ہو اور طالبِ علم کو صرف اُتنا ہی بتایا جاتا ہے کہ امتحان میں کامیابی مل جائے۔ ورنہ اساتذہ چاہیں تو وہ بچوں میں کتب بینی کو فروغ دے سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جس معیار پر اساتذہ مقرر کیے جاتے ہیں اُن سے ایسی توقع کرنا بھی عبث ہی ہے۔
میرے ایک دوست میرے ہاتھ میں کتابیں دیکھ کر کہتے ہیں "کتابوں میں کیا رکھا ہے حقیقت کی دنیا میں آ کر دیکھو" سو ہمارے ہاں کتابوں کے بارے میں لوگوں کی "پرسیپشن" (خیالات) اس نوعیت کی ہے۔ اس طرزِ فکر کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کتابوں سے عدم دلچسپی کی ایک اور وجہ جو کہ بہت بڑی وجہ ہے وہ یہ کہ ہماری قوم میں سہل پسندی اور تفریحاتی رجحانات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ لوگ خشک اور کم دلچسپ موضوعات سے گھبراتے ہیں۔ اس کے برعکس اُن کا رجحان تفریحاتی سرگرمیوں میں بہت زیادہ ہے۔ پکنک پارٹی، ہلہ گلہ اور ناچ گانے اُن کے فارغ وقت کا بہترین مصرف ہیں۔ تفریح پسندی کی حد تو دیکھیے کہ لوگ سڑکوں پر احتجاج میں بھی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا اس قسم کا احتجاج اور کہیں بھی ہوتا ہے؟ پھر ایسے میں کتابیں پڑھنے کا خیال کیسے آئے گا اور کسے آئے گا؟
؎ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کس سے کہیں ہم