کیا مولا علی واحدانسان تھے جنہوں نے غزوہ خیبر پر متعہ کی حرمت سنی؟
اس جھوٹی روایت کے گھڑنے والے کا جھوٹ یہاں سے بھی پکڑا جاتا ہے کہ خیبر کے موقع پر بہت سے صحابہ نے پالتو گدھوں کے حرام ہونے کا حکم تو رسول ص سے سنا، مگر کسی نے عقد متعہ کو حرام نہ بتلایا۔ دیکھئیے صحابہ کی لسٹ جو صرف اور صرف گدھے کی گوشت کی بات کر رہے ہیں، مگر ان میں سے کوئی متعہ النساء کے حرام ہونے کی بات نہیں کرتا۔
صحیح بخاری کی روایات
روایت نمبر 668 اور 669، انس ابن مالک ( صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 648، 68e, اور 687، ابن عمر (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 688، جابر بن عبداللہ انصاری (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 689، 690، ابن عوفہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 693، براء بن عازب (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 694 ، ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
صحیح مسلم کی روایات
روایت 4440، (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4765، ابع ثعلبہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4770، 4771، 4772، 4773، عدی ابن ثابت (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4774،4775 سلمہ بن اکوع اور ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4776، یزید بن عبید (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
سنن نسائی کی روایات
سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 205 پر 9 روایات موجود ہیں جو پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر کر رہی ہیں۔
عقل اللہ کی طرف سے بنی نوع انسا ن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے استعمال کیجئے اور حق کو باطل سے جدا کیجئے۔
[arabic]نهى عن متعة النساء يوم خيبر[/arabic]اور ابو عوانہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خیبر میں صرف پالتو گدھوں کے گوشت کا ذکر تھا، متعہ النساء کا نہیں:
وقال أبو عوانة في صحيحه سمعت أهل العلم يقولون : معنى حديث علي أنه نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر ، وأما المتعة فسكت عنهاترجمہ: اور ابو عوانہ اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم کو یہی کہتے سنا ہے کہ خیبر والی حدیث میں علی ابن ابی طالب نے صرف پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کا ذکر کیا تھا اور اس میں عقد المتعہ کے مسئلے پر خاموشی تھی (یعنی کوئی ذکر نہ تھا)
حوالے:
1۔ فتح الباری، جلد 9، صفحہ 145
2۔ نیل الاوطار، جلد 6، صفحہ 146
3۔سنن بیہقی، جلد 7، صفحہ 201
آپ کو ہماری کتابوں میں جو نہیں ہوتا وہ نظر آ جاتا ہے (جیسا کہ آپ نے امام خمینی پر جھوٹ باندھا اور تصحیح کرنے پر اس سے بڑا جھوٹ باندھا کہ کتاب کے سکین سے آپ یہ الزام لگا رہے ہیں)
مگر آپ کی کتابیں جن مسلمانوں کی آپس کی جنگوں سے بھری ہوئی ہے وہ آپ کو نظر نہیں آتیں۔ یا عجب۔۔۔۔ بلکہ گرافک بھیا، آپ کو ہم اتنا اچھی طرح جان گئے ہیں کہ اس رویے پر حیرت بھی ہونا ختم ہو گئی ہے۔
اور کیا وہ مسلمان کنیزیں آپکی دینی و اسلامی بہنیں نہ تھیں جو کہ 1300 سالہ تاریخ میں مستقل طور پر عارضی تعلقات کے ساتھ آگے اور آگے بکتی رہیں؟ کیا اُن کے لیے آپکی غیرت و حمیت ختم ہو گئی ہے کہ اُن سے 1300 سالہ زنا کاری (بقول آپکے) پر آپکی کوئی رگ غیرت نہیں پھڑکتی؟ تو کہاں کہاں بھاگیں گے اور کہاں کہاں تک بگلے کی طرح اپنی اس 1300 سالہ تاریخ سے چھپنے کے لیے اپنا سر اپنی بغل میں دیے رہیں گے؟؟؟
اس لیے آپ کو جواب نہیں ملا کیونکہ آپ کو یہ سوال پوچھنے کا حق ہی نہیں کہ آپ کا مقصد صرف استہزاء ہے۔
یہاں پر صاف صاف طور پر اصول بتا دیے گئے ہیں کہ ہاشمی سادات بیوہ عورتوں پر مکمل طور پر حلال ہے کہ اگر حالات ایسے ہیں کہ اُن کی کثیر اولاد کے باعث یا دیگر کسی وجوہات کی بنا پر نکاح دائمی نہیں ہو پا رہا (جیسا کہ پاکستان میں سالوں تک ایسی بیوہ عورتیں نکاح کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہیں) تو وہ عقد المتعہ کر سکتی ہیں۔ کیا اس جواب کے بعد ذاتیات پر اترنے کی کوئی ضرورت تھی؟ نہیں، ضرورت تھی کیونکہ شریر نفس اس پر ابھار رہا ہے۔
پتا نہیں کیسے انسان ہیں آپ۔ اگر لوگ آ آ کر آپ کی نوجوان بہن سے سوال کرنے لگیں کہ کیا وہ کسی شادی شدہ شخص سے دوسری یا تیسری شادی کرے گی تو کیا آپ کو اپنی بہن سے ایسے سوالات کیے جانے گوارا ہیں؟
اور رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ شرم و حیا عورت کا زیور ہے اور جب شرعی مسائل بتانے کا مسئلہ آیا تو یہ فرض و لازم ہیں اور حضرت عائشہ نے ایسے شرعی مسائل مرد صحابہ کو بیان کیے۔ مگر جب ذاتیات کی بات آئی اور رسول اللہ ص کو پتا چلا کہ لڑکیاں حیا کی وجہ شادی کا نام سن کر بول تک نہیں پاتیں تو آپ ص نے انکی خاموشی کو اقرار قرار دیا۔ کاش آپ اپنے اس شریر نفس کو قابو میں رکھیں اور دوسروں کی ماں بہنوں کی عزت کریں کہ اُن سے آپ ایسے ذاتی سوالات نہیں پوچھ سکتے بلکہ ایسے میں صرف "اصول" بیان ہوتے ہیں ذاتیات نہیں۔
شمشاد بھائی ! کم سے کم میں تو یہاں کوئی بحث نہیں کروں گا ، ان شاءاللہ۔میرے خیال میں تو اس موضوع پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ اب نئی تحقیق تو ہونے سے رہی۔
میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ ان شاءاللہ !اب صحابی عمران بن حصین کی گواہی دیکھیں:
حدثنا مسدد حدثنا يحيى عن عمران أبي بكر حدثنا أبو رجاء عن عمران بن حصين رضي الله عنهما قال
أنزلت آية المتعة في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال رجل برأيه ما شاء [صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص (عمر ابن الخطاب) نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔
اگر آپ اس روایت کو عقد المتعہ کے لیے مانیں تو بات ایسے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ اصرار کریں کہ یہ متعہ الحج کے متعلق ہے تو پھر بھی یہ روایت آپکا گلا چھوڑنے والی نہیں اور آپکو بتلانا ہو گا کہ قرآن کی یہ مخالفت کی گئی اور پھر اس صحابی عمران بن حصین نے تلوار نہیں نکالی؟ کیوں؟
روایت آپکی مگر اس کیوں کا جواب کبھی آپ نہیں دیتے اور الٹا ہم پر برس پڑتے ہیں کہ ہم جواب دیں۔ اور ہم جو جواب دیں اس کا آپ استہزاء کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ یہ تمام تر tactics استعمال کر سکتے ہیں، مگر اپنی جان پھر بھی ان روایتوں سے نہیں چھڑا سکتے اور بہرحال آپکو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ واقعہ ہوا اور صحابہ نے قرآن کی مخالفت ہوتے دیکھی مگر اس پر فورا تلوار نکال کر قتل عام شروع نہیں کر دیا، بلکہ ایسی حالت میں انہوں نے صرف زبان سے ان قرآن مخالف چیزوں کی مخالفت کی اور یہ مخالفت مستقل جاری رکھی اور یہی اسلام کے مفاد میں بہترین تھا بجائے تلواریں نکال کر اسلامی سلطنت میں خانہ جنگی پیدا کرنے کے۔
شوکت بھائی صاحب نے اوپر جتنی روایات نقل کی ہیں، وہ صرف اور صرف ایک صحابی کے متعلق ہیں جسکا تعلق قبیلہ اسلم سے ہے اور انکا نام ماعز ہے۔
غزوہ خیبر میں اہل کتاب سے نکاح یا متعہ جاری ہی نہیں ہوا تھا
کیا یہ آپ کا دعویٰ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
[arabic]نهى عن متعة النساء يوم خيبر[/arabic]
صرف ایک ہی صحابی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور کسی بھی دیگر صحابی سے روایت نہیں کی گئی ہے؟؟
صرف ہاں یا نہ میں جواب دیجئے گا۔
[arabic]نهى عن متعة النساء يوم خيبر[/arabic]
والی روایت کیا آپ نے بذات خود [arabic]يعقوب بن إسحاق أبي عوانة[/arabic] کی [arabic]مستخرج أبي عوانة[/arabic] میں چیک کی ہے اور وہاں آپ کو ایسی کوئی روایت نہیں ملی جسے [arabic]يعقوب بن إسحاق[/arabic] نے "صحیح" یا حسن کا درجہ دیا ہو ؟؟
صرف ہاں یا نہ میں جواب دینے کی مہربانی کیجئے گا۔
ذہین نشین رہے کہ یہ صحابہ کنوارے نہیں تھے بلکہ شادی شدہ تھے، مگر پھر بھی ان سے تیس راتوں تک خود کو برائی سے بچائے رکھنا ممکن نہ ہو سکا۔
اللہ کا پیغام واضح تھا کہ غلاموں اور کنیزوں سے اچھا سلوک کرو، انہیں اپنا جیسا انسان سمجھو، کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔۔۔۔۔ چنانچہ اُسوقت جب لوگوں نے یہ کام کیا اور جن کی تہدید میں یہ آیت نازل ہوئی، اُن پر کوئی حد جاری نہیں کی جاتی بلکہ قرآن فقط کردار کی اصلاح کے لیے نصیحت پر اکتفا کرتا ہے۔
چلیں آپ نے اب اس مسئلے پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ہے تو اب آجکے دور کا یہ مثالی معاشرہ بھی بیان فرما دیجئے، ورنہ میں تو آپکے مذہبی مدارس اور وہ علاقے جو بہت زیادہ مذہبی سمجھے جاتے ہیں اور جہاں عورتیں نظر نہیں آتیں، وہاں قوم لوط کے فعل کی کثرت دکھا چکی ہوں۔
اور پھر بات وہی کہ میں نے جو دلیل دی تھی اُس پر سے پھر نظر پھسل گئی کہ یہ جھوٹی روایت ہے کیونکہ آپکی انہی بخاری و مسلم کی کتابوں میں روایات کا کثیر مجموعہ ہے جو بیان کر رہا ہے کہ رسول اللہ ص نے کبھی متعہ الحج سے منع نہ کیا اور اسکے بعد لوگ (صحابی اور تابعین) حضرت ابو بکر کی پوری خلافت میں متعہ الحج کرتے رہے اور پھر حضرت عمر کے دور میں بھی یہاں تک کہ حضرت عمر کو کسی وجہ سے بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے متعہ الحج سے بھی منع کر دیا (آپکی یہ "صحیح" روایت میں پہلے تفصیل سے نقل کر چکی ہوں مگر پھر میں نظریں پھسلنے پر احتجاج کروں تو آپ کو برا ماننے کی بجائے اپنے طریقے پر نظر ثانی کرنی چاہیے)۔
چلیں آپ نے اب اس مسئلے پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ہے تو اب آجکے دور کا یہ مثالی معاشرہ بھی بیان فرما دیجئے، ورنہ میں تو آپکے مذہبی مدارس اور وہ علاقے جو بہت زیادہ مذہبی سمجھے جاتے ہیں اور جہاں عورتیں نظر نہیں آتیں، وہاں قوم لوط کے فعل کی کثرت دکھا چکی ہوں۔ اورجو ہزاروں طالبعلم و مزدور طبقہ مغرب آتا ہے اسکی حالت بھی بیان ہو چکی ہے۔ بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۸۰ تا ۸۵ فیصد نوجوان جس بڑے پیمانے پر کھل کر گناہ کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پھر آپ نے اس سیدھے سے سوال کا جواب نہیں دیا کہ انسان کے جو فطرت کی جانب سے تقاضے تھے، کیا وہ آج ۱۴۰۰ سال کے بعد ختم ہو چکے ہیں یا پھر آج کے دور میں ڈش اینٹینا، انٹرنیٹ اور میڈیا کی صورت میں شیطانی قوتوں کے مضبوط ہو جانے کے بعد بہکنے کے چانسز پہلے سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں؟
اس کا مدلل جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ذرا یہ لنک ملاحظہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہاں کا حال ہے جہاں عورت صدیوں سے مادر پدر آزاد ہے ؟؟؟
بی بی سی رپورت
حضرت بلال بن الحارث بیان کرتے ہیں ۔
قلت یا رسول اللہ فسخ الحج لنا خاصۃ اولمن بعد نا قال بل لکم خاصۃ (ابو داؤد جلد ا ص ۲۵۲، نسائی۔جلد ۳ص۱۸، ابن ماجہ ص۲۲۰)
میں نہ کہا یا رسول اللہ ! فسح الحج ہمارے ہی لیے خاص ہے یا ہم سے بعد کو آنے والوں کے لیے بھی ہے ۔ آپ نے فرمایا بلکہ یہ تمہارے ہی لیے خاص ہے۔
حضرت ابوذر کی حدیث پہلے پوسٹ میں بیان کی جا چکی ہے۔
حضرت امام نووی رح ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ "علماء فرماتے ہیں کہ ان تمام روایات کا مطلب یہ ہے کہ فسخ الحج الی العمرۃ اسی حجۃ الوداع کے سال تھا اور حضرات صحابہ کرام کے ساتھ خاص تھا اور بعد کو یہ جائز نہیں ہے ۔ حضرت ابوذر کی مراد مطلقاً تمتع کا ابطال نہیں بلکہ فسخ الحج الی العمرۃ ہے ۔جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
شرح مسلم جلد ۱ ص ۴۰۲
درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمتع کا انکار نہیں کیا بلکہ جس چیز سے انہوں نے لوگوں کو منع کیا وہ فسخ الحج الی العمرۃ ہے اور وہ حجۃ الوداع کے سال کے بعد ممنوع ہے۔
بہرحال اس موضوع پر بات کرنی ہے تو ایک الگ دھاگہ کھول لیا جائے تو مناسب ہوگا۔
من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4584-
حضرت امام رضا نے فرمایا کہ متعہ صرف اسی شخص کے لئے حلال ہے جو اس کی معرفت رکھتا ہو اور جو اس سے جاہل اور ناواقف ہو تو اس کے لئے حرام ہے۔
شمشاد بھائی ! کم سے کم میں تو یہاں کوئی بحث نہیں کروں گا ، ان شاءاللہ۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔
احادیث کی تحقیق کے نام پر غلط تراجم اور جھوٹ و دھوکہ دہی کے سہارے جو خودساختہ نظریات پھیلائے گئے ہیں ، اللہ نے توفیق دی تو وقت آنے پر ان کی حقیقت تمام حوالوں اور ثبوتوں کیساتھ ضرور بتاؤں گا ، ان شاءاللہ !!