نہرو خاندان“ حیران کن انکشافات”

افلاطون

محفلین
مقصد صرف اپنی پسندیدہ شخصیت کے بارے لکھنا نہیں۔ بلکہ اس دنیا مین موجود شخصیات کے بارے میں معلومات ہے۔
جس بندے کے بارے میں مندرجہ بالا کالم لکھا گیا ہے وہ ایک ملک کا وزیر اعظم تھا جسے اس ملک کا سب سے اعلیٰ ترین قومی اعزاز دیا گیا۔ اور جیسا آپ نے کہا کہ معلومات دی گئی ہیں تو کیا اس کی زندگی کے متعلق یہی معلومات میسر ہیں آپ کو؟ یا پھر کہیں آپ بھی ایک شیشے والی عینک لگا کر تاریخ تو نہیں پڑھ رہے:rolleyes::rolleyes:
 
جس بندے کے بارے میں مندرجہ بالا کالم لکھا گیا ہے وہ ایک ملک کا وزیر اعظم تھا جسے اس ملک کا سب سے اعلیٰ ترین قومی اعزاز دیا گیا۔ اور جیسا آپ نے کہا کہ معلومات دی گئی ہیں تو کیا اس کی زندگی کے متعلق یہی معلومات میسر ہیں آپ کو؟ یا پھر کہیں آپ بھی ایک شیشے والی عینک لگا کر تاریخ تو نہیں پڑھ رہے:rolleyes::rolleyes:
ہاہاہا۔ سر میری عمر اتنی نہیں کہ میں اس زمانے میں ہوتا۔ میں نے ایک شیشے والی عینک نہیں لگائی بلکہ یہ منظر پہلی دفعہ دیکھا ہے۔ میں اسے اس سے بالکل مختلف سمجھتا تھا۔ جتنا بھی پڑھا تھا وہ مجھے ایک اچھا انسان لگتا تھا۔ جیسا ہندو اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں۔ یہ چہرہ پہلی دفعہ نظر آیا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ماضی تو خیر ہمارے سربراہان مملک کا بھی اتنا اچھا نہیں ہے کہ ان پر فخر کیا جا سکے بھلے ہی آپ گورنر جنرل غلام محمد سے لیکر موجودہ سربراہ زرداری تک دیکھ لیں، سوائے جنرل ضیاء کے۔
ڈکٹریٹر، مذہبی جنونی، آمر ضیاءالحق میں ایسی کیا خوبی نظر آگئی کہ اسکو فخریہ لسٹ میں شامل رکھا؟
 

یوسف-2

محفلین
ڈکٹریٹر، مذہبی جنونی، آمر ضیاءالحق میں ایسی کیا خوبی نظر آگئی کہ اسکو فخریہ لسٹ میں شامل رکھا؟
  1. اسی آمر نے پاکستانیوں کو بھٹو جیسے دنیا کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، شرابی، بے نمازی اور ظالم ( جو قتل کے جرم میں عدالتوں سے سزا یافتہ رہا ) حکمران کے ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ جس نے اقتدار کی خاطر ملک کے دو ٹکڑے کردئے کہ تم اُدھر اور ہم اِدھر:eek:
  2. اسی آمر کے دور حکومت میں پاکستان عملاً ایک نیکلیئر پاور بن گیا۔ اور اسی کے ”جانشین“ نواز شریف کے عہد میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان دنیا کے ایٹمی کلب میں شامل ہوگیا
  3. اسی آمر ضیا ء الحق نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا آغاز کیا۔ آئین کو اسلامائز کیا۔ نظام زکٰوۃ اور نظام صلٰوۃ قائم کیا۔
  4. اسی آمر کے عہد میں اسی کی کوششوں سے جہاد افغانستان کامیاب ہوا۔ سویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور پاکستان سویت یونین کی ایک اسٹیٹ بننے سے بچ گیا ضیاء الحق کے سفید اور بھٹو کے سفید کارناموں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ میں لکھتے لکھتے اور آ پ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے۔
  5. واضح رہے کہ ضیاء الحق کوئی فرشتہ اور بھٹو کوئی شیطان نہین تھا۔ وہ دونوں علی الترتیب ایک اچھے اور برے حکمران تھے۔ ضیاء دور مین خامیاں بھی تھیں اور بھٹو دور مین خوبیاں بھی۔ لیکن دونوں نسبتاً کم کم۔ ضیاء نے ایم کیو ایک بنوا کر کراچی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور لسانی سیاست و فسادات کو فروغ دیا۔ پی پی پی کے مقابلہ میں جے سندھ کو تھپکی دی۔ جہاد افغانستان کے سبب افغان مہاجرین پاکستان میں آئے اور ساتھ کلاشنکوف لائے۔ ہیروئین بھی آئی۔ وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سب وہ سائیڈ افیکٹس ہیں جو ایک مرتے ہوئے مریض کی جان بچانے کے لئے اسے بھاری ڈوز مین اینٹی بائیوٹیکس دینے سے ہوتا ہے:) اگر ضیاء کی ساری توجہ سویت یونین کو افغانستان مین پسپا کرنے اور پیچھے دھکیلنے پر نہ ہوتی تو پشاور مین ولی خان گروپ اسے ویلکم کرنے کو بےتاب تھا اور سویت یونین پشاور تک نہین بلکہ کراچی تک پہنچ جاتا اور آج شاید آپ اور ہم ایسی باتیں کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے، اگر ہمارے والدین روسی انقلاب کے اثرات سے زندہ بچ بھی جاتے تب بھی۔ ذرا اُن مسلم ریاستوں کا احوال تاریخ میں پڑھ لیجئے یا آج بھی وہاں جا کر دیکھ لیجئے کہ سویت یونین نے ان پر قبضہ کرکے وہاں کے مسلمانوں کا کیا حشر نشر کیا تھا :eek:
 

arifkarim

معطل
اسی آمر نے پاکستانیوں کو بھٹو جیسے دنیا کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، شرابی، بے نمازی اور ظالم ( جو قتل کے جرم میں عدالتوں سے سزا یافتہ رہا ) حکمران کے ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ جس نے اقتدار کی خاطر ملک کے دو ٹکڑے کردئے کہ تم اُدھر اور ہم اِدھر:eek:
دونوں ہی اقتدار پسند انسان تھے۔ ایک نے سیاست کا استعمال کیا تو دوسرے نے آمریت کا۔ خیر۔


اسی آمر کے دور حکومت میں پاکستان عملاً ایک نیکلیئر پاور بن گیا۔ اور اسی کے ”جانشین“ نواز شریف کے عہد میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان دنیا کے ایٹمی کلب میں شامل ہوگیا
ایٹمی طاقت ایک خاص وقت کے بعد ہی ظہور پزیر ہوتی ہے۔ اس کام کو شروع کرنے والا بھٹو ہی تھا۔ اگر یہ کام ضیاء کے وقت میں پورا ہوگیا تو یہ تکنیکی اور سائنسی وجہ سے ہے نہ کہ مسٹر ضیاء کے ’’کرامات‘‘ کی وجہ سے۔ ویسے بھی بھٹو کو 1974 کے بھارتی جوہری تجربہ کے بعد یہ قدم اٹھانا پڑا۔ وگرنہ اگر بھارت پہلے یہ تجربہ نہ کرتا تو بھٹو صاحب کے فرشتوں تک کو بھی گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کا خواب نہیں آنا تھا! :mrgreen:


اسی آمر ضیا ء الحق نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا آغاز کیا۔ آئین کو اسلامائز کیا۔ نظام زکٰوۃ اور نظام صلٰوۃ قائم کیا۔
یعنی غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق و فرائض کو پامال کرتے ہوئے قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے تمام نظریات کو مُلائیت کی نظر کر دیا!

اسی آمر کے عہد میں اسی کی کوششوں سے جہاد افغانستان کامیاب ہوا۔ سویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور پاکستان سویت یونین کی ایک اسٹیٹ بننے سے بچ گیا ضیاء الحق کے سفید اور بھٹو کے سفید کارناموں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ میں لکھتے لکھتے اور آ پ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے۔
ہاہاہا۔ سوویت یونین تو افغانستان سے قبل بہت سے مسلمان اکثریت ممالک پر قابض تھا۔ افغانستان ’’جہاد‘‘ میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ شاید اسکو جہاد اسلئے کہا جاتا ہے کہ اسکی تعلیم امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی کے ’’مولویوں‘‘ نے تشکیل دی تھی؟ :lol:


ذرا اُن مسلم ریاستوں کا احوال تاریخ میں پڑھ لیجئے یا آج بھی وہاں جا کر دیکھ لیجئے کہ سویت یونین نے ان پر قبضہ کرکے وہاں کے مسلمانوں کا کیا حشر نشر کیا تھا :eek:
جی کیا حشر ہوا ہے ان ممالک کا؟ ترکمنستان، تاجکستان، ازبکستان، اذربائجان وغیرہ آج بھی مسلمان اکثریت ہیں اور الحمدللہ وہابی جہادی شدت پسند اسلام سے پاک ہیں۔
 

سید زبیر

محفلین
عزیزم برین ہیکر
بہت معلوماتی کالم شریک محفل کیا ،نہ جانے اس کالم کے جواب میں اخبارات میں کیا آیا ۔ لیکن جس بات سے مجھے اتفاق نھیں ہوپا رہا وہ یہ کہ​
  1. " اس خاندان کا شجرہ نسب ایک مغل شہزادے غیاث الدین غازی سے شروع ہوتا ہے جو1857کی جنگ آزادی (انگریزوں کی نظر میں بغاوت)کے وقت دلی شہر کا کوتوال تھا اور بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا حکمران تھا۔ اس دور میں مغل حکمران کوئی بھی اہم عہدہ کسی ہندو کو نہیں دیتے تھے۔ ا س دور میں شہر کا کوتوال خصوصاً دلی شہر کا کوتوال اہم ترین عہدہ تھا لہٰذاوہ کسی مغل خاندان کے فرد کو ہی دیا جا سکتا تھا "
  2. " ۱۸۵۷کی شکست کے بعد انگریزوں نے دلی میں مغلوں کا قتل عام شروع کیا تو غیاث الدین غازی نے ہندوانہ لباس زیب تن کیا۔ اپنا نام گنگا دھر رکھا۔ اسکا گھر لال قلعہ دلی کے نزدیک ایک نہر کے کنارے تھا۔ اسی مناسبت سے اس نے نام کےساتھ لفظ ”نہرو“ کا اضافہ کیا اور یوں یہ ” گنگا دھر نہرو“ بن کر اپنی فیملی کے ساتھ آگرہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اپنے خدوخال کی وجہ سے راستے میں یہ شخص پکڑا گیا لیکن اپنے آپ کو کشمیری پنڈت ظاہر کرکے بچ نکلا۔"
  3. "لیکن نہرو شدید سیاسی مصروفیات کی وجہ سے بیٹی کےلئے وقت ہی نہ نکال سکا۔ جب اس نوجوان جوڑے کے تعلقات خطرناک حد تک بڑھ گئے تو نوجوان اندرا مسلمان ہوگئی اور لندن کی ایک مسجد میں دونوں نے شادی رچالی۔ شادی کے بعد اندرا پریادرشی نہرو نے اپنا نام تبدیل کرکے اسلامی نام میمونہ بیگم رکھا۔ اندرا کی والدہ کمالہ نہرو اس شادی کی سخت مخالف تھی لیکن اندرا نے اسکی ایک نہ سنی "
۱۸۵۷ کی تاریخ کوئی اتنی پرانی نہیں کہ تاریخ بھلا دی جائے اس دور کے نامور دانشور ، سیاستدان اور مورخین نے کہیں بھی ایسا ذکر نہیں کیا موتی لال نہرو {۱۸۶۱ ۔ ۱۹۳۱ } ، جواہر لال نہرو {۱۸۸۹۔ ۔ ۱۹۶۴ } کا عرصہ تھا​
اب یہ نام دیکھیں : سرسید احمد خان { ۱۸۱۷ ۔ ۔ ۱۸۹۸ } ، دادا بھائی نوروجی { ۱۸۲۵ ۔ ۔ ۱۹۱۷ }،محسن الملک {۱۸۳۷ ۔ ۔ ۱۹۰۷ }، الطاف حسین حالی {۱۸۳۷ ۔ ۔۱۹۱۴ }، ، شبلی نعمانی {۱۸۵۷ ۔ ۔۱۹۱۴ } لالہ لاجپت رائے { ۱۸۶۵۔ ۱۹۲۸ }، مولوی عبدالحق {۱۸۷۰ ۔ ۔۱۹۶۱ } ، قائد اعظم {۱۸۷۶ ۔ ۔ ۱۹۴۸}، علامہ اقبال { ۱۸۷۷۔ ۔ ۔۱۹۳۸ ] ، نوابزادہ لیاقت علی خان {۱۸۹۶۔ ۔ ۱۹۵۱ ] ، سروجنی نائیڈو{۱۸۷۹ ۔ ۔ ۱۹۴۹ } ، اشتیاق حسین قریشی {۱۹۰۳ ۔ ۔ ۱۹۸۱}​
یہ وہ اصحاب تھے جنہوں نے نہرو خاندان کا عروج بھی دیکھا اور کسی نہ کسی طور پر ان سے شناسائی بھی تھی ،، مگر مندرجہ بالا انکشافات کے متعلق ان اصحاب کی رائے نظر نہیں آتی ۔ بہر حال جو میرے تحفظات تھے میں نے لکھ دیے ۔​
 
100 فی صد متفق!
ضیاء کا ماضی بے داغ، حال بے لاگ اور مستقبل بے دماغ تھا۔ کہتے ہیں نا کہ فوجی زمین پر جتنی مرتبہ جوتے مارتے ہیں تو عقل اتنی ہی ٹخنوں کے قریب ہوتی جاتی ہے۔
خوبیاں تو جناب میں اتنی تھیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ شائد unicode اس سے انصاف نہ کرسکے اس کے لئے کسی اور قسم کی 256 bit encoding کرنی پڑے گی۔
بحرحال ان کی قوم کے لئے بہت خدمات ہیں۔ لوگوں کو منشیات اور کلاشنکوف دئے کہ لو بھئی ٹن ہو کر اپنا دفاع کرو یا کسی پر جفا کرو ہم تو لسی پی کر منجھی پر 11 سال تک بیٹھ کر آئین شائن کو کوڑے دان میں پھینک کر چودراہٹ کریں گے۔ اسلام کا ڈھونگ رچا کر جہاد شروع کریں گے اور یہ کارنامہ خودکش دھماکوں اور فرقہ واریت کی صورت میں نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ اکریمیا کے ساتھ یاری گانٹھ کر خوب ڈالر کمائیں گے اور پھر پارٹی ہوگی ;)
ضیا کی مذمت میں ہر فوجی کو گھسیٹنا ظلم ہے ۔ فوجی بھی انسان ہوتے ہیں اور انسانوں کی طرح خوبیوں خامیوں کا مجموعہ ۔
 

سید زبیر

محفلین
ہم کہیں انتہا پسندی کا شکار تو نہیں ہو رہے ؟ ہم افراد کے منفی کاموں ہی کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ ہمیں گاندھی جی کا وہ مرن برت یاد نہیں جو انہوں نے آزادی کے بعد بھارتی حکومت کو پاکستان کو اثاثے ادا کرنے کے لیے رکھا تھا ۔ہمیں ایوب خان کے ڈیموں اور صنعتی ترقی یاد نہیں ۔ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور میں منعقدہ اسلامی ممالک کی کانفرنس سے پاکستان کے وقار بلند کرنے ،اسلامی بم بنانے اور امت مسلمہ کو یک جا کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ بھی یاد کرنے چاہیئے۔ اسی طرح ضیا الحق کی کاسا بلانکا کی تقریر اور اسلامی شعائر کی احیا کے لیے جو کام کیے تھے وہ بھی ذہن نشین رہنے چاہئیے ،اسی طرح نواز شریف ،بی بی شہید اور پرویز مشرف نےبھی کچھ اچھے کام کیے تھے۔
ویسے میرا خیال ہے امت مسلمہ اور پاکستانی قوم کی یہ بد قسمتی ہی ہے کہ ہم قران کی تفسیر ، احادیث نبوی ، تاریخ اسلام ،تاریخ پاکستان ، بانیان پاکستان ، نظریہ پاکستان، ہمدردان پاکستان ، دشمنان پاکستان ،رہبران اسلام و پاکستان ، باہم صرف بحث ہی نہیں کرتے بلکہ باہم بر سر پیکار ہو جاتے ہیں تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں دینی مدرسے ہوں یا تعلیمی ادارے تعصب کی عفریت میں مبتلا ہیں حالانکہ اسلام اجماع امت کی تاکید کرتا ہے اللہ کریم ہماری حالت پر رحم فرمائے اور دوست دشمن کی تمیز کرنا سیکھیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں یہ سب سنگھ پریوار کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں، انہی کی سائٹس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔اور وہاں بھی جو لنکس دئے ہیں، وہ یا تو غلط ہیں، یا پریوار کے ہی زیر سایہ کوئی سائٹ ہے۔ خان پارسیوں میں بھی ہوتے ہیں، اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ فیروز مسلمان ہی تھے۔ اور جہاں تک سوال غیر مسلم کو وارث نہ بنائے جانے کا، تو کیا پارسی کو بنایا جا سکتا تھا؟
میں زبیر سے بھی متفق ہوں۔ بہر حال میں اس لئے دخل نہیں دے رہا ہوں کہ ہندوستانی ہوں، صرف اس لئے کہ ایسے تاریخی حقائق ہوتے تو کہیں نہ کہیں تو ذکر ہوتا ہی، آج کے زمانے میں ایسی باتیں کہاں چھپی رہ سکتی ہیں؟ اور ظاہر بھی ہوں تو مستند مآخذ سے طاہر ہوں تو مانا جا سکتا ہے۔
 
قطع نظر اس کے کہ روس کی لڑائی جہاد تھی یا فساد۔۔۔۔
لیکن اگر روس ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتا تو آج آپ کا پاکستان روس کی سٹیٹ یا پھر ادھر روس کی تشکیل کردہ کٹھ پتلی حکومت ضرور ہوتا۔
کیونکہ ہمارے ادھر پشاور کے قریب کے ایک یعنی چراٹ کے مشہور زمانہ سرخ پوش رہنما اجمل خان بابا کا ایک قول مجھے یاد ہے جب بم دھماکوں اور دہشت گردی میں اس کو کابل فرار ہونا پڑا تو کابل بیٹھ کر کہتا تھا کہ سرخ ڈولی میں بیٹھ کر پشاور آؤنگا۔
 
عزیزم برین ہیکر
بہت معلوماتی کالم شریک محفل کیا ،نہ جانے اس کالم کے جواب میں اخبارات میں کیا آیا ۔ لیکن جس بات سے مجھے اتفاق نھیں ہوپا رہا وہ یہ کہ​
  1. " اس خاندان کا شجرہ نسب ایک مغل شہزادے غیاث الدین غازی سے شروع ہوتا ہے جو1857کی جنگ آزادی (انگریزوں کی نظر میں بغاوت)کے وقت دلی شہر کا کوتوال تھا اور بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا حکمران تھا۔ اس دور میں مغل حکمران کوئی بھی اہم عہدہ کسی ہندو کو نہیں دیتے تھے۔ ا س دور میں شہر کا کوتوال خصوصاً دلی شہر کا کوتوال اہم ترین عہدہ تھا لہٰذاوہ کسی مغل خاندان کے فرد کو ہی دیا جا سکتا تھا "
  2. " ۱۸۵۷کی شکست کے بعد انگریزوں نے دلی میں مغلوں کا قتل عام شروع کیا تو غیاث الدین غازی نے ہندوانہ لباس زیب تن کیا۔ اپنا نام گنگا دھر رکھا۔ اسکا گھر لال قلعہ دلی کے نزدیک ایک نہر کے کنارے تھا۔ اسی مناسبت سے اس نے نام کےساتھ لفظ ”نہرو“ کا اضافہ کیا اور یوں یہ ” گنگا دھر نہرو“ بن کر اپنی فیملی کے ساتھ آگرہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اپنے خدوخال کی وجہ سے راستے میں یہ شخص پکڑا گیا لیکن اپنے آپ کو کشمیری پنڈت ظاہر کرکے بچ نکلا۔"
  3. "لیکن نہرو شدید سیاسی مصروفیات کی وجہ سے بیٹی کےلئے وقت ہی نہ نکال سکا۔ جب اس نوجوان جوڑے کے تعلقات خطرناک حد تک بڑھ گئے تو نوجوان اندرا مسلمان ہوگئی اور لندن کی ایک مسجد میں دونوں نے شادی رچالی۔ شادی کے بعد اندرا پریادرشی نہرو نے اپنا نام تبدیل کرکے اسلامی نام میمونہ بیگم رکھا۔ اندرا کی والدہ کمالہ نہرو اس شادی کی سخت مخالف تھی لیکن اندرا نے اسکی ایک نہ سنی "
۱۸۵۷ کی تاریخ کوئی اتنی پرانی نہیں کہ تاریخ بھلا دی جائے اس دور کے نامور دانشور ، سیاستدان اور مورخین نے کہیں بھی ایسا ذکر نہیں کیا موتی لال نہرو {۱۸۶۱ ۔ ۱۹۳۱ } ، جواہر لال نہرو {۱۸۸۹۔ ۔ ۱۹۶۴ } کا عرصہ تھا​
اب یہ نام دیکھیں : سرسید احمد خان { ۱۸۱۷ ۔ ۔ ۱۸۹۸ } ، دادا بھائی نوروجی { ۱۸۲۵ ۔ ۔ ۱۹۱۷ }،محسن الملک {۱۸۳۷ ۔ ۔ ۱۹۰۷ }، الطاف حسین حالی {۱۸۳۷ ۔ ۔۱۹۱۴ }، ، شبلی نعمانی {۱۸۵۷ ۔ ۔۱۹۱۴ } لالہ لاجپت رائے { ۱۸۶۵۔ ۱۹۲۸ }، مولوی عبدالحق {۱۸۷۰ ۔ ۔۱۹۶۱ } ، قائد اعظم {۱۸۷۶ ۔ ۔ ۱۹۴۸}، علامہ اقبال { ۱۸۷۷۔ ۔ ۔۱۹۳۸ ] ، نوابزادہ لیاقت علی خان {۱۸۹۶۔ ۔ ۱۹۵۱ ] ، سروجنی نائیڈو{۱۸۷۹ ۔ ۔ ۱۹۴۹ } ، اشتیاق حسین قریشی {۱۹۰۳ ۔ ۔ ۱۹۸۱}​
یہ وہ اصحاب تھے جنہوں نے نہرو خاندان کا عروج بھی دیکھا اور کسی نہ کسی طور پر ان سے شناسائی بھی تھی ،، مگر مندرجہ بالا انکشافات کے متعلق ان اصحاب کی رائے نظر نہیں آتی ۔ بہر حال جو میرے تحفظات تھے میں نے لکھ دیے ۔​
اس پس منظر کی تفصیل ایم۔کے۔سنگھ نے اپنی مشہور ریسرچEncyclopaedia of Indian War of Independence (SBN:81-261-3745-9) کی جلد نمبر13 میں دی ہے۔ یہ حقیقت حکومت ہند نے چھپا رکھی ہےِ

آپ نے یہ والی سطر بھی پڑھی ہوگی۔ یہ ایک ایسی تلخ سچائی تھی کہ ہندؤ کو چھپانا پڑا تھا۔ اور اس کے معاشکے بھی چھپے رہے۔ جنہیں بعد میں عیاں کیا گیا۔
 
میرے خیال میں یہ سب سنگھ پریوار کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں، انہی کی سائٹس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔اور وہاں بھی جو لنکس دئے ہیں، وہ یا تو غلط ہیں، یا پریوار کے ہی زیر سایہ کوئی سائٹ ہے۔ خان پارسیوں میں بھی ہوتے ہیں، اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ فیروز مسلمان ہی تھے۔ اور جہاں تک سوال غیر مسلم کو وارث نہ بنائے جانے کا، تو کیا پارسی کو بنایا جا سکتا تھا؟
میں زبیر سے بھی متفق ہوں۔ بہر حال میں اس لئے دخل نہیں دے رہا ہوں کہ ہندوستانی ہوں، صرف اس لئے کہ ایسے تاریخی حقائق ہوتے تو کہیں نہ کہیں تو ذکر ہوتا ہی، آج کے زمانے میں ایسی باتیں کہاں چھپی رہ سکتی ہیں؟ اور ظاہر بھی ہوں تو مستند مآخذ سے طاہر ہوں تو مانا جا سکتا ہے۔
جو دوسروں کی بات سے متفق ناہو۔ اسے کسی مناظرے یا بحث میں حصہ دار بننے کا حق ہی حاصل نہیں۔آپ بہتر جانتے ہیں بلکہ اپ ہم سے زیادو اس بارے جانتے ہونگے۔ اپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ شکریہ۔
 
میرے خیال میں یہ سب سنگھ پریوار کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں، انہی کی سائٹس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔اور وہاں بھی جو لنکس دئے ہیں، وہ یا تو غلط ہیں، یا پریوار کے ہی زیر سایہ کوئی سائٹ ہے۔ خان پارسیوں میں بھی ہوتے ہیں، اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ فیروز مسلمان ہی تھے۔ اور جہاں تک سوال غیر مسلم کو وارث نہ بنائے جانے کا، تو کیا پارسی کو بنایا جا سکتا تھا؟
میں زبیر سے بھی متفق ہوں۔ بہر حال میں اس لئے دخل نہیں دے رہا ہوں کہ ہندوستانی ہوں، صرف اس لئے کہ ایسے تاریخی حقائق ہوتے تو کہیں نہ کہیں تو ذکر ہوتا ہی، آج کے زمانے میں ایسی باتیں کہاں چھپی رہ سکتی ہیں؟ اور ظاہر بھی ہوں تو مستند مآخذ سے طاہر ہوں تو مانا جا سکتا ہے۔
جتنا مواد نظر آیا وہ سارا سنگھوں کا ہی ہے۔
آپ کی اس بات میں بھی وزن ہے۔
 
Top