یہ تو انہوں نے بتادیا کہ فتنے کی اصل جڑ امریکا ہے لیکن یہ نہ بتایا کہ آج قبائلی جو پاکستان سے نفرت اور دشمنی پر مجبور ہوئے ہیں اس میں پاکستان کا کیا کردار رہا۔ ظاہر ہے ایسی باتیں تو ضرور چھپانی چاہئیں جن سے مسائل حل ہونے کے امکانات ہوں کیونکہ مسئلہ حل ہوگیا تو خون کیسے بہے گا۔ میں نے بچپن میں کہانی سنی تھی کہ ڈریکولا کو خون اتنا پسند تھا کہ اس کے بغیر اسے نیند ہی نہ آتی تھی۔ خیر ڈریکولا میں ایک اچھی بات تھی کہ وہ اپنے آپ کو انصاف پسند نہیں کہلاتا تھا۔
میں نے آپ کو پہلے بتا دیا تھا کہ امریکہ، پاکستان اور طالبان اور سعودیہ، یہ چاروں ہی اس سازش میں ملوث تھے اور طالبان نے جو اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے امریکہ، پاکستان و سعودیہ کے آشیرواد سے جو لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اس سے انہیں اس بنا پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انہیں کسی اور نے بہکا دیا تھا۔
اور ڈریکولا تو وہ ہیں جو انسانی لاشوں کو چوکوں میں برہنہ کر کے انکی بے حرمتی کر رہے ہیں، لاکھوں مسلمان انکی آمد کی وجہ سے قتل ہو چکے ہیں، جو خود کش حملے میں معصوموں کو مار رہے ہیں۔
ان ڈریکولاز کو ہر ممکن راہ دی گئی کہ وہ اس خون و دہشگردی سے باز آ جائیں، مگر یہ وہ فتنہ ہے جس کی خصلت یہ ہے کہ: "یا ہمیں مار دو، ورنہ ہم نے تو تمہیں مارنا ہی ہے اور کسی صورت اپنے قتل و غارت سے باز نہیں آنا"۔
ایسے فتنے کو اللہ قران میں کہتا ہے کہ مارو اور اس وقت تک مارو جب تک یہ ختم نہ ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے توبہ تائب نہ کر لے۔ اور ایسے فتنے کو علی ابن ابی طالب نے جنگ نہروان میں اتنا مارا کہ تقریبا سب کو ختم کر دیا [سوائے ۵/۶ کے]۔ حالانکہ یہ خوارجین کوئی الگ سے فرقہ نہیں تھا بلکہ انکا کلمہ، انکا قران، انکی شریعت، انکا فقہ سب کچھ وہی تھا جو اُس وقت کے مسلمانوں کا تھا۔ مگر صرف ایک فرق تھا، اور وہ یہ کہ یہ فرق "سیاسی فرق" ہو گیا تھا اور وہ اس میدان میں انتہا پسند ہو گئے تھے اور اسی ایک وجہ سے خون بہانا شروع کر دیا تھا۔
کریں اب ذرا یہ ہمت اور لگائیں علی ابن ابی طالب پر ڈریکولا کا الزام۔ پوری اسلامی تاریخ طالبان کے حمایتیوں کے خلاف چیخ چیخ کر احتجاج کر رہی ہے۔ قران اس فتنے کے خلاف چیخ چیخ کر ان طالبان حمایتیوں کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ ذرا انسانی شعور اور بیدار ہو جائے تو ہر طرف سے طالبان وحشت و ظلم پر احتجاج و نفرین برپا ہو گی۔ انشاء اللہ۔
//////////////////////////////
جب امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تو وہاں موجود طالبان اور عربوں نے گوریلا وار کی اسٹریٹیجی بنائ۔ اس کے لیے انہوں نے افغانستان کے دشوار ترین علاقوں کو بیس کیمپ بنایا۔ پاکستان اور افغان بارڈر پر سب سے بہترین بیس کیمپ قبائلی علاقہ جات ہوسکتے تھے سو یہ چن لیے گئے۔
خود کو جتنا چاہے آپ بےوقوف بنائیے، مگر دوسروں کو بے وقوف بنانا ترک فرمائیے۔
طالبان کی صرف اور صرف ایک سٹریٹیجی ہے، اور وہ ہے:
۱۔ کبھی مردوں کی طرح میدان میں آ کر نہیں لڑنا
۲۔ بلکہ اپنی نہتی معصوم شہری عوام کے پیچھے بزدلوں کی طرح چھپ کر وار کرنا اور پھر واپس پلٹ کر ان معصوموں کو ڈھال بناتے ہوئے انکے پیچھے چھپ جانا ہے۔
۳۔ ان ظالموں کی وہی سٹریٹیجی ہے جو لال مسجد کے دہشت گردوں کی تھی جب انہوں نے مردوں کی طرح لڑنے کی بجائےاپنے ہی بچوں و بچیوں اور عورتوں کو ڈھال بنا لیا تھا اور جنگ کے آگ میں دھکیل دیا تھا۔
اب یہ نام نہاد دہشت گرد ملا فتوی دیتے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی عوام کو دہشت گرد حملوں میں مارنا جائز ہے کیونکہ یہ عوام اپنی حکومت کی ٹیکس دے کر مدد کرتی ہے۔ اب ایسے ملاووں کو کیا کہا جائے اور کیسے سمجھایا جائے اگر امریکہ نے بھی یہ لائسنس استعمال کرنا شروع کر دیا تو پھر کیا ہو گا۔ بلکہ انہوں نے یوں ہی خود کش حملے جاری رکھے تو آہستہ آہستہ انسانیت کمزور پڑتی جائے گی اور یہ انسانیت اور عالمی انسانی ضمیر وہ واحد چیز ہے کہ جس نے کمزور ہونے کے باوجود امریکی طیاروں کے سامنے بند باندھا ہوا کہ وہ افغانستان کی معصوم شہری آبادی پر بم نہ برسائے۔
اور جس دن یہ عالمی انسانی ضمیر اور کمزور ہوا اور امریکی طیاروں کی شہری آبادی پر بمباری روکنے میں ناکام ہوا، تو پھر یہی طالبان ایک دفعہ پھر اپنی شہری آبادی کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں و غاروں میں فرار اور چھپتی پھر رہی ہو گی۔
ہم اسرائیل میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ ان خود کش حملوں کی وجہ سے اسرائیل کو فری لائسنس مل گیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں بمباریاں کرے اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ دیکھ لیں کہ فلسطین کا وہ برا حال کیا ہے کہ آج ہم بھول گئے ہیں کہ بھلا آخری خود کش حملہ کب ہوا تھا۔ پوری دنیا میں اور اسرائیل کے اپنے اندر انسان دوست قوتیں کمزور ہوئی ہیں اور اُس طرف کے انتہا پسند حکومت میں آ گئے ہیں۔
////////////////////////
۔۔۔۔۔۔۔کہہ دیتے کہ ہم کوئ گلی کے کتے نہیں کہ آپ نے پتھر دکھایا اور ہم دبک لیے۔۔۔۔۔ اگر ایک دفعہ بھی اپنی قوم کی طرف دیکھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ قوم کوفہ کے رذیلوں سے نہیں بلکہ بدرو حنین کے وارثوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر حق کی خاطر سر پر آزمائش آتی تو پوری قوم اختلافات بھلا کر جنگ ستمبر کا منظر پیش کررہی ہوتی۔ زندہ دلانِ لاہور ایک دفعہ پھر اپنی روایت نبھانے کو لپکتے۔ کراچی کے مہاجر ایک دفعہ پھر خدا اور اس کے رسول کے نام پر اپنا آپ نچھاور کرتے۔ صرف ایک دفعہ، ایک دفعہ دیکھا ہوتا اپنی قوم کی طرف تو معلوم ہوتا کہ یہ قوم ٹیپو سلطان کی طرح شیر کی ایک دن کی زندگی جینا چاہتی ہے۔ لیکن نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے، ہمارے فلسفیوں، ہمارے ڈریکولاؤں نے اور آدم خور نسل کی بچی کھچی کھرچنوں نے اس وقت گیدڑ کی سو سالہ زندگی کا انتخاب کیا۔ اپنی قوم نیلام کردی۔
یہ بڑھ بڑھ کر اور چڑھ چڑھ کر بڑکیں ہانکنے والے وہ نادان ہیں جو ابھی حال ہی میں افغانی طالبان کو اپنی جانیں بچانے کے لیے معصوم نہتی شہری عوام کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہو کر پہاڑوں و غاروں میں چھپتا دیکھ چکے ہیں مگر پھر بھی اپنی بڑکیں ہانکے جا رہے ہیں۔
اور ایسے نادانوں سے دانا دشمن بہتر کیونکہ یہ نادان جو قوم پر آفات و مصائب لائیں گے وہ کوئی دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا۔
نوٹ:
بھائی جی، آپ کوفے کا مسئلہ بیچ میں لے آئیں ہیں جو کہ آپکو نہیں لانا چاہیے تھا۔ بہرحال آپ اپنی تاریخ کے علم کی تصحیح کر لیں، اور تاریخ میں ایک بہت بڑا مغالطہ ہے اور وہ یہ کہ ان میں فرق کریں:
۱۔سیاسی شیعہ
۲۔ امامی شیعہ
لفظ "شیعہ" کا اپنا مطلب "گروہ" ہے۔ علی ابن ابی طالب کی جن لوگوں نے جنگ جمل، صفین و نہروان میں مدد کی انہیں "شیعان علی" کے نام سے جانا گیا [اور اسکے مقابلے میں شیعان عثمان یا شیعان معاویہ کی اصطلاح استعمال ہوئی]۔
اور پھر یہ اصطلاح چلتی رہی اور روایات اور علم الرجال میں ہزاروں شیعان علی کے نام آئے۔ مگر یہ سب "سیاسی شیعہ" تھے اور علی ابن ابی طالب کو خلیفہ چہارم تسلیم کرتے تھے۔ مثال کے طور "ابن جریر طبری" کو شیعہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ علی ابن ابی طالب کو حق پر مانتے تھے جبکہ معاویہ کو ناحق پر مانتے تھے۔
جبکہ شیعان علی کا ایک گروہ تھا جنہیں "شیعانِ خاص" یا "امامی شیعہ" کہا جاتا تھا اور یہ پہلے دن سے خلافت پر علی کا حق سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو امامی شیعہ کہتے تھے [جبکہ مخالفین انہیں "رافضی" کے نام سے پکارتے تھے]
چنانچہ کوفہ کی آبادی کو شیعان علی کہا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے جنگوں میں علی کا ساتھ دیا مگر کوفے کی یہ آبادی ان "سیاسی شیعوں" پر مشتمل تھی جن کا مذہب علی ابن ابی طالب کو پہلا امام نہیں بلکہ خلیفہ چہارم تسلیم کرنا تھا۔ اور ایسا ہرگز نہ تھا کہ آجکل والی اصطلاح کے مطابق سارے شیعہ [امامی شیعہ] علی کے پیچھے جمع ہو گئے تھے اور آجکل کی اصطلاح کے مطابق سارے سنی معاویہ ابن ابی سفیان کے پیچھے جمع ہو گئے تھے۔
چنانچہ آپ پہلی بات آپ اپنے اس تاریخی مغالطے کی اصلاح کر لیں، اور دوئم یہ کہ میرے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس سیاسی گفتگو میں اہل تشیع پر مذہب کے حوالے سے طعنے دینے سے پرھیز کریں۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کی اس غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی وجہ سے ناظمین کو یہ تھریڈ بھی بند کرنا پڑے۔
///////////////////////////////////
رسول ص کا جہاد کے بالمقابل حالات کے مطابق صبر کرنا
چلیں کوئی تو ہے جو اتنی بار یہ سوال اٹھانے کے بعد جواب دینے کی ہمت تو کرتا ہے۔
خاتون عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کو موجودہ کینوس پر فٹ کرتے ہوئے ارشاد کر رہی ہیں کہ مکے کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں مدینہ کے انصار نے کیوں نہ مکہ پر چڑھائ کردی۔ ویسے تو یہ سوال اس قابل بھی نہیں کہ اسے ردی کی ٹوکری کی نذر کیا جائے لیکن چلیں کچھ وقت برباد کرلیتے ہیں اس کے پوسٹ مارٹم پر۔ تصور کریں اس وقت کا جب اسلام کا آغاز ہوا تھا۔ پورے کرہ ارض پر گنتی کے چند نفوس یعنی بمشکل تین سو کے آس پاس۔ کوئ موازنہ نظر آرہا ہے آپ کو اس دور کی افرادی قوت میں اور آج کے عالم اسلام میں؟ دوم کیا مدینے کے مسلمانوں نے مکہ کے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی مدد کی تھی، جس طرح پاکستان نے افغانوں کے خلاف امریکہ کو مدد فراہم کی؟ سوم کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے فیصلے کیا کرتے تھے یا کسی اور کی ڈکٹیشن پر جیسے آج پاکستان امریکہ کی ڈکٹیشن پر فیصلے کرتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پابند ہوگئے تھے کہ وہ مشرکین مکہ پر اس وقت تک چڑھائ نہیں کرسکتے جب تک وہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ کریں جبکہ حدیبیہ کے معاہدے سے پہلے تک مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج مدینے کی ریاست کو تشکیل دینا تھا۔ مدینے میں جس طرح اوس اور خزرج جیسے پازیٹو اور نیگیٹو (یعنی سو سالوں سے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما قبائلوں کے دو اتحاد) اسلام میں ضم ہوئے تھے اور علاقے میں جس طرح یہودیوں کی ایک باثر طاقت موجود تھی اس میں خود مدینے کو ہی سنبھال لینا ایک کارنامہ تھا۔ یعنی آپ تصور کریں کہ پوری زمین پر مسلمانوں کے قبضہ میں محض تین کلومیٹرمربع بھی ایسا نہ تھا جسے ریاست کہا جاسکے۔ موازنہ ہے ہی نہیں اس وقت کی اور اب کی صورتحال کا۔ اس کے علاوہ خاتون نے امریکی ٹیکنالوجی کا حوالہ بھی دیا۔ ہمارے ہاں یہ بات عام ہوگئ ہے کہ اگر سامنے والے کو لاجواب کرنا ہے تو اسے ٹیکنالوجی کا طعنہ دیدو تاکہ اس کا منہ بند ہوجائے۔ ورنہ اصل بات تو یہ ہے کہ بے ضمیروں کے ہاتھوں میں ٹیکنالوجی آبھی گئ تو وہ کیا کارنامہ کرلیں گے۔ ایسے لوگ جو اپنا آپ دوسروں کے حوالے کرچکے ہوں ان کو تو کیا ہی ٹیکنالوجی ملے گی اور کیا ہی وہ دنیا میں کارنامہ کریں گے۔ زیادہ دور نہیں قریب کی مثال لیں کہ اسرائیل جیسی بھیانک طاقت کو لبنان میں حزب اللہ نے گھٹنے ٹکادیے۔ اس سے کچھ اور پیچھے جائیں جب روس نے افغانستان پر چڑھائ کی۔ کچھ موازنہ ہے روس جیسی دیوہیکل طاقت کا اور افغانوں کا؟ تھا کیا افغانوں کے پاس؟ سٹیلائٹ؟ راڈار؟ جہاز؟ گن شپ؟ ٹینک؟ کچھ بھی تو نہیں محض ہلکے ہتھیار۔ لیکن ہمت تھی خدا پر یقین تھا۔ خدا نے بھی ان کی مدد کی اور روس کو ایسی شکست ہوئ کہ اسے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ کچھ کر گذرنے اور حاصل کرنے کے لیے یقین کی طاقت اور ہمت چاہیے ہوتی ہے اور جہاں ہمت ہوتی ہے وہاں غیروں سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی جاتی۔ ان کی حیثیت تو اس فقیر کی سی ہے کہ جس کے کشکول میں کسی نے رحم کھاکے کچھ ڈال دیا تو صحیح ورنہ اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ تاریخ کے وہ گھناؤنے کردار ہیں کہ عین آزمائش کے وقت لشکرِ یزید کے ساتھ جاکھڑے ہوئے اور اس پر طرہ یہ کہ اسے شعور کا نام دیتے ہیں، اسلام کی بہتری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انہیں شرم نہیں آتی لیکن اسلام کو ضرور ان سے شرم آتی ہوگی۔
مجھے ساری ڈینگوں اور بڑکوں کا جواب نہیں دینا، مگر صرف مختصر:
۱۔ اگر مسلمان ۳۰۰ تھے تو جواب میں کفار بھی ۷۰۰ سامنے آئے تھے اور جنگ بدر میں مسلمانوں نے انہیں شکست دے دی مگر پھر بھی مکہ پر براہ راست حملہ کر کے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات نہیں دلوائی کیونکہ ایسا حملہ کرنے سے مسلمانوں کا مجموعی طور پر کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔
۲۔ کفار مکہ اور مسلمانوں میں "علم" اور "ٹیکنالوجی" کے میدان میں کوئی فرق نہ تھا۔ واحد فرق صرف "افرادی قوت" میں تھا۔
آج یہ حالت ہے کہ جب امریکی طیارے طالبان پر حملہ کر رہے تھے تو یہ بتائیے کہ طالبان نے اس پوری جنگ میں فرار ہونے سے قبل کتنے امریکی طیارے گرائے اور کتنے امریکی فوجی قتل کیے؟ تو اگر ہمت کر سکیں تو اس سوال کا جواب دے دیجئیے۔
۳۔ رسول ص کے زمانے کے مسلمان چاہے عددی طور پر کمزور ہی کیوں نہ رہے ہوں، مگر انہوں نے کبھی اپنے ہی عورتوں و بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی انکے پیچھے چھپ کر جا کر بیٹھ گئے، بلکہ ہمیشہ کھل کر سامنے آ کر جنگ لڑی۔
۴۔ اور رسول ص کے زمانے میں یہ 300 اصحاب مکمل طور پر رسول ص کی پیچھے تھے۔ جبکہ طالبان و القاعدہ کا کردار اتنا گھناونا اور پست اور اسلام کے خلاف ہے کہ امت کی کثیر اکثریت خود انہیں ہی امریکہ سے بڑا شیطان و فتنہ سمجھتی ہے۔ تو یہ کس بل بوتے پر امریکہ سے آج لڑنے چلے ہیں؟ ابتک انکا کل بل بوتہ اپنی شہری آبادی اور اپنی عورتوں کا پلو ہے کہ جسکی آڑ سے نکل کر یہ خود کش حملے کرتے ہیں اور پھر واپس انہی معصوموں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
تو شکر ہے خدا کا کہ کم از کم انہوں نے طوعا کرحا پر قبول تو کیا کہ رسول ص نے جہاد فرض ہوتے ہوئے بھی حالات کے مطابق جہاد پر صبر کو افضلیت دی۔
آئیے اب دیکھتے ہیں طالبانی جہاد کے مسلم امت کو کیا فائدے ہوئے ہیں۔
۲۰۰ امریکی قتل بالمقابل ڈھائی تین لاکھ مسلم قتل
جب سے طالبان قوت میں آئی ہے، انکی وجہ سے ڈھائی یا تین یا پتا نہیں چار لاکھ مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں یا پھر امریکہ کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
اسکے مقابلے میں ابتک طالبان نے کتنے امریکی فوجی قتل کیے ہیں؟
جی ہاں ابتک طالبان نے ان تمام سالوں میں صرف 200 کے لگ بھگ ہی امریکی فوجی قتل کیے ہیں، اور وہ بھی ایسی جنگ میں کہ جہاں وہ اپنی عورتوں کی پلووں سے نکل کر اسلام کے حکم کے خلاف خود کش حملہ کرتے تھے اور پھر دوبارہ اپنی عورتوں کے پلووں میں گھس جاتے تھے۔ ایسے اسلام کے حکم کے خلاف خود کش حملے کرنے سے بہتر ہوتا یہ 200 امریکی فوجی بھی نہ مارے ہوتے کیونکہ خود کش حملے کر کے اسلام کو جو انہوں نے نقصان پہنچایا ہے اور اسے بدنام کیا ہے اس کے اثرات ان 200 فوجیوں کے قتل کئی گنا زیادہ ہیں۔
آج یہ واویلا کرتے ہیں امریکہ نے افغانستان میں ہزاروں لاکھوں معصوم نہتے لوگوں کو مار دیا۔ مگر ان بے وقوفوں کو یونہی اپنی دہشت گرد کاروائیاں کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا تو کل یہ کڑوڑوں مزید نہتے معصوم لوگوں کو امریکہ کے ہاتھوں مروا دیں گے اور خود میدان جنگ سے فرار ہو کر پہاڑوں میں چھپ جائیں گے۔
//////////////////////////////////////
کیا القاعدہ اور طالبان نے کبھی 9/11 کے خود کش حملے کو خلاف اسلام قرار دیا؟
یہ احمق ابھی تک یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ جس طرح یہ اپنے مدارس میں معصوم لوگوں کو پروپیگنڈہ کے زور سے برین واش کر لیتے ہیں اسی طرح اس دفعہ بھی جھوٹ بول بول کر اور برین واش کر کے القاعدہ و طالبان کی دہشت گردیوں کو دبا کر انہیں فرشتہ ثابت کر دیں گے۔
اور 9/11 تو بہت بعد کا واقعہ ہے اور اس سے قبل ہی االقاعدہ نے اپنی دہشت گرد کاروائیاں جاری رکھی ہوئی تھیں۔
القاعدہ و طالبان نے نو گیارہ کے بعد پھر جھوٹ بولنے کی کوشش کی مگر اللہ کی قدرت کہ ایک مرتبہ بھی انکے منہ سے یہ نہ نکل سکا کہ نو گیارہ کا خود کش حملہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
پھر جب سارے دہشتگردوں کا پتا چل گیا اور ماسٹر مائینڈ خالد شیخ بھی پکڑا گیا تو القاعدہ کے لیڈر کھل کر پاکستانی میڈیا پر اعتراف کر رہے ہیں۔
مگر یہ احمقوں کا ٹولہ ابھی تک سمجھتا ہے کہ وہ مزید جھوٹ بولتا رہا تو باقی پوری دنیا کو بے وقوف بنا کر رام کر لے گا۔
مگر کوئی ان احمقوں کو بتائے کہ جتنا وہ یہ جھوٹ بولتے جائیں گے اتنا ہی انکا اعتبار کم ہوتا جائے گا۔ اور پھر "شیر آیا، شیر آیا" کی طرح اگر کبھی انہوں نے سچ بھی بولا تو بھی کوئی انکا اعتبار نہیں کرے گا۔