فاخر رضا
محفلین
پہلی ڈھارس اور جرات وزیرِ اعظم جاسنڈا آرڈرن کی طرف سے آئی۔ واردات کے چند منٹ بعد انہوں نے میڈیا کے سامنے بھرائی آواز میں کہا ’اس دھشت گردی کا شکار وہ تارکینِ وطن ہیں جنہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنایا۔ہاں یہ ان کا گھر ہے اور وہ ہمارا حصہ ہیں۔جس شخص نے اس بدترین جرم کا ارتکاب کیا وہ ہم میں سے نہیں۔آج کا دن ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ یہ حملہ اس لئے ہوا کہ ہم یک رنگی کے بجائے نسلی و سماجی رنگا رنگی پر یقین رکھتے ہیں۔براہ کرم حملہ آور کی پرتشدد وڈیوز اور اس کے تحریری جواز کو آگے نہ بڑھائیں ۔تاکہ اس پرتشدد سوچ کو آکسیجن نہ مل سکے۔‘
یہ بھی پڑھیے:
کرائسٹ چرچ: متاثرین کے لیے دنیا سوگ میں
کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ’دہشت گردی‘ تصاویر میں
اپنے تھپڑ اور گالی سے ڈرو ورنہ ۔۔۔
سچ کا انکاؤنٹر تو بہت پہلے ہو چکا
اس سانحے میں سے پہلا ہیرو میاں نعیم رشید ابھرا جو دوسرے نمازیوں کو بچانے کے لئے حملہ آور باڈی بلڈر برینٹن ٹارانٹ سے لپٹ گیا۔ نعیم رشید اور ان کا بیٹا طلحہ کرائسٹ چرچ کے شہیدوں میں شامل ہیں۔
خبر پھیلتے ہی ہر ایک نے سوچنا شروع کر دیا۔ میں اس وقت بحیثیت انسان کیا کر سکتا ہوں؟
کرائسٹ چرچ دھشت گردی کے متاثرین کی مدد کے لئے قائم خصوصی فیس بک پیج ’گیو اے لٹل‘ پر پچھلے چوبیس گھنٹے میں باسٹھ ہزار سے زائد ڈونر پینتالیس لاکھ ڈالر سے زائد چندہ دے چکے ہیں اور یہ رقم مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لانچ گڈ ویب سائٹ پر اب تک لگ بھگ تیس ہزار لوگ چندہ دے چکے ہیں۔
یوتی لوآنو اور ان کی اہلیہ نے جب اسپتال کے باہر فٹ پاتھ پر زخمی عزیزوں کی خیر خبر کے انتظار میں سینکڑوں سوگوار چہرے دیکھے تو انہیں پہلا خیال آیا کہ یہ تو بھوکے پیاسے ہوں گے۔
یوتی نے فوراً ایک فیس بک پیج بنایا اور حلال فوڈ کی اپیل کر دی۔ یوتی اور ان کی اہلیہ کی اس اپیل پر خوراک کے تھیلوں سے لدے پھندے شہریوں کی لمبی قطار بن گئیں۔ اس قطار سے خوراک جمع کرنے کے لئے رضاکاروں کا ایک جتھا خود بخود وجود میں آگیا۔ چند گھنٹے بعد یوتی کو فیس بک پیج پر ایک اور اپیل جاری کرنا پڑی ’آپ کا بہت بہت شکریہ۔ مزید نہیں چاہئے۔ گنجائش اور ضرورت سے زیادہ اشیائے خوردونوش جمع ہو گئی ہیں۔ نیوزی لینڈر جیتے رہئیے۔۔‘
گرو نانک فری کچن آک لینڈ کی جانب سے ٹویٹر اور فیس بک پر اپیل ہوئی۔ مسلمان بھائیوں کی سیوا کے لئے ایسے رضاکار چاہئیں، جو میت کو غسل دے سکیں، جنازوں اور ان کے عزیزوں کو قبرستان تک پہنچا سکیں، قبر کی کھدائی میں مدد کر سکیں، سوگواروں کو کھانا کھلانے کے لئے لنگر کی ڈیوٹی سنبھال سکیں، واہگرو جی کا خالصہ، واہگرو جی کی فتح۔۔۔
ویلنگٹن شہر کی شہری لیانس ہوورڈ کا فیس بک پیج چند ہی گھنٹے میں سولہ ہزار سے زائد نیوزی لینڈرز نے شئیر کیا۔ پیغام بس اتنا ہے ’اگر ویلنگٹن کی کوئی مسلمان خاتون اس وقت خوفزدہ ہے تو مجھ سے رابطہ کرے۔میں تمہارے ساتھ چلوں گی، بس سٹاپ پر تمہارے ساتھ کھڑی ہوں گی، سفر کروں گی، تم اگر خریداری کرنا چاہو تو میں تمہاری حفاظتی دیوار بنوں گی۔ پلیز مجھ سے بلا ہچکچاہٹ رابطہ کرو۔‘
بیس اکتوبر دو ہزار نو کو ایک خود کش بمبار اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں طالبات سے بھری کینٹین میں گھسنا چاہ رہا تھا۔ مگر اس سے خاکروب پرویز مسیح لپٹ گیا۔ خودکش بمبار کینٹین کے دروازے پر پھٹ گیا۔ تین ہلاکتیں ہوئیں۔ پرویز مسیح جان نہ دیتا تو بیسیوں ہوتیں۔
آٹھ جنوری دو ہزار پندرہ کو جب داعش نے پیرس میں توہین آمیز کارٹون چھاپنے والے رسالے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر ہلہ بولا تو ایک فرانسیسی پولیس افسر احمد مراتب انہیں روکنے کی کوشش میں شہید ہوگیا۔ جنازے میں شریک ہر شخص نے بیج لگا رکھا تھا ’میں احمد ہوں۔‘
اسی دن پیرس میں کوشر فوڈ بیچنے والی ہائپر کیچر سپر مارکیٹ پر دھشت گرد حملہ ہوا۔ وہاں مالی سے آیا ہوا ایک مسلمان پناہ گزیں لسانا بتیلی بھی مزدوری کرتا تھا۔ اس نے حالات بھانپ لئے اور جتنے بھی دھشت زدہ یہودی گاہکوں کو سپر مارکیٹ کے زیرِ زمین کمرے میں دھکیل سکتا تھا دھکیل کر باہر سے تالا لگا کے بچا لیا۔ صدر فرانسوا ہولاندے نے اس سیاہ فام مسلمان تارکِ وطن کو صدارتی محل میں بلایا اور مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’تمہارے جیسا فرانسیسی کوئی نہیں۔۔‘
گذشتہ برس مئی میں بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں رام نگر کے ایک مندر کے باہر انتہا پسندوں نے ایک ہندو لڑکی کے ہمراہ آنے والے مسلمان لڑکے کو گھیر لیا۔ ایک پولیس افسر گگن دیب سنگھ نے اس لڑکے کو خود سے چپکا کر سنگساری سے بچا لیا۔ بعد میں گگن دیپ نے کہا ’میں نے کیا خاص کیا؟ یہ تو ہر بھارتی کو کرنا چاہئیے۔‘
کوئی بتائے کہ کتنے مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی، کرسچن اور ملحد برے ہوتے ہیں؟ ان میں حیوان کتنے ہیں اور انسان کتنے؟
زیادہ نہیں بس ایک منٹ ضرور سوچئے گا ۔اندر سے جو بھی جواب آئے اسے کسی کو بتائے بغیر یاد ضرور رکھیے گا۔
وسعت اللہ خان/ بی بی سی
یہ بھی پڑھیے:
کرائسٹ چرچ: متاثرین کے لیے دنیا سوگ میں
کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ’دہشت گردی‘ تصاویر میں
اپنے تھپڑ اور گالی سے ڈرو ورنہ ۔۔۔
سچ کا انکاؤنٹر تو بہت پہلے ہو چکا
اس سانحے میں سے پہلا ہیرو میاں نعیم رشید ابھرا جو دوسرے نمازیوں کو بچانے کے لئے حملہ آور باڈی بلڈر برینٹن ٹارانٹ سے لپٹ گیا۔ نعیم رشید اور ان کا بیٹا طلحہ کرائسٹ چرچ کے شہیدوں میں شامل ہیں۔
خبر پھیلتے ہی ہر ایک نے سوچنا شروع کر دیا۔ میں اس وقت بحیثیت انسان کیا کر سکتا ہوں؟
کرائسٹ چرچ دھشت گردی کے متاثرین کی مدد کے لئے قائم خصوصی فیس بک پیج ’گیو اے لٹل‘ پر پچھلے چوبیس گھنٹے میں باسٹھ ہزار سے زائد ڈونر پینتالیس لاکھ ڈالر سے زائد چندہ دے چکے ہیں اور یہ رقم مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لانچ گڈ ویب سائٹ پر اب تک لگ بھگ تیس ہزار لوگ چندہ دے چکے ہیں۔
یوتی لوآنو اور ان کی اہلیہ نے جب اسپتال کے باہر فٹ پاتھ پر زخمی عزیزوں کی خیر خبر کے انتظار میں سینکڑوں سوگوار چہرے دیکھے تو انہیں پہلا خیال آیا کہ یہ تو بھوکے پیاسے ہوں گے۔
یوتی نے فوراً ایک فیس بک پیج بنایا اور حلال فوڈ کی اپیل کر دی۔ یوتی اور ان کی اہلیہ کی اس اپیل پر خوراک کے تھیلوں سے لدے پھندے شہریوں کی لمبی قطار بن گئیں۔ اس قطار سے خوراک جمع کرنے کے لئے رضاکاروں کا ایک جتھا خود بخود وجود میں آگیا۔ چند گھنٹے بعد یوتی کو فیس بک پیج پر ایک اور اپیل جاری کرنا پڑی ’آپ کا بہت بہت شکریہ۔ مزید نہیں چاہئے۔ گنجائش اور ضرورت سے زیادہ اشیائے خوردونوش جمع ہو گئی ہیں۔ نیوزی لینڈر جیتے رہئیے۔۔‘
گرو نانک فری کچن آک لینڈ کی جانب سے ٹویٹر اور فیس بک پر اپیل ہوئی۔ مسلمان بھائیوں کی سیوا کے لئے ایسے رضاکار چاہئیں، جو میت کو غسل دے سکیں، جنازوں اور ان کے عزیزوں کو قبرستان تک پہنچا سکیں، قبر کی کھدائی میں مدد کر سکیں، سوگواروں کو کھانا کھلانے کے لئے لنگر کی ڈیوٹی سنبھال سکیں، واہگرو جی کا خالصہ، واہگرو جی کی فتح۔۔۔
ویلنگٹن شہر کی شہری لیانس ہوورڈ کا فیس بک پیج چند ہی گھنٹے میں سولہ ہزار سے زائد نیوزی لینڈرز نے شئیر کیا۔ پیغام بس اتنا ہے ’اگر ویلنگٹن کی کوئی مسلمان خاتون اس وقت خوفزدہ ہے تو مجھ سے رابطہ کرے۔میں تمہارے ساتھ چلوں گی، بس سٹاپ پر تمہارے ساتھ کھڑی ہوں گی، سفر کروں گی، تم اگر خریداری کرنا چاہو تو میں تمہاری حفاظتی دیوار بنوں گی۔ پلیز مجھ سے بلا ہچکچاہٹ رابطہ کرو۔‘
بیس اکتوبر دو ہزار نو کو ایک خود کش بمبار اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں طالبات سے بھری کینٹین میں گھسنا چاہ رہا تھا۔ مگر اس سے خاکروب پرویز مسیح لپٹ گیا۔ خودکش بمبار کینٹین کے دروازے پر پھٹ گیا۔ تین ہلاکتیں ہوئیں۔ پرویز مسیح جان نہ دیتا تو بیسیوں ہوتیں۔
آٹھ جنوری دو ہزار پندرہ کو جب داعش نے پیرس میں توہین آمیز کارٹون چھاپنے والے رسالے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر ہلہ بولا تو ایک فرانسیسی پولیس افسر احمد مراتب انہیں روکنے کی کوشش میں شہید ہوگیا۔ جنازے میں شریک ہر شخص نے بیج لگا رکھا تھا ’میں احمد ہوں۔‘
اسی دن پیرس میں کوشر فوڈ بیچنے والی ہائپر کیچر سپر مارکیٹ پر دھشت گرد حملہ ہوا۔ وہاں مالی سے آیا ہوا ایک مسلمان پناہ گزیں لسانا بتیلی بھی مزدوری کرتا تھا۔ اس نے حالات بھانپ لئے اور جتنے بھی دھشت زدہ یہودی گاہکوں کو سپر مارکیٹ کے زیرِ زمین کمرے میں دھکیل سکتا تھا دھکیل کر باہر سے تالا لگا کے بچا لیا۔ صدر فرانسوا ہولاندے نے اس سیاہ فام مسلمان تارکِ وطن کو صدارتی محل میں بلایا اور مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’تمہارے جیسا فرانسیسی کوئی نہیں۔۔‘
گذشتہ برس مئی میں بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں رام نگر کے ایک مندر کے باہر انتہا پسندوں نے ایک ہندو لڑکی کے ہمراہ آنے والے مسلمان لڑکے کو گھیر لیا۔ ایک پولیس افسر گگن دیب سنگھ نے اس لڑکے کو خود سے چپکا کر سنگساری سے بچا لیا۔ بعد میں گگن دیپ نے کہا ’میں نے کیا خاص کیا؟ یہ تو ہر بھارتی کو کرنا چاہئیے۔‘
کوئی بتائے کہ کتنے مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی، کرسچن اور ملحد برے ہوتے ہیں؟ ان میں حیوان کتنے ہیں اور انسان کتنے؟
زیادہ نہیں بس ایک منٹ ضرور سوچئے گا ۔اندر سے جو بھی جواب آئے اسے کسی کو بتائے بغیر یاد ضرور رکھیے گا۔
وسعت اللہ خان/ بی بی سی