مجھے پتا نہیں کہ آپ کب ایسی روایات پیش کرنا شروع کریں کہ جن کی سند کی ہو اور اسے ہمارے علماء نے صحیح کہا ہو۔ تو پتا نہیں آپ کبھی اپنی اس بیماری سے نجات پا سکیں گے بھی یا نہیں، ورنہ پہلے شاید حضرت عمر کے جنت میں جانے والی روایت پر بات ہو جائے کہ وہ آپ پر حجت ہے کہ نہیں؟
ہم نے تو دیکھا ہے کہ جو بھی حدیث باب المتعہ سے پیش کی گئی اس کو رد کر دیا گیا۔ تو پھر آپ کے پاس متعہ کی کون سی روایات اور کتاب بچے گی کہ جس سے آپ اپنے حق میں دلائل پیش کر سکیں گی۔ اور یاد رکھیے اصول اربعہ سے انکار کر کے کہیں آپ منکر روایت تو نہیں بن رہیں ؟؟؟
یہ کتاب اور اس کی روایات کتنی مستند ہیں دیکھئے !!!
من لا یحضر الفقیہ کے اردو مترجم سید حسن امداد (ممتاز الافاضل) صاحب کتاب کے شروع میں لکھتے ہیں۔
آپ (شیخ صدوق علیہ الرحمہ) تقریبا تین سو کتابوں کےمصنف ہیں۔ جیسا کہ علامہ طوسی نے اپنی کتاب الفہرست میں تحریر کیاہے اور آپ کی چالیس کتابوں کےنام تحریر کیے ہیں۔ اور ابوالعباس نجاشی متوفی ۴۵۰ھ نے اپنی کتاب رجال میں آپ کی تقریبا دو سو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ مگر افسوس کہ ان میں سے اکثر ضائع ہو گئیں۔ آپ کی عظیم تصنیفات میں سے ایک کتاب مدینۃ العلم بھی تھی جو اس کتاب من لا یحضر الفقیہ سے بھی بڑی تھی وہ بھی ضائع ہو گئی۔ جس کا ذکر شیخ طوسی نے اپنی کتاب الفہرست میں اور ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب معالم میں کیا ہے۔ اور علامہ رازی نے اپنی کتاب الذریعہ میں علامہ بہائی کے والد بزرگوار شیخ حسین بن عبدا لصمد کی کتاب الدرایہ کی یہ عبارت نقل کی ہے۔ " و اصولنا الخمسۃ الکافی و مدینۃ العلم و من لا یحضرہ الفقیہ والتہذیب والاستبصار" (ہمارے مذہب کی اصولی کتابیں پانچ ہیں
کافی ، مدینۃ العلم، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب اور استبصار) اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانے میں یہ کتاب مدینۃ العلم موجود تھی۔ مگر ان کے بعد یہ کتاب ضائع ہو گئی۔ صرف نام رہ گیا ۔ چنانچہ علامہ مجلسی نے اس کی تلاش کے لیے زرکثیر صرف کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اور کتاب الذریعہ میں ہے کہ سید محمد باقر جیلانی نےبھی اس کے حصول کے لیے بے دریغ رقم صرف کی مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے علامہ ابن طاہری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب فلاح السائل نیز اپنی دیگر کتب میں اور شیخ جمال الدین بن یوسف حاتم فقیہ شافعی نے اپنی کتاب میں کتاب مدنیۃ العلم سے بہت سی چیزیں نقل کی ہیں۔ معین الدین شامی شقاقلی حیدر آبادی نےبیان کیا ہےکہ ان کے پاس مدینۃ العلم کا ایک نسخہ ہےجس کی دو نقلیں کیں لیکن وہ ابواب پر مرتب نہیں ہے بلکہ وہ روضۃ الکافی کی مانند ہے۔
مندرجہ بالا حقائق سے معلوم ہوا کہ ہمارےمذہب کی کتب خمسہ تھیں جن میں سے ایک ضائع ہو گئی اور اب کتب اربعہ رہ گئیں اور وہی کیا ہمارےبزرگ علماء کی ہزاروں بیش بہا تصانیف ضائع ہوگئیں۔
کتاب من لا یحضر الفقیہ جلد اول کا اردو ترجمہ قارین کی خدمت میں حاضر ہے یہ ایسی اہم کتاب ہے جس کا شمار اپنی کتب اربعہ میں ہوتا ہےاور اصول کافی کے بعد یہ دوسری کتاب ہے جو شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی تالیف ہے۔ اس کا نام من لا یححضر الفقیہ ہے (جس کے پاس کوئی فقیہ موجو نہ ہو)
یہی بتاتا ہے کہ یہ عوام کے لئے لکھی گئی تھی۔ مگر یہ اب تک عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ رہی۔یہ فقہ کی بنیادی کتاب ہے۔ اس کے بعد فقہ کی کتابیں ہر دور میں تحریر کی جاتی رہی ہیں لیکن کتب اربعہ میں اسی کوجگہ ملی۔ آخر اس میں کوئی تو ایسی بات ہے جو اس کو اتنی اہمیت دی گئی۔ یہ کتاب تمام ابواب فقہ پر مشتمل ہے ۔ یہ کسی عالم کے فتاوٰی کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسئلہ کے متعلق آئمہ طاہرین کی احادیث نقل کر دی گئی ہے جن کی روشنی میں ہمارے علماء و فقہاء حضرات فتوے جاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اس کے مطالعہ سے یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ ہمارے علماء و فقہا حضرات اپنی طرف سے کوئی فتویٰ دتیے ہیں بلکہ اس کی بنیاد آئمہ طاہرین کی کوئی نہ کوئی حدیث ہی ہوتی ہے۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی
سب سے مشہور کتاب من لایحضر الفقیہ ہے اس کا شمار شیعوں کی کتب اربعہ میں ہوتا ہے اور یہ کتب اربعہ وہ ہیں کہ احکام شریعہ کے اخذ کرنے میں شیعوں کا اس پر دارومدار ہے نوسوسال سے زیادہ عرصہ گذر گیا کہ فقہاء و غیر فقہاء میں یہ مقبول ہے اور اتنی معتبر اور قابل اعتنا ہے کہ معدودے چند کے سوا اس پر آج تک کوئی اعتراض نہ کر سکا
اب اس سے بڑھ کر اس کی اہمیت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے۔
علامہ سیدبحر العلوم قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب میں سے جو لوگ من لا یحضرہ الفقیہ کی احادیث کو دیگر کتب اربعہ کی احادیث پر ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہےکہ شیخ صدوق بہت صاحب حافظہ تھے۔ اور یہ کتاب کافی کے بعد تصنیف ہوئی ہے اس لیے اس میں جو احادیث لکھی گئی ہیں
صحت کی پوری ضمانت اور ذمہ داری سے لکھی گئی ہیں۔
شہید ثانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب شرح داریت الحدیث میں تحریر فرمایا ہے کہ
شیخ محمد بن یعقوب کلینی سے لے کر آج تک ہمارے جتنے بھی مشائخ گذرےہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی اس کی ضرورت نہں کہ ان کی عدالت کے لیے کوئی تنصیص و تنبیہ پیش کی جائے اس لیے کہ ان لوگوں میں ثقاہت، احتیاط، زہد و تقویٰ اس قدر تھا جو عدالت سے بھی بڑھا ہوا تھا اور یہ ہر زمانہ میں مشہور تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ متاخرین علماء رجال ان عظیم المشائخ میں سے اکثر کے لیے جسے شیخ صدوق، سید مرتضی ، دامن براج وغیرہ انکے ثقہ و عادل ہونے کےلیے کسی تنصیص کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
علامہ خبیر محقق شیخ بہاء الدین عاملی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح من لا یحضرہ الفقیہ میں تحریر فرمایا ہے کہ اس کتاب میں ایک تہائی سے زیادہ احادیث (بغیر اسناد کے) مرسل درج ہیں
اس کی صحت کا انہیں اس قدر یقین ہے انہیں پر اپنے فتووں کا مدار رکھتےہیں اور فرماتےہیں کہ یہ احادیث ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجت ہیں اور اصولین کی ایک جماعت نے یہاں تک کہدیا ہے کہ شخص عادل کی مرسل حدیث کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لیے کہ اس کو حدیث کے مضمون پریقین ہے۔
اور ہمارےاصحاب رضوان اللہ علیہم نے
شیخ صدوق کی مرسل احادیث کو ابن ابی عمیر کی مرسل احادیث کے برابر مستند و معتمد سمجھا ہے اس لئے کہ ان سب کو معلوم ہے کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی یہ عادت ہے کہ وہ کسی ثقہ کی روایت ہی کو مرسل کر لیتے ہیں اور اس کی اسناد کو حذف کرلیتے ہیں جیسےابن ابی عمیر۔
اور محقق سید داماد رحمہ اللہ اپنی کتاب الرواشخ سماویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اگر حدیث کو مرسل کرنے والے کے نزدیک درمیان کے تمام راوی عادل نہ ہوں تو اس کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ حدیث کو امام کی طرف منسوب کرے
حدیث مرسل وہی ہےکہ جب ارسال کرنےوالا یہ یقین رکھتا ہو کہ اس کے درمیان تمام راوی مستند و عادل ہیں اور وہ ان کا ذکر نہ کرے اور راست کہےکہ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کہے کہ قال الامام علیہ السلام اس لیے کہ اسکو یقین ہے کہ یہ حدیث معصوم علیہ السلام سے صادر ہوئی ہے جیسا کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نےاپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں یہی کیا ہے اورکہا قال الامام علیہ السلام اور محقق شیخ سلمان بحرانی نے اپنی کتاب البلغہ کے اندر اپنی گفتگو کے درمیان من لا یحضر الفقیہ کی روایات کے معتبر ہونے کے متعلق فرمایا ہےکہ میں نےاکثر اصحاب کو دیکھا ہے کہ وہ
شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی مرسل احادیث کو صحیح کہتے ہیںاور
ان کے مراسیل ابن ابی عمیر کے مراسل سے کم معتبرنہیں ہی
ں جیسا کہ علامہ حلی علیہ الرحمہ نے اپنی کتب المختلف میں اور شہید علیہ الرحمہ نے شرح ارشاد میں سید محقق داماد کی بھی یہی رائے ہے۔
ڈاکٹر عبدالہادی الفادی من لا یحضر کے مصنف کے لکھے پر کہتے ہیں۔ کہ ان کا یہ قطعی بیان بالکل صاف اور واضح ہے جو کہ ظاہر کرتا ہےکہ وہ اپنی کتاب کے مواد کے مستند ہونےپر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ اسے اللہ اور پنے درمیان حجت قرار دیتےہیں۔ (اصول الحدیث، صفحہ 217 ، بیروت)
یہی حدیث بہت ساری کتابوں میں بھی روایت کی گئی ہے ؟؟؟
من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔4615 ۔ اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس شخص کو ناپسند کرتا ہوں کہ وہ مرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے کسی سنت پر عمل کرنا باقی رہ جائے کہ اس نے اس پر عمل نہ کیا ہو۔ میں نےعرض کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کوئی متعہ کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور آپ نے ( اس سے آگے سورہ تحریم آیت 3 تا 5 سے متعہ کو سنت رسول اللہ ثابت کیا گیا ہے)
وقال الصادق عليه السلام : " إني لاكره للرجل أن يموت وقد بقيت عليه خلة من خلال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لم يأتها ، فقلت له : فهل تمتع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال : نعم وقرأ هذه الاية " وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا - إلى قوله تعالى : - ثيبات وأبكار.
من لايحضره الفقيه - الشيخ الصدوق ج 3 ص466 وص467
باب استحباب المتعة وما ينبغي قصده بها. 2 - قال الصدوق : وقال الصادق ( عليه السلام ) : اني لاكره للرجل أن يموت وقد بقيت عليه خلة من خلال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) لم يأتها ، فقلت : فهل تمتع رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ؟ قال : نعم وقرأ هذه الآية : ( وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا - إلى قوله : - ثيبات وأبكارا ) .
وسائل الشيعة (آل البيت ) - الحر العاملي ج 21 ص 13
وفيه قال الصادق عليه السلام : " إني لاكره للرجل أن يموت وقد بقيت خلة من خلال رسول الله صلى الله عليه وآله لم يأتها " . فقلت : فهل تمتع رسول الله صلى الله عليه وآله فقال : " نعم " وقرأ هذه الآية : * ( وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا - إلى قوله - ثيبات وأبكارا ) * والأخبار في ذلك كثيرة .
جامع المقاصد - المحقق الكركي ج 13 ص8 وص9
وقال الصادق عليه السلام إني لاكره للرجل أن يموت وقد بقيت عليه خلة من خلال رسول الله صلى الله عليه وآله لم يأتها ، فقلت له : فهل تمتع رسول الله صلى الله عليه وآله ؟ قال : نعم ، وقرأ هذه الآية ( وإذا أسرا النبي إلى بعض أزواج حديثا إلى قوله تعالى ثيبات وأبكارا )
الحدائق الناضرة - المحقق البحراني ج 24 ص 119
وقال أبو الحسن عليه السلام لرجل ذكر له أنه عاهد الله أن لا يتمتع : ( عاهدت الله لا تطيعه ، والله لئن لم تطعه لتعصينه ) إلى غير ذلك من الاخبار الدالة على رجحانها . بل في بعضها ( ما احب للرجل منكم أن يخرج من الدنيا حتى يتزوج المتعة ولو مرة في بعض عمره ) ( إني لاكره للرجل المسلم أن يخرج من الدنيا وقد بقيت عليه خلة من خلال رسول الله صلى الله عليه وآله لم يصنعها ، فقلت : فهل تمتع رسول الله صلى الله عليه وآله ؟ فقال : نعم وقرأ هذه الاية : وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه الاية ) .
جواهر الكلام - الشيخ الجواهري ج 30 ص 151 وص152
وعلى هذا فالأخبار الواردة بعد ذلك لا مانع من الأخذ باطلاقها وإن كان النظر فيها إلى الثواب المترتب منها ما عن بكر بن محمد ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : " سألته عن المتعة فقال : إني لأكره للرجل المسلم أن يخرج من الدنيا وقد بقيت عليه خلة من خلال رسول الله صلى الله عليه وآله لم يقضيها " " فقلت : فهل تمتع رسول الله صلى الله عليه وآله ؟ فقال : نعم ، وقرأ هذه الآية " وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا - إلى قوله - وأبكارا " .
جامع المدارك - السيد الخوانساري ج 4 ص 288
کیا آپ کی رآئے اوپر بیان کئے گئے تمام سلف کی رائے پر فوقیت رکھتی ہے !!!!1