نیلا واہن

پرانا اردو ادب پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ اپنے باتھ روم میں نہانے کے لئے بھی باقاعدہ تہمد باندھ کر نہاتے تھے :)
بجا فرمایا آپ نے۔ لیکن، وہ 'اردو' ادب تھا۔:)
مزہ تب ہے جو کہیں 'پنجابی' ادب میں سے بھی کوئی ایسا اقتباس ڈھونڈ نکالیں:LOL:، نئے، پرانے کی کوئی قید نہیں:battingeyelashes:
 

اوشو

لائبریرین
بے شک۔ ابھی کچھ اور پروگرام ملتوی کر رکھے ہیں۔ رمضان کریم کے بعد ان شاءاللہ مزید کچھ اسلام آباد کے گردونواح کے مقامات شامل کروں گا۔
باباجی نے لطف دوبالا کر دیا تھا۔ بانسری بجانے پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔
بہت شکریہ ملک صاحب :)

ویسے میں ہوتا تو ان باباجی کے پاس وقت گزارتا۔ :)
ویسے جس علاقہ میں آپ گئے اس کے قریب ہی ایک اور علاقہ ہے کلر کہار انٹرچینج سے اگلا انٹر چینج ہے "للہ" انٹرچینج ادھر سے اتر کر براستہ "للہ" جانا پڑتا ہے اور جگہ کا نام ہے "پِیر دا کھارا"۔
ایک رستہ شاید کلر کہار سے براستہ چوآسیدن شاہ بھی جاتا ہے ادھر کو۔

یہاں ایک ولی اللہ کا دربار شریف ہے اس دربار کے ساتھ پہاڑی میں سے کھارے یعنی نمکین پانی کا چشمہ نکلتا ہے ۔
اسی مناسبت سے اسے "پیر دا کھارا" کہا جاتا ہے۔ یہ پانی پینے سے معدے سے متعلقہ بہت سے امراض سے شفا ہوتی ہے۔ اور اس پانی میں نہانے سے جلد سے متعلقہ متعدد امراض سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ یہ چیز میری بارہا آزمودہ ہے ۔ اللہ بخشے دادا ابو حیات تھے تھے سال چھ مہینے بعد مجھے لے کر اس چشمے پر جاتے تھے اور میں خوب مزے سے نہاتا تھا ادھر اور واپسی پر ہم ایک دو کین اس پانی کے بھی لے آتے تھے۔ اور جب کبھی گھر میں کسی کو معدے سے متعلقہ کوئی مسئلہ ہوتا تو اس پانی کا آدھا گلاس پینے سے بہت جلد آرام آ جاتا۔
اب اسے کوئی ان ولی اللہ کی کرامت سمجھے یا اس پانی میں موجود نمکیات و معدنیات کی ایک مخصوص آمیزش ، کیوں کہ یہ سالٹ رینج میں واقعہ ہے ۔ دونوں صورتوں میں یہ پانی بہت فائدے کی چیز ہے۔
دنیا کی مصروفیات میں ایسے الجھے کے دوبارہ اس طرف جانا ہی نہیں ہوا۔ کچھ راستے کی دشواریاں بھی حائل تھیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
بجا فرمایا آپ نے۔ لیکن، وہ 'اردو' ادب تھا۔:)
مزہ تب ہے جو کہیں 'پنجابی' ادب میں سے بھی کوئی ایسا اقتباس ڈھونڈ نکالیں:LOL:، نئے، پرانے کی کوئی قید نہیں:battingeyelashes:

بچپن میں چچامرحوم صبح سویرےکھیتوں میں رہٹ یا ٹیوب ویل پر نہانے کے لئے جاتےوقت ہمیں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ نہانے کی سہولت کے لیے کنویں سے نکلنے والی پانی کی دھار کے آگےٹیوب ویلوں پر تو پختہ اور رہٹوں پر برائے نام سے ’ چبچ چے‘ (ایک چاردیواری) بنے ہوتے تھے۔ اکثر لوگ تو’کچھے‘ لے کر جاتے تھے۔ لیکن چند ایک’قدرتی لباس‘ میں نہانے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ مجھے یاد ہیں۔ جو ’آپنے آپنےدھیان بھائی لوگو‘ کا نعرہ لگا کر ہاتھوں سےاپنے تہہ بند کو ایک دو مرتبہ جُھلا کر آرام سے پانی کی دھار کے آگے بیٹھ جایا کرتے تھے اور باقی لوگ ذرا پرے ہٹ کر ان کے باہر آنے تک انتظار کیا کرتے تھے۔ کیا زمانے تھے!
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
ویسے میں ہوتا تو ان باباجی کے پاس وقت گزارتا۔ :)
ویسے جس علاقہ میں آپ گئے اس کے قریب ہی ایک اور علاقہ ہے کلر کہار انٹرچینج سے اگلا انٹر چینج ہے "للہ" انٹرچینج ادھر سے اتر کر براستہ "للہ" جانا پڑتا ہے اور جگہ کا نام ہے "پِیر دا کھارا"۔
ایک رستہ شاید کلر کہار سے براستہ چوآسیدن شاہ بھی جاتا ہے ادھر کو۔

یہاں ایک ولی اللہ کا دربار شریف ہے اس دربار کے ساتھ پہاڑی میں سے کھارے یعنی نمکین پانی کا چشمہ نکلتا ہے ۔
اسی مناسبت سے اسے "پیر دا کھارا" کہا جاتا ہے۔ یہ پانی پینے سے معدے سے متعلقہ بہت سے امراض سے شفا ہوتی ہے۔ اور اس پانی میں نہانے سے جلد سے متعلقہ متعدد امراض سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ یہ چیز میری بارہا آزمودہ ہے ۔ اللہ بخشے دادا ابو حیات تھے تھے سال چھ مہینے بعد مجھے لے کر اس چشمے پر جاتے تھے اور میں خوب مزے سے نہاتا تھا ادھر اور واپسی پر ہم ایک دو کین اس پانی کے بھی لے آتے تھے۔ اور جب کبھی گھر میں کسی کو معدے سے متعلقہ کوئی مسئلہ ہوتا تو اس پانی کا آدھا گلاس پینے سے بہت جلد آرام آ جاتا۔
اب اسے کوئی ان ولی اللہ کی کرامت سمجھے یا اس پانی میں موجود نمکیات و معدنیات کی ایک مخصوص آمیزش ، کیوں کہ یہ سالٹ رینج میں واقعہ ہے ۔ دونوں صورتوں میں یہ پانی بہت فائدے کی چیز ہے۔
دنیا کی مصروفیات میں ایسے الجھے کے دوبارہ اس طرف جانا ہی نہیں ہوا۔ کچھ راستے کی دشواریاں بھی حائل تھیں۔
جی بالکل۔ لیکن وہ پانی سالٹ مائنز کی وجہ سے نمکین ہے۔ کوئی بھی ایسا پانی جس میں نمکیات وافر مقدار میں ہوں۔ جلدی امراض کے لئے بےحد مفید رہتا ہے۔ یہ جو نیلا واہن اپنے آب شفا چشمے کے لئے مشہور ہے۔ (جس پر ہم گئے نہیں۔) اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس پانی میں نمکیات وافر مقدار میں ہیں۔ یہ جو تین چشمے نیچے ہیں۔ یہ اور وہ والا چشمہ چاروں کا پانی ایک ہی ہے۔ لیکن مشہور وہ اس لئے ہے کہ بالکل اوپر ہی ہے۔۔۔ اگر آپ کے جسم پر دانے یا الرجی ہے تو اس پانی میں نہانے سے وہ جاتی رہتی ہے۔ کم از کم میرا تجربہ یہی ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بچپن میں چچامرحوم صبح سویرےکھیتوں میں رہٹ یا ٹیوب ویل پر نہانے کے لئے جاتےوقت ہمیں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ نہانے کی سہولت کے لیے کنویں سے نکلنے والی پانی کی دھار کے آگے نہانے کی سہولت کے لیےٹیوب ویلوں پر تو پختہ اور رہٹوں پر برائے نام سے ’ چبچ چے‘ (ایک چاردیواری) بنے ہوتے تھے۔ اکثر لوگ تو’کچھے‘ لے کر جاتے تھے۔ لیکن چند ایک’قدرتی لباس‘ میں نہانے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ مجھے یاد ہیں۔ جو ’آپنے آپنےدھیان بھائی لوگو‘ کا نعرہ لگا کر ہاتھوں سےاپنے تہہ بند کو ایک دو مرتبہ جُھلا کر آرام سے پانی کی دھار کے آگے بیٹھ جایا کرتے تھے اور باقی لوگ ذرا پرے ہٹ کر ان کے باہر آنے تک انتظار کیا کرتے تھے۔ کیا زمانے تھے!

اس چاردیواری کی بات کر رہے ہیں سر۔۔۔ یہ ہماری زرعی زمین پر لگا ہوا ٹیوب ویل ہے۔
20131016_103342_zpsb8fe333e.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

عینی شاہ

محفلین
شور اس قدر زیادہ تھا کہ آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اور بہاؤ اس قدر شدید کہ ٹک کر کھڑے ہونا پڑا۔۔۔
10374888_10152878274381978_7939653650745209804_n.jpg


یار میری بھی ایک تصویر
10305609_10152878316086978_8048966528742274120_n.jpg


ایک اور
10336597_10152878314611978_8080010288990001164_n.jpg


ایسا ایک سگریٹ کا اشتہار آتا تھا۔ رینجر جانبازوں کا انتخاب۔۔۔ وہی بنانے کی کوشش
14494_10152878267906978_8445563577824786382_n.jpg
ڈرپوک جانباز :p:p:p
 
خوشاب سے نیلا واہن چائینہ سیونٹی بائیک پر جا سکتے ہیں؟پاس ھوٹل روم مل سکتا ہے۔؟پارکنگ موجود ہے؟
میرے پاس تصاویر اوپن نہیں ہوئیں۔پلز میسج کر کے بتا دیں
 
Top