ش
شوکت کریم
مہمان
ثبوت حاضر ہے کہ زن متعہ چار میں سے نہیں مطلب ازواج میں سے نہیں ۔
۔ متعہ بھی "نکاح" کی ہی ایک قسم ہے
2۔ ان آزاد خواتین سے نکاح المتعہ کا حکم آیت نمبر 24 میں آ گیا ہے۔
3۔ اسکے بعد پھر آیت 25 میں اللہ فرما رہا ہے کہ اگر تم میں آزاد عورتوں کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں (یعنی نہ تم ان سے نکاح دائمی کر سکتے ہو اور نہ نکاح المتعہ) تو پھر تم کنیز عورتوں سے اپنی خواہش پوری کر سکتے ہو۔
4۔ چنانچہ یہ صبر کا حکم کنیز باندیوں کے ساتھ مباشرت اور نکاح (جو بذات خود عارضی تعلق ہے) سے مخصوص ہے نہ کہ آزاد عورت سے نکاح دائمی یا نکاح المتعہ کے ساتھ، اور یہی وہ واحد وجہ نظر آتی ہے جسکی وجہ سے رسول اللہ ص نے صحابہ کو صبر کرنے کی بجائے حکم دے کر عقد المتعہ کروایا۔
نقوی بھائی صاحب،محترمہ شا ید آپ میرا سوال سمھجی نہیں یا سمجھ کر الجھا دیا، مییں اس صحابی کو سچا مان لیتا ہون لیکین میری عرض تو اتنی سی ہے کہ جب بہ حدیث "حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہے" تو علی نے عمر کے احکامات اور روأج کو جھٹلا ہا کیو ں نہیں؟ اور اس "متضادِ شریعت" حکم کو رد کیوں نہیں کیا؟
بقول آپ کے آج کل معاشرے میں زنا کا چلن عام ہے اور اسکی وجہ متعہ کی پابندی ہونا ہے ؟؟؟
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ و امریکہ میں جہاں کنٹریکٹ میرج وقتی طور پر اسے متعہ کی دوسری شکل سمجھ لیں عام ہے مگر کیا وہاں کوئی زنا نہیں ہوتا ؟؟؟؟ حیرانگی کی بات ہے ان معاشروں میں زنا سب سے زیادہ ہے اور پھر زنا کے بھی درجات زنا بالجبر ، اجتماعی زنا، اور نہ جانے کیا تفصیل اہل دل خوب جانتے ہیں ؟؟؟
از شوکت کریم:
یہ مسئلے کا حل نہیں اور حل ہے تو خوف آخرت ، جوابدہی کا خوف ۔۔۔۔۔
اور فرض کریں ایک 18 سال کا لڑکا پڑھنے کے لئے امریکہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فرض کریں اسے اپنے مقصد حقیقی کا بھی علم نہیں کہ وہ وہاں پانچ سال کے لئے حصول علم کے لئے گیا ہے اور عیاشی کے لئے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ متعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ وہاں کنواری سے تو متعہ کر سکتا نہیں کہ مکروہ ہے اور کون عقل کا اندھا اپنی باکرہ بیٹی ، بہن کو کسی کی وقتی جنسی تسکین کے لئے دے کر ساری عمر کا روگ پالے گا۔
لا محالہ اسے مطلقہ بیوہ ڈھونڈنی پڑے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ظاہر ہے وہ عمر میں اس سے بہت بڑی ہو گی اور تجربے میں بھی اور عرصہ پانچ سال میں وہ وقفے وقفے سے متعہ کرتا ہے تو نوجوان تعلیم تو کیا حاصل کرے گا نئے نئے روگ ساتھ لگا کر عقد دائمی سے بھی رہ جائے گا۔
اس عرصے کے دوران طبی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو اس کا حشر کیا ہوگا۔ اور روحانی طور پر تو چھوڑیں۔
اور یقین رکھیں ما شا اللہ محفل میں موجود سب اراکین اعلٰی پڑھے لکھے ہیں اور یہ بات مشاہدے کی ہے کہ اعلٰی تعلیم وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جنکے ذہن پر صرف تعلیم ہی سوار ہوتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں جن لوگوں کے ذہنوں میں اعلیٰ و ارفع مقاصد ہوتے ہیں وہ ان چھوٹی موٹی چیزوں پر توجہ نہیںدیتے اور نہ ہی کسی قسم کی ترغیب ان کو انکے مقاصد سے ہٹا سکتی ہے۔
پہلی بات نوٹ کریں کہ اسلامی احکامات کسی ماڈل کے تابع نہیں ہیں۔اور آپ نے ابھی تک وہ ماڈل بتایا نہیں کہ جہاں متعہ رائج تھا یا ہے اور وہاں امن ہی امن ہے۔
Need, sadness, and regret filled her eyes. The pungency of soaking sweat, from hours of waiting under the hot sun, surrounded her. In the busy months of summer, when men travel to Qom from other cities for prayer and fun, Mehri might take a temporary husband three times a day. "Locals don't pay much," she said. "Outsiders are better customers."
And where are these marriages consummated? "If they have a home, they take me there," she said. "If they don't, it's to the New Cemetery." A cloud of dust and wind churns through the ancient, forgotten New Cemetery, several kilometers from Qom. No one comes to this remote, silent cemetery to visit the dead. The only visitors are women with temporary "husbands" in tow.
The women come furtively, believing this life is still more honorable than begging in the streets. They make what passes for a living, fulfilling their own monetary needs and those of their children and other loved ones, away from the prying eyes of neighbors. None believes in selling her body, and unlike prostitutes in other parts of the world who try to attract customers by baring more of themselves, these women clutch their chadors more and more tightly from shame and humiliation. At least in the cemetery, they feel secure. "The home of the dead is a safe place to be," they say.
ایرانی معاشرے میں عقد المتعہ رائج تھا، مگر پھر شاہ ایران آ گیا جو کہ مغرب سے متاثر تھا۔ اسی دور میں ایرانی خواتین و معاشرہ مکمل طور پر عقد المتعہ کے خلاف ہو گیا اور اسے زنا قرار دینے لگا۔ مگر ان لوگوں کو عقل نہ آئی کہ عقد المتعہ بند ہوتے ہی ایران میں زناکاری ایسی پھیلی کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو صرف تہران میں کئی ہزار رجسٹرد طوائفیں تھیں اور معاشرے میں زناکاری بیسیوں گنا زیادہ پھیل چکی تھی۔
پھر ایرانی علماء نے کوشش شروع کی اس زناکاری کو روکنے کے لیے پھر سے عقد المتعہ کو رواج دیا جائے۔ مگر افسوس کہ ایرانی خواتین اسکے ایسے ہی سخت خلاف تھیں جیسا کہ پاکستان میں خواتین اپنے شوہروں کو دوسری شادی کی اجازت دینے کے اور ان دونوں چیزوں کو حلال ہونے کے باوجود بری نظروں سے دیکھا جاتا رہا۔
لیکن کہتے ہیں نا کہ Slow and Steady wins the race۔ جنگ ہوئی، اور ایرانی معاشرے میں لاکھوں بیوہ عورتیں موجود تھیں اور پھر معاشرے میں زناکاری بڑھتی ہی چلی گئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ ایرانی خواتین کی آرگنائزیشنز جو پہلے عقد المتعہ کے خلاف تھیں، وہی آرگنائزیشنز پھر عقد المتعہ کی آج ترغیب دے رہی ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ انہیں احساس ہو گیا کہ یہ انہی کے باپ، بھائی و بیٹے ہیں جو عقد المتعہ کی غیر موجودگی میں طوائفوں کے ساتھ زنا کر رہے ہیں۔
اب آہستہ آہستہ ایرانی معاشرے میں عقد المتعہ کے پازیٹیو نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں، خواتین کی مخالفت کم ہو رہی ہے اور بہت سے لوگوں کی کہانیاں سامنے آئی ہیں کہ وہ پہلے چھپ کر زناکاری کرتے تھے، مگر اب وہ معاشرے میں ذرا کھل کر عقد المتعہ کیے ہوئے ہیں اور اس لیے انہیں زنا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت سی خواتین جو پہلے حالات سے مجبور ہو کر زناکاری کیا کرتی تھی، انکا بیان ہے کہ اب وہ کوشش کرتی ہیں کہ کوئی انکے ساتھ صیغہ پڑھ کر انہیں عزت کے ساتھ معاشرے میں رکھے، اور ان میں سے اکثر یوں اپنی پرانی گناہ کی زندگی سے نکل آئیں۔ ۔
کیا یہی ہیںنکاحالمتعہ کی برکات ؟
ہفتہ میںتین تین شوہر؟
معاف کیجئے گا شائد مجھ پر پروپیگنڈے کا اثر ہو رہا ہے۔
پروپیگنڈے کا ربط
اوپر الکافی سے ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے کہ زن متعہ چار میں سے نہیں ، ازواج میں سے نہیں بلکہ ایک کرایہ دار عورت ہے۔ تو پھر متعہ کو نکاح کی ایک قسم بھی نہیں کہا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔آپ کوئی آیت ایسی پیش نہیں کر سکیں کہ جس سے ثابت ہو کہ متعہ بھی نکاح کی ایک قسم ہے اور نہ اس کے احکامات قرآن سے ثابت کر سکیں۔
اس سلسلے میں جو حدیثیں بیان کی گئیں وہ مخصوص مواقع پر رخصت فراہم کرتی نظر آتی ہیں جو بذات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ سورۃ النسا کی آیت 24 سے کسی صحابی نے متعہ کے لئے حکم الٰہی مراد نہیںلیا اگر لیا ہوتا تو صحابہ کو پوچھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔
مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں یہاں تھوڑی وضاحت کر دوں تاکہ یہ غلط فہمی دور ہو۔
1۔ عقد متعہ میں نکاح والی تمام تر شرائط موجود ہیں، سوائے مقررہ وقت پر طلاق ہو جانے کے، جیسا کہ اوپر تمام دلائل پیش کیے گئے ہیں۔
2۔ عقد متعہ کو اوائل اسلام میں "نکاح المتعہ" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بذات خود صحابہ و صحابیات اسے "نکاح المتعہ" کے نام سے جانتے تھے۔
3۔ امام مسلم نے متعہ پر جو باب باندھا ہے، اسکا عنوان میں ہی اسے "نکاح المتعہ" کے نام سے متعارف کروایا ہے۔
4۔ تفاسیر القرآن (قرطبی، طبری، ابن کثیر) کسی کو آپ کھول کر پڑھ لیں، ہر جگہ آپ کو یہ مفسرین "نکاح المتعہ" استعمال کرتے نظر آئیں گے (بنا اللہ سے کسی توبہ طلب کرتے ہوئے)
مثلا تفسیر طبری:
7180 - حدثني محمد بن عمرو , قال : ثنا أبو عاصم , عن عيسى , عن ابن أبي نجيح , عن مجاهد : { فما استمتعتم به منهن } قال : يعني نكاح المتعة.
اور یہ روایت:
امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی فلاں فلاں رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر فلاں فلاں اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت (شقی القلب) ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]
اور امام مسلم نے یہ روایت نقل کی ہے:
صحیح مسلم [آنلائن لنک]
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني حدثنا أبي ووكيع وابن بشر عن إسمعيل عن قيس قال سمعت عبد الله يقولا
كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس لنا نساء فقلنا ألا نستخصي فنهانا عن ذلك ثم رخص لنا أن ننكح المرأة بالثوب إلى أجل ثم قرأ عبد الله
5۔ اور اہم بات یہ کہ خیبر والی جو روایت متعہ کو حرام قرار دے رہی ہے، وہ اتفاقا بذات خود اسکے لیے "نکاح المتعہ" کے الفاظ استعمال کر رہی ہے۔
صحیح مسلم آنلائن لنک:
أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن نكاح المتعة يوم خيبر وعن لحوم الحمر الأهلية
اختلاف رائے اپنی جگہ، مگر امید ہے کہ آپ ان گذارشات پر غور فرمائیں گے اور اگر ہم اسے نکاح کی شکل مانتے ہیں تو آپ ہمیں اسکا حق دیں گے۔ والسلام۔
نہیں، اس چیز کا نکاح المتعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس فرق کو سمجھیے:
1۔ عقد المتعہ میں عورت کو دو حیض (کم از کم 45 دن) کی عدت رکھ کر پاک ہونا ہے قبل اسکے کہ وہ کسی اور سے نکاح یا متعہ کر سکے۔
2۔ اور عقد المتعہ وہی کرے گا جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو گا، ورنہ جنہیں اللہ کا ڈر نہیں وہ جا کر سیدھا سیدھا زناکاری کرے گا /کرے گی۔ چنانچہ جب کہیں بھی آپ ایسی چیزیں سنیں تو جان رکھئیے کہ اسکا نکاح المتعہ سے ہرگز کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہ بدبخت شقی القلب ہیں جن کے متعلق علی ابن ابی طالب نے فرما دیا تھا کہ انہیں زناکاری سے کوئی نہ روک پائے گا۔
متعہ پر یہ خبر کافی عرصہ پہلے بی بی سی اردو پر پڑھی تھی۔ یہ صرف ایک عکس ہے جبکہ حالات اس سے بھی سنگین ہونگے۔ ماشاءاللہ ایران میں معقول تعداد میں ایسے بچے ہونگے اب جن کے اباؤں کا کسی کو پتا نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر شہلا حائری ایک ایرانی ہیں اور ان کا تحقیقی مقالہ پڑھنے کے لائق ہے۔
متعہ کے اتنے فوائد ہیں لیکن حیرت ہے کہ بدقسمت مسلمان متعہ کو صحیح طرح سے استعمال نہیں کرپائے۔ ورنہ آج ہر اسلامی ملک میں ریڈ لائٹ ایریاز کی بجائے "گرین لائٹ ایریاز" ہوتے۔ اور باحجاب سیکس ورکرز ہر وقت آپ کی روح کی تسکین کے لیے دستیاب رہتیں۔ دلّوں نے داڑھی رکھی ہوتی اور ہاتھ میں رجسٹر پکڑے ہوتے۔ بلکہ ہوٹلوں میں ایک رات کے نکاح کی سہولت موجود ہوتی۔ جائیں، کمرا لیں اور ساتھ ہی نکاح نامے پر بھی سائن کردیں لیں بستر گرم کرنے کے لیے ساتھی بھی دستیاب ہے۔ بیوی بچوں کو کون پاغل دا پُتر یاد کرے۔ جس شہر میں ہم اس شہر کی عورت ہماری بیوی۔ اور ہاں ہم خرما و ہم ثواب۔ "مزے" بھی لیں اور 'درجات" بھی بلند کروائیں۔ سبحان اللہ
تُف ہے شاکر تم پر تم قرآن کی آیات میں چھپے ہوئے مطالب کو نہ سمجھ سکے۔ اب بھی ایام جاہلیت کی باتیں کرتے ہو۔ جب مزے لینے کے ایک "اسلامی" صورت موجود ہے تب بھی تم شادی کا انتظار کرتے ہو اور اپنے آپ پر جبر کرتے ہو۔ لعنت ہے تمہاری مسلمانیت پر۔
آپکے اس اعتراض کا جواب تو بہت پہلے دیا جا چکا ہے، مگر مجھے پہلے ہی پتا تھا ہمارے دلائل اتنی آسانی سے آپکی آنکھوں میں آنے والے نہیں اور
ان پر سے آپکی نظریں پھسلتی ہی چلیں جائیں گی۔
دیکھئیے محترم بھائی صاحب،
یہ بہت زیادتی والی بات ہے کہ آپ اسلامی نکاح المتعہ کو ایسے بنا کر پیش کر رہے ہیں جیسا کہ مغربی معاشرے کے کفار وہ تمام شرائط پوری کرتے ہوئے نکاح المتعہ کرتے ہیں جو کہ اسلام نے عقد المتعہ کے لیے رکھی ہیں جیسا کہ عدت سے پاک ہونا، بچوں کا نسب اور ذمہ داری قبول کرنا وغیرہ اور یہ سب کچھ صرف خوف خدا کی خاطر کرنا۔
محترم بھائی صاحب، آپ نص کو چھوڑ کر اپنی عقل استعمال کرتے رہیں، مگر یقین رکھئیے آپ ٹھوکر کھاتے رہیں گے۔
خوف تھا اسی لئے تو پوچھا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کے اے اللہ کے نبی اب ہم ایمان لے آئے ہیں اب ہمارے لئے کوئی گنجائش نہیں کہ ہم اپنے تقضاے کو پلے کی طرح پورا کریں لہذا کیوں نہ خصی کروا لیں۔ اور شائد اسی لئے اللہ کے نبی نے انہیں رخصت دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نہ کہا کہ اب متعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حلال ہے ؟؟؟ذرا بتلائیے کہ کیا صحابہ کو آخرت کا خوف نہ تھا؟۔۔۔۔۔ کیا اُنہیں جوابدہی کرنے کا خوف نہ تھا۔۔۔۔۔۔
چنانچہ آپ اپنے معاشرے کے عفیف و پاکدامن ہونے کے متعلق بڑے بڑے دعوے کر سکتے ہیں، مگر قرآن کی گواہی کو چھوڑ کر آپکے ان عقلی دعووں کے پیچھے کون جا سکتا ہے؟
ماڈل اُس وقت بنیں گے جب لوگ عقد المتعہ کو سمجھ کر اس پر اس نیت سے عمل کریں گے کہ خود کو گناہ سے بچانا ہے۔ اسکا رول ماڈل میری اپنی آنکھوں کے سامنے تیرہ چودہ کیسز گذرے ہیں جہاں ان عربی شیعہ حضرات نے عقد المتعہ سے نکاح دائمی میں اسے تبدیل کر لیا اور انہیں کبھی گناہ میں پڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
پاکستانی اہل تشیع کی براہ مہربانی بات نہ فرمائیں کہ یہ نام کے تو اہل تشیع مسلمان ہیں، مگر عملی طور پر خواتین اور خاندان والے اس معاملے میں حضرت عمر ہی کے پیروکار ہیں۔
اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں جو عورت کی غیر موجودگی کی وجہ سے غیر فطری عمل (جو کہ مدارس تک میں ہوتا ہے) اس سے بچ سکیں۔