کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے دوسروں میں عیب نکال کر ان پر الزامات لگانا۔ ایسے لوگوں کو عیب ڈھونڈنے سے کوئی روک سکتا ہے اور نہ الزامات لگانے سے۔ بہرحال جو اہل انصاف ہیں، ان قارئین کے لیے میں بات صاف کر دیتی ہوں۔
دو چیزوں میں فرق کیجئے:
۱۔ جھوٹ بولنا
۲۔ غلط فہمی کا شکار ہونا
جھوٹ وہاں بولا جاتا ہے جہاں کچھ چھپانا ہو۔ مگر آپ دیکھیں گے یہاں پر اصل بات کی حقیقت وہی نکلی ہے جو میں بیان کر رہی تھی مگر غلط فہمی ہوئی ثانوی مسئلے میں کہ کس نے کیا کہا۔
اگر آپ اپنی اس غلط فہمی کا اعتراف مہذبانہ انداز میں پہلے ہی کر لیتیں تو یہ عذر قابل قبول ہوتا لیکن اس دوران آپ نے اتنی قلابازیاں کھائیں ہیں اور اتنا جارحانہ انداز اختیار ہے کہ اب بات صرف آپ کی اس اظہار غلط فہمی پر ختم نہیں ہوسکتی (اور درحقیقیت یہ ہے بھی غلط فہمی نہیں بلکہ نرم سے نرم الفاظ میں غلط بیانی)
غلط فہمی اس وقت تک غلط فہمی رہتی ہے جب تک کوئی بتانے والا حقیقی بات بتا نہ دے اور جو شخص غلط فہمی کا شکار ہو وہ اپنی غلطی کو قبول نہ کر لے۔
آپ سے اس روایت کے سلسلے میں پہلے ہی کہا تھا میں نے کہ مہوش اگر آپ صرف یہی کہ دیتیں کہ اس روایت کی کوئی سند نہیں ہے اور یہ روایت ہم اہل تشیع کے نزدیک مجھول ہے تو بات صاف ہوجاتی لیکن نہ صرف آپ نے ایک غلط دعوہ کیا اور اس پر قائم رہیں اور ایک دفعہ بھی آپ نے اس سلسلے میں اپنی غلط فہمی کا نہ اقرار کیا اور نہ اس سلسلے میں کوئی معذرت کی یہاں تک کہ اب جب گفتگو اس انتہا تک پہنچی تو اب آپ غلط فہمی کا عذر پیش کر رہیں ہیں اب اس میں غلطی کسی کی ہے کیا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے؟؟(اللہ جانے کیوں یہ بات مجھے ہر پوسٹ میں دہرانے کی ضرورت پڑ رہی ہے)
1. آج سے کافی سالوں پہلے سے میں یہ الزام تواتر کے ساتھ لگتا دیکھتی آ رہی ہوں اور ہر ڈسکشن فورم میں یہ روایت پیش کر کے اہل تشیع کا استہزاء اڑایا جاتا تھا۔ مگر جب اُن سے پوچھا گیا کہ ہماری کون سی حدیث کی کتاب میں موجود ہے تو وہ کہیں ملتی نہ تھی اور نہ اسکا کوئی ریفرنس (جی ہاں وہی حدیث کی کتاب جس کا عذر ابن حسن اپنی باری آنے پر غنیۃ الطالبین کے لیے بنا رہے ہوتے ہیں)۔ مجھے تو غیر اُس وقت چیزوں کا کچھ زیادہ علم نہ ہوتا تھا اور علمی دنیا میں میں نے نیا نیا قدم رکھا تھا مگر اسکے جواب میں ہمیشہ یہ کہا گیا کہ ہم پر الزام ہے اور ہماری کتابوں میں کہیں اس روایت کا ذکر نہیں۔
پھر اہل تشیع کی رد میں ایک ویب سائیٹ بنا
www.d-sunnah.net ۔ میں نے سب سے پہلے اس سائیٹ کے حوالے سے ڈسکشن فورم میں یہ امیج دیکھا تھا۔خیر مجھے تو اُس وقت عربی آتی تھی اور نہ فارسی مگر اسکے بعد ڈسکش فورم میں موجود لوگوں نے (جو کہ مجھ سے کہیں زیادہ علم رکھتے تھے) یہی اعتراض کیا کہ اسکے فٹ نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ روایت مجہول ہے۔
۱۔ چنانچہ خود فیصلہ کریں کہ یہ کہنا کہ کاشانی نے لکھا ہے کہ یہ روایت مجہول ہے، کیا یہ "غلط فہمی" ہے یا پھر "جھوٹ"؟
(اور یہ کاشانی صاحب تو کئی صدیوں بعد نویں صدی میں پیدا ہوئے ہیں، مگر اس سے قبل کے علماء کو سرے سے اس روایت کا پتا ہی نہیں تھا۔ چانچہ پتا نہیں انہوں نے مخالفین کے باتیں سن سن کر اُن پر یقین کرتے ہوئے یہ بات لکھ دی، یا پھر اللہ جانے کیا وجہ ہوئی، مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ کاشانی صاحب اور نہ انکی بیان کردہ یہ بغیر کسی سند کی روایت کسی طرح ہم پر حجت ہو سکتی ہے)۔
ابن حسن خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انکے پاس اس روایت کی کوئی سند نہیں۔ چنانچہ ہمارا بنیادی اصل ٹاپک اس روایت کی صحت تھی، نہ کہ کاشانی جو کہ ثانوی مسئلہ تھا۔ اور اب جبکہ یہ بنیادی اصل مسئلہ حل ہو چکا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہم اس روایت کے متعلق صحیح کہہ رہے تھے تو پھر اس اب یہ بات "جھوٹ بولنے" کی نہیں ہے بلکہ "غلط فہمی" کی ہے کیونکہ ہر دو صورت میں ہمارا اصل مقصد پورا ہو رہا ہے۔ غلط فہمی پر اپنے الفاظ واپس لیے جا سکتے ہیں، مگر جھوٹ بولنے کا الزام کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
مہوش آپ کی اس تقریر سے تو آپ کا کیس اور بھی زیادہ کمزور پڑ جاتا ہے لیکن اس سے پہلے میں ایک اور چیز کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا
The only book this can be found in a book called 'Minhaj Sadiqeen' page 356 by Fatahullah Kashani (d. 988 H). The complete name of the book is 'Minhaj al-Sadqeen Fi Elzam al-Mukhalifin fi al-Tafsir' [The way of those who are true in binding over the opponents in Tafsir]' and is not a Hadith book but a comparative Tafsir, which is about refuting the Sunni Tafsir while proving the Shia Tafsir, therefore the book is usually classified as 'Shia/Sunni dialogue book' rather than a Shia Tafsir book. Hence it is a book in which Fatahullah Kashani refuted the lies and rumors which at that point of time were popular among the Sunni and Nasibi masses against the Shias. Thus, how stupid, in fact how cunning of these Nawasib to re-copy those very rumors or Nasibi claims from the book and attribute it to Sheikh Kashani while Sheikh Kashani himself refuted them! Kashani himself stated about this tradition:
ان برما مجهول است
"According to us this tradition is Majhul (unknown)"
یہ ہے Answering Ansar کا موقف اس روایت کے بارے میں
اور اب مہوش کا سب سے اول موقف دیکھیئے
چلیں یہ بات درست ہے کہ یہ فتح اللہ کاشانی، متوفی 988 ہجری، کی کتاب "منہاج الصادقین" کے صفحہ 356 پر موجود ہے۔ مگر اس کی ذرا حقیقت تو دیکھئے۔ اس کتاب کا پورا نام ہے "منہاج الصادقین فی الالزام المخالفین فی التفسیر" یعنی اس کتاب میں وہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک اعتراض اسی عقد المتعہ والی روایت پر تھا، چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔
اب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہوں گا۔
1۔ آپ کے اس اولین موقف میں کسی فٹ نوٹ کاذکر نہیں ہے بلکہ یہ اس ویب سائٹ کا ترجمہ ہے مع کچھ اضافی الفاظ مثلا دجالی کذابوں وغیرہ وغیرہ کہ جو آپ نے محض یہاں نقل کر دیا ہے اور اس ویب سائٹ کی طرح آپ نے بھی سارا الزام مخالفین پر رکھتے ہوئے بالکل و صریح الفاظ میں کاشانی سے اس رویت کی نفی کی ہے۔
2۔بعد ازاں بھی جب آپ کو اس روایت کے صفحے کا عکس دکھا دیا گیا تو بھی آپ نے کوئی غلط فہمی کا اعتراف نہیں کیا بلکہ جھٹ آپ بات کو گھوما کر روایت کی سند تک جا پہنچی اور مسند امام آھمد بن حنبل سے اس روایت کی الفاظ کو تقویت پہچانے لگیں۔
3۔ آپ نے اپنے آخری موقف میں قبول کیا ہے کہ آپ کو پہلے ہی کسی فورم پر بتایا جاچکا تھا کہ یہ الفاظ کاشانی کے نہیں بلکہ فٹ نوٹ پر دئیے ہوئے ہیں تو آپ نے جھوٹ کیوں بولا اور کیوں نہیں پہلی پوسٹ میں حقیقت بیان کی؟؟
4۔خود پر جھوٹ بولنے کا الزام آپ کو قبول نہیں لیکن مخالفین کو فورا اور بلا وجہ دجال و کذاب آپ نے کہ دیا اور اب بتائیے یہ دجال و کذاب اس وضاحت کے بعد کون ثابت ہوتا ہے؟
5۔اور پھر یہ صرف جھوٹ ہی نہیں بلکہ جب آپ کو اس بات کا علم تھا اور آپ کو لوگوں نے یہ بات بتا دی تھی کہ مجھول ہونے کی بات فٹ نوٹ میں کہی گئی ہے تو کیا یہ ایک علمی خیانت نہیں کہ جو بات کاشانی نے کہی نہیں وہ آپ کاشانی سے منسوب کر کہ پھیلائیں اور یہ کہیں کہ مخالفین نے یہ روایت ہماری کتب میں داخل کر دی ہے یعنی غور طلب بات ہے آپ نے صرف یہی نہیں کہا کہ کاشانی کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت مجھول ہے بلکہ آپ نے مزید ایک پیراگراف ہی کاشانی سے منسوب کر دیا اور وہ یہ تھا
چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔
اب بتائیے کہ یہ کس کی عیاری ہے جو مخالفین کو تو دجال و کذاب کہ رہا ہے لیکن حرکت خود جھوٹ و فریب کی کر رہا ہے؟؟؟ اور کون کس پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟
خود اپنے لیے تو جھوٹ کا الزام قبول نہیں لیکن دوسروں کو دجال و کذاب کہنے میں بڑا مزا آتا ہے آپ کو؟؟؟ اور غلط فہمی اسی کا نام ہے؟؟
اور جو یہ بات آپ کہ رہی ہیں کہ مخالفین کی باتیں سن سن کر انہوں نے یہ روایت لکھ دی تو یہ الہام آپ کو آخر ہو کہاں سے رہا ہے کہ اس روایت کا مخالفین سے کچھ تعلق ہے؟؟ یہ روایت بھلے آپ پر حجت نہ ہو آپ کے علما پر تو حجت ہے چنانچہ برہان المتعہ کے مولف نے تو اس حدیث کو صحیح بتایا ہے بلکہ وہ اس جواز میں پوری تقریر فرما رہے ہیں
یعنی انہوں نے یہ حدیث نقل کی پھر جو بات کہتے ہیں اس کا اختصار یہ ہے کہ وہ پہلے پوچھتے ہیں کہ عقل کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ مباحات و تلذزات خصوصا شہوت رانی پر اتنا زیادہ ثواب عطا ہو پھر خود ہی جواب دیتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام مباحات و تلذدات اگر اطاعت و عباد و انقیاد اللہ کے لیے ہوں تو ان پر ضرر جزا ملتی ہے اور خصوصا وہ اطاعات جو متروک العمل ہو گئیں ہوں تو ان کے احیا پر پر لا تعداد ثواب ملتا ہے (یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص متعہ یہ سمجھ کر کرے کہ یہ ایک متروک سنت ہے تو یہ ممکن ہے کہ متعہ کے ذریعے وہ نعؤذ باللہ آنحضرت کا مقام پا لے)
پھر یہی نہیں منھج الصادقین میں اس روایت کے علاوہ ایک اور روایت میں بھی متعی کو نبی پاک کے ساتھ جنت میں جانے کی گارنٹی دی گئی ہے اور اس کا حوالہ پہلے ہی آ چکا ہے اور اس کو تو فٹ نوٹ میں بھی مجھول نہیں کہا گیا اب اس کا کیا مہوش جواب دیں گی؟
ابن حسن، اگر آپ نے یہ سمجھ لیا ہوتا کہ حق بات آشکار ہونے کے بعد پھر بھی اعتراضات کرنے سے فقط وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کاشانی صاحب حجت نہیں ہیں بلکہ آپکی اپنی کتاب میں حسن روایت سے ثابت ہے کہ درجتی کا مطلب ہے کہ قیامت ان کے ساتھ ہوں گے، نہ کہ مرتبے میں ان کے برابر آ جائیں گے۔
اور میں تو بذات خود ان فضائل والی روایات پر یقین نہیں رکھتی اور اختلاف رکھتی ہوں کہ ایسی کہ اس ضمن میں کمزور روایات بیان ہوں۔ مگر ایک بات کا میں یقین دلا دوں کہ لوگوں کے نزدیک اس ثواب کی وجہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ:
Jama al Tirmidhi, Bab al Ulum page 92 [Printed in Deoband]:
Rasulullah (s) stated: 'Whoever revives my Sunnah, has revived me, whoever revives me shall be in Paradise with meْ
حق بات تو انشاءاللہ یہاں سب پر ضرور آشکار ہو گی اور بلکہ میرے خیال میں تو ہونے لگی ہو گی کہ یہاں نقوی و شوکت کریم صاحبان نے آپ کے اس متعہ کے بارے میں بہت کچھ نقل کر دیا ہے بہر حال آپ کا یہ جواب صرف فرار کی ایک کوشش ہے ۔ عربی میں دیگر الفاظ کی طرح درجہ کے بھی بہت سارے معنی ہو سکتے ہیں احادیث میں بھی،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کاشانی آپ کے نزدیک بھلے ہی حجت نہ ہوں لیکن خود اپنے ہی الفاظ کی تشریخ میں کیا وہ سند و حجت نہیں؟؟ یعنی ایک طرف آپ یہ کہ رہی ہیں کہ یہ رویت مجھول ہے اور کاشانی کے سوا اور کوئی اس روایت کو نقل نہیں کرتا اور کاشانی نے بھی کہاں سے لی ہے آپ کو نہیں معلوم لیکن خود جب کاشانی جو اس روایت کو نقل کرنے میں بقول آپ کے تنہا ہے وہی اپنی اس روایت کا ترجمہ و شرح بیان کرتا ہے تو آپ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہیں؟ ایں چہ بو العجبی است؟؟ کاشانی حجت ہو یا نہ ہو لیکن کاشانی کے کہے ہوئے الفاظ کا مطلب آخر کوئی کیسے کاشانی سے بہتر جان سکتا ہے؟؟؟
ااور یہ جو حدیث آخر میں آپ نے نقل کی ہے صاحب برہان المتعہ نے ایسی ایک روایت کو بنیاد بناتے ہوئے منھج الصادقین کی روایت کو قبول کر لیا ہے اور وہ بھی اس حدیث کے قائل ہیں بالکل ویسے ہی جیسا کہ کاشانی قائل ہیں۔ اور اگر آپ اس موقع پر یہ حدیث بیان کررہی ہیں تو اس سے تو آپ بھی منھج الصادقین کی اس حدیث کی قائلیں میں شمار ہو تی ہیں نا کہ مخالفیں میں؟؟؟ واہ کیا دانش مندی ہے؟؟
آئیے اب کچھ اُن لوگوں سے ملیں جنہوں نے واقعی جھوٹ بولا ہے
ابن حسن،
آپ نے جس لنک کا حوالہ اوپر دیا ہے، کیا اس میں آپ نے "ابن ہاشمی" صاحب کا اہل تشیع پر یہ جھوٹ نہیں پڑھا کہ جس میں وہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ "درجتی" والی روایت شیعوں کی متعبر کتاب "الکافی" میں موجود ہے؟ یہ دیکھئے اس ابن ہاشمی کے جھوٹ کا لنک۔
یہ ابن ہاشمی اکیلے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہم اپنے خلاف یہی جھوٹ سنتے چلے آئے کہ شیعوں کی الکافی کی روایت ہے، اور جب ہم حوالہ پوچھتے تھے تو وہ ندارد۔
ابن حسن، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنی طرف والے لوگوں کے یہ جھوٹ مشکل ہی دکھائی دیں۔ چلیں ابن ہاشمی کی بات رہنے دیں کہ اس کا گفتگو میں ذکر نہ تھا، مگر ایسا ہی ایک کھلم کھلا جھوٹ گرافک بھیا نے دوسری مرتبہ سب کے سامنے بولا ہے مگر اس پر آپ کو یقینا کوئی تکلیف ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔اور یہ پہلی مرتبہ نہیں، ۔۔۔۔ بلکہ یہ غلط بیانی انہوں نے دوسری مرتبہ کی ہے۔
پہلی مرتبہ انہوں نے کی تھی جب انہوں امام خمینی پر ترغیب کا الزام لگایا تھا۔ اور آپ کو پتا بھی تھا کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، مگر پھر بھی آپ نے انکی یہ غلط بیانی بیان نہ کی۔ خیر اللہ بہتر دیکھنے والا ہے۔
میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے دوسروں کے عیوب زیادہ اچھالنے کی عادت نہیں، اس لیے گرافک بھیا کو اللہ کے حوالے کر کے انکی ہدایت کی دعا کر کے انہیں انکے حال پر چھوڑ دیتی ہوں۔ مگر اگر ہم پر الزامات لگنے شروع ہوئے تو ہم جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
مہوش آپ کی ان باتوں سے اس گفتگو کا کیا تعلق ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ کے جھوٹ کو آشکار کرنے سے پہلے جو کچھ ویب کے اوپر موجود ہے اس کی میں چھان پٹک کروں اور تمام افراد کی غلط بیانی کو بیان کروں اس کے بعد آپ کی باری آئے۔؟؟ ہاشمی صاحب کیا کہ رہے ہیں یا کہاں کہاں متعہ کے بارے میں کیا کہاجارہا ہے اس کا مجھ سے کیا تعلق ہے۔ میری مخاطب آپ ہیں یا میں سارے ویب کی تطہیر کا ذمہ دار ہوں؟؟
اس کی صفائی پیش کرتے ہوئے ابن حسن کا عذر یہ ہے کہ شیعہ کتاب میں بھی ایسی روایت موجود ہے جو غسل کرنے والی عورتوں و مردوں کو بے پناہ ثواب کا بیان کر رہی ہیں۔ تو ابن حسن یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہماری روایات کے پیچھے جار کر چھپ جانا عبث بے کار ہے۔
ہم تو پہلے سے ہی کہہ رہے کہ فضائل والی ان روایات کی کوئی اہمیت نہیں کہ جس پر مناظرے کا جنگی ساز و سامان لاد کر دوسرے کو ذلیل کرنے کے لیے حملہ آور ہو جائیں۔ اس حرکت میں خود آپ بھی ننگے ہوں گے کیونکہ فضائل والی روایات کے متعلق یہی تمام اصول آپکے ہاں بھی موجود ہیں۔ کاش یہ سادہ سی بات آپکے سمجھ آ جاتی کہ اگر آپ نے حلال حرام ثابت کر دیا تو پھر فضائل کی اس لمبی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی بحث کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور یہ روایات خود بخود زمین میں دفن ہو جائیں گی۔
فضائل والی روایات کی کوئی حقیقیت نہیں چہ خوب ۔ محترمہ آپ کی اس بات کی وقت کیا ہے ،ہمیت کیا ہے۔آپ اپنے ٹاپ کے محدثین کے مقابلے میں درجہ کیا رکھتیں ہیں جو آپ کی بات سر آنکھوں پر رکھی جائے اور شیخ صدوق اور کلینی صاحب جیسے افراد کی بات رد کر دی جائے؟؟؟
کیا آپ تمام اہل تشیع کو اپنی تقلید کی دعوت دے رہیں ہیں کیا آپ امام یا نائب امام کاد رجہ پا گئیں ہیں یعنی متعہ کی فضیلت اتنے ذوق و شوق سے آپ کی کتب میں پائی جاتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ تمام چیزیں اس کے مقابے میں ہیچ ہیں متعہ جو نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ، متعہ نہ کرنے والے کاا یمان کامل نہیں ، متعہ کرنے والا نبی پاک کے ساتھ جنت میں جائے گا، خدا کے غصے سے نجات پائے گا۔ شمار ابرار میں ہو گا ، شب معراج میں نجات کی بشارت ، ایک غسل جنابت کا ثواب بیان و شمار سے باہر کیا یہ سب جزوی باتیں ہیں ؟؟؟ یہ سب بے کار ہیں؟؟ جس عمل کے بغیر ایمان ہی کامل نہ ہو جس کے فضائل میں محدثین عظام و مفسرین کرام اپنا زور قلم صرف کر دیں ان کو نظر انداز کر کہ کیا آپ تائیں گئی کہ کیوں آپ کی بات مانی جائے؟
اور پھر یہی نہیں بلکہ بقول نقوی صاحب کہ
آپ اپنے اس جواب کی وضاحت ان روایات کو سامنے رکھ کر کریں اور بتایٔں کے جب متعہ کی اتنی فضیلت بیان کی جا رہی ہے اور متعہ نہ کرنےوالے کو ایمان اور مومنین کی فہرست سے نکالنے کی وعیدیں کی جا رہی ہیں المحتصر آپ کی کتب پڑھ کر تو صاف لگتا ہے کہ جس نے متعہ نا کیا تو بس اس سے بڑا بدنصیب کویٔ نہیں اور وہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ یہاں کچھ اور کہہ رہی ہیں آپ کے اسی دعوے کےجواب میں ہمیں مجبوراً آپ کو یہ آہینہ دکھانا پڑا اور آپ بقول شخصے، آہیٔنہ ان کو دکھایا تو برا مان گٔے، بہت ہی برا مان گیٔیں، تو محترمہ یہ کیا بات ہے کہ آپ متعہ کو انتہایٔ ضرورت کے وقت حلال کر رہی ہیں اور آپ کا فقہ اسے ان الفاظ میں جزو ایمان ثابت کر رہا ہے کہ جس نے متعہ نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں اور اس کا ایمان ناقص ہے اور وہ قیامت کو رسوا اٹھے گا؟؟؟؟
اور دوسری بات کے "انتہایٔ حالات" میں تو خنزیر کھانا بھی جایٔز ہے تو کیا اسے بھی آپ منوایٔں گی کے خنزیر حلال ہے؟؟؟؟ اور اگر یہ انتہایٔ ضرورت کا فعل ہے تو آپ اسے عام مسلمانوں کے لیے حلال کرنے کے لیے اتنا زور کیوں لگا رہی ہیں سیدھا اسی طرح کہیں نا تو ہم بھی متعہ کو خنزیر کی طرح حلال جان لیں گے۔۔۔۔۔۔۔!
اور آگے سے اوٹ پٹانگ روایات بیان کرنے کی ابتداء ہم نے تو نہیں کی آپ ہی کی طرف سے ہویٔ ہے اب خدا جانے آپ نے ہمارے سوال کے مقصد کوسمجھ کے یا پھر نا سمجھی کی وجہ سے یہ کام شروع کیا اور بحث کو الجھا دیا۔
یعنی یہ کہ یا تو آُ پ یہ دعوہ ہی نہ کرتیں
دوسری چیز جسے آپ پھر نظر انداز کر گئے وہ یہ ہے کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "نکاح دائمی" کو ہر حالت میں عقد المتعہ پر فوقیت ہے اور یہ سفر یا ایسے ملتے جلتے انتہائی حالات میں ہی کیا جاتا ہے۔
اور یا تو متعہ کے ان فضائل کا جواب دیجئے جو آپ کی انتہائی متعبر کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور جن سے متعہ کی فضیلت نکاح پر ثابت ہوتی ہے۔
میں اس زاہد کی، اس مجاہد کی، اس عابد کی توہین اس وقت اِس روایت سے قبول کروں گا جب آپ کاشانی کی روایت کی روشنی میں
حضرت حسین کی
حضرت حسن کی
حضرت علی کی
اور آنحضرت کی
توہین تسلیم کر کہ سب سے اپنے جھوٹ پر معافی چاہیں گی۔
اور ساتھ ساتھ اگر آپ پچھلی ایک پوسٹ پر نظر ڈالیں تو اسی مجاہد کی یہی توہیں آپ کو ایک اور پوسٹ میں اپنی ہی کتب کی روشنی میں نظر آجائے گی
صحیح ترمذی، آنلائن لنک:
حضرت اوس سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ص نے فرمایا جس نے جمعے کے دن غسل کیا اور غسل کروایا (یعنی بیوی کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے اپنے ساتھ جنبی کروا کر یہ دونوں غسل کروائے) اور مسجد جلدی آ کر امام کا ابتدائی خطبہ پایا اور خطبے کے دوران خاموش رہا تو اس کو ہر ہر قدم پر ایک سال تک روزے رکھنے اور تہجد پڑھنے کا اجر دیا جاتا ہے۔
(روایت آگے بیان کرتی ہے) محمود نے اس حدیث میں کہا کہ وکیع نے کہا کہ اس نے غسل کیا اور پنی بیوی کو غسل کروایا۔ (یہ روایت حسن ہے)
امام ترمذی نے یہ حدیث نقل کی ہے جمعہ کے غسل کی فضیلت میں اور اس میں جمعہ کے غسل کرنے کا یہ بیان ہے اور اس میں وکیع کا اضافہ ہے کہ خود غسل کیا اور اپنی بیوی کو بھی کرایا اب یہ غسل جمعہ ہے غسل جنابت نہیں جمعہ کےدن مرد و خواتیں دونوں کے لیے غسل کرنا ضروری ہے اس میں جنابت کی کوئی قید نہیں لیکن کیا کہنے مہوش کہ کہ جو بات اس حدیث میں موجود نہیں وہ مہوش خود سے بیان کر رہی ہیں مہوش یہ الفاظ
یعنی بیوی کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے اپنے ساتھ جنبی کروا کر یہ دونوں غسل کروائے
آپ نے لیے کہاں سے ہیں یہ الفاظ ذرا پہلے ان کے بارے میں تو بتائیے اگر آپ اس کا حوالہ نہیں دے سکیں تو اب یہ ایک جھوٹ ہو گا اور حدیث میں اپنی رائے سے کلام کرنے کے مترادف ہو گا۔ ویسے اس طرح کی کرشمہ کاریوں کے بغیر کیا آپ صاف بات نہیں کر سکتیں ؟
اور آپکے لیے غنیۃ الطالبین کی روایت کا لنک ایک بار پھر، کیونکہ اس میں آپ کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہا ہے کہ جو چیزیں اس میں بیان ہوئی ہیں اسکے عشر عشیر چیز بھی ہماری کتابوں میں نہیں ہے، اور وہ یہ کہ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اس بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے کے مقابلے میں ہیچ ہے (یعنی پیچھے کچھ بھی نہیں رہ گیا)۔ اس روایت کو اچھی طرح پڑھیے (بلکہ یہ کئی روایات ہیں)، اور اسکے بعد پھر یہ سمجھ کر استغفار پڑھنا شروع کریں۔
غنیتہ الطالبین کے بارے میں ایک اصولی بات میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور آپ پہلے یہ بتائے کہ بحار الانوار کی بھڑیئے والی روایت کیا آپ کو ہضم ہو گئی جو اس کا جواب آپ نے نہیں دیا؟؟
اور پھر ثواب کہ اس پہاڑ کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا
یہ تو بڑی صاف روایت ہے حضرت سلمان فارسی ، مقداد بن اسود اور عمار بن یاسر نبی پاک سے روایت کر رہے ہیں اور بیان کرنے والے ہیں جناب ملا باقر مجلسی اب اتنے ثواب کے انبار جو پہاروں کے برابر ہے ہر بوسہ کے عوض حج و عمرہ کا ثواب مل رہا ہے غسل جنابت کے ہر قطرے کے عوض ایسے فرشتے پیدا کیے جارہے ہیں جو قیامت تک حمد و تقدیس کریں گئے اور جن کا ثواب متعی کو دیا جائے گا اور پھر یہی نہیں جو اس کار ثواب میں سعی کرے گا اس کا ثواب بھی متعی کے برابر ہو گا( ویسے اب اس تھریڈ کے شروع کرنے کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے)
عذر گناہ بدتر از گناہ است۔ دنیا کا کوئی ذی ہوش شخص یہ قبول نہیں کر سکتا کہ زمانہ جاہلیت کے دور کا ایک شخص وہ کچھ ہوتے دیکھے جو کائنات میں آجتک بنی نوع انسانی کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں اربوں انسانوں نے کبھی ہوتے نہیں دیکھا۔ اور سونے والا بڑا بندر تو پھر بہت عارف اللہ ٹہرا جو صرف ہاتھ سرکنے پر اُسے پتا چل گیا کہ بندریا نے زنا کیا ہے ورنہ اسلام میں حضرت عمر تو چار عینی گواہوں کی عینی شہادت کے باوجود بھی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے (حضرت عمر نے عین اسلام کے مطابق صحیح کام کیا تھا اور بندر کی یہ کہانی جھوٹی ہے)، اور پھر بقیہ بندروں کا بغیر عینی گواہوں کے بندریا کو زمین میں گاڑ دینا آجتک بنی نوع انسان نے نہ دیکھا، پھر اُسے اس جرم میں سنگسار کرنا آج تک کسی انسان نے تصور بھی نہیں کیا، اور پھر اس انصاری کا بھی اس کار خیر میں شریک ہو کر اُسے بندریا کو سنگسار کرنا سمجھ سے باہر ہے کہ اُس جاہلیت کے زمانے میں تو زنا عام تھا اور یہ سخت سزا تو اسلام نے آ کر نافذ کی تاکہ اسے روکا جائے۔۔۔۔۔۔ اور سب سے مزیدار حصہ کہ وہ چھوٹا بندر کہ جس کے ساتھ زنا کیا گیا، وہ تو فرار ہو گیا۔
کیا آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ بخاری کی فضائل والی یہ روایت سوائے رطب و یابس کے اور کچھ نہیں، اور اسکے صحیح روایت ہونے کا اصرار کرکے آپ صحابی ابن میمون پر ہی جھوٹ بولنے کا الزام لگوائیں گے۔
یقین مانیئے بے تحاشہ ہنسی آرہی ہے کیا دلائل ہیں کیا منظر کشی ہے۔
1۔ محترمہ یہ بات بندروں کی ہو رہی ہے انسانوں کی نہیں۔جو آپ گواہوں کو بیچ میں لیے آئیں۔ عمرو بن میمون صرف اپنی رائے دے رہے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ رجم ہے ۔
2۔یہ بات زمانہ جاہلیت کی ہورہی ہے جب ایسےتواہمات عام تھے یہ بات زمانہ اس اسلام کی نہیں ہوری اس وقت جناب عمرو بن میمون نے جو کچھ سمجھا وہ بیان کر دیا۔
3۔ جانوروں کے بارے میں آپ جانتی کیا ہیں۔ جانوروں کی زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ایک ناواقف کے لیے حیران کن ہو لیکن اگر کوئی محض نیشنل جیوگرافک یا ڈسکوری چینل ذرا شوق سے دیکھتا ہو اس کو معلوم ہو گا کہ مادہ کے لیے جانوروں میں شدید رسہ کشی ہوتی ہے اور اس سلسلے میں بے حد جیلسی بھی ان میں پائی جاتی ہے اوپر جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ جانوروں کی اسی جیسلی کا ہی واقعہ ہے اور اس سے زیادہ اس کی کچھ اہمیت نہیں۔
اور اگر اربوں لوگوں نے کسی بندر کو ایسا کرتے نہیں دیکھا تو اربوں لوگوں کے لیے یہ بات بھی بالکل نئی ہے کہ کوئی بھڑیا اپنی مادہ کی زچگی میں آسانی کے لیے کسی آدمی سے مدد مانگے اور پھر یہ یقین دلائے میں وہ اس آدمی کے کسی محب کو نقصان نہیں پہنچائے گا (ویسے وہ بھڑیا محبوں کو پہچانے گا کیسے؟)
باقی چیزیں میں ابھی روکتی ہوں۔ اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کر لیا کہ فضائل پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور آگے آپ اسلامی طریقہ بحث پر راضی ہوئے جو کہ احسن طریقے سے پیغام پہنچانے کا حکم دیتا ہے اور وہ یہ کہ شریعت میں حلال حرام پر بات کر لو بجائے ایک دوسرے کو ذلیل و بدنام کرنے کے لیے خلط ملط بحث شروع کرنے کے، تو پھر ٹھیک ہے، ورنہ پھر کی پھر دیکھی جائے گی۔ انشاء اللہ۔
یہاں کوئی کسی کو کیسے ذلیل و بدنام کر رہا ہے ذرا اس بات کی تشریح تو کر دیجئے؟ کیاآپ کی کتب کے فرمودات کو نقل کرے سے آپ کی خودانخواستہ ذلت ہوتی ہے؟