بہنا غصہ تو نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا سفید الزام تو نہ لگائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آپکی فیورٹ ویب سائٹ کا لنک دے رہا ہوں ملاحظہ کر لیجئے
یہ ایک اور لنک بھی
ملاحظہ کر لیجئے
اور یہ عربی متن حاضر ہے۔
و حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا جرير عن فضيل عن زبيد عن إبراهيم التيمي عن أبيه قال
قال أبو ذر رضي الله عنه لا تصلح المتعتان إلا لنا خاصة يعني متعة النساء ومتعة الحج
میرے بھائی غصے کی بات نہیں ہے کیونکہ آپ نے کوتاہی کی تھی اور حوالہ بالکل نامکمل دیا تھا۔
اور پھر بات وہی کہ میں نے جو دلیل دی تھی اُس پر سے پھر نظر پھسل گئی کہ یہ جھوٹی روایت ہے کیونکہ آپکی انہی بخاری و مسلم کی کتابوں میں روایات کا کثیر مجموعہ ہے جو بیان کر رہا ہے کہ رسول اللہ ص نے کبھی متعہ الحج سے منع نہ کیا اور اسکے بعد لوگ (صحابی اور تابعین) حضرت ابو بکر کی پوری خلافت میں متعہ الحج کرتے رہے اور پھر حضرت عمر کے دور میں بھی یہاں تک کہ حضرت عمر کو کسی وجہ سے بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے متعہ الحج سے بھی منع کر دیا (آپکی یہ "صحیح" روایت میں پہلے تفصیل سے نقل کر چکی ہوں مگر پھر میں نظریں پھسلنے پر احتجاج کروں تو آپ کو برا ماننے کی بجائے اپنے طریقے پر نظر ثانی کرنی چاہیے)۔
بلکہ اوپر میں نے ایک صحیح روایت نہیں، بلکہ بہت سی روایات اس ضمن میں نقل کی ہیں، مگر آپ نے اپنی ہی ان سب صحیح روایات کو اس وقت ٹھکرانا ہے کیونکہ وہ اس جھوٹی روایت کا قصہ تمام کر رہی ہیں۔
اس لیے کہا جاتا ہے کہ غلط کام کرنے کے لیے بھی "عقل" کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جس بے وقوف نے بھی یہ جھوٹی روایت گھڑی، اسکا مقصد تھا کہ حضرت عمر پر متعہ النساء اور متعہ الحج کے حوالے سے تبدیلیاں کرنے کا الزام ہے، اس جھوٹی روایت کی مدد سے اسکا سدباب کر دے۔ تو انسان چال چلتا ہے مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے اور وہ ایسی جھوٹی چالیں خود ان پر لوٹا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
تو کیا کریں گے آپ کہ یہ روایت ایسی نچلی سطح کی ہے کہ آپ کے 100 فیصد پچھلے 1400 سال کے سلف و خلف علماء اس روایت کی مخالفت میں اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ متعہ الحج کی اجازت پوری امت کو تاقیامت تک حاصل ہے۔
بلکہ ٹہریں، میں نے پہلے عمران بن حصین کی بخاری والی روایت نقل کی تھی جس میں وہ گواہی دے رہے تھے کہ متعہ والی روایت قرآن میں نازل ہوئی اور پھر کبھی وہ منسوخ نہ ہوئی اور ہم مسلسل متعہ کرتے رہے حتی کہ ایک شخص (جس کا وہ کھل کر نام بھی نہیں لینا چاہ رہے یا لے سکتے) اُس نے اپنی مرضی سے جو کچھ چاہا وہ کہا۔
اب ایک روایت (صحیح روایت) اور سنتے جائیں اس متعہ الحج کے متعلق:
صحیح مسلم، کتاب الحج، جواز التمتع:
Mutarrif reported:
'Imran b. Husain sent for me during his illness of which he died, and said: I am narrating to you some ahadith which may benefit you after me. If I live you conceal (the fact that these have been transmitted by me), and if I die, then you narrate them if you like (and these are): I am blessed, and bear in mind that the Messenger of Allah combined Hajj and Umra. Then no verse was revealed in regard to it in the Book of Allah (which abrogated it) and the Apostle of Allah did not forbid (from doing it). And whatever a person (whose name is not mentioned) said was out of his personal opinion.
اب غور سے دیکھئیے اور نظریں پھر نہ پھسلا دیجئے گا:
1
۔ کہاں ہیں جو ہمیں مسلسل تقیہ کا طعنہ دے رہے تھے؟ آ کر ذرا بتلائیں تو اب کہ وہ کون سا ڈر ہے کہ یہ صحابی حلال اللہ کی ممانعت ہوتے دیکھتا ہے اور تلوار اٹھا کر کشت و خون شروع نہیں کر دیتا؟
امام مسلم بھی اس روایت کو "متعہ الحج" کے تحت لے آئے ہیں، مگر پھر بھی لگتا یہی ہے کہ یہ روایت صحابی عمران بن حصین نے متعہ الحج کے لیے نہیں بلکہ متعہ النساء کے لیے بیان کی ہے کیونکہ یہ متعہ النساء تھا کہ جس کے متعلق حضرت عمر نے سیدھا سیدھا سنگسار کرنے کی دھمکی دی تھی، چنانچہ یہ خوف کا عالم متعہ النساء میں موجود تھا۔
جابر بن عبداللہ انصاری والی روایت (بلکہ روایتیں)
اور جابر بن عبداللہ کے لیے آپ نے عذر پیش کیا ہے:
اس سے اگلے الفاظ بھی نقل کریں نان کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع کیا اور ہم رک گئے ۔
بلا کسی حیل و حجت ؟؟؟؟
ہاں رک گئے۔ تو اس کی وجہ اوپر عمران بن حصین کی روایت میں دیکھ لیں کہ کیوں رک گئے۔
بلکہ دیگر اُن تمام روایتوں میں دیکھ لیں جہاں حضرت عمر دھمکی دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ص کے دور میں دو متعے جاری تھے اور وہ ان کی ممانعت کرتے ہیں اور اگر عقد المتعہ کی صورت میں وہ سنگسار کر دیں گے۔
جابر بن عبداللہ انصاری خیبر میں اگر موجود نہیں تھے تو کہ 64 ہجری میں ابن عباس اور ابن زبیر کے اس جھگڑے میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی خیبر سے "لاعلم" تھے؟ بلکہ خیبر کیا، وہ سرے سے کسی بھی حرمت سے بے خبر ہیں اور سیدھا سادھا طریقے سے کہہ رہے ہیں کہ حضرت عمر ہیں جنہوں نے عقد المتعہ کی ممانعت کی ورنہ اس سے قبل ہم مسلسل رسول اللہ ص، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں عقد المتعہ کرتے رہے۔
****************
اور شمس الدین پیر زادہ صاحب محترم سہی، مگر بہرحال وہ جب غلط بات کریں گے تو بہرحال ان پر تنقید کی جا سکتی ہے۔
شمس الدین پیر زادہ صاحب نے پھر مکمل طور پر جان بوجھ کر اس وہ بات کی ہے کہ جس پر علما مسلسل طور پر تنقید کرتے آئے ہیں کہ ایسے لوگ فن حدیث کو "استعمال" کرنے کی بجائے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اسکا "غلط استعمال" کرتے ہیں۔
شمس الدین پیر زادہ صاحب نے فقط ایک کسی آدمی کی رائے کسی راوی کے متعلق بیان کر کے "جرح" کر دی، مگر جو دیگر بہت سے لوگوں نے تعدیل کی ہے اور ثقاہت کی گواہی دی ہے اسے بالکل سرے سے گول کر گئے۔ اگر اسی اصول پر چلنا ہے تو ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جنہوں نے خود امام بخاری پر ایسی تنقید کی ہوئی ہے اور امام ابو حنیفہ کو تو پتا نہیں کیا کچھ کہا ہے، تو کیا اس بنیاد پر خود امام بخاری اور امام ابو حنیفہ کو جھٹلا دیا جائے؟؟؟
چنانچہ شمس الدین پیر زادہ صاحب اگر "جرح" کو چاہیے تھا کہ یوں دھوکا نہ دیتے اور یکطرفہ "جرح" کے ساتھ ساتھ مکمل "تعدیل" بھی بیان فرما دیتے۔
مثلا شمس الدین پیر زادہ صاحب لکھتے ہیں:
بخاری اور مسلم دونوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات کے موقع پر انہیں متعہ کی اجازت دی تھی۔ یہ روایت قیس بن ابی حازم سے ہے اور قیس بن ابی حازم کے بارے میں ابن المدینی کہتے ہیں کہ مجھ سے یحے یٰ بن سعید نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے ۔(تہذیب التہذیب ج ۸ ص ۳۸۸)
انتہا کر دی شمس الدین پیرزادہ صاحب نے۔ یہ امام ابن حجر العسقلانی کی تہذیب التہذیب کا حوالہ دے رہے ہیں، حالانکہ امام ابن حجر العسقلانی نے نے شمس الدین پیرزادہ صاحب کی طرح صرف جرح نہیں کی ہے بلکہ اس ایک جرح کے مقابلے میں کئی قول ہیں کہ قیس بن ابی حازم انتہائی ثقہ ہیں۔
شمس الدین پیرزادہ صاحب جان بوجھ کر امام ابن حجر العسقلانی کا قیس ابی ابن حازم کے متعلق Final Verdict ہضم کر گئے ہیں کیونکہ یہ سرے سے انکے مقصد کو پورا نہیں کرتا۔ امام ابن حجر العسقلانی کا یہ Final Verdict انکی کتاب "تقریب التہذیب" کی صورت موجود ہے جہاں وہ کہتے ہیں:
[FONT=times new roman(arabic)]
5566- قيس ابن أبي حازم البجلي أبو عبد الله الكوفي ثقة من الثانية مخضرم ويقال له رؤية وهو الذي يقال إنه اجتمع له أن يروي عن العشرة مات بعد التسعين أو قبلها وقد جاز المائة وتغير ع (آنلائن لنک: تقریب التہذیب از ابن حجر العسقلانی)
[/FONT]
قیس ابن ابی حازم نے جن صحابہ و تابعین سے روایات نقل کی ہیں، وہ یہ ہیں:
روى عن أبي بكر ، وعمر ، وعثمان ، وعلي ، وعمار ، وابن مسعود ، وخالد ، والزبير ، وخباب ، وحذيفة ، ومعاذ ، وطلحة ، وسعد ، وسعيد بن زيد ، وعائشة ، وأبي موسى ، وعمرو ، ومعاوية ، والمغيرة ، وبلال ، وجرير ، وعدي بن عميرة ، وعقبة بن عامر ، وأبي مسعود عقبة بن عمرو ، وخلق . وعنه : أبو إسحاق السبيعي ، والمغيرة بن شبيل وبيان بن بشر ، وإسماعيل بن أبي خالد ، وسليمان الأعمش ، ومجالد بن سعيد ، وعمر بن أبي زائدة ، والحكم بن عتيبة ، وأبو حريز عبد الله بن حسين قاضي سجستان - إن صح - وعيسى بن المسيب البجلي ، والمسيب بن رافع ، وآخرون .
قیس کے متعلق امام الذہبی لکھتے ہیں:
العالم الثقة الحافظ
اور اسمعیل بن ابی خالد کہتے ہیں یہ ثقہ ثابت ہیں:
إسماعيل بن أبي خالد ، وكان ثقة ثبتا وبيان بن بشر ، وكان ثقة ثبتا - وذكر جماعة .
یحیی بن معین کہتے ہیں:
وروى معاوية بن صالح عن يحيى بن معين قال : قيس بن أبي حازم أوثق من الزهري ، ومن السائب بن يزيد .
مزید احمد بن ابی خثیمہ پھر بیان کرتے ہیں یحیی بن معین سے:
وروى أحمد بن أبي خيثمة ، عن ابن معين : ثقة . وكذا وثقه غير واحد .
وقال أبو سعيد الأشج : سمعت أبا خالد الأحمر يقول لابن نمير : يا أبا هشام أما تذكر إسماعيل بن أبي خالد وهو يقول : حدثنا قيس بن أبي حازم ، [ ص: 201 ] هذه الأسطوانة - يعني أنه في الثقة مثل هذه الأسطوانة .
اور آئیے اب آتے ان پر کی گئی جرح کی حقیقت پر۔ اس ذیل میں فقط ایک قول نقل ہوا ہے یحیی ابن سعید کا، جو کہ لکھتے ہیں:
وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب .
یعنی یحیی ابن سعید کہہ رہے کہ یہ منکر حدیث ہیں کیونکہ انہوں "کلاب الحواب" (حواب کے کتوں) والی روایت نقل کی ہے۔ یہ ایسی عجیب و غریب منطق ہے کیونکہ اس "کلاب الحواب" والی روایت کو امام احمد بن حنبل نے دو طریقوں سے نقل کیا ہے، اور یہی روایت صحیح ابن حبان، امام حاکم کی مستدرک نیز تاریخ کی بہت سی کتب میں نقل ہوئی ہے اور یہ صحیح روایت ہے۔ دیکھئے
www.ansar.org پر اس کلاب الحواب والی حدیث کی تحقیق۔
***********************
جابر بن عبداللہ انصاری والی روایت (بلکہ روایتوں) کو کمزور کرنے کی کوشش
اور شمس الدین پیرزادہ صاحب نے جابر بن عبداللہ انصاری والی روایت (بلکہ روایتوں) کو کمزور کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ (گستاخی معاف) احمقانہ ہے۔
از شمس الدین پیر زادہ:
ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا ( مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ مجھے فلاح شخص نے خبردی یا میں نے اس سے سنا تو تمہارے ( اعتماد) کے لیے یہ کافی ہے اور اضحاقی نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل ( رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے ) ہیں اور دار قطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے بچو اور یحے یٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ( تہذیب التہذیب ج ۶ص ۴۰۲تا ۴۰۶)
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ابن جریج کے پیچھے کیوں پڑ گئے، کیونکہ انہیں جابر بن عبداللہ انصاری کی اس مکمل روایت کو کمزور ثابت کرنا چاہیے تھا، مگر وہ اسکے ایک حصے ابن جریج کو لے کر بیٹھ گئے۔
چنانچہ اول تو ابن جریج کو حافظ العسقلانی نے اپنے فائنل فیصلے (ُیعنی تقریب التہذیب) میں جرح و تعدیل کی مکمل روشنی میں ثقہ کہا ہے، اور صحیح مسلم کی اس روایت میں ابن جریج "فلاں فلاں" کا استعمال نہیں کر رہے لہذا انکی اس روایت پر تدلیس کا الزام بھی کسی صورت نہیں لگ سکتا کیونکہ یہاں باقاعدہ یہ نام لے کر بات بیان کر رہے ہیں۔
اور دوم یہ کہ جابر بن عبداللہ انصاری کی یہ روایت ایک ابن جریج ہی نہیں، بلکہ کئی راویوں سے نقل ہوئی ہے اور یہ ناممکن ہے ان سب کی موجودگی میں ان میں سے کسی ایک کو پکڑ کر علیحدہ کر کے اس پر ایسی طبع آزمائیاں کی جائیں۔
جابر بن عبداللہ انصاری کی یہ روایات میں پہلے نقل کر چکی ہوں:
حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے :
"ابن عباس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم متعہ کریں۔ جبکہ ابن زبیر نے اس سے منع کرتے تھے۔ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: " یہ میں ہی ہوں جس نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ہم نے رسول (ص) کے زمانے میں متعہ کیا۔ اور جب عمر ابن خطاب خلیفہ بنے، تو انہوں نے کہا: "بیشک اللہ نے اپنے رسول (ص) پر ہر وہ چیز حلال کی جو اس نے چاہی اور جیسے اس نے چاہی، جیسا کہ اس نے اسکا حکم قران میں نازل کیا۔ پس اللہ کے لیے حج اور عمرہ ادا کرو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ان عورتوں کے ساتھ (جن سے تم نے متعہ کیا ہوا ہے) شادیاں پکی کرو (نکاح کر کے)۔ اور اگر اب کوئی ایسا شخص میرے پاس آتا ہے جس نے متعہ کر رکھا ہے، تو میں اسے سنگسار کر دوں گا۔
حوالہ: صحیح مسلم، عربی ایڈیشن، جلد 2، صفحہ 885، حدیث 145، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے:
ہم رسول (ص) اور ابو بکر کی زندگی میں مٹھی بھر کھجور یا آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ عمر ابن خطاب نے امر ابن حریث کے واقعہ کے بعد یہ متعہ ممنوع کر دیا۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 16، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔
عطا کہتے ہیں:
جابر بن عبد اللہ انصاری عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے تو ہم ان سے ملنے ان کی رہائشگاہ پر گئے۔ اور لوگوں نے ان سے مختلف چیزوں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا، اور انہی سوالات میں ایک سوال متعہ کے متعلق بھی تھا۔ اس پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے فرمایا: "ہاں، ہم رسول (ص)، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں متعہ کیا کرتے تھے۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 15، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ۔
قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ شمس الدین پیر زادہ صاحب ان دو دیگر روایات کو نظر انداز کر کے صرف ابن جریج والی روایت پر طبع آزمائی اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ان روایات کو کسی طرح ضعیف ثابت کر دیں جو کہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔