نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
ثبوت حاضر ہے کہ زن متعہ چار میں سے نہیں مطلب ازواج میں سے نہیں ۔
sahih_kafi_3_46.gif
 

دوست

محفلین
متعہ پر یہ خبر کافی عرصہ پہلے بی بی سی اردو پر پڑھی تھی۔ یہ صرف ایک عکس ہے جبکہ حالات اس سے بھی سنگین ہونگے۔ ماشاءاللہ ایران میں معقول تعداد میں ایسے بچے ہونگے اب جن کے اباؤں کا کسی کو پتا نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر شہلا حائری ایک ایرانی ہیں اور ان کا تحقیقی مقالہ پڑھنے کے لائق ہے۔
متعہ کے اتنے فوائد ہیں‌ لیکن حیرت ہے کہ بدقسمت مسلمان متعہ کو صحیح‌ طرح سے استعمال نہیں کرپائے۔ ورنہ آج ہر اسلامی ملک میں ریڈ لائٹ ایریاز کی بجائے "گرین لائٹ ایریاز" ہوتے۔ اور باحجاب سیکس ورکرز ہر وقت آپ کی روح کی تسکین کے لیے دستیاب رہتیں۔ دلّوں نے داڑھی رکھی ہوتی اور ہاتھ میں رجسٹر پکڑے ہوتے۔ بلکہ ہوٹلوں میں ایک رات کے نکاح کی سہولت موجود ہوتی۔ جائیں، کمرا لیں اور ساتھ ہی نکاح نامے پر بھی سائن کردیں لیں‌ بستر گرم کرنے کے لیے ساتھی بھی دستیاب ہے۔ بیوی بچوں کو کون پاغل دا پُتر یاد کرے۔ جس شہر میں ہم اس شہر کی عورت ہماری بیوی۔ اور ہاں ہم خرما و ہم ثواب۔ "مزے" بھی لیں اور 'درجات" بھی بلند کروائیں۔ سبحان اللہ
تُف ہے شاکر تم پر تم قرآن کی آیات میں چھپے ہوئے مطالب کو نہ سمجھ سکے۔ اب بھی ایام جاہلیت کی باتیں‌ کرتے ہو۔ جب مزے لینے کے ایک "اسلامی" صورت موجود ہے تب بھی تم شادی کا انتظار کرتے ہو اور اپنے آپ پر جبر کرتے ہو۔ لعنت ہے تمہاری مسلمانیت پر۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
۔ متعہ بھی "نکاح" کی ہی ایک قسم ہے
2۔ ان آزاد خواتین سے نکاح المتعہ کا حکم آیت نمبر 24 میں آ گیا ہے۔
3۔ اسکے بعد پھر آیت 25 میں اللہ فرما رہا ہے کہ اگر تم میں آزاد عورتوں کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں (یعنی نہ تم ان سے نکاح دائمی کر سکتے ہو اور نہ نکاح المتعہ) تو پھر تم کنیز عورتوں سے اپنی خواہش پوری کر سکتے ہو۔
4۔ چنانچہ یہ صبر کا حکم کنیز باندیوں کے ساتھ مباشرت اور نکاح (جو بذات خود عارضی تعلق ہے) سے مخصوص ہے نہ کہ آزاد عورت سے نکاح دائمی یا نکاح المتعہ کے ساتھ، اور یہی وہ واحد وجہ نظر آتی ہے جسکی وجہ سے رسول اللہ ص نے صحابہ کو صبر کرنے کی بجائے حکم دے کر عقد المتعہ کروایا۔

اوپر الکافی سے ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے کہ زن متعہ چار میں‌ سے نہیں‌ ، ازواج میں سے نہیں بلکہ ایک کرایہ دار عورت ہے۔ تو پھر متعہ کو نکاح کی ایک قسم بھی نہیں کہا جا سکتا۔

اور النسا کی آیت 24 متعہ کے حق میں دلیل نہیں بن سکتی کہ اس میں کوئی لفظ صریحآ متعہ پر دلالت نہیں کرتا۔ استمتع کا مادہ تمتع بمعنی نفع سے نکلا ہے اور جس کا استعمال التوبہ کی آیت 69 اور ابراہیم کی آیت 30 اور دوسری مختلف آیتوں میں‌ بتا دیا گیا ہے۔

قرآت الی اجل مسمٰی قرات شازہ ، غیر متواترہ ہے لہذا وہ اس کے حق میں‌ دلیل نہیں ہو سکتی۔

آپ کوئی آیت ایسی پیش نہیں کر سکیں کہ جس سے ثابت ہو کہ متعہ بھی نکاح‌ کی ایک قسم ہے اور نہ اس کے احکامات قرآن سے ثابت کر سکیں۔

اس سلسلے میں جو حدیثیں بیان کی گئیں وہ مخصوص مواقع پر رخصت فراہم کرتی نظر آتی ہیں جو بذات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ سورۃ‌ النسا کی آیت 24 سے کسی صحابی نے متعہ کے لئے حکم الٰہی مراد نہیں‌لیا اگر لیا ہوتا تو صحابہ کو پوچھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

اور نہ آپ کوئی ایسا معاشرہ بتا سکیں کے جس میں‌ متعہ بلا کراہت رائج تھا یا ہے اور اسکے اثرات اس معاشرے پرکیا مرتب ہوئے۔

عملی طور پر بھی معاشرے میں‌ اس کا نفاذ‌ممکن نہیں بلکہ خدشہ ہے کہ معاشرے کا نظام اور حسب و نسب سب خلط ملط ہو کر رہ جائے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ذیل میں‌ چند مزید حوالے ہیں جن سے کہ پتہ چلتا ہے کہ متعہ اور نکاح‌ ایک جیسے نہیں فرق ملاحظہ کریں۔

21- و بهذا الإسناد عن أحمد بن علي عن الباقر (ع) قال قال رسول الله (ص) لما أسري بي إلى السماء لحقني جبرئيل فقال يا محمد إن الله عز و جل يقول إني قد غفرت للمتمتعين من النساء
A woman who lets a man do Mutah with her will have all her sins pardoned. It is narrated by Imam

Baqir that the Prophet said, “When I was being taken to Heaven during the Miraj (ascension),

Jibraeel met me and told me, ‘O Muhammad, Allah has promised to forgive all the sins of those women

who practise Mutah.’”

22- و بهذا الإسناد عن أحمد بن محمد عن موسى بن علي بن محمد الهمداني عن رجل سماه عن أبي عبد الله (ع) قال ما من رجل تمتع ثم اغتسل إلا خلق الله من كل قطرة تقطر منه سبعين ملكا يستغفرون له إلى يوم القيامة و يلعنون متجنبها إلى أن

تقوم الساعة و هذا قليل من كثير في هذا المعنى
For every shower you take after doing Mutah, you will be blessed. For every Mutah you do, you will

get a lot of reward.”

http://www.al-shia.org/html/ara/books/lib-hadis/behar100/b19.htm
 

S. H. Naqvi

محفلین
اللھم صل علی محمد و آ ل محمد و ا صحا ب محمد
لگتا ہے ھدایت کا نور جلوہ گر ہو چکا ہے اللہ قا یم رکھے۔ آمین۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محترمہ شا ید آپ میرا سوال سمھجی نہیں یا سمجھ کر الجھا دیا، مییں اس صحابی کو سچا مان لیتا ہون لیکین میری عرض تو اتنی سی ہے کہ جب بہ حدیث "حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہے" تو علی نے عمر کے احکامات اور روأج کو جھٹلا ہا کیو ں نہیں؟ اور اس "متضادِ شریعت" حکم کو رد کیوں نہیں کیا؟
نقوی بھائی صاحب،
آپ سے کس نے کہا کہ علی ابن ابی طالب نے حضرت عمر کی تصحیح نہیں کی؟ علی ابن ابی طالب نے تو کھل کر اس پر اعتراض کیا مگر کوئی سننے والا ہی نہ تھا:

عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ علی ابن ابنی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔

تو علی ابن ابی طالب نے تو اپنا احتجاج ریکارڈ کروا دیا، مگر سنا کس نے؟ ہاں جنہوں نے سنا اُن میں عبداللہ ابن عباس جیسے صحابہ تھے جو اپنی آخری عمر تک عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیتے رہے۔ تو اُنکی کس نے سنی اور ابن زبیر انہیں کوڑے مارنے کی دھمکیاں دیتا رہا اور انہیں اندھا کہہ کر اُن کا مذاق اڑاتا رہا۔ اور اس پر بس نہ چلا تو آخری دن بستر مرگ پر ان سے توبہ کی جھوٹی روایت منسوب کر دی ۔ پھر اولاد علی میں ائمہ اہلبیت مستقل طور پر عقد المتعہ کے حق میں فتوے دیتے رہے، مگر اُنکی سنتا ہی کون تھا۔

اور علی ابن ابی طالب وہ ہیں کہ حضرت عمر کے بعد لوگوں نے اس شرط پر انہیں خلافت دینا چاہی کہ وہ کتاب و سنت رسول کے ساتھ ساتھ سیرت شیخین (جناب ابوبکر اور حضرت عمر ابن الخطاب) کی سیرت پر بھی عمل کریں گے، مگر آپ نے فرمایا کہ میں قرآن و سنت رسول کو تو مانتا ہوں مگر یہ سیرت شیخین کی شرط منظور نہیں۔

بہرحال، یہ الگ موضوع ہے، اور نہ صرف اوپر کی روایت، بلکہ ہماری کئی روایات کے مطابق یہ ثابت ہے کہ علی ابن ابی طالب نے اس پر احتجاج کیا اور حضرت عمر کی رائے کو غلط قرار دیا، مگر یہاں بات آپ کے سٹینڈرڈ کی ہو رہی ہے کہ اگر آپکے مطابق صحابی عمران بن حصین کی روایت صحیح ہے اور قرآن کی آیت کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اس پر کسی صحابی نے احتجاج نہیں کیا (بشمول خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب کے) تو پھر خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب بھی گناہگار ٹہرے، نہ کہ یہ قرآنی آیت کی مخالفت کی یہ بدعت شریعت اسلامیہ کا حصہ بن گئی۔ اس سوال کا جواب بہرحال آپکو دینا ہے۔ یا تو ثابت کیجئے قرآنی آیت کی مخالفت نہیں ہوئی، ورنہ مانیے کہ ہر وہ شخص گناہگار ہوا جس نے اس پر احتجاج نہیں کیا۔

روایت آپکے لیے ایک بار پھر:
حدثنا ‏ ‏مسدد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏عمران أبي بكر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبو رجاء ‏ ‏عن ‏ ‏عمران بن حصين ‏ ‏رضي الله عنهما ‏ ‏قال ‏
أنزلت ‏ ‏آية المتعة ‏ ‏في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال ‏ ‏رجل ‏ ‏برأيه ما شاء ‏‏[صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں
:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔

میں تو سہولت سے آگے بڑھنا چاہتی تھی اور بات صاف ہونی چاہیے تھی کہ وہ کون سے حالات تھے جس میں حضرت عمر نے عقد المتعہ کی ممانعت کی تھی، اور عمرو بن حریث کا قصہ کیا ہوا تھا، اور کیا حاکم وقت کو اسکی اجازت ہے کہ وہ حالات کے تحٹ ایسے فیصلے کر سکتا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔ یہ سب چیزیں حضرت عمر کے حق میں جا رہی ہیں کہ انہوں نے بطور حاکم اپنی ذاتی رائے میں غلطی کی اور حضرت علی نے اُن کی اس معاملے میں مخالفت کی، مگر بہرحال انہوں نے یہ دعوی نہیں کیا کہ رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام قرار دیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بعد میں آنے والوں نے بذات خود حضرت عمر پر جھوٹ باندھا ہے۔
چنانچہ حضرت عمر سے ہمارا اختلاف ہے مگر کم ہے اور صرف اتنا ہی ہے جتنا علی ابن ابنی طالب نے کیا ہے کہ ہم انکی اس ذاتی رائے کو غلط قرار دیتے ہیں اور یہ کہ اگر حضرت عمر یہ ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی زنا کرتا۔ اصل اختلاف ہمیں ان بعد میں آنے والوں سے ہے جنہوں نے رسول اللہ پر جھوٹ باندھا کہ انہوں نے عقد المتعہ کو حرام قرار دیا۔
جب عمرو بن حریث کا واقعہ پیش ہو گا تو اس موضوع پر پھر گفتگو ہو گی۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بقول آپ کے آج کل معاشرے میں زنا کا چلن عام ہے اور اسکی وجہ متعہ کی پابندی ہونا ہے ؟؟؟
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ و امریکہ میں جہاں کنٹریکٹ میرج وقتی طور پر اسے متعہ کی دوسری شکل سمجھ لیں عام ہے مگر کیا وہاں کوئی زنا نہیں‌ ہوتا ؟؟؟؟ حیرانگی کی بات ہے ان معاشروں میں‌ زنا سب سے زیادہ ہے اور پھر زنا کے بھی درجات زنا بالجبر ، اجتماعی زنا، اور نہ جانے کیا تفصیل اہل دل خوب جانتے ہیں ؟؟؟

دیکھئیے محترم بھائی صاحب،
یہ بہت زیادتی والی بات ہے کہ آپ اسلامی نکاح المتعہ کو ایسے بنا کر پیش کر رہے ہیں جیسا کہ مغربی معاشرے کے کفار وہ تمام شرائط پوری کرتے ہوئے نکاح المتعہ کرتے ہیں جو کہ اسلام نے عقد المتعہ کے لیے رکھی ہیں جیسا کہ عدت سے پاک ہونا، بچوں کا نسب اور ذمہ داری قبول کرنا وغیرہ اور یہ سب کچھ صرف خوف خدا کی خاطر کرنا۔
متعہ تو ایک طرف رہا کافروں کے نکاح تک کا موازنہ اسلامی نکاح سے نہیں کیا جا سکتا۔

اور جو آپ زنا الجبر، اجتماعی زنا وغیری کی بات کر رہے ہیں، تو یہ فرمائیے کہ عقد المتعہ میں یہ کب جائز ہیں؟

اگر آپ کو مغربی معاشرے کا علم ہو تو اس معاشرے میں بھی طوائفوں کے ساتھ زنا کرنے، اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ تعلقات میں فرق ہے۔ ایک کو یہاں کا معاشرہ ابھی تک بری نظر سے دیکھتا ہے جبکہ دوسرے کو پھر بھی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر مغرب میں جن مردوں کی بیویاں ہوتی ہیں اور نہ گرل فرینڈ، وہی مرد یہاں کے چکلوں میں پائے جاتے ہیں، بالکل ایسے ہیں جیسے پاکستان اور عرب دنیا سے آنے والے نوجوان جنکی بیویاں نہیں ہوتیں وہ ڈسکو اور لڑکیوں سے زنا کاریاں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

از شوکت کریم:
یہ مسئلے کا حل نہیں اور حل ہے تو خوف آخرت ، جوابدہی کا خوف ۔۔۔۔۔

محترم بھائی صاحب، آپ نص کو چھوڑ کر اپنی عقل استعمال کرتے رہیں، مگر یقین رکھئیے آپ ٹھوکر کھاتے رہیں گے۔
ذرا بتلائیے کہ کیا صحابہ کو آخرت کا خوف نہ تھا؟۔۔۔۔۔ کیا اُنہیں جوابدہی کرنے کا خوف نہ تھا۔۔۔۔۔۔
تھا، سب کچھ تھا، ایمان آجکے لوگوں سے زیادہ تھا، رسول ص اُنکے بیچ موجود تھے، قرآن کی آیات براہ راست نازل ہو رہی تھیں۔۔ مگر ان سب کے باوجود شادی شدہ صحابہ کرام تک رمضان کی فقط تیس راتوں تک خود کو گناہ سے محفوظ نہ رکھ سکے، اور اسکی گواہی دے رہا خود قرآن کہ اللہ کو انکی پوشیدہ خیانتوں کا علم ہے اور انکی اس انسانی فطرت کو دیکھتے ہوئے اللہ نے ان پر خاص رحم و کرم فرمایا اور رمضان کی راتوں میں مباشرت کی اجازت دی۔

چنانچہ آپ اپنے معاشرے کے عفیف و پاکدامن ہونے کے متعلق بڑے بڑے دعوے کر سکتے ہیں، مگر قرآن کی گواہی کو چھوڑ کر آپکے ان عقلی دعووں کے پیچھے کون جا سکتا ہے؟

اور فرض کریں ایک 18 سال کا لڑکا پڑھنے کے لئے امریکہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فرض کریں اسے اپنے مقصد حقیقی کا بھی علم نہیں کہ وہ وہاں پانچ سال کے لئے حصول علم کے لئے گیا ہے اور عیاشی کے لئے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ متعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ وہاں کنواری سے تو متعہ کر سکتا نہیں‌ کہ مکروہ ہے اور کون عقل کا اندھا اپنی باکرہ بیٹی ، بہن کو کسی کی وقتی جنسی تسکین کے لئے دے کر ساری عمر کا روگ پالے گا۔
لا محالہ اسے مطلقہ بیوہ ڈھونڈنی پڑے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ظاہر ہے وہ عمر میں اس سے بہت بڑی ہو گی اور تجربے میں بھی اور عرصہ پانچ سال میں وہ وقفے وقفے سے متعہ کرتا ہے تو نوجوان تعلیم تو کیا حاصل کرے گا نئے نئے روگ ساتھ لگا کر عقد دائمی سے بھی رہ جائے گا۔
اس عرصے کے دوران طبی نقطہ نگاہ سے دیکھیں‌ تو اس کا حشر کیا ہوگا۔ اور روحانی طور پر تو چھوڑیں۔
اور یقین رکھیں ما شا اللہ محفل میں موجود سب اراکین اعلٰی پڑھے لکھے ہیں اور یہ بات مشاہدے کی ہے کہ اعلٰی تعلیم وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جنکے ذہن پر صرف تعلیم ہی سوار ہوتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں جن لوگوں کے ذہنوں میں‌ اعلیٰ و ارفع مقاصد ہوتے ہیں وہ ان چھوٹی موٹی چیزوں پر توجہ نہیں‌دیتے اور نہ ہی کسی قسم کی ترغیب ان کو انکے مقاصد سے ہٹا سکتی ہے۔

محترم بھائیِ صاحب،
آپ خوابوں کی دنیا میں ہیں۔ ذرا آ کر خود دیکھ لیں کہ مغرب میں کیا حشر ہے۔
کاش آپ ٹھنڈے دماغ سے یہ چھوٹی سی بات سمجھ لیں کہ صحابہ کرام کے ہمیشہ اس تعلیم سے بھی اعلی و ارفع مقاصد رہے۔ رمضان کے روزے تو آخر ہیں تقوی حاصل کرنے اور برائی سے بچنے کے لیے۔ اور پھر جہاد جیسا اعلی و ارفع مقصد کیا ہو گا، مگر گواہ ہیں خود صحابہ کے جہاد کے اس کچھ ہفتوں کے قلیل عرصے میں ان سے بیویوں کی جدائی مشکل ہوئی اور وہ گناہ میں مبتلا ہونے کے ڈر سے اعضائے شہوانی تک کاٹنے کی حد تک پہنچ گئے۔ اب اگر انکی اس واضح مثالوں کے باوجود آپ پھر رٹ لگاتے ہیں کہ تعلیم کی ارفع مقصد کے لیے ہمارے آجکل کے سٹوڈنٹز پانچ چھ سالوں تک فرشتوں جیسی زندگیاں گذارتے رہیں گے اور وہ بھی مغربی معاشرے میں،۔۔۔۔۔ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے غالب۔۔۔

اور آپکو آج کے مغربی غیر مسلم معاشرے کا کچھ علم نہیں جو آپ نے بیوہ کی بحث شروع کر دی۔ بیوہ کی اصطلاح اسلامی معاشرے کے لیے ہے جہاں غیر شادی شدہ کے مقابلے میں بیوہ کہا جائے تو فرق پتا چلتا ہے۔
چنانچہ تصحیح کریں کہ غیر مسلم مغربی معاشرے میں باکرہ اور غیر باکرہ کی بات ہوتی ہے کہ انکا شادی شدہ ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا ہے۔
اور جو سٹوڈنٹ (زیادہ تر لبنانی شیعہ) نے یہاں پر آ کر گرل فرینڈز بنانے کی بجائے اُن سے عقد المتعہ پڑھا، وہ ان تمام پرابلمز کے بغیر (جو آپ نے اوپر ذکر کی ہیں) اچھی زندگی گذار کر فارغ ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر نے اسی عقد المتعہ کو بعد میں نکاح دائمی میں تبدیل کر لیا ہے۔

اور آپ نے ابھی تک وہ ماڈل بتایا نہیں کہ جہاں متعہ رائج تھا یا ہے اور وہاں امن ہی امن ہے۔
پہلی بات نوٹ کریں کہ اسلامی احکامات کسی ماڈل کے تابع نہیں ہیں۔
ماڈل اُس وقت بنیں گے جب لوگ عقد المتعہ کو سمجھ کر اس پر اس نیت سے عمل کریں گے کہ خود کو گناہ سے بچانا ہے۔ اسکا رول ماڈل میری اپنی آنکھوں کے سامنے تیرہ چودہ کیسز گذرے ہیں جہاں ان عربی شیعہ حضرات نے عقد المتعہ سے نکاح دائمی میں اسے تبدیل کر لیا اور انہیں کبھی گناہ میں پڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
پاکستانی اہل تشیع کی براہ مہربانی بات نہ فرمائیں کہ یہ نام کے تو اہل تشیع مسلمان ہیں، مگر عملی طور پر خواتین اور خاندان والے اس معاملے میں حضرت عمر ہی کے پیروکار ہیں۔ انہیں بہت تعلیم کی ضرورت ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ آہستہ آہستہ ان میں شعور پیدا ہو رہا ہے۔

ایرانی معاشرے میں عقد المتعہ رائج تھا، مگر پھر شاہ ایران آ گیا جو کہ مغرب سے متاثر تھا۔ اسی دور میں ایرانی خواتین و معاشرہ مکمل طور پر عقد المتعہ کے خلاف ہو گیا اور اسے زنا قرار دینے لگا۔ مگر ان لوگوں کو عقل نہ آئی کہ عقد المتعہ بند ہوتے ہی ایران میں زناکاری ایسی پھیلی کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو صرف تہران میں کئی ہزار رجسٹرد طوائفیں تھیں اور معاشرے میں زناکاری بیسیوں گنا زیادہ پھیل چکی تھی۔

پھر ایرانی علماء نے کوشش شروع کی اس زناکاری کو روکنے کے لیے پھر سے عقد المتعہ کو رواج دیا جائے۔ مگر افسوس کہ ایرانی خواتین اسکے ایسے ہی سخت خلاف تھیں جیسا کہ پاکستان میں خواتین اپنے شوہروں کو دوسری شادی کی اجازت دینے کے اور ان دونوں چیزوں کو حلال ہونے کے باوجود بری نظروں سے دیکھا جاتا رہا۔
لیکن کہتے ہیں نا کہ Slow and Steady wins the race۔ جنگ ہوئی، اور ایرانی معاشرے میں لاکھوں بیوہ عورتیں موجود تھیں اور پھر معاشرے میں زناکاری بڑھتی ہی چلی گئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ ایرانی خواتین کی آرگنائزیشنز جو پہلے عقد المتعہ کے خلاف تھیں، وہی آرگنائزیشنز پھر عقد المتعہ کی آج ترغیب دے رہی ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ انہیں احساس ہو گیا کہ یہ انہی کے باپ، بھائی و بیٹے ہیں جو عقد المتعہ کی غیر موجودگی میں طوائفوں کے ساتھ زنا کر رہے ہیں۔
اب آہستہ آہستہ ایرانی معاشرے میں عقد المتعہ کے پازیٹیو نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں، خواتین کی مخالفت کم ہو رہی ہے اور بہت سے لوگوں کی کہانیاں سامنے آئی ہیں کہ وہ پہلے چھپ کر زناکاری کرتے تھے، مگر اب وہ معاشرے میں ذرا کھل کر عقد المتعہ کیے ہوئے ہیں اور اس لیے انہیں زنا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت سی خواتین جو پہلے حالات سے مجبور ہو کر زناکاری کیا کرتی تھی، انکا بیان ہے کہ اب وہ کوشش کرتی ہیں کہ کوئی انکے ساتھ صیغہ پڑھ کر انہیں عزت کے ساتھ معاشرے میں رکھے، اور ان میں سے اکثر یوں اپنی پرانی گناہ کی زندگی سے نکل آئیں۔
چنانچہ وقت لگے گا، مگر انشاء اللہ عقد المتعہ کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ باقی جو شقی القلب ہیں، وہ تو زناکاری میں لگے ہی رہیں گے، اور جو ایرانی اسلام ہی کے مخالف ہیں وہ تو اپنی حرکتیں کرتے ہی رہیں گے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ لوگ جو واقعی اللہ کا خوف رکھتے ہیں اور گناہ سے بچنا چاہتے ہیں ان کو عقد المتعہ کی صورت ایک راستہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھ سکیں، اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں جو عورت کی غیر موجودگی کی وجہ سے غیر فطری عمل (جو کہ مدارس تک میں ہوتا ہے) اس سے بچ سکیں۔

عقد المتعہ کی بہترین مثال اس وقت حزب اللہ ہے۔ لبنان کا معاشرہ انتہائی اوپن معاشرہ ہے اور مغرب کے کچھ قریب پہنچتا ہے۔ لبنان کے دوسرے مسلمان (فواد سینورہ گروپ والے) آپ کو اکثر برائیوں میں مبتلا نظر آئیں گے مگر اتنا مغربی ماحول ہونے کے باوجود آپکو انتہائی کٹر مذہبی حزب اللہ کے نوجوان نظر آئیں گے اور انہوں نے اتنا کھل کر لبنان میں حلال طریقے سے عقد المتعہ کیا ہے کہ آپ لبنان کی کسی عیسائی لڑکی سے عقد المتعہ کا پوچھ لیں تو اسُے عقد المتعہ کاپاکستانی شیعہ حضرات سے زیادہ علم ہو گا۔

مجھے علم ہے کہ اب توپوں کا رخ ایرانی معاشرے وغیرہ کی طرف ہو گا، مگر بہتر ہے کہ اپنے پاکستانی معاشرے میں ہونے والی برائیوں پر نظر رہے کہ دوسرے کی کیڑے نکالنا آسان چیز ہے مگر اپنے گریبان میں موجود گندگی کو دیکھنا مشکل۔ کیا ہے کہ انسان کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آ جاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
 

گرائیں

محفلین
Need, sadness, and regret filled her eyes. The pungency of soaking sweat, from hours of waiting under the hot sun, surrounded her. In the busy months of summer, when men travel to Qom from other cities for prayer and fun, Mehri might take a temporary husband three times a day. "Locals don't pay much," she said. "Outsiders are better customers."

And where are these marriages consummated? "If they have a home, they take me there," she said. "If they don't, it's to the New Cemetery." A cloud of dust and wind churns through the ancient, forgotten New Cemetery, several kilometers from Qom. No one comes to this remote, silent cemetery to visit the dead. The only visitors are women with temporary "husbands" in tow.

The women come furtively, believing this life is still more honorable than begging in the streets. They make what passes for a living, fulfilling their own monetary needs and those of their children and other loved ones, away from the prying eyes of neighbors. None believes in selling her body, and unlike prostitutes in other parts of the world who try to attract customers by baring more of themselves, these women clutch their chadors more and more tightly from shame and humiliation. At least in the cemetery, they feel secure. "The home of the dead is a safe place to be," they say.

کیا یہی ہیں‌نکاح‌المتعہ کی برکات ؟
ہفتہ میں‌تین تین شوہر؟
معاف کیجئے گا شائد مجھ پر پروپیگنڈے کا اثر ہو رہا ہے۔

پروپیگنڈے کا ربط
 

گرائیں

محفلین
ایرانی معاشرے میں عقد المتعہ رائج تھا، مگر پھر شاہ ایران آ گیا جو کہ مغرب سے متاثر تھا۔ اسی دور میں ایرانی خواتین و معاشرہ مکمل طور پر عقد المتعہ کے خلاف ہو گیا اور اسے زنا قرار دینے لگا۔ مگر ان لوگوں کو عقل نہ آئی کہ عقد المتعہ بند ہوتے ہی ایران میں زناکاری ایسی پھیلی کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو صرف تہران میں کئی ہزار رجسٹرد طوائفیں تھیں اور معاشرے میں زناکاری بیسیوں گنا زیادہ پھیل چکی تھی۔

پھر ایرانی علماء نے کوشش شروع کی اس زناکاری کو روکنے کے لیے پھر سے عقد المتعہ کو رواج دیا جائے۔ مگر افسوس کہ ایرانی خواتین اسکے ایسے ہی سخت خلاف تھیں جیسا کہ پاکستان میں خواتین اپنے شوہروں کو دوسری شادی کی اجازت دینے کے اور ان دونوں چیزوں کو حلال ہونے کے باوجود بری نظروں سے دیکھا جاتا رہا۔
لیکن کہتے ہیں نا کہ Slow and Steady wins the race۔ جنگ ہوئی، اور ایرانی معاشرے میں لاکھوں بیوہ عورتیں موجود تھیں اور پھر معاشرے میں زناکاری بڑھتی ہی چلی گئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ ایرانی خواتین کی آرگنائزیشنز جو پہلے عقد المتعہ کے خلاف تھیں، وہی آرگنائزیشنز پھر عقد المتعہ کی آج ترغیب دے رہی ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ انہیں احساس ہو گیا کہ یہ انہی کے باپ، بھائی و بیٹے ہیں جو عقد المتعہ کی غیر موجودگی میں طوائفوں کے ساتھ زنا کر رہے ہیں۔
اب آہستہ آہستہ ایرانی معاشرے میں عقد المتعہ کے پازیٹیو نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں، خواتین کی مخالفت کم ہو رہی ہے اور بہت سے لوگوں کی کہانیاں سامنے آئی ہیں کہ وہ پہلے چھپ کر زناکاری کرتے تھے، مگر اب وہ معاشرے میں ذرا کھل کر عقد المتعہ کیے ہوئے ہیں اور اس لیے انہیں زنا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت سی خواتین جو پہلے حالات سے مجبور ہو کر زناکاری کیا کرتی تھی، انکا بیان ہے کہ اب وہ کوشش کرتی ہیں کہ کوئی انکے ساتھ صیغہ پڑھ کر انہیں عزت کے ساتھ معاشرے میں رکھے، اور ان میں سے اکثر یوں اپنی پرانی گناہ کی زندگی سے نکل آئیں۔ ۔

پتہ نہیں کیوں‌مندرجہ ذیل وڈیوز کو دیکھنے کے بعد مجھے آُپ کے دلائل بودے سے لگنے لگے ہیں۔

نکاح المتعہ کے حلال اور حرام ہونے سے قطع نظر، چونکہ میرے پاس آپ سب لوگوں‌جیسا وسیع علم نہیں‌ہے کہ میں‌قرآن و حدیث کی اپنی مرضی سے تشریح اور پھر دلائل دیتا پھروں، میرا خیال ہے کہ یہ اتنا اچھا حل ہے بھی نہیں‌کہ اس کو مستقل بنیادوں پر فروغ‌دیا جائے۔
اللہ نہ کرے پاکستانی اہل تشیع متعہ کرنا شروع کریں۔ مجھے لگتا ہے ان میں‌ابھی ابھی عقل سلیم رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا یہی ہیں‌نکاح‌المتعہ کی برکات ؟
ہفتہ میں‌تین تین شوہر؟
معاف کیجئے گا شائد مجھ پر پروپیگنڈے کا اثر ہو رہا ہے۔
پروپیگنڈے کا ربط

نہیں، اس چیز کا نکاح المتعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس فرق کو سمجھیے:

1۔ عقد المتعہ میں عورت کو دو حیض (کم از کم 45 دن) کی عدت رکھ کر پاک ہونا ہے قبل اسکے کہ وہ کسی اور سے نکاح یا متعہ کر سکے۔

2۔ اور عقد المتعہ وہی کرے گا جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو گا، ورنہ جنہیں اللہ کا ڈر نہیں وہ جا کر سیدھا سیدھا زناکاری کرے گا /کرے گی۔ چنانچہ جب کہیں بھی آپ ایسی چیزیں سنیں تو جان رکھئیے کہ اسکا نکاح المتعہ سے ہرگز کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہ بدبخت شقی القلب ہیں جن کے متعلق علی ابن ابی طالب نے فرما دیا تھا کہ انہیں زناکاری سے کوئی نہ روک پائے گا۔

دیکھئیے یہی پرابلمز اور یہی چیزیں اسلام کی پوری 1300 سالہ تاریخ میں رہی ہیں، مگر چونکہ اسلام کے متعلق لوگوں کا یہاں پر ذہن بنا ہوا ہے اس لیے وہاں ہر چیز معاف ہے حالانکہ وہ عقد المتعہ سے کہیں بڑھ کر اور کہیں خطرناک ہیں۔ مثلا:

1۔ کنیز عورت کی ایک شخص سے فارغ ہونے کے بعد فقط تین چار دن تک رکنا ہے جبتک وہ خون سے پاک نہ ہو جائے۔ اور ان تین چار دن کے استبرائے رحم کے بعد وہ دوسرا شخص اس سے ہمبستری کر سکتا تھا۔
2۔ اوپر یہ تین، چار یاپانچ دن کا رکنا تو لیگل صورت تھی جس کی اسلام نے اجازت دی ہوئی تھی اور جسے مسلمانوں کے تمام فقہاء ان تمام صدیوں میں مانتے چلے آ رہے ہیں۔ اور اسکی نان لیگل شکل یہ تھی کہ ہر دور میں قحبہ خانے موجود رہے اور ادھر کام کرنے کے لیے لوگوں نے یہی باندیاں رکھی ہوتی تھیں، اور لوگ آیا کرتے تھے۔
باندیوں کے لیے پردہ بھی نہ تھا۔ انہیں مردوں کو کھانا پانی وغیرہ Serve کرنے کی بھی اجازت تھی۔ (میں زیادہ آگے نہیں جانا چاہتی ہوں مگر یقین کریں معاملات اس سے کہیں بڑی نوعیت کے تھے جس کا آج لوگ نکاح المتعہ کے حوالے سے تصور کرتے ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ انکے ذہن ایسے بنے ہوئے ہیں کہ یہ معاشرے کے ہر گناہ و جرم کا بوجھ عقد المتعہ پر ڈال دیں گے (مثلا ایرانی معاشرے میں ہزاروں دھندہ کرنے والی طوائفیں اور ایسی شقی القلب لوگ موجود ہیں جو اسلام اور عقد المتعہ کو گالیاں دیتے ہیں اور ہر صورت انہیں زنا ہی کرنا ہوتا ہے، مگر ان سب کا گناہ و جرم یہ لوگ عقد المتعہ پر ڈال دیتے ہیں) جبکہ باندی کی صورت میں پوری اسلامی تاریخ میں بہت بہت بہت کچھ ہوتا رہا مگر اُس کا گناہ و جرم انہوں نے کبھی اسلام کے کھاتے میں نہیں ڈالا۔

بازار حسن کے نام پر آج اتنا پراپیگنڈہ ہے کہ یہ نکاح المتعہ کی وجہ سے ہے۔ پتا نہیں کتنے ایسے الزامی آرٹیکل چھپے، پتا نہیں کتنی ایسی ویڈیوز بنائی گئیں۔ اس سب پروپیگنڈہ کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نکاح المتعہ کا برصغیر ہندوستان میں دور دور تک کوئی نام و نشان تک نہ تھا اور یہاں کے اہل تشیع بھی اس معاملے میں حضرت علی کو چھوڑ کر حضرت عمر کی پیروی کر رہے تھے۔ مگر یہ جتنے آپ کو کوٹھے ملیں گے، انڈیا سے لیکر پاکستان تک، انکی تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں پر بچیوں کو اغوا کر کے لایا جاتا تھا اور بطور کنیز باندی کے انہیں رکھا جاتا تھا اور پھر ان سے گانے و ناچ وغیرہ کروائے جاتے تھے۔ باقاعدہ انکی قیمتیں لگتی تھیں اور یہ عورتیں (کنیزیں) بکتی تھیں۔ یہ بازار عرب معاشرے سے شروع ہوئے اور پچھلی صدی تک جاری رہے۔

ان بازاروں کے متعلق روایات انشاء اللہ بعد میں۔ یہ ایسی روایات نہیں ہیں کہ بیان ہوں، مگر یہ بہرحال ایک حقیقت ہیں۔۔۔۔ ایک ناقابل تردید حقیقت۔ اور اگر کوئی واقعی ان بازار حسن کے مسئلے سے انصاف کرنا چاہتا ہے، تو اسے ایک دفعہ یہ روایات ضرور سے پڑھ لینی چاہیے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اوپر الکافی سے ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے کہ زن متعہ چار میں‌ سے نہیں‌ ، ازواج میں سے نہیں بلکہ ایک کرایہ دار عورت ہے۔ تو پھر متعہ کو نکاح کی ایک قسم بھی نہیں کہا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔آپ کوئی آیت ایسی پیش نہیں کر سکیں کہ جس سے ثابت ہو کہ متعہ بھی نکاح‌ کی ایک قسم ہے اور نہ اس کے احکامات قرآن سے ثابت کر سکیں۔

اس سلسلے میں جو حدیثیں بیان کی گئیں وہ مخصوص مواقع پر رخصت فراہم کرتی نظر آتی ہیں جو بذات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ سورۃ‌ النسا کی آیت 24 سے کسی صحابی نے متعہ کے لئے حکم الٰہی مراد نہیں‌لیا اگر لیا ہوتا تو صحابہ کو پوچھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

آپکے اس اعتراض کا جواب تو بہت پہلے دیا جا چکا ہے، مگر مجھے پہلے ہی پتا تھا ہمارے دلائل اتنی آسانی سے آپکی آنکھوں میں آنے والے نہیں اور ان پر سے آپکی نظریں پھسلتی ہی چلیں جائیں گی۔

میری یہ پوسٹ پھر غور سے پڑھئیے:

مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں یہاں تھوڑی وضاحت کر دوں تاکہ یہ غلط فہمی دور ہو۔

1۔ عقد متعہ میں نکاح والی تمام تر شرائط موجود ہیں، سوائے مقررہ وقت پر طلاق ہو جانے کے، جیسا کہ اوپر تمام دلائل پیش کیے گئے ہیں۔

2۔ عقد متعہ کو اوائل اسلام میں "نکاح المتعہ" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بذات خود صحابہ و صحابیات اسے "نکاح المتعہ" کے نام سے جانتے تھے۔

3۔ امام مسلم نے متعہ پر جو باب باندھا ہے، اسکا عنوان میں ہی اسے "نکاح المتعہ" کے نام سے متعارف کروایا ہے۔

4۔ تفاسیر القرآن (قرطبی، طبری، ابن کثیر) کسی کو آپ کھول کر پڑھ لیں، ہر جگہ آپ کو یہ مفسرین "نکاح المتعہ" استعمال کرتے نظر آئیں گے (بنا اللہ سے کسی توبہ طلب کرتے ہوئے)
مثلا تفسیر طبری:
7180 - حدثني محمد بن عمرو , قال : ثنا أبو عاصم , عن عيسى , عن ابن أبي نجيح , عن مجاهد : { فما استمتعتم به منهن } قال : يعني نكاح المتعة.

اور یہ روایت:
امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی فلاں فلاں رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر فلاں فلاں اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت (شقی القلب) ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]

اور امام مسلم نے یہ روایت نقل کی ہے:
صحیح مسلم [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبي ‏ ‏ووكيع ‏ ‏وابن بشر ‏ ‏عن ‏ ‏إسمعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏عبد الله ‏ ‏يقولا ‏
‏كنا ‏ ‏نغزو مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ليس لنا نساء فقلنا ألا ‏ ‏نستخصي ‏ ‏فنهانا عن ذلك ثم رخص لنا أن ننكح المرأة ‏ ‏بالثوب ‏ ‏إلى أجل ثم قرأ ‏ ‏عبد الله ‏

5۔ اور اہم بات یہ کہ خیبر والی جو روایت متعہ کو حرام قرار دے رہی ہے، وہ اتفاقا بذات خود اسکے لیے "نکاح المتعہ" کے الفاظ استعمال کر رہی ہے۔
صحیح مسلم آنلائن لنک:
أن النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏نهى عن ‏ ‏نكاح المتعة ‏ ‏يوم ‏ ‏خيبر ‏ ‏وعن لحوم الحمر الأهلية ‏


اختلاف رائے اپنی جگہ، مگر امید ہے کہ آپ ان گذارشات پر غور فرمائیں گے اور اگر ہم اسے نکاح کی شکل مانتے ہیں تو آپ ہمیں اسکا حق دیں گے۔ والسلام۔

آپ لوگوں کے لیے بہت سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے آج عقد المتعہ کے کوئی نئے قواعد و قوانین نہیں نکال دیے ہیں، بلکہ یہ انہی شرائط کے ساتھ جاری ہے جن کے ساتھ رسول اللہ ص نے اپنے زمانے میں جاری کیا تھا، اور ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نکاح المتعہ والی عورت نکاح دائمی والی 4 عورتوں میں شمار نہ ہوتی تھی۔ اسی طرح آپکے فقہ میں ایک شخص ہزار کنیزوں سے نکاح کر لے، مگر یہ نکاح والی کنیزیں ان 4 نکاح دائمی والی آزاد عورتوں میں شمار نہ ہوں گی۔ اسی لیے تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ مسلمانوں کے حرموں میں اس چیز کے غلط استعمال کے باعث کئی کئی سو کنیزیں موجود ہوتی تھیں، مگر اس معاملے میں Misuse کا الزام آپ مذہب اسلام پر نہیں لگاتے، پر افسوس کہ عقد المتعہ کے معاملے میں آپکے رویے یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں اور ہر زناکار کا گناہ آپ عقد المتعہ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔

باقی آپ نے جو لکھا ہے کہ "اجل الی مسمی" کی قرآت شاذ و ٹھکرائی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ تو محترم بھائی صاحب آپ کو یہ چیز جا کر بتانی چاہیے ترجمان القران ابن عباس کو، عبداللہ ابن مسعود کو، ابی ابن ابی کعب کو (عبداللہ ابن مسعود اور ابی ابن کعب کا قرآن کے معاملے میں مقام یہ تھا کہ اُن 4 اشخاص میں شامل ہیں کہ جن سے رسول اللہ ص نے قران کی تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیا تھا"۔ چنانچہ جناب یہ بات تو آپ رہنے دیں کہ یہ قرآت شاذ ہے، بلکہ یہ قرآت بالکل Valid قرآت ہے اور حضرت عثمان کے زمانے میں ایک قرآن پر جمع ہونے کے باوجود ابن عباس نے اپنی قرآت کو ترک نہیں کیا اور برابر اسے پڑھتے رہے۔
 

گرائیں

محفلین
نہیں، اس چیز کا نکاح المتعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس فرق کو سمجھیے:

1۔ عقد المتعہ میں عورت کو دو حیض (کم از کم 45 دن) کی عدت رکھ کر پاک ہونا ہے قبل اسکے کہ وہ کسی اور سے نکاح یا متعہ کر سکے۔

2۔ اور عقد المتعہ وہی کرے گا جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو گا، ورنہ جنہیں اللہ کا ڈر نہیں وہ جا کر سیدھا سیدھا زناکاری کرے گا /کرے گی۔ چنانچہ جب کہیں بھی آپ ایسی چیزیں سنیں تو جان رکھئیے کہ اسکا نکاح المتعہ سے ہرگز کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہ بدبخت شقی القلب ہیں جن کے متعلق علی ابن ابی طالب نے فرما دیا تھا کہ انہیں زناکاری سے کوئی نہ روک پائے گا۔

دیکھئے یہی بات تو میں بھی کہنا چاہ رہا ہوں۔ مذہبی حوالوں سے قطع نظر گزشتہ رات جتنا کچھ بھی انٹرنیٹ پہ پڑھنے کو ملا اس سے یہی اندازہ ہوا کہ نکاح المتعہ کی چھوٹ کو یار لوگوں نے وقتی جنسی تسکین کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اور بد قسمتی سے اس وقتی جنسی تسکین کو مذہب کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔
یہ محض ایک کھیل بن کے رہ گیا ہے۔ اور نکاح المتعہ ایمان کے بنیادی ارکان میں بھی شامل نظر نہیں آتا تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اس کے غلط استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کیا جائے اور اسے ممنوع قرار دیا جائے؟ اگر نکاح المتعہ کو ممنوع قرار دے بھی دیا جائے تو ایمان اور اسلام پر کوئی زد نہیں‌ پڑتی۔

میرا خیال ہے اگر آپ سب لوگ اس پہلو کو بھی بحث میں‌شامل کریں‌تو اچھا ہوگا۔
 

سویدا

محفلین
متعہ پر یہ خبر کافی عرصہ پہلے بی بی سی اردو پر پڑھی تھی۔ یہ صرف ایک عکس ہے جبکہ حالات اس سے بھی سنگین ہونگے۔ ماشاءاللہ ایران میں معقول تعداد میں ایسے بچے ہونگے اب جن کے اباؤں کا کسی کو پتا نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر شہلا حائری ایک ایرانی ہیں اور ان کا تحقیقی مقالہ پڑھنے کے لائق ہے۔
متعہ کے اتنے فوائد ہیں‌ لیکن حیرت ہے کہ بدقسمت مسلمان متعہ کو صحیح‌ طرح سے استعمال نہیں کرپائے۔ ورنہ آج ہر اسلامی ملک میں ریڈ لائٹ ایریاز کی بجائے "گرین لائٹ ایریاز" ہوتے۔ اور باحجاب سیکس ورکرز ہر وقت آپ کی روح کی تسکین کے لیے دستیاب رہتیں۔ دلّوں نے داڑھی رکھی ہوتی اور ہاتھ میں رجسٹر پکڑے ہوتے۔ بلکہ ہوٹلوں میں ایک رات کے نکاح کی سہولت موجود ہوتی۔ جائیں، کمرا لیں اور ساتھ ہی نکاح نامے پر بھی سائن کردیں لیں‌ بستر گرم کرنے کے لیے ساتھی بھی دستیاب ہے۔ بیوی بچوں کو کون پاغل دا پُتر یاد کرے۔ جس شہر میں ہم اس شہر کی عورت ہماری بیوی۔ اور ہاں ہم خرما و ہم ثواب۔ "مزے" بھی لیں اور 'درجات" بھی بلند کروائیں۔ سبحان اللہ
تُف ہے شاکر تم پر تم قرآن کی آیات میں چھپے ہوئے مطالب کو نہ سمجھ سکے۔ اب بھی ایام جاہلیت کی باتیں‌ کرتے ہو۔ جب مزے لینے کے ایک "اسلامی" صورت موجود ہے تب بھی تم شادی کا انتظار کرتے ہو اور اپنے آپ پر جبر کرتے ہو۔ لعنت ہے تمہاری مسلمانیت پر۔

ہاہاہاہاہاہاہا :biggrin:
بہترین منظر کشی کی آپ نے
مزہ آیا پڑھ کر
 

سویدا

محفلین
ماشااللہ مہوش صاحبہ نے متعہ کے حق میں‌بہت خوب دلائل پیش کیے اور اب یہ مسئلہ روز روشن کی طرح‌عیاں‌ہوگیا
اللہ انہیں‌خوش رکھے بہت بہترین ترجمانی کی
اب ذرا اس طرف بھی رہنمائی فرمادیں کہ پاکستان میں‌متعہ کو فروغ‌دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں‌گے
اور ہاں‌متعہ کے لیے اگر کچھ فضائل بھی روایات میں‌موجود ہوں‌تو وہ بھی ہمیں ضرور ‌بتائیں تاکہ کچھ ترغیب پیدا ہو ہمارے دل میں‌
 

دوست

محفلین
متعہ کے فضائل بہت ہیں جی۔ فروع کافی کے احادیث سے تو یوں لگتا ہے آل رسول کا دنیا میں کام ہی متعہ کے فروغ اور اس کی فضیلت بیان کرنے کا دیا گیا تھا۔ معراج تک میں نماز کی فرضیت کے ساتھ متعہ کا "تحفہ" دینے کے بارے میں ایک حدیث موجود ہے۔ حیرت ہے کہ اہل اسلام چودہ سو سال سے اس نیک کام میں کیوں نہ لگ سکے۔ آج بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر، نبی، اصحاب نبی، آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم و رضوان اللہ علیھم اجمعین کا نام لے لے کر بتانا پڑتا ہے پاغلو متعہ حلال ہے کرکے تو دیکھو۔ اللہ نے تمہارے لیے گوشت کا سامان کیا ہے اور تم روکھی سوکھی کھا رہے۔ چھوڑو شادی کو گھر بار کو، ہر ہفتے نیا نکاح کرو۔ پرانی کو فارغ کرو مزے میں زندگی گزارو۔ کیوں‌ بیوی بچوں کا جھنجھٹ پالتے ہو۔ لیکن کیا کریں مسلمان کچھ زیادہ ہی کم عقل واقع ہوئے ہیں۔ میرے جیسے فورًا یہ کہہ دیتے ہیں یہ تو رنڈی بازی کی اسلامی شکل لگتا ہے۔ کیا کریں ہمارا فقہ کا علم صفر، قرآن کا علم صفر مجھے تو یہاں‌ آکر پتا چلا کہ جس قرآن پر ہم سب متفق تھے اس میں بھی ایسی آیات موجود ہیں‌ جو اس میں تھیں ہی نہیں۔ اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کو شامل ہی نہ کرواسکے۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کتنی بڑی خیانت کرگئے نعوذباللہ اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی اس بات پر خاموش رہ گئے۔ معتہ قرآن میں سے نکل گیا۔ آہ متعہ اگر آج متعہ ہوتا تو پورے عالم اسلام میں رنڈی بازی بند ہوچکی ہوتی۔ لذت پرستی کا اسلامی ذریعہ جو ہوتا حضرت۔ نہ مجھے پتا ہوتا میرا باپ کون ہے نہ میرے باپ کو پتا ہوتا کہ اس کا باپ کون ہے۔ نہ وراثت ہوتی اور نہ زمین جائیداد کے جھگڑے۔ عورتیں سب کی سانجھی ہوتیں جبکہ اب ماں بہنیں‌سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ ہائے مسلمان کس نعمت عظیم سے محروم رہ گئے اور رہے چلے جاتے ہیں۔ افسوس وائے افسوس۔ :cool:
 
دوست بھائی ۔ ۔ ۔گذارش ہے کہ یہ ایک علمی بحث ہو رہی ہے اسکو علمی انداز سے چلنے دیں گے تو سب کا بھلا ہوگا۔ ۔ ۔ متعہ فقہ کا مسئلہ ہے عقائد کا نہیں نہ ہی یہ کوئی کفر و اسلام کی جنگ ہے۔۔ ۔ ۔ میں بھی سُنّی ہوں اور متعہ کے مسئلے پر اہلسنت کے موقف کو فالو کرتا ہوں لیکن فریقِ مخالف بھی قرآن و سنت سے دلائل پیش کر رہا ہے لہذا اسکو سنجیدگی سے سمجھنے گی کوشش کرنی چاہئیے۔:)
 

سویدا

محفلین
آپ حوصلہ رکھیں ہمت نہ ہاریں !

بہت جلد اس نعمت سے آپ اور ہم متمتع ہونے والے ہیں‌!

مایوسی کفر ہے !

اور متعہ اندھیرے میں‌روشنی کی ایک کرن ہے جس کی ضوافشانیوں‌سے پوری دنیا جگمگا جائے گی
 
ش

شوکت کریم

مہمان
آپکے اس اعتراض کا جواب تو بہت پہلے دیا جا چکا ہے، مگر مجھے پہلے ہی پتا تھا ہمارے دلائل اتنی آسانی سے آپکی آنکھوں میں آنے والے نہیں اور

ان پر سے آپکی نظریں پھسلتی ہی چلیں جائیں گی۔

یارب وہ نہ سمجھے ہیں' نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور​

میرا خیال ہے آپ نے اب میری پوسٹوں‌ کر پڑھنا چھوڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زن متعہ چار میں سے نہیں بلکہ وہ کرایہ دار عورت ہے۔ لفظ کرایہ

دار
پر غور کریں۔ جب وہ کرایہ دار عورت ہے اور چار میں سے بھی نہیں تو پھر وہ کیا ہے ؟؟؟؟ ایک نئی استطلاح‌ نکالنی پڑے گی اور پھر اس کے

احکام و قوانین بھی قرآن و حدیث سے دینے پڑیں گے۔ کیونکہ قرآن و حدیث میں جتنے بھی احکام بیان کئے گئے ہیں وہ ازواج یا لونڈیوں کے سلسلے میں ہیں‌اور

کہیں‌ بھی کرایہ دار عورت کے احکامات بیان نہیں ہوئے اگر ہیں تو دکھائے ؟؟؟

اور میں کہوں گا یہ کوئی رزم گاہ حق و باطل نہیں ، میں اپنے دلائل دے رہا ہوں اور میرا خیال الحمد للہ میں ایک دفعہ بھی کسی کی پوسٹ کو تلخی سے نہیں لیا مگر آپ کے پچھلی دو تین پوسٹوں سےاس کا اظہار ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نبیوں اور ولیوں کے نقش قدم پر چلنا ہو تو اوصاف بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کر چاہیے۔۔ نرم خوئی ، نرم گوئی، دوسروں‌ کی غلطیوں سے درگذر کرنا، سختیاں جھیلنا، مشقت اٹھانا، طعنے سننا ، اور پتا نہیں کیا کیا ۔ الغرض جتنا بڑا مقصد اتنی بڑی قربانی اتنے بڑے امتحان۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
دیکھئیے محترم بھائی صاحب،
یہ بہت زیادتی والی بات ہے کہ آپ اسلامی نکاح المتعہ کو ایسے بنا کر پیش کر رہے ہیں جیسا کہ مغربی معاشرے کے کفار وہ تمام شرائط پوری کرتے ہوئے نکاح المتعہ کرتے ہیں جو کہ اسلام نے عقد المتعہ کے لیے رکھی ہیں جیسا کہ عدت سے پاک ہونا، بچوں کا نسب اور ذمہ داری قبول کرنا وغیرہ اور یہ سب کچھ صرف خوف خدا کی خاطر کرنا۔

اللہ نہ کرے میں نے ایسا نہیں کہا اور نہ موازنہ کیا۔ بلکہ مقصد یہ تھا کہ ان معاشروں‌ میں عورت کی حصولیابی مشکل نہیں ۔۔۔ آسانی سے دستیاب ہے پھر بھی زور زبردستی ، زنا بالجرکے کیس دنیا بھر میں‌ سب سے زیادہ انہی معاشروں میں ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ متعہ اگر عام ہو گا تو معاشرے سے زنا ختم ہو جائے گا دیوانے کا خواب لگتا ہے!!!

زور زبردستی اور زنا بالجرکے الفاظ اس لئے کہے کہ زنا تو ویسے ہی عام ہی غور کریں انسان کی نفسیات پر جو چیز اسے آسانی سے دستیاب ہو اس کی قدر ختم اور شورہ پشتوں‌ نے شورش کرنی ہی کرنی ہے !!!

محترم بھائی صاحب، آپ نص کو چھوڑ کر اپنی عقل استعمال کرتے رہیں، مگر یقین رکھئیے آپ ٹھوکر کھاتے رہیں گے۔

اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں جگہ جگہ ارشاد فرما رہے ہیں اور غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کہ نصوں پہ غور کرو میری نشانیوں پر غور کرو ؟؟؟؟ تو کیا غور کرنا جرم ہے ؟؟؟ آپ نے ایک بات کہہ دی تو سب اٰمنا و صدقنا کہہ دیں ؟؟؟ چند ایک آیات ملاحظہ ہوں۔

بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ سورۃ: نساء آیہ: 82
کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟ سورۃ: الانعام: 50
بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے۔ سورۃ: 10یونس: 3
بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟ سورۃ: ہود: 30
اسی پانی سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور دوسرے بے شمار درخت اگاتا ہے۔ اور ہر طرح کے پھل پیدا کرتا ہے غور کرنے والوں کے لئے اس میں اللہ کی قدرت کی بڑی نشانی ہے۔ سورۃ: النحل آیہ: 11 :

ذرا بتلائیے کہ کیا صحابہ کو آخرت کا خوف نہ تھا؟۔۔۔۔۔ کیا اُنہیں جوابدہی کرنے کا خوف نہ تھا۔۔۔۔۔۔
خوف تھا اسی لئے تو پوچھا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کے اے اللہ کے نبی اب ہم ایمان لے آئے ہیں اب ہمارے لئے کوئی گنجائش نہیں کہ ہم اپنے تقضاے کو پلے کی طرح پورا کریں لہذا کیوں نہ خصی کروا لیں۔ اور شائد اسی لئے اللہ کے نبی نے انہیں رخصت دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نہ کہا کہ اب متعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حلال ہے ؟؟؟

چنانچہ آپ اپنے معاشرے کے عفیف و پاکدامن ہونے کے متعلق بڑے بڑے دعوے کر سکتے ہیں، مگر قرآن کی گواہی کو چھوڑ کر آپکے ان عقلی دعووں کے پیچھے کون جا سکتا ہے؟

الحمد للہ ہمارا معاشرہ اس گئے گذرے حالات میں بھی بہت سے معاشروں ے بہترین ہے اور اللہ اسے اور بہترین کرے۔

ماڈل اُس وقت بنیں گے جب لوگ عقد المتعہ کو سمجھ کر اس پر اس نیت سے عمل کریں گے کہ خود کو گناہ سے بچانا ہے۔ اسکا رول ماڈل میری اپنی آنکھوں کے سامنے تیرہ چودہ کیسز گذرے ہیں جہاں ان عربی شیعہ حضرات نے عقد المتعہ سے نکاح دائمی میں اسے تبدیل کر لیا اور انہیں کبھی گناہ میں پڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

تو پھر جھگڑا ہی مک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس چیز کو بے شمار ترغیبات اور فضائل کے بعد بھی معاشرے نے چودہ سو سال بعد بھی قبول عام نہ دیا اور اپنے ماننے والوں کے درمیان بھی متنازعہ رہا۔ یہی اس کے من جانب من اللہ نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے؟؟
آپ کیا کہنا چاہتی ہیں کہ اللہ کے قانون کہ جس میں‌ فلاح ہی فلاح ہے اتنا بھی زور نہیں کہ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد کسی معاشرے نے اس کو مکمل نافذ کیا ہوتا۔

پاکستانی اہل تشیع کی براہ مہربانی بات نہ فرمائیں کہ یہ نام کے تو اہل تشیع مسلمان ہیں، مگر عملی طور پر خواتین اور خاندان والے اس معاملے میں حضرت عمر ہی کے پیروکار ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ‌عنہ کے نہیں‌ عقل سلیم کہ جو اللہ نے اچھا برا سمجھنے کے لئے دی ہوئی ہے روکتی ہے اس عمل سے۔

کون برداشت کرتا ہے کہ اس کی بہن کرئے دار عورت کہلوائے اور اس کے گھر میں دس بچے ہوں اور دسوں ہی مختلف قوموں اور نسلوں کے ایک افریقی کا ، ایک چائنیز کا ، ایک گورے کا ، ایک عربی کا ، ایک پاکستانی کا ، ایک ایرانی کا ، ایک ملائشین کا اور نہ جانے کیا کیا ؟؟؟

اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں جو عورت کی غیر موجودگی کی وجہ سے غیر فطری عمل (جو کہ مدارس تک میں ہوتا ہے) اس سے بچ سکیں۔

یہ آپکی ذاتی رائے ہو سکتی ہے کوئی منطقی بات نہیں۔۔۔۔۔اللہ سبحان و تعالی قرآن پاک میں قوم لوط کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔

اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کر بھیجا تو اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بے حیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا۔ اعراف آیہ 80

اور جب فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں‌ لوط علیہ السلام کے پاس آئے تو لوط علیہ السلام نے کہا

انہوں نے کہا کہ اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری قوم کی لڑکیاں ہیں ان سے شادی کر لو ۔ الحجر آیہ 71

مگر وہ پھر بھی باز نہ آئے ؟؟

اور پھر اس وقت لواطت سب سے زیادہ مغرب میں‌ ہے کہ جہاں عورت پردے میں نہیں کھلی ہے کیوں‌ ؟؟؟ مردوں‌ کے کلب ؟؟؟ مردوں کی مردوں سے شادیاں ؟؟؟ مردوں کی سرعام پریڈیں ؟؟؟؟ ہوس اورجنس کی تسکین کے لئے نت نئی ایجادات ؟؟؟ اب کیا کیا بیان کیا جائے ؟؟؟؟ اہل دانش کے لئے اشارہ ہی کافی ہے؟؟؟

کہنے کا مقصد ہے کہ اس دھاگے کی بنیاد ہی صحیح‌ نہیں‌ رکھی گئی کہ متعہ رائج نہں تو زنا عام ہے ؟؟؟ جہاں عورت آسانی سےدستیاب ہے وہاں‌ یار لوگوں نے اپنی خباثت نکالنے کے لئے نئے نئے طریقے اور راستے ایجاد کر لئے ہیں ِِِِِِِِ

ضرورت ہے انسان کو انسان بنانے کی اللہ کی پہچان کروانے کی مجھے پتہ ہے کہ میں کوئی ناروا بات لکھوں گا تو موڈریٹر اسے نکال دیں گے یا ضائع کر دیں گے اس لے میں محتاط ہوں اور جس کو اپنے رب سے ملنے کا یقین اور جوابدہی کا خوف ہے وہ کبھی زنا نہیں کرے گا۔

وہ تپتی ریت پر گھسیٹا بھی جائے تو احد احد ہی پکارتا ہے ؟؟؟

وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودتا ہے ؟؟؟

وہ ایک ویران اور نئے ساحل پر جا کر کشتیاں جلا ڈالتا ہے ؟؟؟

وہ سولہ سال کی عمر میں عرب سے ہندوستان آ وارد ہوتا ہے ، توحید کی شمعیں روشن کرتا ہے ؟؟؟ اور آج کا نوجوان اگر سال بھی بقول آپکے اپنے کردار کی حفاظت نہیں کر سکتا تو پھر وہ کس کا وارث ہے ؟؟؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
سلام، رحمت اور برکتیں تمام حاملین محفل پر، میں کل سے لاہور ایک آفیشل ورک کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور جسٹ ابھی پہونچا ہوں، محفل پہ نظر ڈالی تو رہ نہیں سکا۔ اصولاً تو مجھے ابھی جواب دینا چاہیے مگر احباب معذرت چاہوں گا، انشا اللہ کل میں جواب دوں گا اور جواب "لوں" گا بھی ضرور کہ بار بار محترمہ مہوش صاحبہ میرے سوال کو الجھا رہیں ہیں حا لانکہ اگر نیک نیتی کے سا تھ میرے سوال کا اصل جواب دیا جاے تو شاید یہ بحث زلف یار کی طر ع دراز نا ہو مگر ہار ما ننا اور اظہار حق کرنا بڑے دل گردے اور توفیقِ ربی کا کام ہے۔ یار زندہ صحبت باقی،

اللھم صل علی محمد و آ ل محمد و ا صحا ب محمد۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top