واقعاتی لطیفے۔۔۔

عاطف بٹ

محفلین
السلام علیکم محفلین
اس دھاگے میں آپ اور ہم اپنی زندگی کے وہ واقعات دوسروں کے ساتھ شئیر کریں گے جو اتنے دلچسپ اور حسین ہیں کہ انہیں سن یا سوچ کر بےاختیار ہنسی آتی ہے۔ ان واقعات کو شئیر کرنے کا مقصد اپنی زندگی کے ان خوشگوار لمحوں کو سامنے لانا ہے جنہیں سن یا پڑھ کر دوسروں کو خوشی میسر آسکے اور ہوسکتا ہے یوں ہماری وجہ سے کسی اداس چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ جائے۔ تو آئیے مل کر خوشیاں بانٹنے اور سمیٹنے کے اس سفر کا آغاز کرتے ہیں! :) :) :)
 

اشتیاق علی

لائبریرین
السلام علیکم محفلین
اس دھاگے میں آپ اور ہم اپنی زندگی کے وہ واقعات دوسروں کے ساتھ شئیر کریں گے جو اتنے دلچسپ اور حسین ہیں کہ انہیں سن یا سوچ کر بےاختیار ہنسی آتی ہے۔ ان واقعات کو شئیر کرنے کا مقصد اپنی زندگی کے ان خوشگوار لمحوں کو سامنے لانا ہے جنہیں سن یا پڑھ کر دوسروں کو خوشی میسر آسکے اور ہوسکتا ہے یوں ہماری وجہ سے کسی اداس چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ جائے۔ تو آئیے مل کر خوشیاں بانٹنے اور سمیٹنے کے اس سفر کا آغاز کرتے ہیں! :) :) :)
تو پھر محترم عاطف بٹ صاحب پہلا واقعاتی لطیفہ آپ کی طرف سے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
تو پھر محترم عاطف بٹ صاحب پہلا واقعاتی لطیفہ آپ کی طرف سے۔
لیجئے جناب، ایک تازہ واقعاتی لطیفہ حاضر خدمت ہے!

ابھی کچھ روز پہلے میں نے ایک اسکرپٹ لکھ کر وائس اوور آرٹسٹ کو دیا کہ آواز ریکارڈ کرادے۔ اسکرپٹ میں ایک جملہ کچھ یوں تھا، "اپنے بیوی بچوں کے جانے کے بعد وہ دن بھر رکشہ چلاتا اور فارغ وقت میں چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھا رہتا۔۔۔" کسی وجہ سے اسکرپٹ کے پرنٹ میں 'رکشہ' کا صرف 'ر' چھپا جبکہ بقیہ لفظ پرنٹ نہ سکا۔ ان صاحب نے آواز ریکارڈ کرادی اور پروگرام ایڈیٹنگ کے بعد جب تیار ہوگیا تو میں دیکھنے کے لئے گیا تاکہ فائنل کرکے چلانے کے لئے بھیجا جاسکے تو اس میں مذکورہ جملہ کچھ یوں ریکارڈ ہوا تھا، "اپنے بیوی بچوں کے جانے کے بعد وہ دن بھر روتا چِلاتا اور فارغ وقت میں چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھا رہتا۔۔۔" میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ریکارڈ کرایا ہے تو بولے، سر، آپ نے یہی تو لکھ کر دیا تھا!!! :) :) :)
 

شعیب صفدر

محفلین
یہ قصہ ہم اپنے بلاگ پر شیئر کر چکے ہے اور چونکہ موضوع کے مطابق ہے تو یہاں بھی احباب سے شیئر کر رہے ہیں!

جب ہم ایل ایل بی کر کے تازہ تازہ اپنے سینئر کے پاس وکالت کے گُر سیکھنے جا پہنچے تھے! جوائن کئے کوئی ایک ماہ ہی ہوا تھا! ایک شام سینئر نے اپنے آفس میں بلایا کہا کہ یہ زازق خان صاحب کل کورٹ میں اپنا میڈیل سرٹیفکیٹ لے کر آ جائے گئے یہ ضمانت پر ہے مگر پچھلی دو تاریخوں پر غیر حاضر رہے ہیں ان کی Condonation کی درخواست دے دینا کہ بیماری کی وجہ سے غیر حاضری ہوئی! ہم نے ہدایات لیں رزاق صاحب کو ایک نظر دیکھا کہ صبح پہچاننے میں دشواری نہ ہو، اور کمرے سے باہر آ گئے۔
وہ صاحب جاتے ہوئے ہم سے ملنے آئے! ہم نے اُن سے پوچھا ‘کیا بیماری تھی آپ کو جو عدالت سے غیرحاضر ہوئے‘
کہنے لگے ‘یار ویسے ہی نہیں گیا وہ اب کورٹ سے نوٹس آیا تو ہوش آیا ہے!‘
تو زار کھلا کہ یہ معاملہ ہے! دریافت کی‘میڈیکل سرٹیفکیٹ کہاں سے لائے گے؟‘
کہنے لگے ‘کوئی مسئلہ نہیں‘ پھر آنکھ مارتے ہوئے گویا ہوئے! ‘میری ایک ڈاکٹر جاننے والی ہے، اُس سے ہی لے کر آؤ گا‘
میں نے کہا ‘ٹھیک ہے کل لے آنا میں اُس میں آپ کی بیماری کی درخواست بنا لو گا‘
اگلے دن ہم کورٹ پہنچے باقی کیسوں کو دیکھتے ہوئے جب اُس کورٹ میں پہنچے تو وہ صاحب وہاں موجود تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی ہماری جانب لپکے۔ میڈیکل سرٹیفکیٹ ہمیں دیا، اور لگے سنانے قصہ اپنے اور اُس ڈاکٹر کے تعلق اور سرٹیفکیٹ لینے کا۔ ہم نے سرٹیفکیٹ پر ایک سرسری سی نظر ڈالی، پہلے سے بنائی ہوئی درخواست سے منسلک کیا، آگاہی لی کہ کیس کا نمبر کب آئے گا! معلوم ہوا دو چار کیسوں کے بعد ہی ہے لہذا کورٹ میں بیٹھ گئے، اور بندے کو باہر انتظار کرنے کو کہا۔
کورٹ میں کافی رش تھا! سینئر وکیل موجود تھے اور اُن کے جونیئر بھی، ہماری باری آئی، جج کے سامنے حاضر ہوئے، درخواست پیش کی، رازق میاں بھی پیش ہو گئے، جج نے ہماری طرف دیکھا ہم نے بتایا کہ بندہ بیمار تھا اس لئے نہ آ سکا، جج نے بات سمجھنے کے انداز میں سر ہلانے لگے! ایک نظر درخواست پر ڈالی پھر اُسے پلٹ کر میڈیکل سرٹیفکیٹ دیکھنے لگے! سر اُٹھا کر پہلے مجھے اور پھر میرے سینئر کے کلائینٹ پر ڈالی!
مجھے سے پوچھا ‘وکیل صاحب اس میڈیکل سرٹیفکیٹ کو پڑھا تھا آپ نے؟‘
میں نے کہا ‘جی سر‘
پھر اگلا سوال کیا ‘بغور‘
جواب عرض کی ‘جی ہاں‘ (دل میں کھٹکا ہوا معاملہ خراب لگتا ہے)
ہم نے رازق میاں پر نظر ڈالی! اور آنکھوں ہی سے سوال کیا! کوئی گڑبڑ تو نہیں! اتنے میں جج صاحب نے درخواست اپنے ریڈر کی طرف بڑھائی کہا ذرا اسے ایک نظر دیکھ لیں! میں نے ریڈر سے درخواست واپس لی، میڈیکل سرٹیفکیٹ پر ایک نظر ڈالی، دیکھا کہیں یہ تو نہیں لکھا کہ یہ کورٹ میں پیش کرنے کے لئے نہیں (اکثر ڈاکٹر یہ لکھ دیتے ہیں تا کہ کورٹ کی معاملات سے دور رہئے)، مگر ایسا نہیں تھا! ایک نظر اُس کے مضمون پر ڈالی کہیں اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں ٹھیک لگا! اب ہم نے جج پر ایک حیرت بھری نظر ڈالی!
جج نے کہا “وکیل صاحب ذرا سرٹیفکیٹ کے ہیڈر کو پڑھنا“
میں نے اب جو ہیڈر پر نظر ڈالی تو اُس پر درج تھا! “شازیہ میٹرنٹی سینٹر و ہسپتال“! کمرہ عدالت میں اچانک کئی سینئر ہلکے قہقہہ سے ہنسے! اور ہمارا گلا خشک ہو چکا تھا! پچاس افراد کی موجودگی میں بے عزتی کا احساس امنڈ آیا!
جج نے مسکراتے ہوئے ایک نظر رازق میاں پر ڈالی پھر ہم سے مخاطب ہوئے“وکیل صاحب! جہاں تک میں دیکھ رہا ہو آپ کا ملزم ایک مرد ہے، کیا آپ بتا سکتے ہیں انہیں کون سی ایسی بیماری ہو گئی کہ انہیں اپنا علاج کروانے میٹرنٹی ہوم جانا پڑا؟؟“
اب ہم کیا بولتے؟ ہم تو پہلے ہی جج کی طرف التجا بھری نظروں میں دیکھ رہے تھے! اب جو سوال انہوں نے داغ دیا تو اُس کو کوئی ناں کوئی تو جواب دینا تھا! ایک بار پھر میڈیکل سرٹیفکیٹ پر نظر ڈالی! تمام تر توانائی کو جمع کیا اور بولے “سر آخر میں ہسپتال بھی تو لکھا ہے!“
جج بولا “مگر میٹرنیٹی سینٹر پہلے لکھا ہے اس لئے اس سے یہ اخذ ہوا ہسپتال عورتوں کا ہوا“
اب ہماری ڈیٹائی کی باری تھی! لہذا مخاطب ہوئے! “جی سر! عموما ایسا ہی ہوتا ہے! مگر اس معاملے میں ایسا نہیں ہے۔“
جج نے ہمیں گور کر دیکھا! درخواست ہم نے اُس کے ریڈر کو پکڑا دی! جج نے اُس پر نوٹ لکھا! اور ہمیں دیکھتے ہوئے کہا “وکیل صاحب! پہلے کنفرم کر لیا کریں! میں اس بار تو چھوڑ رہا ہو! آئیندہ غلط بیانی مت کیجئے گا“
ہم نے کہا “سر شکریہ! مگر یہ صرف میٹرنٹی ہوم نہیں یہاں مرد حضرات بھی جاتے ہیں، علاقے کی سطح پر ایک منی ڈسپنسری ہے“ اور کورٹ سے باہر آ گئے!
رزاق میاں کو پکڑ لیا ابے لعنتی مروا دیا تھا! اور بھی بہت کچھ جو قابل سنسر ہے اُس سے کہا! پھر ہم کافی دن تک اُس جج کی کورٹ میں جانے سے جھجکتے رہے!!
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب آتش جوان تھا، محفل ہی پر کبھی لکھا تھا سو وہیں سے کاپی کر رہا ہوںﺍ

یہ سولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے میں لاہور میں پڑھتا تھا۔ میری بہت زیادہ سگریٹ پینے کی عادت سے سبھی کلاس فیلوز اور دوست نالاں رہتے تھے، ایک دن میرے ایک دوست نے مجھے سے سگریٹ مانگا، وہ کبھی کبھی ہی سگریٹ پیا کرتا تھا، اگلے دن کلاس کے بعد ہم کھڑے تھے کہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یار یہ اپنا سگریٹ لے لو جو میں نے کل تم سے لیا تھا کہ میں پی نہیں سکا۔ میں نے وہ سگریٹ لے لیا اور سلگا لیا، سارے دوست اکھٹے تھے اور جوں جوں میں سگریٹ پی رہا تھا وہ پیچھے ہٹ رہے تھے اور ہنس رہے تھے، مجھے سگریٹ کے مزے میں کچھ فرق محسوس ہوا لیکن میں نے سوچا کہ کل سے اسکی جیب میں پڑا ہوا ہے تو شاید اسلیئے۔

ناگہاں ایک زبردست آواز گونجی اور سگریٹ میرے ہاتھ میں پھٹ گیا، اس میں پٹاخہ رکھا ہوا تھا، میں اچھا خاصا ڈر گیا اور دوستوں کا ہنس ہنس کے برا حال گیا اور مجبوراً میں بھی انکے ساتھ شامل ہو گیا۔ اگر وہ پٹاخہ میرے ہونٹوں میں پھٹتا تو چوٹ بھی پہنچ سکتی تھی لیکن خیریت یہ ہوئی کہ وہ ہاتھ میں پھٹا۔

خیر وہ سب دوستوں کا مشترکہ منصوبہ تھا اور کافی غور و خوص کے بعد بنایا گیا تھا کیونکہ انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ میں اس بات کا انتہائی برا بھی مان سکتا تھا اور گزند بھی پہنچ سکتی تھی، لیکن ان میں کچھ میرے ایسے دوست تھے کہ وہ اس منصوبے پر عمل کر گزرے گو بعد میں معذرت کر لی۔ اور میں اس دلچسپ منصوبے پر آج تک محظوظ ہوتا ہوں۔
 

شعیب صفدر

محفلین
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب آتش جوان تھا، محفل ہی پر کبھی لکھا تھا سو وہیں سے کاپی کر رہا ہوںﺍ

یہ سولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے میں لاہور میں پڑھتا تھا۔ میری بہت زیادہ سگریٹ پینے کی عادت سے سبھی کلاس فیلوز اور دوست نالاں رہتے تھے، ایک دن میرے ایک دوست نے مجھے سے سگریٹ مانگا، وہ کبھی کبھی ہی سگریٹ پیا کرتا تھا، اگلے دن کلاس کے بعد ہم کھڑے تھے کہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یار یہ اپنا سگریٹ لے لو جو میں نے کل تم سے لیا تھا کہ میں پی نہیں سکا۔ میں نے وہ سگریٹ لے لیا اور سلگا لیا، سارے دوست اکھٹے تھے اور جوں جوں میں سگریٹ پی رہا تھا وہ پیچھے ہٹ رہے تھے اور ہنس رہے تھے، مجھے سگریٹ کے مزے میں کچھ فرق محسوس ہوا لیکن میں نے سوچا کہ کل سے اسکی جیب میں پڑا ہوا ہے تو شاید اسلیئے۔

ناگہاں ایک زبردست آواز گونجی اور سگریٹ میرے ہاتھ میں پھٹ گیا، اس میں پٹاخہ رکھا ہوا تھا، میں اچھا خاصا ڈر گیا اور دوستوں کا ہنس ہنس کے برا حال گیا اور مجبوراً میں بھی انکے ساتھ شامل ہو گیا۔ اگر وہ پٹاخہ میرے ہونٹوں میں پھٹتا تو چوٹ بھی پہنچ سکتی تھی لیکن خیریت یہ ہوئی کہ وہ ہاتھ میں پھٹا۔

خیر وہ سب دوستوں کا مشترکہ منصوبہ تھا اور کافی غور و خوص کے بعد بنایا گیا تھا کیونکہ انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ میں اس بات کا انتہائی برا بھی مان سکتا تھا اور گزند بھی پہنچ سکتی تھی، لیکن ان میں کچھ میرے ایسے دوست تھے کہ وہ اس منصوبے پر عمل کر گزرے گو بعد میں معذرت کر لی۔ اور میں اس دلچسپ منصوبے پر آج تک محظوظ ہوتا ہوں۔

ویسے یہ ایک اچھا مذاق نہ تھا آپ کے دوست کا۔
 

باباجی

محفلین
واہ جی بٹ صاحب کیا خوب دھاگہ بنایا آپ نے
مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں ایک بہت بڑا سیکرٹ شیئر کر رہا ہوں (ذلالت کو راز ہی رکھا جاتا ہے)

یہ واقعہ میری اسکول لائف کا ہے اور میں ایک عرصہ تک بلیک میل ہوتا رہا یہاں تک کے واقعی ایک بلیک میل(سیاہ مرد) ہو گیا ڈر ڈر کے
لیکن آج ہنسی آتی ہے کہ فراز میاں تم واقعی بونگے ہی تھے اور ہو :)
میں اس وقت 6 کلاس میں ہوتا تھا اور شرافت اور پڑھائی میں اچھا ہونے کی وجہ سے مجھے کلاس کا مانیٹر بنا دیا گیا جو کہ میں 10 کلاس تک رہا
ایک دن کلاس میں ٹیسٹ تھا ۔ کلاس ٹیچر نے کہا کہ فراز میں میٹنگ میں ہوں تم دیکھو کلاس کو اگر کوئی نقل کرتا ہوا پکڑا جائے تو اسے فلاں
سزا دینا۔ تو جناب میں تو اکڑ گیا کہ آج فراز صاحب کلاس کو سزا دیں گے۔ خیر جی میں ویسے تو کلاس کا پسندیدہ مانیٹر تھا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا
میں نے کہا نقل کریں لیکن دیکھ بھال کر ۔ تو جناب نقل شروع ہوگئی۔ ایک محترمہ تھی کافی زیادہ صحت مند سی اس کا نام میں نہیں بھول سکتا
"عاتکہ" نام کی وہ تو جناب سرِعام کتاب رکھ کر نقل کرنے لگی ۔ میں نے اسے کئی بار منع کیا لیکن وہ باز نہیں آئی تو میں نے سختی سے سبکو نقل سے روک دیا ۔ اور ان محترمہ کو کھڑا کردیا اور سزا یہ منتخب کی کہ ہماری کلاس کا سب سے شریف لڑکا احسن اسے ایک تھپڑ مارے گا
تو جناب احسن صاحب ڈرتے ڈرتے آئے اور کہنے لگے فراز بھائی میں نہیں کر سکتا یہ بعد میں مجھے مارے گی کیونکہ محترمہ کی صحت ہی پہلوانوں
والی تھی ۔ تو میں نے کہا کہ کلاس ٹیچر نے مجھے اجازت دی ہے یہ کچھ نہیں کر سکتی۔ خیر جناب اس نےہلکے سے تھپڑ مارا اور اپنی سیٹ پر چلا گیا
اور محترمہ عاتکہ مجھے خون آشام نظروں سے گھورتی ہوئی چلی گئی۔
یہیں سے ہوتا ہے اس خوفناک وقت کا آغاز :cool:
ایک دن ہم لوگ فری پیریڈ میں باہر گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے کہ میری کلاس کی ایک لڑکی نے کہا کہ فراز تمہیں مس بلا رہی ہیں
تو میں اس کے ساتھ چل پڑا ۔ اور اسکول کینٹین کی پچھلی طرف پانی کے کولر کے پاس ہم پہنچے ہی تھے کہ آفت ٹوٹ پڑی۔
مجھے یک دم دائیں اور بائیں بازو سے پکڑ کر دو لڑکیوں نے دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا اور میں نے دیکھا کہ میری کلاس کی پانچ ،چھ لڑکیاں
مجھے کینہ توز نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ تو جناب میرے اوسان خطا ہوگئے کہ پتا نہیں کیا مسئلہ ہوگیا ۔
اتنے میں محترمہ عاتکہ آئیں اور زور سے ایک تھپڑ مارا پھر دوسرا، تیسرا میں تو رو پڑا کہ مجھے ایک لڑکی نے مارا
لیکن ایک نہیں مجھے پانچ لڑکیوں نے مارا یعنی ان پانچ لڑکیوں نے مجھے اس لیئے مارا کہ میں نے ایک لڑکی کو لڑکے سے تھپڑ لگوایا
اور مجھے کہا کہ آئندہ ایسا کیا تو اس سے بھی زیادہ برا ہوگا
تو جناب اس واقعے کے بعد میں ایسا ڈرا اور مجھے انہوں نے اتنا دھمکایا کہ میں نے کبھی ان کو پوچھا نہیں
اور جب میٹرک کر لیا تو سکون کا سانس لیا :)
کچھ عرصہ پہلے مجھے ان میں سے ایک لڑکی اتفاقاً ملی اپنے شوہر کے ساتھ لاہور فورٹریس میں اور مجھے پہچان گئی ۔ میرے پاس آکر کہنے لگی تم فراز ہو
اور فلاں اسکول میں پڑھتے تھے تو میں نے کیا ہاں آپ کو کیسے پتا تو اس نے اس واقعے کا ریفرنس دیا اور بہت ہنسی کہ فراز تم بھی بونگے
تھے ۔ اس نے اپنے شوہر کو بھی وہ واقعہ بتایا ہوا تھا ۔
اتنے عرصے بعد میں نے پھر وہی خوف محسوس کیا اور پھر خوب ہنسا کہ میں واقعی وہ تھا اور ہوں :confused:
اور واقعہ لکھتے ہوئے میں خود بھی ہنس رہا ہوں اور مجھے بہت مزہ آرہا ہے شیئر کرتے ہوئے :LOL:
 

زین

لائبریرین
لیجئے جناب، ایک تازہ واقعاتی لطیفہ حاضر خدمت ہے!

ابھی کچھ روز پہلے میں نے ایک اسکرپٹ لکھ کر وائس اوور آرٹسٹ کو دیا کہ آواز ریکارڈ کرادے۔ اسکرپٹ میں ایک جملہ کچھ یوں تھا، "اپنے بیوی بچوں کے جانے کے بعد وہ دن بھر رکشہ چلاتا اور فارغ وقت میں چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھا رہتا۔۔۔ " کسی وجہ سے اسکرپٹ کے پرنٹ میں 'رکشہ' کا صرف 'ر' چھپا جبکہ بقیہ لفظ پرنٹ نہ سکا۔ ان صاحب نے آواز ریکارڈ کرادی اور پروگرام ایڈیٹنگ کے بعد جب تیار ہوگیا تو میں دیکھنے کے لئے گیا تاکہ فائنل کرکے چلانے کے لئے بھیجا جاسکے تو اس میں مذکورہ جملہ کچھ یوں ریکارڈ ہوا تھا، "اپنے بیوی بچوں کے جانے کے بعد وہ دن بھر روتا چِلاتا اور فارغ وقت میں چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھا رہتا۔۔۔ " میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ریکارڈ کرایا ہے تو بولے، سر، آپ نے یہی تو لکھ کر دیا تھا!!! :) :) :)
ہمارے کوئٹہ کےا یک اخبار میں ایک مرتبہ جب کوفی عنان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے ان کی خبر میں کمپیویٹر آپریٹر نے غلطی سے نام کوفی عنان کی بجائے ’’صوفی منان ‘‘لکھ دیا تھا :)
 

باباجی

محفلین
ہمارے کوئٹہ کےا یک اخبار میں ایک مرتبہ جب کوفی عنان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے ان کی خبر میں کمپیویٹر آپریٹر نے غلطی سے نام کوفی عنان کی بجائے ’’صوفی منان ‘‘لکھ دیا تھا :)
ہاہاہاہاہاہاہا
بہت خوب
"کوفی" کو"صوفی" بنا دیا
 
Top