خیبر والی روایت پر دلائل کا انبار پیش کیا جا چکا ہے۔ مگر نہیں، وہ نظر نہیں آنے اور شیعہ کتب میں موجود خیبر کی جو واحد ایک روایت موجود ہے اُس کو ہی پکڑ کر بیٹھ جانا ہے۔ حالانکہ مکمل دلائل کے ساتھ تاریخ کی روشنی میں، خود آپکی اپنی کتابوں کی احادیث سے، اور خود آپکے علماء کے بیانات کی روشنی میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ اگر علی ابن ابی طالب نے واقعی ابن عباس کو خیبر پر متعہ کے حرام ہونے کی خبر دی تھی تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ 54 سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی عقد المتعہ کے حق میں ایسے شد و مد سے دلائل دے رہے ہوں اور باقاعدہ ابن زبیر سے اس مسئلے پر لڑ رہے ہوں، اور اُس وقت وہاں موجود صحابہ و تابعین کے جم غفیر میں سے کسی ایک کو بھی خیبر میں متعہ کے حرام ہونے کا علم نہ ہو۔
اور پھر یہ پورا واقعہ جم غفیر کے سامنے جابر بن عبداللہ انصاری کے سامنے بھی پیش آئے، اور پھر اس جم غفیر کو دور دور تک کسی خیبر کا یا کسی قرآنی آیت کا سرے سے علم ہی نہ ہو۔
بلکہ بذات خود یہ اچھنبے کی بات ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے خیبر والے دن کب اور کس وقت متعہ حرام کیا تھا کہ وہ تو پورے وقت یہودیوں سے لڑنے اور پھر صلح کرنے اور پھر مال غنیمت کا حساب کرنے میں مصروف تھے۔
پھر کیسے عجیب بات ہے کہ صحابہ پھر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پورے وقت عقد المتعہ کرتے رہیں، اور پھر حضرت عمر کے پورے دور میں، اور پھر حضرت عمر کی طویل خلافت کے آخر یا کم از کم نصف تک عقد المتعہ کے نام پر زناکاری کرتے رہیں، چاہے لاعلمی میں سہی اور کوئی انہیں خیبر کا بتلائے اور نہ کسی قرآنی آیت کا ذکر کر کے بتلائے کہ وہ متعہ کے نام پر زناکاری کر رہے ہیں؟
********************
بخاری و مسلم کے کئی راوی شیعہ و رافضی ہیں اور انکی روایات کو عام معاملات میں قبول کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ثقہ ہیں، مگر جب بات ایسے مسئلے کی آتی ہے جس میں شیعہ عقیدہ شامل ہو تو پھر انکی روایت کو ترک کردیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ یہی اصول آپ ہماری باری ہضم کر جاتے ہیں۔ خیبر والی روایت کے دو راوی اگرچہ کہ ثقہ ہی کیوں نہ ہوں، مگر بہرحال ان پر اختلاف ہے اور انکا سنی المذہب ہونا ثابت ہے۔ اور پھر ان میں سے ایک راوی عمرو بن خالد کے متعلق خود آپکے جید عالم ابن حجر العسقلانی کا قول بھی پیش کیا جا چکا ہے کہ یہ شخص "متروک" ہے اور یہ "جعلی روایتیں گھڑا کرتا تھا"۔
اور پھر یہ روایت بالکل تقیہ کے باعث ہو سکتی ہے اور اسکے شواہد میں بعد میں پیش کروں گی۔ انشاء اللہ۔
اور تیسری بڑی وجہ ہے کہ خیبر کے اس مسئلے پر موجود اس واحد روایت کے مقابلے میں شیعہ کتب میں بے تحاشہ متواتر روایات موجود ہیں جوکہ اس روایت کے بالکل خلاف ہیں۔ مثلا خود حضرت علی علیہ السلام سے مروی یہ روایت:
Tahdib al-Ahkam, Volume 7 page 250:
سمعت ابا جعفر عليه السلام يقول: كان علي عليه السلام يقول: لولا ما سبقني إليه بني الخطاب ما زنى إلا شقي
Abu Jaffar (as) narrated that Ali (as) used to say: 'If the son of Khatab did not prohibit it, no one would perform fornication except the wretched'.
Hadi Najafi said in Maouwsuat Ahadith Ahlulbayt, Volume 5 page 396: 'The chain is reliable'.
اور کمال بات یہ ہے کہ اس روایت کے مکمل شواہد خود اہلسنت کی کتب میں موجود ہیں، جنہیں ابھی تک آپ مسلسل اور مستقل طور پر ہضم کیے جا رہے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ الْحَكَم , قَالَ : سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : { وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ } إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ : لَا . قَالَ الْحَكَم : قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ : لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
ترجمہ:
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ
علی ابن ابی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو
کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
اس روایت کے راوی اہلسنت علمائے رجال کی نظر میں: مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں) شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)،الحكم بن عتيبة الكندىہ (امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)
تو آپ کہاں کہاں فرار ہوں گے کہ خود آپکی اپنی کتابوں میں علی ابن ابی طالب کی یہ روایت موجود ہے۔ مزید اسکی شاہد ابن عباس کی یہ روایت بھی ہے:
( عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال : لأول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى ، قال :أخبرني عن يعلى أن معاوية استمتع بامرأة بالطائف ، فأنكرت ذلك عليه ، فدخلنا على ابن عباس ، فذكر له بعضنا ، فقال له : نعم ، فلم يقر في نفسي ، حتى قدم جابر ابن عبد الله ،فجئناه في منزله ، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة ، فقال : نعم ، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، و أبي بكر ، و عمر، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث بامرأة - سماها جابر فنسيتها - فحملت المرأة ، فبلغ ذلك عمر ، فدعاها فسألها ، فقالت : نعم ،قال : من أشهد ؟ قال عطاء : لا أدري قالت : أمي ، أم وليها ، قال : فهلا غيرهما ، قال : خشي أن يكون دغلا الاخر ، قال عطاء : وسمعت ابن عباس يقول :يرحم الله عمر ، ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عز وجل ، رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، فلولا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي ،قال : كأني والله أسمع قوله : إلا شقي - عطاء القائل - قال عطاء : فهي التي في سورة النساء فما استمتعتم به منهن إلى كذا وكذا من الأجل ، على كذا وكذا ، ليس بتشاور)
السند :
عبد الرزاق ۔ ثقة حافظ مصنف أحد الأعلام من رواة البخاري ومسلم ۔ عن بن جريج ۔ ثقة فقيه فاضل أحد الأعلام من رواة البخاري ومسلم ۔ عن عطاء ۔ ثقة فقيه فاضل من رجال البخاري ومسلم ۔
عن صفون بن يعلى : ثقة من رواة البخاري ومسلم .
المصنف لعبد الرزاق 7/499، ط أخرى
استیعاب ابن عبدالبر (
مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد جلد ۲ صفحہ ۴۷۵)
میں یہ تصریح موجود ہے کہ۔
عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال کنا اذا اتانا الثبت عن علیؑ لم نعدل عنہ۔
ترجمہ:
ابن عباس کا بیان ہے کہ جب ہمیں حضرت علیؑ کا مستند بیان مل جاتا تھا تو پھر ہم اس سے عدول نہ کرتے تھے۔
چنانچہ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ علی ابن ابی طالب نے خیبر میں متعہ کی حرمت کا آپکے مطابق صاف صاف ابن عباس کو بتلایا ہو اور پھر نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی ابن عباس کو اسکا علم ہو اور نہ صحابہ و تابعین کے اُس جم غفیر کو جو خطبہ کے وقت اُس وقت وہاں موجود تھا؟؟؟
اس نصف صدی تک صحابہ کے متعہ کی حرمت سے لاعلم رہتے ہوئے عقد المتعہ کے نام پر زناکاری کرنے کے متعلق آپکا واحد بہانہ یہ تھا کہ ان صحابہ تک متعہ کی حرمت کا حکم نہیں پہنچا تھا۔ مگر جھوٹ کے پاؤں تو ہوتے نہیں، ادھر خود جھوٹی روایت علی اور ابن عباس کے نام پر گھڑ دی تاکہ متعہ کو حرام کیا جا سکے کیونکہ یہ دونوں ہی عقد المتعہ کے معاملے میں حضرت عمر کی ذاتی رائے سے کی گئی ممانعت کو صحیح نہ سمجھتے تھے۔
اور حضرت علی کی وجہ سے صرف حضرت ابن عباس ہی نہیں، بلکہ بذات خود علی ابن ابی طالب کی نسل سے آنے والے ائمہ اہلبیت مکمل طور پر متعہ کو حلال سمجھتے تھے، اور یہ چیز بھی خود بھائی لوگوں کی کتابوں میں موجود ہے، مگر روش وہی ہے کہ اپنی بات آئے تو خاموشی سے اپنے خلاف ہر دلیل و ثبوت کو بغیر ڈکار مارے ہضم کرتے جاؤ۔
امام قرطبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:
وقال أبو بكر الطرطوسي:
ولم يرخص في نكاح المتعة إلا عمران بن حصين وابن عباس وبعض الصحابة وطائفة من أهل البيت.[
آنلائن لنک]
یعنی:۔۔۔او ابوبکر الطرطوسی سے منقول ہے کہ عمران بن حصین اور ابن عباس اور بعض اصحاب اور
گروہ اہلبیت علیھم السلام عقد متعہ کی اجازت دیتے تھے۔