نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
آپکی کتابوں میں خیبر و علی و ابن عباس والی ایک ہی روایت آخری ایک دو روایوں کے فرق سے "تکرار" کی صورت میں روایت کی گئی ہے۔ اگر اس تکرار کو ہٹا دیا جائے تو یہ خیبر، علی و ابن عباس کی فقط ایک ہی روایت ہے۔ چنانچہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کتنے درجنوں کتب میں کتنی درجن مرتبہ یہ نقل ہوئی ہے۔

فرق تو بہت پڑتا ہے کہ دونوں مکتبہ فکر کے بے شمار علما چھان پھٹک کر روایت کو اس قابل جانا کہ اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
جابر بن عبداللہ انصاری بھی صاف صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ کے دور میں اور پھر حضرت ابو بکر کے دور میں اور پھر حضرت عمر کی خلافت میں مستقل عقد المتعہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر نے عقد المتعہ سے منع کر دیا

اس سے اگلے الفاظ بھی نقل کریں نان کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع کیا اور ہم رک گئے ۔

بلا کسی حیل و حجت ؟؟؟؟

ایک تو یہ نکاح موقت کا ذکر ہے جو کہ آپ کے پیش کردہ متعہ سے کچھ مختلف ہے دوسرے حضرت جابر بن عبداللہ غزوہ خیبر میں موجود نہیں تھے ۔۔ اسی لیے آپ کو نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا جلد پتا نہ چلا کہ یہ نکاح موقت بھی قیامت تک کہ لیے حرام ہو چکا ہے آپ یہی سمجھتے رہے کہ نکاح موقت کی اجازت ہے ۔ اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ اس وقت کا حال بیان فرما رہے تھے جب آپ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے اور سائل کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اس وقت یہ ممنوع نہ تھا حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں حضور اکرم کے اس ارشاد کو کہ متعہ حرام ہے بلکل عام کر دیا تھا ۔ تاکہ اگر کسی شخص کو ممانعت کا علم نہ ہو اسے بھی خبر ہو جاے کہ اب نکاح موقت کی اجازت نہیں رہی ۔
امام حازیؒ نے حضرت جابر بن عبداللہ سے ایک روایت نقل کہ ہے ۔
نھی ع المعتۃ فتواہ یومیذ النساء ولم نود ولا نعود الیھا لبداً
متعہ سے منع فرمادیا تو اس دن عورتوں کو چھوڑ دیا اور پھر ایسا نہیں کیا اور نہ آیندہ ایسا کریں گے ۔
اسکے علاہ حضرت جابر ہی سے ممانعت متعہ کی روایات موجود ہیں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی تحریر فرماتے ہیں
والا جابر جملۃ من روی فی تحر یمھا وحدیثہ حسن یحتج بہ
(فتح الملہم جلد 3 صفحہ 442)۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اصل پيغام ارسال کردہ از: شوکت کریم پيغام ديکھيے
حرمت متعہ :
قتیبہ بن سعید، جریر، فضیل، زبید، ابراہیم تیمی، حضرت ابراہیم تیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دو متعے کسی کے لئے درست نہیں صرف ہمارے لئے ہی مخصوص تھے یعنی عورتوں سے متعہ اور دوسرا متعہ حج (صحیح مسلم جلد دوم)
بھائی، ایک دو غلطی کریں تو کوئی مسئلہ نہیں، مگر آپ تو بالکل ہی ہتھے سے اکھڑ گئے ہیں۔
آپ جو یہ روایت بیان کر رہے ہیں وہ کسی کتاب میں موجود نہیں۔

بہنا غصہ تو نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا سفید الزام تو نہ لگائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپکی فیورٹ‌ ویب سائٹ‌ کا لنک دے رہا ہوں ملاحظہ کر لیجئے

یہ ایک اور لنک بھی ملاحظہ کر لیجئے

اور یہ عربی متن حاضر ہے۔

و حدثنا ‏ ‏قتيبة بن سعيد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏جرير ‏ ‏عن ‏ ‏فضيل ‏ ‏عن ‏ ‏زبيد ‏ ‏عن ‏ ‏إبراهيم التيمي ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏قال ‏
قال ‏ ‏أبو ذر ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏لا تصلح المتعتان إلا لنا خاصة ‏ ‏ يعني ‏ ‏ متعة النساء ‏ ‏ ومتعة الحج
 

S. H. Naqvi

محفلین
گریٹ شوکت صاحب ویل ڈن کیپ اٹ اپ۔ تاریخ کے اس ہیر پھیر میں غوطہ زن ہوتے آپ خوب خوب نہلے پہ دہلا مار رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ کے اس سقم کا فایٔدہ اٹھاتے ہیوۓ دلایٔل اور رد دلایٔل دینا ضیاع وقت کے سوا کچھ نہیں ہے نتھر کے وہی سامنے آنا ہے جو روز روشن کی طرع عیاں ہے اور جس کی روشنی کی ایک جھلک اپ کی آخری (187( پوسٹ میں بھی ہے گھر کے اس پھید کو ہم پہلے بھی اپنے مشاہدہ سے بیان کر چکےہیں مگر آپ نے ثبوت دے کر مہر ثپت کر دی ہے۔
اور ہم نے تو عقل اور منطق کی بات کی ہے اورہمارے کچھ سوال ہنوز جواب ما نگت ہیں اگر ان کا کچھ جواب آیا تو ہم بھی دوبارہ میدان میں کود پڑھیں گے فی الحال مہربہ لب ہیں۔

سلام بر محمد و آل محمد و اصحاب محمد۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پول کے نتائج ملاحظہ کیجئے ؟؟؟ گھر میں تو یہ حال ہے اور امت مسلمہ کو فضائل و فوائد بتائے جا رہے ہیں!!!
woud you give your daughter,sister or mother (if widowed or divorced) for muta to another man???

یہ آپکی پرانی عادت ہے کہ اللہ اور اسکے نازل کردہ نصوص کو چھوڑ کر لوگوں کے پیچھے بھاگنا۔
آپ ہمیں کیا بتلا رہے ہیں پاکستانی اہل تشیع اور ایرانیوں کی حالت تو پہلے تو ہمیں پتا ہے کہ جہاں وہ خود کو کہلواتے تو اہل تشیع ہیں مگر پیروی کرنے کی بات آتی ہے تو اس معاملے میں مولا علی علیہ السلام کو چھوڑ کر حضرت عمر کی ذاتی رائے کی پیروی کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں میں زناکاری اتنی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ یہ اپنے بچوں جوانوں کو فحش فلمیں اور ہر قسم کے گناہ کرنے دیتے ہیں مگر اللہ کی نازل کردہ رحمت عقد المتعہ کی بنیادی باتوں تک کا ان کی اکثریت کو علم نہیں۔ ان کے مقابلے میں ماشاء اللہ لبنانی شیعہ ہیں جو واقعی دل سے اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور یوں لبنان کے کھلے مغربی بے حیائی والے معاشرے میں رہتے ہوئے بھی کٹر مذہبی اور کامیاب ہیں۔
ان کی مثال ایسی ہی ہے کہ اللہ نے اگرچہ کہ مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ چار شادیاں کر سکتا ہے، مگر کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ کیا اپنی بہن بیٹی کو ایسے شخص سے بیاہ گے جس کہ پہلے سے دو تین بیویاں ہیں تو وہ حلال ہوتے ہوئے بھی اس چیز کو پسند نہیں کرے گا۔ خود ہمارے معاشرے میں اہلسنت خواتین کے سامنے اگر ان کے شوہر دوسری شادی کا نام لے دیں تو وہ پھر وہ گھر میں سکون سے نہیں رہ سکیں گے۔ تو شوکت کریم بھائی، دوسروں سے قبل اپنے گھر کی خبر لیجئے اور اگر لوگوں کے پیچھے ہی بھاگنا ہے اور اسی بنیاد پر چیزوں کو حلال حرام کرنا ہے تو سب سے پہلے مرد کی دوسری شادی کو حرام قرار دے دیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور یاد آیا کہ آپ نے ابھی تک پچھلے 1400 سالہ تاریخ میں ایک بھی ایسا معاشرہ نہیں پیش کیا ہے کہ جو آپکے زعم کے مطابق آئیڈیل تھا۔

یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟؟؟ ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک ؟؟؟
اور دوسرا فاتح روم و فارس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آہ کیا دور تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین زلزلے سے لرز رہی ہے اور عمر کہہ رہے ہیں رک جا تیرے اوپر عمر عادل حکمران ہے اور زلزلہ رک جاتا ہے؟؟؟

دریائے نیل ہر سال قربانی مانگتا تھا ورنہ تباہی پھیلتی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خط دریا کو دیا جا رہا ہے اور دریا چپ چاپ اپنے کناروں میں سمٹ‌جاتا ہے ؟؟؟

صحابہ دریا میں گھوڑے ڈال دیتے ہیں اور اہل فارس دیو آنند ، دیو آنند کہتے ہوئے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

نبی کی ولادت پر کسرٰی کے محل کے کنگرے گر جاتے ہیں ؟؟؟

اور عمر رضی اللہ عنہ نبی کا نامہ مبارک چاک کرنے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں ۔۔

بیت المقدس فتح ہو تا ہے اور خلیفہ پیدل اپنی سواری کی لگام تھامے چل رہا ہے اور غلام سواری پر بیٹھا ہوا ہے ؟؟؟

عرب و عجم پر سطوت اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہے ؟؟؟

عمر رضی اللہ عنہ دودھ پیتے بچوں کے وظیفے لگا رہے ہیں ۔

عمر رضی اللہ عنہ پیٹھ پر سامان لادھے مسکینوں کی مدد کر رہے ہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
سوچا اردو کی لائبریری جو کہ ماشا اللہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے عملی استفادہ بھی کیا جائے ۔ شمس الدین پیرزادہ صاحب کی تحریر سے اقتباس پیش کر رہا ہوں۔ مزے کی بات ہے کہ اس متن کی کمپوزنگ میں بہنا مہوش علی بھی شامل ہیں جو کہ انکی علم دوستی اور وسیع النظری کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ ہم مسلمانوں‌ کو ناچاقی و نا اتفاقی سے بچائیں اور علم دوست اور علم کے شیدائی اور وسیع النظری اور وسیع القلبی عطا فرمائیں۔

واضح رہے مندرجہ ذیل اقتباس شمس الدین پیرزادہ صاحب کا ہے اور اردو لائبریری سے لیا گیا میرا یا کسی اور کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جہاں تک ان احادیث کی اسناد کا تعلق ہے بیشتر احادیث ایسی ہیں جن کی اسناد میں کلام کی کافی گنجائش ہے ۔ طوالت کے خوف سے ہم صرف چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں ۔

متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں ایک حدیث صحیح مسلم میں عبدالملک بن الربیع بن سَبرہ سے مروی ہے مگر مشہور محدث یحے یٰ بن معین نے اسے ضعیف کہا ہے اور ابوالحسن بن القطان کہتے ہیں ان کا عادل ہونا ثابت نہیں ہے ۔ اگرچہ مسلم نے ان کی حدیث بیان کی ہے لیکن وہ قابل حجت نہیں ہے ( تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی ج ۶ ص ۳۹۳) بخاری اور مسلم دونوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات کے موقع پر انہیں متعہ کی اجازت دی تھی۔ یہ روایت قیس بن ابی حازم سے ہے اور قیس بن ابی حازم کے بارے میں ابن المدینی کہتے ہیں کہ مجھ سے یحے یٰ بن سعید نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے ۔(تہذیب التہذیب ج ۸ ص ۳۸۸)

بخاری کی ایک حدیث حسن بن محمد نے جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع کے واسطہ سے بیان کی ہے کہ ان دونوں نے کاہ کہ ہم ایک لشکر میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہمارے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں استمتاع( عورتوں سے فائدہ حاصل کرنے ) کی اجازت دی گئی ہے لہٰذا استمتاع کرو۔‘‘ (بخاری کتاب النکاح)جبکہ بخاری نے حسن بن محمد ہی کے واسطہ سے حضرت علی کی یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر متعہ کی ممانعت فرمادی تھی۔( بخاری کتاب المغازی)

ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا ( مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ مجھے فلاح شخص نے خبردی یا میں نے اس سے سنا تو تمہارے ( اعتماد) کے لیے یہ کافی ہے اور اضحاقی نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل ( رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے ) ہیں اور دار قطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے بچو اور یحے یٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ( تہذیب التہذیب ج ۶ص ۴۰۲تا ۴۰۶)

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے ہے کہ متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں جب صحیحین کی روایتوں کا یہ حال ہے تو شیعوں کی بیان کردہ روایات کا کیا حال ہو گا!

واقعہ یہ ہے کہ ان متضاد اور الجھی ہوئی روایتوں سے جن میں سے بیشتر روایتیں اسناد کے اعتبار سے علت سے خالی نہیں ہیں یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی رخصت دی تھی البتہ جاہلیت میں چونکہ متعہ کا طریقہ رائج تھا اس لیے آپ نے بڑی تاکید کے ساتھاس کی ممانعت فرمائی۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی روایت کا صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ہونا اسے ہرگز تقدس عطا نہیں کرتا جبکہ وہ قرآن کے صریح حکم سے متصادم ہو۔

ان دلائل کے بعد بھی اگر کسی کو اس بات پر اصرار ہو کہ متعہ کی رخصت اور زنا میں کیا فرق ہے نیز وہ یہ بھی واضح کرے کہ متعہ قرآن کے ازدواجی احکام کے خلاف نہیں ہے اس کے بعد ہم اپنی اس تحریر پر نظر ثانی کرسکتے ہیں ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
یہ آپکی پرانی عادت ہے کہ اللہ اور اسکے نازل کردہ نصوص کو چھوڑ کر لوگوں کے پیچھے بھاگنا۔
آپ ہمیں کیا بتلا رہے ہیں پاکستانی اہل تشیع اور ایرانیوں کی حالت تو پہلے تو ہمیں پتا ہے کہ جہاں وہ خود کو کہلواتے تو اہل تشیع ہیں مگر پیروی کرنے کی بات آتی ہے تو اس معاملے میں مولا علی علیہ السلام کو چھوڑ کر حضرت عمر کی ذاتی رائے کی پیروی کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں میں زناکاری اتنی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ یہ اپنے بچوں جوانوں کو فحش فلمیں اور ہر قسم کے گناہ کرنے دیتے ہیں مگر اللہ کی نازل کردہ رحمت عقد المتعہ کی بنیادی باتوں تک کا ان کی اکثریت کو علم نہیں۔

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر

احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا

سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر

میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر

وقت ہے نوجوانوں کو ٹیکنالوجی، تعلیم، سائنس، ایجادات کی طرف راغب کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقصد دیا جائے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ہمارا سنہری دور تھا اتنی فراغت تھی کہ علمائے وقت کوے کے حلال حرام ہونے پر بحثیں کرتے تھے کہ چاہیے تھا لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ۔ اور ہلاکو خان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازے پہ دستک دے رہا تھا۔

اور آج وقت کا ہلاکو پھر ہماری گھات میں ہے ؟؟؟‌؟؟ ؟؟؟؟ اور ہم ‌؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
بہنا غصہ تو نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا سفید الزام تو نہ لگائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپکی فیورٹ‌ ویب سائٹ‌ کا لنک دے رہا ہوں ملاحظہ کر لیجئے

یہ ایک اور لنک بھی ملاحظہ کر لیجئے

اور یہ عربی متن حاضر ہے۔

و حدثنا ‏ ‏قتيبة بن سعيد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏جرير ‏ ‏عن ‏ ‏فضيل ‏ ‏عن ‏ ‏زبيد ‏ ‏عن ‏ ‏إبراهيم التيمي ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏قال ‏
قال ‏ ‏أبو ذر ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏لا تصلح المتعتان إلا لنا خاصة ‏ ‏ يعني ‏ ‏ متعة النساء ‏ ‏ ومتعة الحج

میرے بھائی غصے کی بات نہیں ہے کیونکہ آپ نے کوتاہی کی تھی اور حوالہ بالکل نامکمل دیا تھا۔

اور پھر بات وہی کہ میں نے جو دلیل دی تھی اُس پر سے پھر نظر پھسل گئی کہ یہ جھوٹی روایت ہے کیونکہ آپکی انہی بخاری و مسلم کی کتابوں میں روایات کا کثیر مجموعہ ہے جو بیان کر رہا ہے کہ رسول اللہ ص نے کبھی متعہ الحج سے منع نہ کیا اور اسکے بعد لوگ (صحابی اور تابعین) حضرت ابو بکر کی پوری خلافت میں متعہ الحج کرتے رہے اور پھر حضرت عمر کے دور میں بھی یہاں تک کہ حضرت عمر کو کسی وجہ سے بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے متعہ الحج سے بھی منع کر دیا (آپکی یہ "صحیح" روایت میں پہلے تفصیل سے نقل کر چکی ہوں مگر پھر میں نظریں پھسلنے پر احتجاج کروں تو آپ کو برا ماننے کی بجائے اپنے طریقے پر نظر ثانی کرنی چاہیے)۔

بلکہ اوپر میں نے ایک صحیح روایت نہیں، بلکہ بہت سی روایات اس ضمن میں نقل کی ہیں، مگر آپ نے اپنی ہی ان سب صحیح روایات کو اس وقت ٹھکرانا ہے کیونکہ وہ اس جھوٹی روایت کا قصہ تمام کر رہی ہیں۔

اس لیے کہا جاتا ہے کہ غلط کام کرنے کے لیے بھی "عقل" کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جس بے وقوف نے بھی یہ جھوٹی روایت گھڑی، اسکا مقصد تھا کہ حضرت عمر پر متعہ النساء اور متعہ الحج کے حوالے سے تبدیلیاں کرنے کا الزام ہے، اس جھوٹی روایت کی مدد سے اسکا سدباب کر دے۔ تو انسان چال چلتا ہے مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے اور وہ ایسی جھوٹی چالیں خود ان پر لوٹا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ تو کیا کریں گے آپ کہ یہ روایت ایسی نچلی سطح کی ہے کہ آپ کے 100 فیصد پچھلے 1400 سال کے سلف و خلف علماء اس روایت کی مخالفت میں اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ متعہ الحج کی اجازت پوری امت کو تاقیامت تک حاصل ہے۔

بلکہ ٹہریں، میں نے پہلے عمران بن حصین کی بخاری والی روایت نقل کی تھی جس میں وہ گواہی دے رہے تھے کہ متعہ والی روایت قرآن میں نازل ہوئی اور پھر کبھی وہ منسوخ نہ ہوئی اور ہم مسلسل متعہ کرتے رہے حتی کہ ایک شخص (جس کا وہ کھل کر نام بھی نہیں لینا چاہ رہے یا لے سکتے) اُس نے اپنی مرضی سے جو کچھ چاہا وہ کہا۔

اب ایک روایت (صحیح روایت) اور سنتے جائیں اس متعہ الحج کے متعلق:

صحیح مسلم، کتاب الحج، جواز التمتع:
Mutarrif reported:
'Imran b. Husain sent for me during his illness of which he died, and said: I am narrating to you some ahadith which may benefit you after me. If I live you conceal (the fact that these have been transmitted by me), and if I die, then you narrate them if you like (and these are): I am blessed, and bear in mind that the Messenger of Allah combined Hajj and Umra. Then no verse was revealed in regard to it in the Book of Allah (which abrogated it) and the Apostle of Allah did not forbid (from doing it). And whatever a person (whose name is not mentioned) said was out of his personal opinion.

اب غور سے دیکھئیے اور نظریں پھر نہ پھسلا دیجئے گا:

1۔ کہاں ہیں جو ہمیں مسلسل تقیہ کا طعنہ دے رہے تھے؟ آ کر ذرا بتلائیں تو اب کہ وہ کون سا ڈر ہے کہ یہ صحابی حلال اللہ کی ممانعت ہوتے دیکھتا ہے اور تلوار اٹھا کر کشت و خون شروع نہیں کر دیتا؟

امام مسلم بھی اس روایت کو "متعہ الحج" کے تحت لے آئے ہیں، مگر پھر بھی لگتا یہی ہے کہ یہ روایت صحابی عمران بن حصین نے متعہ الحج کے لیے نہیں بلکہ متعہ النساء کے لیے بیان کی ہے کیونکہ یہ متعہ النساء تھا کہ جس کے متعلق حضرت عمر نے سیدھا سیدھا سنگسار کرنے کی دھمکی دی تھی، چنانچہ یہ خوف کا عالم متعہ النساء میں موجود تھا۔

جابر بن عبداللہ انصاری والی روایت (بلکہ روایتیں)

اور جابر بن عبداللہ کے لیے آپ نے عذر پیش کیا ہے:

اس سے اگلے الفاظ بھی نقل کریں نان کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع کیا اور ہم رک گئے ۔

بلا کسی حیل و حجت ؟؟؟؟

ہاں رک گئے۔ تو اس کی وجہ اوپر عمران بن حصین کی روایت میں دیکھ لیں کہ کیوں رک گئے۔
بلکہ دیگر اُن تمام روایتوں میں دیکھ لیں جہاں حضرت عمر دھمکی دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ص کے دور میں دو متعے جاری تھے اور وہ ان کی ممانعت کرتے ہیں اور اگر عقد المتعہ کی صورت میں وہ سنگسار کر دیں گے۔

جابر بن عبداللہ انصاری خیبر میں اگر موجود نہیں تھے تو کہ 64 ہجری میں ابن عباس اور ابن زبیر کے اس جھگڑے میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی خیبر سے "لاعلم" تھے؟ بلکہ خیبر کیا، وہ سرے سے کسی بھی حرمت سے بے خبر ہیں اور سیدھا سادھا طریقے سے کہہ رہے ہیں کہ حضرت عمر ہیں جنہوں نے عقد المتعہ کی ممانعت کی ورنہ اس سے قبل ہم مسلسل رسول اللہ ص، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں عقد المتعہ کرتے رہے۔

****************

اور شمس الدین پیر زادہ صاحب محترم سہی، مگر بہرحال وہ جب غلط بات کریں گے تو بہرحال ان پر تنقید کی جا سکتی ہے۔

شمس الدین پیر زادہ صاحب نے پھر مکمل طور پر جان بوجھ کر اس وہ بات کی ہے کہ جس پر علما مسلسل طور پر تنقید کرتے آئے ہیں کہ ایسے لوگ فن حدیث کو "استعمال" کرنے کی بجائے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اسکا "غلط استعمال" کرتے ہیں۔

شمس الدین پیر زادہ صاحب نے فقط ایک کسی آدمی کی رائے کسی راوی کے متعلق بیان کر کے "جرح" کر دی، مگر جو دیگر بہت سے لوگوں نے تعدیل کی ہے اور ثقاہت کی گواہی دی ہے اسے بالکل سرے سے گول کر گئے۔ اگر اسی اصول پر چلنا ہے تو ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جنہوں نے خود امام بخاری پر ایسی تنقید کی ہوئی ہے اور امام ابو حنیفہ کو تو پتا نہیں کیا کچھ کہا ہے، تو کیا اس بنیاد پر خود امام بخاری اور امام ابو حنیفہ کو جھٹلا دیا جائے؟؟؟

چنانچہ شمس الدین پیر زادہ صاحب اگر "جرح" کو چاہیے تھا کہ یوں دھوکا نہ دیتے اور یکطرفہ "جرح" کے ساتھ ساتھ مکمل "تعدیل" بھی بیان فرما دیتے۔

مثلا شمس الدین پیر زادہ صاحب لکھتے ہیں:

بخاری اور مسلم دونوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات کے موقع پر انہیں متعہ کی اجازت دی تھی۔ یہ روایت قیس بن ابی حازم سے ہے اور قیس بن ابی حازم کے بارے میں ابن المدینی کہتے ہیں کہ مجھ سے یحے یٰ بن سعید نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے ۔(تہذیب التہذیب ج ۸ ص ۳۸۸)

انتہا کر دی شمس الدین پیرزادہ صاحب نے۔ یہ امام ابن حجر العسقلانی کی تہذیب التہذیب کا حوالہ دے رہے ہیں، حالانکہ امام ابن حجر العسقلانی نے نے شمس الدین پیرزادہ صاحب کی طرح صرف جرح نہیں کی ہے بلکہ اس ایک جرح کے مقابلے میں کئی قول ہیں کہ قیس بن ابی حازم انتہائی ثقہ ہیں۔

شمس الدین پیرزادہ صاحب جان بوجھ کر امام ابن حجر العسقلانی کا قیس ابی ابن حازم کے متعلق Final Verdict ہضم کر گئے ہیں کیونکہ یہ سرے سے انکے مقصد کو پورا نہیں کرتا۔ امام ابن حجر العسقلانی کا یہ Final Verdict انکی کتاب "تقریب التہذیب" کی صورت موجود ہے جہاں وہ کہتے ہیں:

[FONT=times new roman(arabic)]5566- قيس ابن أبي حازم البجلي أبو عبد الله الكوفي ثقة من الثانية مخضرم ويقال له رؤية وهو الذي يقال إنه اجتمع له أن يروي عن العشرة مات بعد التسعين أو قبلها وقد جاز المائة وتغير ع (آنلائن لنک: تقریب التہذیب از ابن حجر العسقلانی)
[/FONT]
قیس ابن ابی حازم نے جن صحابہ و تابعین سے روایات نقل کی ہیں، وہ یہ ہیں:

روى عن أبي بكر ، وعمر ، وعثمان ، وعلي ، وعمار ، وابن مسعود ، وخالد ، والزبير ، وخباب ، وحذيفة ، ومعاذ ، وطلحة ، وسعد ، وسعيد بن زيد ، وعائشة ، وأبي موسى ، وعمرو ، ومعاوية ، والمغيرة ، وبلال ، وجرير ، وعدي بن عميرة ، وعقبة بن عامر ، وأبي مسعود عقبة بن عمرو ، وخلق . وعنه : أبو إسحاق السبيعي ، والمغيرة بن شبيل وبيان بن بشر ، وإسماعيل بن أبي خالد ، وسليمان الأعمش ، ومجالد بن سعيد ، وعمر بن أبي زائدة ، والحكم بن عتيبة ، وأبو حريز عبد الله بن حسين قاضي سجستان - إن صح - وعيسى بن المسيب البجلي ، والمسيب بن رافع ، وآخرون .

قیس کے متعلق امام الذہبی لکھتے ہیں: العالم الثقة الحافظ

اور اسمعیل بن ابی خالد کہتے ہیں یہ ثقہ ثابت ہیں: إسماعيل بن أبي خالد ، وكان ثقة ثبتا وبيان بن بشر ، وكان ثقة ثبتا - وذكر جماعة .

یحیی بن معین کہتے ہیں: وروى معاوية بن صالح عن يحيى بن معين قال : قيس بن أبي حازم أوثق من الزهري ، ومن السائب بن يزيد .

مزید احمد بن ابی خثیمہ پھر بیان کرتے ہیں یحیی بن معین سے: وروى أحمد بن أبي خيثمة ، عن ابن معين : ثقة . وكذا وثقه غير واحد .

وقال أبو سعيد الأشج : سمعت أبا خالد الأحمر يقول لابن نمير : يا أبا هشام أما تذكر إسماعيل بن أبي خالد وهو يقول : حدثنا قيس بن أبي حازم ، [ ص: 201 ] هذه الأسطوانة - يعني أنه في الثقة مثل هذه الأسطوانة .

اور آئیے اب آتے ان پر کی گئی جرح کی حقیقت پر۔ اس ذیل میں فقط ایک قول نقل ہوا ہے یحیی ابن سعید کا، جو کہ لکھتے ہیں: وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب .

یعنی یحیی ابن سعید کہہ رہے کہ یہ منکر حدیث ہیں کیونکہ انہوں "کلاب الحواب" (حواب کے کتوں) والی روایت نقل کی ہے۔ یہ ایسی عجیب و غریب منطق ہے کیونکہ اس "کلاب الحواب" والی روایت کو امام احمد بن حنبل نے دو طریقوں سے نقل کیا ہے، اور یہی روایت صحیح ابن حبان، امام حاکم کی مستدرک نیز تاریخ کی بہت سی کتب میں نقل ہوئی ہے اور یہ صحیح روایت ہے۔ دیکھئے www.ansar.org پر اس کلاب الحواب والی حدیث کی تحقیق۔

***********************

جابر بن عبداللہ انصاری والی روایت (بلکہ روایتوں) کو کمزور کرنے کی کوشش
اور شمس الدین پیرزادہ صاحب نے جابر بن عبداللہ انصاری والی روایت (بلکہ روایتوں) کو کمزور کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ (گستاخی معاف) احمقانہ ہے۔

از شمس الدین پیر زادہ:
ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا ( مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ مجھے فلاح شخص نے خبردی یا میں نے اس سے سنا تو تمہارے ( اعتماد) کے لیے یہ کافی ہے اور اضحاقی نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل ( رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے ) ہیں اور دار قطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے بچو اور یحے یٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ( تہذیب التہذیب ج ۶ص ۴۰۲تا ۴۰۶)

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ابن جریج کے پیچھے کیوں پڑ گئے، کیونکہ انہیں جابر بن عبداللہ انصاری کی اس مکمل روایت کو کمزور ثابت کرنا چاہیے تھا، مگر وہ اسکے ایک حصے ابن جریج کو لے کر بیٹھ گئے۔

چنانچہ اول تو ابن جریج کو حافظ العسقلانی نے اپنے فائنل فیصلے (ُیعنی تقریب التہذیب) میں جرح و تعدیل کی مکمل روشنی میں ثقہ کہا ہے، اور صحیح مسلم کی اس روایت میں ابن جریج "فلاں فلاں" کا استعمال نہیں کر رہے لہذا انکی اس روایت پر تدلیس کا الزام بھی کسی صورت نہیں لگ سکتا کیونکہ یہاں باقاعدہ یہ نام لے کر بات بیان کر رہے ہیں۔

اور دوم یہ کہ جابر بن عبداللہ انصاری کی یہ روایت ایک ابن جریج ہی نہیں، بلکہ کئی راویوں سے نقل ہوئی ہے اور یہ ناممکن ہے ان سب کی موجودگی میں ان میں سے کسی ایک کو پکڑ کر علیحدہ کر کے اس پر ایسی طبع آزمائیاں کی جائیں۔

جابر بن عبداللہ انصاری کی یہ روایات میں پہلے نقل کر چکی ہوں:

حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے :
"ابن عباس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم متعہ کریں۔ جبکہ ابن زبیر نے اس سے منع کرتے تھے۔ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: " یہ میں ہی ہوں جس نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ہم نے رسول (ص) کے زمانے میں متعہ کیا۔ اور جب عمر ابن خطاب خلیفہ بنے، تو انہوں نے کہا: "بیشک اللہ نے اپنے رسول (ص) پر ہر وہ چیز حلال کی جو اس نے چاہی اور جیسے اس نے چاہی، جیسا کہ اس نے اسکا حکم قران میں نازل کیا۔ پس اللہ کے لیے حج اور عمرہ ادا کرو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ان عورتوں کے ساتھ (جن سے تم نے متعہ کیا ہوا ہے) شادیاں پکی کرو (نکاح کر کے)۔ اور اگر اب کوئی ایسا شخص میرے پاس آتا ہے جس نے متعہ کر رکھا ہے، تو میں اسے سنگسار کر دوں گا۔
حوالہ: صحیح مسلم، عربی ایڈیشن، جلد 2، صفحہ 885، حدیث 145، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے:
ہم رسول (ص) اور ابو بکر کی زندگی میں مٹھی بھر کھجور یا آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ عمر ابن خطاب نے امر ابن حریث کے واقعہ کے بعد یہ متعہ ممنوع کر دیا۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 16، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

عطا کہتے ہیں:
جابر بن عبد اللہ انصاری عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے تو ہم ان سے ملنے ان کی رہائشگاہ پر گئے۔ اور لوگوں نے ان سے مختلف چیزوں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا، اور انہی سوالات میں ایک سوال متعہ کے متعلق بھی تھا۔ اس پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے فرمایا: "ہاں، ہم رسول (ص)، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں متعہ کیا کرتے تھے۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 15، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ۔

قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ شمس الدین پیر زادہ صاحب ان دو دیگر روایات کو نظر انداز کر کے صرف ابن جریج والی روایت پر طبع آزمائی اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ان روایات کو کسی طرح ضعیف ثابت کر دیں جو کہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟؟؟ ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک ؟؟؟
اور دوسرا فاتح روم و فارس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلیں اس مسئلے پر خاموشی تو ٹوٹی اللہ اللہ کر کے، ورنہ پہلے میں ہمیشہ سوال کرتی تھی "آجکے دور میں ایسا مثالی معاشرہ دکھائیے" تو آپ ہمیشہ دبک کر بیٹھ جاتے تھے اور ہونٹ سی لیتے تھے۔

جہاں تک رسول اللہ ص کی زمانے کا تعلق ہے تو اس میں عقد المتعہ مسلسل جاری رہا اور حضرت ابو بکر کے دور اور حضرت عمر کی خلافت کے آخر یا کم از کم نصف تک جاری رہا۔

چلیں آپ نے اب اس مسئلے پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ہے تو اب آجکے دور کا یہ مثالی معاشرہ بھی بیان فرما دیجئے، ورنہ میں تو آپکے مذہبی مدارس اور وہ علاقے جو بہت زیادہ مذہبی سمجھے جاتے ہیں اور جہاں عورتیں نظر نہیں آتیں، وہاں قوم لوط کے فعل کی کثرت دکھا چکی ہوں۔ اورجو ہزاروں طالبعلم و مزدور طبقہ مغرب آتا ہے اسکی حالت بھی بیان ہو چکی ہے۔ بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۸۰ تا ۸۵ فیصد نوجوان جس بڑے پیمانے پر کھل کر گناہ کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پھر آپ نے اس سیدھے سے سوال کا جواب نہیں دیا کہ انسان کے جو فطرت کی جانب سے تقاضے تھے، کیا وہ آج ۱۴۰۰ سال کے بعد ختم ہو چکے ہیں یا پھر آج کے دور میں ڈش اینٹینا، انٹرنیٹ اور میڈیا کی صورت میں شیطانی قوتوں کے مضبوط ہو جانے کے بعد بہکنے کے چانسز پہلے سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں؟
براہ مہربانی قیاسی تھیوریاں پیش کرنے کی بجائے کوئی عملی مثال اور دلیل پیش فرمائیے گا کیونکہ آپ جو ہوائی جنتیں تعمیر کرتے ہیں انکی سیر بھی بس آپ ہی کر سکتے ہیں اور وہ بھی خواب میں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اوپر میں نے جابر بن عبداللہ انصاری کی روایات کو بیان کر دیا ہے اور قارئین کے سامنے اب یہ بات صاف و واضح ہو گی کہ شمس الدین پیرزادہ صاحب نے جو طریقے استعمال کیے ہیں کہ جابر کی روایات کو کمزور ثابت کیا جائے وہ ہر لحاظ سے فن حدیث کا غلط استعمال ہے کہ نہ تعدیل کو دیکھا جائے اور نہ اُسی موضوع پر دوسری روایات کو دیکھا جائے، بلکہ یکطرفہ "جرح" کر کے پوری روایت کو کمزور قرار دے دیا جائے۔

بہرحال، ضرورت تو نہیں کیونکہ جابر بن عبداللہ انصاری کی یہ روایت کئی طریقوں سے نقل ہوئی ہے، مگر پھر بھی ایک اور غلط فہمی دور کر دی جائے اور دیکھا جائے کہ شمس الدین پیر زادہ صاحب کیسے غلطی کر رہے ہیں کہ جب وہ ابن جریج پر یکطرفہ جرح کر کے انہیں کمزور ثابت کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
از شمس الدین پیرزادہ:
ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا ( مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں

انہوں نے امام احمد کا صرف ایک قول نقل کیا، حالانکہ امام احمد کے انکے متعلق مختلف قول ہیں۔ ذیل میں آپ ابن جریج کے مکمل کوائف دیکھ سکتے ہیں:

ابن جريج (لنک صفحہ)


اسم المصنف:
عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج، أبو الوليد - ويقال: أبو خالد، له كنيتان -، المكي، مولى أمية بن خالد القرشي، قال بن معين: هو مولى لآل خالد بن أسيد، أصله رومي.
تاريخ الميلاد:
ولد عام 80 ه۔ ، قاله ابن سعد.
تاريخ الوفاة:
قال أحمد عن يحيى بن سعيد: مات سنة 150 ه۔ ، وقال علي: مات سنة 147 ه۔ ، وكان جاز السبعين.
شيوخه:
إسماعيل ابن علية.
أيوب بن أبي تميمة السختياني.
جعفر بن محمد الصادق.
حبيب بن أبي ثابت.
حميد الطويل.
داود بن أبي عاصم الثقفي.
زيد بن أسلم.
سالم أبي النضر.
طاووس بن كيسان.
عبد الله بن كثير القارئ.
عبد العزيز بن جريج.
عطاء بن أبي رباح.
عطاء بن السائب.
عكرمة مولى ابن عباس، ولم يسمع منه.
عمرو بن دينار.
عمرو بن شعيب.
العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب.
القاسم بن أبي بزة المكي.
مجاهد بن جبر المكي.
محمد بن مسلم بن شهاب الزهري.
أبو الزبير محمد بن مسلم المكي.
محمد بن المنكدر.
معمر بن راشد.
نافع مولى ابن عمر.
هشام بن عروة.
يحيى بن سعيد الأنصاري.
تلاميذه:
إسماعيل ابن علية.
أبو أسامة حماد بن أسامة.
حماد بن زيد.
حماد بن سلمة.
سفيان الثوري.
سفيان بن عيينة.
أبو عاصم الضحاك بن مخلد.
عبد الله بن المبارك.
عبد الله بن وهب.
عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي.
عبد الرزاق بن همام.
عبد العزيز بن عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج.
عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد.
علي بن مسهر.
عيسي بن يونس.
الليث بن سعد.
محمد بن جعفر غندر.
محمد بن عبد الملك بن جريج.
مسلم بن خالد الزنجي.
النضر بن شميل.
وكيع بن الجراح.
الوليد بن مسلم.
يحيى بن سعيد الأنصاري.
يحيى بن سعيد القطان.
مكانته:
قال عنه الذهبي: الإمام العلامة الحافظ، شيخ الحرم، أبو خالد وأبو الوليد القرشي الأموي المكي، صاحب التصانيف، وأول من دون العلم بمكة.
وقال عنه الإمام أحمد: كان من أوعية العلم.
قال عبد الله بن أحمد: قلت لأبي: من أول من صنف الكتب؟ قال: ابن جريج، وابن أبي عروبة.
قال ابن عيينة: سمعت ابن جريج يقول: ما دون العلم تدويني أحد.
قال ابن جريج: كنت أتتبع الأشعار العربية والأنساب فقيل لي لو لزمت عطاء فلزمته.
وعن ابن جريج قال: أتيت عطاء وأنا أريد هذا الشأن وعنده عبد الله بن عبيد بن عمير، فقال لي ابن عمير: قرأت القرآن؟ قلت: لا، قال: فاذهب فاقرأه ثم اطلب العلم، فذهبت فغبرت زمانا حتى قرأت القرآن، ثم جئت عطاء وعنده عبد الله، فقال: قرأت الفريضة؟ قلت: لا، قال: فتعلم الفريضة ثم اطلب العلم، قال: فطلبت الفريضة ثم جئت، فقال: الآن فاطلب العلم، فلزمت عطاء سبع عشرة سنة.
وعن عطاء بن أبي رباح قال سيد شباب أهل الحجاز ابن جريج.
وقال: جالست عمرو بن دينار بعدما فرغت من عطاء تسع سنين.
عن طلحة بن عمرو المكي قال: قلت لعطاء: من نسأل بعدك يا أبا محمد؟ قال: هذا الفتي، إن عاش- يعني ابن جريج.
عن يحيى بن سعيد قال: كنا نسمي كتب ابن جريج "كتب الأمانة" وإن لم يحدثك ابن جريج من كتابه لم تنتفع به.
عن مخلد بن الحسين قال: ما رأيت خلقا من خلق الله أصدق لهجة من ابن جريج.
قال يحيى بن سعيد الأنصاري: لم يكن أحد أثبت في نافع من ابن جريج، وكان من أحسن الناس صلاة.
وروي أحمد بن حنبل عن عبد الرزاق قال: ما رأيت أحدا أحسن صلاة من ابن جريج.
قال أحمد بن حنبل: حدثنا عبد الرزاق قال: أهل مكة يقولون: أخذ ابن جريج الصلاة من عطاء، وأخذها عطاء من ابن الزبير، وأخذها ابن الزبير من أبي بكر، وأخذها أبو بكر من النبي صلي الله عليه وسلم.

مصنفاته:
" السنن "
" جزء ابن جريج "
مصادر الترجمة:
التاريخ الكبير.
تاريخ بغداد.
تهذيب الكمال.
سير أعلام النبلاء.
تذكرة الحفاظ.
الفهرست.
شذرات الذهب.
الرسالة المستطرفة.

چنانچہ امام احمد کے تو خود انکے متعلق کئی قول تھے جنہیں آپ اوپر دیکھ سکتے ہیں۔ مگر شمس الدین صاحب یہ سب ہضم کر گئے اور صرف جرح دکھاتے رہے تاکہ اپنا مقصد حاصل کر سکیں چاہے اسکے لیے انہیں انصاف کا گلا ہی کیوں نہ گھونٹنا پڑے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا ( مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ مجھے فلاح شخص نے خبردی یا میں نے اس سے سنا تو تمہارے ( اعتماد) کے لیے یہ کافی ہے اور اضحاقی نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل ( رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے ) ہیں اور دار قطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے بچو اور یحے یٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ( تہذیب التہذیب ج ۶ص ۴۰۲تا ۴۰۶)

جوں جوں میں مزید تحقیق کرتی جا رہی ہوں ویسے ویسے شمس الدین پیر زادہ صاحب سے شکایت پر شکایت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

شمس الدین پیرزادہ صاحب نے ابن جریج کے متعلق الزام لگایا ہے کہ: " اور اضحاقی نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل ( رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے ) ہیں"

حالانکہ امام مالک کا اصل قول ہے کہ ابن جریج انتہائی نمازیں پڑھنے والے انسان ہیں اور امام مالک نے انہیں "حاطب لیل" نہیں بلکہ "صاحب الیل" (یعنی راتوں کو نمازیں پڑھنے والے) کہہ کر انکی انتہائی تعریف کی ہے۔

وكان عطاء يقول: ابن جريح سيد شباب أهل الحجاز ، وقال مالك: كان ابن جريج صاحب ليل - أي قيام اليل- فعن أحمد بن حنبل قال: حدثنا عبد الرزاق قال: أهل مكة يقولون أخذ ابن جريج الصلاة من عطاء، وأخذ عطاء من أبي الزبير، وأخذها أبو الزبير من أبي بكر، وأخذها أبو بكر من النبي صلى الله عليه وسلم. قال عبد الرزاق: وكان ابن جريج حسن الصلاة
لنک

ابن جریج پر سب سے زیادہ تفصیلی مضمون آپ کو اس لنک پر ملے گا اور میں حیران ہوں کہ انکی تو تمام علماء نے ایسی تعریف کی گئی ہے کہ انسان کو ان پر رشک آئے، اور ادھر شمس الدین پیر زادہ صاحب ان پر الزام بازی میں مصروف ہیں۔
شمس الدین پیرزادہ انکے متعلق مزید لکھتے ہیں: " یحے یٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں "

حالانکہ یحیی بن سعید انکے متعلق لکھتے ہیں: "و قال جعفر بن عبد الواحد ، عن يحيى بن سعيد : كان ابن جريج صدوقا (لنک)

اور پھر دوسری جگہ یحیی بن سعید انکے متعلق لکھتے ہیں: و قال على ابن المدينى : سألت يحيى بن سعيد : من أثبت أصحاب نافع ؟ قال : أيوب ، و عبيد الله ، و مالك بن أنس ، و ابن جريج أثبت من مالك فى نافع . و قال صالح بن أحمد بن حنبل ، عن أبيه : عمرو بن دينار و ابن جريج أثبت الناس فى عطاء .
یعنی انکا موازنہ یہاں امام مالک اور تابعی عطاء سے کیا جا رہا ہے اور شمس الدین پیرزادہ صاحب کہیں کہ یہ ضعیف ہیں؟؟؟؟ یہ بہتان العظیم ہے۔
 

دوست

محفلین
جناب عالی وقت ہے نوجوانوں کو اصل مقصد حیات کی طرف موڑا جائے۔ نکاح کی حوصلہ شکنی کرکے متعہ کو فروغ دیا جائے تاکے لبنان کے کٹڑ مسلمانوں کی طرح یہاں بھی ایمان کی بہاریں‌ ہوں۔
 

میر انیس

لائبریرین
میر انیس جس طرح آپ نے فخر سے متعہ کے بارے میں بیان کیا تو میں درج بالا سوال کا آپ سے بھی جواب سننا چاہتا ہوں۔
شکریہ
متعہ کرنے کا جواز حالات پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر میری بیٹی کے ساتھ وہی حالات خدا ناخواستہ پیدا ہوگئے جو میرے ساتھ ہوئے تھے تو میں اسکو متعہ کی اجازت ضرور دونگا ۔ اگر آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ جس مسئلہ کو آپ اتنا الجھارہے ہیں وہ آج کل کے معاشرے کے حساب سے کیا اتنا ہی برا ہے اگر ایک باپ اپنی بیٹی کی منگنی کرتا ہے تو آپ لوگ اپنے ایمان سے بتائےکہ آج کل کیا ہوتا ہے کیا 90فیصد ماں باپ اپنی بیٹی کو اسکے منگیتر سے ملنے کی اکیلے آنے جانے کی اجازت نہیں دے دیتے ہوسکتا ہے آپ کو 90 فیصد زیادہ لگتا ہو تو آپ اتنا تو مانیں گے نا کہ زیادہ تر گھرانوں میں یہی ہوتا ہے میں ان پر اچھا گمان رکھتے ہوئے چلیں یہ کہدیتا ہوں کہ وہ زنا میں مبتلا نہیں ہوتے ہونگے۔ پر کیا نامحرموں کا ایک ساتھ ایک کمرے میں بیتھنا اور ساتھ کھانا پینا جائز ہے ؟ کیا ھاتھ بھی پکڑ لینا بہت بڑا گناہ نہیں اور یہ سب ہوتا ہے بلکہ اس سے زیادہ ہوتا ہے تو اگر ایک باپ منگنی کے بجائے متعہ ہی کرادے تو وہ کیا اپنی اولاد کو شادی سے پہلے کہ گناہ سے نہیں بچا سکتا؟
یہاں تو یہ ہورہا ہے کہ اکثر نومولود کی لاش کسی جھاڑی میں پڑی ملتی تھی جسکے بعد ایدھی والوں نے جھولے رکھوادیئے کہ ایک گناہ کرلیا تو اپنی ہی اولاد کو قتل کرنے کا عظیم گناہ نہ کرو چلیں اگر آپ کہ نزدیک متعہ گناہ بھی ہے تو کم از کم وہ اس گناہ سے تو کم ہے نا جو آجکل کے ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ نیٹ کیفے کی وڈیوز آپ کو یاد ہی ہونگی اور وہ تو وہ حرکتیں تھیں جو محفوظ کر لی گئیں اتنی پتہ نہیں کتنی حرکتیں روز مرہ ہوتی ہیں۔
اچھا اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر آپ کی بہن بیٹی کسی اہلِ کتاب سے محبت کی شادی کرنا چاہتی ہے تو کیا آپ کرنے دیں گے؟ سوچ کر اور سچ سچ بتائے گا کیونکہ اسلامی اعتبار سے یہ جائز ہے پر کیا آپ خوشی سے صرف یہ سوچ کر اجازت دیں گے کہ اسلام میں کوئی قباحت نہیں ہے ایسے نکاح سے متعلق دوسرے تھوڑی دیر کیلئے پچھلے زمانے میں جائیں کیونکہ آج کے معاشرے کی تو کئی مثالیں دے دیں فرض کریں کہ آپ کی بہن یا بیٹی لونڈی بنالی گئی(اللہ نہ کرے ) تو آپ پر کیا بیتے گی کہ جب اسکو پہلے ایک مالک استعمال کرے گا بعد میں دوسرا مالک پھر تیسرا پر اسلام میں تو یہ گناہ نہیں ہے ۔ اب آپ کا جواب کیا ہوگا صدیق صاحب:battingeyelashes::battingeyelashes:
 
ماشاء اللہ بہت اچھی علمی بحث چل رہی ہے۔ اس ساری بحث سے یہ چیز تو ضرور کھل کر سامنے آئی ہے کہ متعہ ہو یا کنیزوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا معاملہ ہو، ان سب کا کسی نہ کسی حوالے سے اُس وقت کے مسلم معاشرے میں ثبوت ضرور ملتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آہستہ آہستہ لونڈی اور کنیز کا سسٹم ختم ہوگیا دنیا میں سے اور بقول اہلسنت متعہ سے بھی روک دیا گیا۔ ۔ ۔
میرا ذاتی نقطہءِ نظر یہ ہے کہ بڑی صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں یہ آیا ہے کہ" امر بالمعروف و نہی عن المنکر"۔ ۔ اسکا ترجمہ عام طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ "نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو"۔ ۔ ۔لیکن لفظ 'نیکی' معروف کے مفہوم کو پورے طرح واضح نہیں کرتا۔ ۔ معروف سے مراد ہے ایسی بات جو جانی پہچانی ہو، ایسا عمل جس کو لوگ پسند کرتے ہوں اور'منکر' اسکے برعکس ہے۔ منکر سے مراد وہ باتیں ہیں جن کو عام طور پر انسان اور انکا معاشرہ پسند نہیں کرتےاور ان سےدلوں میں ایک اجنبیت اور مزاحمت سی پیدا ہوتی ہو۔ ۔ ۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بلاشبہ دنیا میں ہزاروں سال سے لونڈی غلام اور کنیزوں کا سسٹم رائج تھا اور اس وقت کے معاشروں میں یہ باتیں اور یہ طور طریقے متعارف یعنی معروف تھے چنانچہ ان میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ متعہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے کیونکہ آپ وش فل تھنکنگ سے1400 سالہ مسلم معاشرے کے کلچر اور اس کلچر کے حوالے سے فقہی احکامات کو یکسر جھٹلا نہیں سکتے ۔ ۔
لیکن معاشرے اور کلچر کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ مرورِ زمانہ سے غلامی اور کنیزوں کا رواج ختم ہوگیا، تو اب وہی چیز جو اُن معاشروں میں معروف تھی، موجودہ معاشروں میں منکر کی شکل اختیار کر گئی۔ اب اگر کوئی کسی کو لونڈی غلام بنائے یا خریدے، تو اسے ایک بری بات سمجھا جائے گا۔ یہی بات میرے خیال میں متعہ پر بھی منطبق کی جاسکتی ہے۔
تو پتہ یہ چلا کہ معروف اور منکر اضافی اور اعتباری امور ہیں۔ ۔ کوئی عمل کسی معاشرے میں معروف ہے تو کسی میں منکر۔ وقت کے ہاتھوں بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے، لہذا عقلمند لوگ یہ ہیں جو اپنے وقت کو پہچانتے ہیں۔ ۔ ۔ واللہ اعلم بالصّواب
 

dxbgraphics

محفلین
متعہ کرنے کا جواز حالات پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر میری بیٹی کے ساتھ وہی حالات خدا ناخواستہ پیدا ہوگئے جو میرے ساتھ ہوئے تھے تو میں اسکو متعہ کی اجازت ضرور دونگا ۔ اگر آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ جس مسئلہ کو آپ اتنا الجھارہے ہیں وہ آج کل کے معاشرے کے حساب سے کیا اتنا ہی برا ہے اگر ایک باپ اپنی بیٹی کی منگنی کرتا ہے تو آپ لوگ اپنے ایمان سے بتائےکہ آج کل کیا ہوتا ہے کیا 90فیصد ماں باپ اپنی بیٹی کو اسکے منگیتر سے ملنے کی اکیلے آنے جانے کی اجازت نہیں دے دیتے ہوسکتا ہے آپ کو 90 فیصد زیادہ لگتا ہو تو آپ اتنا تو مانیں گے نا کہ زیادہ تر گھرانوں میں یہی ہوتا ہے میں ان پر اچھا گمان رکھتے ہوئے چلیں یہ کہدیتا ہوں کہ وہ زنا میں مبتلا نہیں ہوتے ہونگے۔ پر کیا نامحرموں کا ایک ساتھ ایک کمرے میں بیتھنا اور ساتھ کھانا پینا جائز ہے ؟ کیا ھاتھ بھی پکڑ لینا بہت بڑا گناہ نہیں اور یہ سب ہوتا ہے بلکہ اس سے زیادہ ہوتا ہے تو اگر ایک باپ منگنی کے بجائے متعہ ہی کرادے تو وہ کیا اپنی اولاد کو شادی سے پہلے کہ گناہ سے نہیں بچا سکتا؟
یہاں تو یہ ہورہا ہے کہ اکثر نومولود کی لاش کسی جھاڑی میں پڑی ملتی تھی جسکے بعد ایدھی والوں نے جھولے رکھوادیئے کہ ایک گناہ کرلیا تو اپنی ہی اولاد کو قتل کرنے کا عظیم گناہ نہ کرو چلیں اگر آپ کہ نزدیک متعہ گناہ بھی ہے تو کم از کم وہ اس گناہ سے تو کم ہے نا جو آجکل کے ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ نیٹ کیفے کی وڈیوز آپ کو یاد ہی ہونگی اور وہ تو وہ حرکتیں تھیں جو محفوظ کر لی گئیں اتنی پتہ نہیں کتنی حرکتیں روز مرہ ہوتی ہیں۔
اچھا اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر آپ کی بہن بیٹی کسی اہلِ کتاب سے محبت کی شادی کرنا چاہتی ہے تو کیا آپ کرنے دیں گے؟ سوچ کر اور سچ سچ بتائے گا کیونکہ اسلامی اعتبار سے یہ جائز ہے پر کیا آپ خوشی سے صرف یہ سوچ کر اجازت دیں گے کہ اسلام میں کوئی قباحت نہیں ہے ایسے نکاح سے متعلق دوسرے تھوڑی دیر کیلئے پچھلے زمانے میں جائیں کیونکہ آج کے معاشرے کی تو کئی مثالیں دے دیں فرض کریں کہ آپ کی بہن یا بیٹی لونڈی بنالی گئی(اللہ نہ کرے ) تو آپ پر کیا بیتے گی کہ جب اسکو پہلے ایک مالک استعمال کرے گا بعد میں دوسرا مالک پھر تیسرا پر اسلام میں تو یہ گناہ نہیں ہے ۔ اب آپ کا جواب کیا ہوگا صدیق صاحب:battingeyelashes::battingeyelashes:

ہر اولاد ماں باپ کی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اور میں متعہ زنا کا سخت خلاف ہوں۔ تو میری اولاد بھی اس کے سخت خلاف ہوگی۔
الحمد للہ۔ میری بیٹی یا بہن مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہے۔ اور مسلمان مسلمانوں سے جنگ نہیں کیا کرتے جس کی پاداش میں ان کو لونڈی بنادیا جائے ۔
امید ہے کہ تسلی ہوگئی ہوگی۔
نیز متعہ زنا سے اچھا ہے بچوں کی شادی سولہ سال کی عمر میں کر دینی چاہیئے۔ میری شادی بھی اسی عمر میں ہوئی ہے ۔ پھر میں نے اپنے تین بھائیوں کی بھی شادیاں اسی عمر میں کرادی ہیں تاکہ متعہ زنا کے جال میں کہیں نہ پھنس جائیں۔
آپ نے تو اپنی بیٹی کے لئے اسے حلال کر دیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ ایک اور صاحبہ جو اس کو حلال سمجھتی ہیں وہ کیا جواب دیتی ہیں اپنی بیٹی یا بہن سے متعہ کے بارے میں
 

dxbgraphics

محفلین
چلیں اس مسئلے پر خاموشی تو ٹوٹی اللہ اللہ کر کے، ورنہ پہلے میں ہمیشہ سوال کرتی تھی "آجکے دور میں ایسا مثالی معاشرہ دکھائیے" تو آپ ہمیشہ دبک کر بیٹھ جاتے تھے اور ہونٹ سی لیتے تھے۔

جہاں تک رسول اللہ ص کی زمانے کا تعلق ہے تو اس میں عقد المتعہ مسلسل جاری رہا اور حضرت ابو بکر کے دور اور حضرت عمر کی خلافت کے آخر یا کم از کم نصف تک جاری رہا۔

چلیں آپ نے اب اس مسئلے پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ہے تو اب آجکے دور کا یہ مثالی معاشرہ بھی بیان فرما دیجئے، ورنہ میں تو آپکے مذہبی مدارس اور وہ علاقے جو بہت زیادہ مذہبی سمجھے جاتے ہیں اور جہاں عورتیں نظر نہیں آتیں، وہاں قوم لوط کے فعل کی کثرت دکھا چکی ہوں۔ اورجو ہزاروں طالبعلم و مزدور طبقہ مغرب آتا ہے اسکی حالت بھی بیان ہو چکی ہے۔ بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۸۰ تا ۸۵ فیصد نوجوان جس بڑے پیمانے پر کھل کر گناہ کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پھر آپ نے اس سیدھے سے سوال کا جواب نہیں دیا کہ انسان کے جو فطرت کی جانب سے تقاضے تھے، کیا وہ آج ۱۴۰۰ سال کے بعد ختم ہو چکے ہیں یا پھر آج کے دور میں ڈش اینٹینا، انٹرنیٹ اور میڈیا کی صورت میں شیطانی قوتوں کے مضبوط ہو جانے کے بعد بہکنے کے چانسز پہلے سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں؟
براہ مہربانی قیاسی تھیوریاں پیش کرنے کی بجائے کوئی عملی مثال اور دلیل پیش فرمائیے گا کیونکہ آپ جو ہوائی جنتیں تعمیر کرتے ہیں انکی سیر بھی بس آپ ہی کر سکتے ہیں اور وہ بھی خواب میں۔

جن ادوار کا ذکر آپ کر رہی ہیں ہوسکتا ہے ان میں متعہ کیا جاتا رہا ہو۔ لین مسلمانوں میں نہیں بلکہ کافر /مشرکوں میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ نہیں کیا ۔ پھر جلیل القدر صحابہ کرام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان ذالنورین، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان میں سے بھی کسی نے نہیں کیا تو اس کا مطلب متعہ زنا کا دوسرا نام ہے۔

پاکستان میں 80-85 فیصد نوجوان گناہ میں مبتلا ہیں اس کا کوئی ثبوت۔
اگر آپ میڈیا کا حوالہ دینگی تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اپنی پوسٹ کو دوبارہ غور سے پڑھیئے آپ خود اسی میڈیا کو شیطانی قوت قرار دے چکی ہیں جس سے آپ کی بنائی ہوئی تحریر کی عمارت دھڑام سے نیست و نابود ہوگئی ہے۔

نیز آپ سے ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب ابھی تک مجھے نہیں ملا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہر اولاد ماں باپ کی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اور میں متعہ زنا کا سخت خلاف ہوں۔ تو میری اولاد بھی اس کے سخت خلاف ہوگی۔
الحمد للہ۔ میری بیٹی یا بہن مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہے۔ اور مسلمان مسلمانوں سے جنگ نہیں کیا کرتے جس کی پاداش میں ان کو لونڈی بنادیا جائے ۔
آپ کو ہماری کتابوں میں جو نہیں ہوتا وہ نظر آ جاتا ہے (جیسا کہ آپ نے امام خمینی پر جھوٹ باندھا اور تصحیح کرنے پر اس سے بڑا جھوٹ باندھا کہ کتاب کے سکین سے آپ یہ الزام لگا رہے ہیں)
مگر آپ کی کتابیں جن مسلمانوں کی آپس کی جنگوں سے بھری ہوئی ہے وہ آپ کو نظر نہیں آتیں۔ یا عجب۔۔۔۔ بلکہ گرافک بھیا، آپ کو ہم اتنا اچھی طرح جان گئے ہیں کہ اس رویے پر حیرت بھی ہونا ختم ہو گئی ہے۔

اور کیا وہ مسلمان کنیزیں آپکی دینی و اسلامی بہنیں نہ تھیں جو کہ 1300 سالہ تاریخ میں مستقل طور پر عارضی تعلقات کے ساتھ آگے اور آگے بکتی رہیں؟ کیا اُن کے لیے آپکی غیرت و حمیت ختم ہو گئی ہے کہ اُن سے 1300 سالہ زنا کاری (بقول آپکے) پر آپکی کوئی رگ غیرت نہیں پھڑکتی؟ تو کہاں کہاں بھاگیں گے اور کہاں کہاں تک بگلے کی طرح اپنی اس 1300 سالہ تاریخ سے چھپنے کے لیے اپنا سر اپنی بغل میں دیے رہیں گے؟؟؟

از گرافک بھیا:
نیز آپ سے ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب ابھی تک مجھے نہیں ملا۔

اس لیے آپ کو جواب نہیں ملا کیونکہ آپ کو یہ سوال پوچھنے کا حق ہی نہیں کہ آپ کا مقصد صرف استہزاء ہے۔
یہاں پر صاف صاف طور پر اصول بتا دیے گئے ہیں کہ ہاشمی سادات بیوہ عورتوں پر مکمل طور پر حلال ہے کہ اگر حالات ایسے ہیں کہ اُن کی کثیر اولاد کے باعث یا دیگر کسی وجوہات کی بنا پر نکاح دائمی نہیں ہو پا رہا (جیسا کہ پاکستان میں سالوں تک ایسی بیوہ عورتیں نکاح کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہیں) تو وہ عقد المتعہ کر سکتی ہیں۔ کیا اس جواب کے بعد ذاتیات پر اترنے کی کوئی ضرورت تھی؟ نہیں، ضرورت تھی کیونکہ شریر نفس اس پر ابھار رہا ہے۔
پتا نہیں کیسے انسان ہیں آپ۔ اگر لوگ آ آ کر آپ کی نوجوان بہن سے سوال کرنے لگیں کہ کیا وہ کسی شادی شدہ شخص سے دوسری یا تیسری شادی کرے گی تو کیا آپ کو اپنی بہن سے ایسے سوالات کیے جانے گوارا ہیں؟
اور رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ شرم و حیا عورت کا زیور ہے اور جب شرعی مسائل بتانے کا مسئلہ آیا تو یہ فرض و لازم ہیں اور حضرت عائشہ نے ایسے شرعی مسائل مرد صحابہ کو بیان کیے۔ مگر جب ذاتیات کی بات آئی اور رسول اللہ ص کو پتا چلا کہ لڑکیاں حیا کی وجہ شادی کا نام سن کر بول تک نہیں پاتیں تو آپ ص نے انکی خاموشی کو اقرار قرار دیا۔ کاش آپ اپنے اس شریر نفس کو قابو میں رکھیں اور دوسروں کی ماں بہنوں کی عزت کریں کہ اُن سے آپ ایسے ذاتی سوالات نہیں پوچھ سکتے بلکہ ایسے میں صرف "اصول" بیان ہوتے ہیں ذاتیات نہیں۔
 

گرائیں

محفلین
لبنان کے کٹر شیعہ مسلمان متعہ کیوں کرتے ہیں‌اس کی ایک وجہ حزب اللہ بھی ہے۔ ملاحظہ ہو حوالہ۔

Temporary marriage has long been practiced by Shiites around the world. However, it has recently become more commonplace in Lebanon, notably within Hezbollah strongholds in Beirut's southern suburbs and in southern Lebanon after the 2006 war with Israel,

Hezbollah's recent encouragement of this phenomenon highlights the compromises it had been required to make in order to remain the preeminent force among its domestic Shiite constituency. As the party gained strength due to its effectiveness in fighting Israel, it was forced to cope with the reality that many Lebanese Shiites did not share the Iranian-inspired religious beliefs of Hezbollah's leaders. They came to dominate a community that was shaped by the secular leftist trends of the 1970s and 1980s, and the cosmopolitan culture embodied by Beirut. Today, Lebanese Shiites are exposed to pop icons such as sexpot singer Haifa Wehbe, countless Western advertisements and programs, and technological innovations such as online dating. Allowing these Shia to balance their sexual desires with their support for the "Resistance" against the "Zionist entity" is a vital ingredient to Hezbollah's staying power.

But for everyone else, Hezbollah apparently decided to expand its support for this practice after the 2006 war, to maintain its support base and keep the Shiites in Lebanon under its control. "After the 2006 war, Iranian money came to Lebanon in abundance, and money opened the door to sexual luxury that could not be ignored or controlled," noted Slim. "Therefore, Hezbollah decided it is easier to allow sex under certain religious titles in order to keep the control over the community."

اب تک کی بحث‌ سے تو میں ایک ہی نتیجے پر پہنچا ہوں‌کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر اجازت دی بھی ہو تو وہ اس متعہ کی نہیں‌تھی جو کہ آج کل ہو رہا ہے۔

میں‌پاکستانی، شوکت کریم ، ایس ایچ نقوی ، دوست ، ابن حسن اور سب سے بڑھ کر مہوش علی کا ممنون ہوں‌جنھوں‌نے حتی الوسع اس بحث میں حصہ لے کر میری بہت سی غلط فہمیان دور کر دیں۔

میرا متعہ کے ناقابل عمل ہونے پر یقین اور پختہ ہو گیا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top