نیب نے جنگ و جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرلیا

جاسم محمد

محفلین
نیب نے جنگ و جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرلیا
ویب ڈیسک جمعرات 12 مارچ 2020
2020103-mirshakeelurrehman-1584017436-715-640x480.JPG

میر شکیل نیب حکام کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ فوٹو، فائل

لاہور: نیب نے غیر قانونی اراضی کیس میں جنگ وجیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کو گرفتارکر لیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق نیب نے میر شکیل سے 54 کینال اراضی کی خریداری سے متعلق سوالات کیے لیکن ذرائع کے مطابق نیب حکام جمع کرائے گئے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔

میر شکیل الرحمان پر 1986 میں اس وقت کے وزیراعلی نوازشریف سے 54 کنال اراضی سیاسی بنیادوں پر لینے کا الزام ہے جس کی تحقیقات کے لیے انہیں لاہور نیب میں طلب کیا گیا۔

میر شکیل الرحمان کے فراہم کردہ دستاویزات سرکاری اور ایل ڈی اے کے ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، مزید سوالات پوچھنے پر نیب حکام اور میر شکیل الرحمان کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی۔ میر شکیل نیب کے فراہم کردہ سوال نامے کے 16 میں سے صرف 4 کا جواب دے سکے۔ غیر قانونی اراضی کیس میں میر شکیل 5 مارچ کو بھی لاہور نیب میں پیش ہوئے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میر شکیل الرحمان پر 1986 میں اس وقت کے وزیراعلی نوازشریف سے 54 کنال اراضی سیاسی بنیادوں پر لینے کا الزام ہے جس کی تحقیقات کے لیے انہیں لاہور نیب میں طلب کیا گیا۔
جنگ گروپ نواز شریف، ن لیگ پر اتنا مہربان کیوں ہے، وجہ سامنے آگئی
 

فرقان احمد

محفلین
جنگ گروپ نواز شریف، ن لیگ پر اتنا مہربان کیوں ہے، وجہ سامنے آگئی
نوے کی دہائی میں یہ مہربانی کہاں تھی؟ :) دراصل، جب کوئی جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو ہر طرح کی تنقید گراں گزرتی ہے۔ اب نیب کی ذمہ داری ہے کہ اس کیس میں بھی کچھ محنت کرے وگرنہ پھر سبکی اٹھانے کا قوی امکان ہے۔ ویسے اس فیصلے سے ہلچل خوب مچے گی۔ :) نیب نے عدالت سے اس قدر جھاڑیں کھائی ہیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوے کی دہائی میں یہ مہربانی کہاں تھی؟ :) دراصل، جب کوئی جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو ہر طرح کی تنقید گراں گزرتی ہے۔ اب نیب کی ذمہ داری ہے کہ اس کیس میں بھی کچھ محنت کرے وگرنہ پھر سبکی اٹھانے کا قوی امکان ہے۔ ویسے اس فیصلے سے ہلچل خوب مچے گی۔ :) نیب نے عدالت سے اس قدر جھاڑیں کھائی ہیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے اندر ہی اندر کوئی لاوا پک رہا ہو گا؛ کوئی بہت بڑا معاملہ ہو گا تبھی یہ 'انتہائی اقدام' اٹھایا گیا۔ میر شکیل کی گرفتاری ایک بڑی خبر ہے۔ اس کے اثرات بھی کہیں نہ کہیں ضرور پڑیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے اندر ہی اندر کوئی لاوا پک رہا ہو گا؛ کوئی بہت بڑا معاملہ ہو گا تبھی یہ 'انتہائی اقدام' اٹھایا گیا۔ میر شکیل کی گرفتاری ایک بڑی خبر ہے۔ اس کے اثرات بھی کہیں نہ کہیں ضرور پڑیں گے۔
زیادہ کچھ نہیں یہ اپوزیشن کی چیخیں نکلوانے کا ایک بہانہ ہے۔ مریم نواز نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری پر سخت پریشان ہو کر "او مائی گاڈ" کہہ دیا۔
اب اپوزیشن کو اس حکومت کے خلاف جعلی، من گھڑت خبریں چلوانے کیلئے کسی اور میڈیا گروپ کو مینج کرنا پڑے گا۔
 
مخالفانہ آوازوں کو ہر صورت بند کرنا ضروری ہے ورنہ عوام ہماری بکواس پر کیوں کان دھرنے لگے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تعریف ہونے لگے، مخالفت کی ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے، تب آئے گی تبدیلی!
 

جاسم محمد

محفلین
مخالفانہ آوازوں کو ہر صورت بند کرنا ضروری ہے ورنہ عوام ہماری بکواس پر کیوں کان دھرنے لگے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تعریف ہونے لگے، مخالفت کی ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے، تب آئے گی تبدیلی!
جی ہاں۔ بظاہر یہ کاروائی آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ فیک نیوز صرف جنگ گروپ ہی نہیں دیتا لیکن نیب کی کاروائی صرف اس کے مالک کے خلاف ہوئی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
جی ہاں۔ بظاہر یہ کاروائی آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ فیک نیوز صرف جنگ گروپ ہی نہیں دیتا لیکن نیب کی کاروائی صرف اس کے مالک کے خلاف ہوئی ہے۔
پاکستان میں یہ سب کچھ سعودی ماڈل پر نہیں چل سکتا ہے۔ حکومت میں اتنی جان نہیں کہ زیادہ مخالفت برداشت کر سکے۔ کارکردگی بہتر ہوتی تو معاملات یک سر مختلف ہو سکتے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں یہ سب کچھ سعودی ماڈل پر نہیں چل سکتا ہے۔ حکومت میں اتنی جان نہیں کہ زیادہ مخالفت برداشت کر سکے۔ کارکردگی بہتر ہوتی تو معاملات یک سر مختلف ہو سکتے تھے۔
ابھی جب اس حکومت کو حلف اٹھائے جمہ جمعہ 8 دن بھی نہیں ہوئےتھےتب سے اس کے خلاف میڈیا پر منظم انداز میں تنقید برائے تنقید ہو رہی ہے۔
پاکستانی میڈیا مغربی میڈیا کی طرح اپنے خرچے خود نہیں اٹھاتا بلکہ ہمہ وقت سرکار کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ اسے سرکاری اشتہارات کی مد میں ہڈی ڈالے۔ اور ظاہر ہے جو حکومت میڈیا گروپس کی یہ ڈیمانڈ پوری نہیں کرتی تواس کو دباؤ میں لانے (بلیک میل) کیلئے منظم انداز میں اس کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے جو روزانہ کی بنیاد پر آپ کو پیشتر میڈیا گروپس یہ کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ یہ حکومت فیل ہو گئی۔
اب حکومت نے اس یکطرفہ میڈیا کمپین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ ہر وہ میڈیا گروپ جو 24 گھنٹے قوم میں مایوسی پھیلائے گا اور بیلنسڈ خبریں نہیں دے گا وہ اس کی زد میں آئے گا۔ اور اس سے جڑے لفافوں کی چیخیں نکلیں گی۔
 
جب تک میڈیا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے دور میں ان کی دھجیاں اڑاتا تھا، اور نیازی صاحب کے گن گاتا تھا میڈیا بہت اچھا تھا۔ آج وہی کلاسرا ہیں جو ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، آج وہی شاہد مسعود ہیں، وہی ندیم ملک ہیں جو ان کی مایوس کن پرفارمنس پر ان کے خلاف لکھتے ہیں بولتے ہیں تو اب میڈیا لفافہ ہوگیا۔ تف ہے اس فاشسٹ حکمران پر۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب تک میڈیا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے دور میں ان کی دھجیاں اڑاتا تھا، اور نیازی صاحب کے گن گاتا تھا میڈیا بہت اچھا تھا۔ آج وہی کلاسرا ہیں جو ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، آج وہی شاہد مسعود ہیں، وہی ندیم ملک ہیں جو ان کی مایوس کن پرفارمنس پر ان کے خلاف لکھتے ہیں بولتے ہیں تو اب میڈیا لفافہ ہوگیا۔ تف ہے اس فاشسٹ حکمران پر۔
میڈیا کا کام ہر حکومت کی مخالفت میں دن رات ایک کرنا نہیں ہے۔ مشرف نے پاکستانی میڈیا کو آزادی اس لئے نہیں دیتی تھی کہ وہ آئندہ آنے والی حکومتوں کے خلاف جعلی اور من گھڑت خبریں چلا چلا کر عوام کو گمراہ کر دیں۔ یا ہر وقت قوم میں مایوسی پھیلائیں۔
میڈیا کا اصل کام حکومتوں کی رہنمائی اور چھپے حقائق پر سے پردہ ہٹانا ہے۔ جہاں جہاں حکومت غلط کر رہی ہے وہاں اس پر تنقید کریں۔ وہ عوامی ایشوز ہائی لائٹ کریں جو طاقت کے مراکز تک نہیں پہنچ رہے۔ اور اسی طرح حکومت جو عوامی فلاح بہبود کے کام کر رہی ہے اس پر روشنی ڈالیں۔ عوام کو بتائیں کہ حکومت نے فلاں فلاں اچھے اور برے کام کئے۔ یوں ایک غیرجانبدار ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا کریں۔
جبکہ پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہاں میڈیا ہر حکومت میں اپوزیشن کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اور اس کے ہر الٹے سیدھے الزام کو بلا تحقیق "سچ" بنا کر عوام میں بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ یا سرکاری اشتہارات حاصل کرنے کے چکر میں حکومتوں کے خلاف من گھڑت خبریں چلوا کر اسے بلیک میل کرتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
واہ! جب تک پچھلی حکومتوں کی مخالفت کرتا تھا میڈیا بہت اچھا تھا لیکن میڈیا پر اب لازم نہیں کہ مدینہ کی ریاست کی مخالفت کرے۔ بہت اعلیٰ
ایسا کہاں کہا؟
میڈیا کو بالکل اس حکومت پر تنقید کا حق حاصل ہے لیکن تنقید برائے تنقید کا نہیں۔ آپ میڈیا پر کوئی سا بھی معاشی پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں تو وہاں لفافوں نے رولا ڈالا ہوتا ہے کہ حکومت شرح سود کم نہیں کر رہی۔ عوام کو سچ کیوں نہیں بتاتے کہ اگر شرح سود کم کی تو افراط زر یعنی مہنگائی کنٹرول سے باہر ہو جائے گی۔ نیز باہر سے جو سرمایہ کاری ہو رہی ہے وہ ضائع ہو جائے گی۔
اسی طرح آئے روز یہ شور ڈالا ہوتا ہے کہ حکومت ریکارڈ ٹیکس اکٹھے کر رہی ہے لیکن کوئی بڑا ڈویلپمنٹ منصوبہ نہیں لگا رہی۔ یہاں بھی قوم کو سچ نہیں بتاتے کہ ہر سال حکومت کا اکٹھا کیا گیا ٹیکس کا 50 فیصد پچھلی حکومت کے لئے گئے قرضوں کی واپسی میں جا رہا ہے۔ ان سخت معاشی حالات میں حکومت نئے منصوبے کہاں سے لگائے؟
نیز دیگر ایشوز جیسے چینی، آٹا، ٹماٹر مہنگا ہوگیا تو سارا حکومت کا قصور ہے۔ اور جب وہی چیزیں سستی ہو جائیں تو حکومت کو کوئی کریڈٹ دینے کی ضرورت نہیں۔
اس قسم کی یکطرفہ میڈیا رپورٹنگ صحافت نہیں لفافت ہے۔ اور اس کے خلاف سرکاری اقدامات ضروری ہیں تاکہ میڈیا ہمیشہ حکومت کے خلاف یا حکومت کے حق میں خبریں چلانے کی بجائے غیرجانبداری سے بیلنسڈ خبریں عوام کو دے۔ جو اس کا اصل کام ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دنیا نیوز والوں کی کیا پالیسی ہے؟

میں پروگرام "آج کامران خان کے ساتھ " دیکھا کرتا ہوں۔

کبھی کامران بھیا عمران خان کی حکومت کی تمام تر خراب باتیں اکھٹا کرکے پروگرام کرتے ہیں اور کسی دن تمام اچھی باتیں جمع کرکے۔ گو کہ زیادہ تر باتیں حقائق پر مبنی ہوا کرتی ہیں۔ یا کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے۔
 
Top