واہ کینٹ میں خود کش حملہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد سعد

محفلین
ویسے بھی اب یہ دلیل دینا اخلاقاً اچھا نہیں لگتا کہ امریکہ نے افغانستان پر بلاوجہ حملہ کیا تھا۔

فرض کریں کہ میرے گھر میں شہر کی مکھیوں کا ایک چھتا ہے جس سے مجھے کوئی تکلیف یا خطرہ نہیں ہے۔ ایک دن کوئی میرے گھر میں گھس کر اسے آگ لگا دیتا ہے۔ پھر جب شہد کی مکھیاں ہم دونوں کو کاٹتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ دیکھو، میں نے اسی لیے تو اسے آگ لگائی تھی کہ یہ تمہیں کاٹ نہ لیں۔ دیکھو کس طرح انہوں نے تمہارا منہ غبارے کی طرح پھلا دیا ہے۔ اب کوئی مجھے بتائے کہ کون پاگل ایسی احمقانہ بات پر یقین کرے گا؟

اس سے مجھے یاد آیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حوالے سے تو ہم نے خوب بحث کی تھی، لیکن پینٹاگان کا ذکر کرنا میں شاید اس وقت بھول گیا تھا۔ چنانچہ عرض ہے کہ اگر آپ کو پینٹاگان کی کوئی تصویر ملے تو ذرا غور سے دیکھنا۔ آپ کو اس میں بس ایک ہی گہرا سوراخ نظر آئے گا۔ نہ تو پروں کے نشانات نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ لگے ہوئے جیٹ انجنوں کے۔ اور اس کے علاوہ کچھ تصاویر میں آپ کو یہ بھی نظر آئے گا کہ "طیارہ" پینٹاگان کے بیرونی تین حلقوں کو توڑتا ہوا اندر تک داخل ہو گیا۔ کیا آپ کے خیال میں کسی مسافر بردار طیارے کی ناک سے کسی عمارت کو اتنا گہرا زخم لگ سکتا ہے؟ جبکہ اس کے پروں اور جیٹ انجنوں کے تو بیرونی دیوار پر نشانات تک نہیں ملے؟ اس ے علاوہ بھی کئی اور نشانیاں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حملہ کسی مسافر بردار طیارے سے نہیں بلکہ کسی کروز میزائیل سے ہوا تھا۔ اور چونکہ کروز میزائیل کی شکل کافی حد تک کسی طیارے سے ملتی ہے تو "آم" لوگوں نے اسے مسافربردار طیارہ سمجھ لیا۔

ویسے کسی نے کبھی سنا ہے کہ القاعدہ والوں کے پاس بھی کروز میرائیل کی ٹیکنالوجی آ گئی؟ اگر سنا ہو تو میری معلومات میں بھی اضافہ کر دیں۔ عین نوازش ہوگی۔ :-P
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ تو انہوں نے بتادیا کہ فتنے کی اصل جڑ امریکا ہے لیکن یہ نہ بتایا کہ آج قبائلی جو پاکستان سے نفرت اور دشمنی پر مجبور ہوئے ہیں اس میں پاکستان کا کیا کردار رہا۔ ظاہر ہے ایسی باتیں تو ضرور چھپانی چاہئیں جن سے مسائل حل ہونے کے امکانات ہوں کیونکہ مسئلہ حل ہوگیا تو خون کیسے بہے گا۔ میں نے بچپن میں کہانی سنی تھی کہ ڈریکولا کو خون اتنا پسند تھا کہ اس کے بغیر اسے نیند ہی نہ آتی تھی۔ خیر ڈریکولا میں ایک اچھی بات تھی کہ وہ اپنے آپ کو انصاف پسند نہیں کہلاتا تھا۔
میں نے آپ کو پہلے بتا دیا تھا کہ امریکہ، پاکستان اور طالبان اور سعودیہ، یہ چاروں ہی اس سازش میں ملوث تھے اور طالبان نے جو اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے امریکہ، پاکستان و سعودیہ کے آشیرواد سے جو لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اس سے انہیں اس بنا پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انہیں کسی اور نے بہکا دیا تھا۔
اور ڈریکولا تو وہ ہیں جو انسانی لاشوں کو چوکوں میں برہنہ کر کے انکی بے حرمتی کر رہے ہیں، لاکھوں مسلمان انکی آمد کی وجہ سے قتل ہو چکے ہیں، جو خود کش حملے میں معصوموں کو مار رہے ہیں۔
ان ڈریکولاز کو ہر ممکن راہ دی گئی کہ وہ اس خون و دہشگردی سے باز آ جائیں، مگر یہ وہ فتنہ ہے جس کی خصلت یہ ہے کہ: "یا ہمیں مار دو، ورنہ ہم نے تو تمہیں مارنا ہی ہے اور کسی صورت اپنے قتل و غارت سے باز نہیں آنا"۔
ایسے فتنے کو اللہ قران میں کہتا ہے کہ مارو اور اس وقت تک مارو جب تک یہ ختم نہ ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے توبہ تائب نہ کر لے۔ اور ایسے فتنے کو علی ابن ابی طالب نے جنگ نہروان میں اتنا مارا کہ تقریبا سب کو ختم کر دیا [سوائے ۵/۶ کے]۔ حالانکہ یہ خوارجین کوئی الگ سے فرقہ نہیں تھا بلکہ انکا کلمہ، انکا قران، انکی شریعت، انکا فقہ سب کچھ وہی تھا جو اُس وقت کے مسلمانوں کا تھا۔ مگر صرف ایک فرق تھا، اور وہ یہ کہ یہ فرق "سیاسی فرق" ہو گیا تھا اور وہ اس میدان میں انتہا پسند ہو گئے تھے اور اسی ایک وجہ سے خون بہانا شروع کر دیا تھا۔
کریں اب ذرا یہ ہمت اور لگائیں علی ابن ابی طالب پر ڈریکولا کا الزام۔ پوری اسلامی تاریخ طالبان کے حمایتیوں کے خلاف چیخ چیخ کر احتجاج کر رہی ہے۔ قران اس فتنے کے خلاف چیخ چیخ کر ان طالبان حمایتیوں کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ ذرا انسانی شعور اور بیدار ہو جائے تو ہر طرف سے طالبان وحشت و ظلم پر احتجاج و نفرین برپا ہو گی۔ انشاء اللہ۔
//////////////////////////////
جب امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تو وہاں موجود طالبان اور عربوں نے گوریلا وار کی اسٹریٹیجی بنائ۔ اس کے لیے انہوں نے افغانستان کے دشوار ترین علاقوں کو بیس کیمپ بنایا۔ پاکستان اور افغان بارڈر پر سب سے بہترین بیس کیمپ قبائلی علاقہ جات ہوسکتے تھے سو یہ چن لیے گئے۔
خود کو جتنا چاہے آپ بےوقوف بنائیے، مگر دوسروں کو بے وقوف بنانا ترک فرمائیے۔
طالبان کی صرف اور صرف ایک سٹریٹیجی ہے، اور وہ ہے:

۱۔ کبھی مردوں کی طرح میدان میں آ کر نہیں لڑنا
۲۔ بلکہ اپنی نہتی معصوم شہری عوام کے پیچھے بزدلوں کی طرح چھپ کر وار کرنا اور پھر واپس پلٹ کر ان معصوموں کو ڈھال بناتے ہوئے انکے پیچھے چھپ جانا ہے۔
۳۔ ان ظالموں کی وہی سٹریٹیجی ہے جو لال مسجد کے دہشت گردوں کی تھی جب انہوں نے مردوں کی طرح لڑنے کی بجائےاپنے ہی بچوں و بچیوں اور عورتوں کو ڈھال بنا لیا تھا اور جنگ کے آگ میں دھکیل دیا تھا۔

اب یہ نام نہاد دہشت گرد ملا فتوی دیتے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی عوام کو دہشت گرد حملوں میں مارنا جائز ہے کیونکہ یہ عوام اپنی حکومت کی ٹیکس دے کر مدد کرتی ہے۔ اب ایسے ملاووں کو کیا کہا جائے اور کیسے سمجھایا جائے اگر امریکہ نے بھی یہ لائسنس استعمال کرنا شروع کر دیا تو پھر کیا ہو گا۔ بلکہ انہوں نے یوں ہی خود کش حملے جاری رکھے تو آہستہ آہستہ انسانیت کمزور پڑتی جائے گی اور یہ انسانیت اور عالمی انسانی ضمیر وہ واحد چیز ہے کہ جس نے کمزور ہونے کے باوجود امریکی طیاروں کے سامنے بند باندھا ہوا کہ وہ افغانستان کی معصوم شہری آبادی پر بم نہ برسائے۔
اور جس دن یہ عالمی انسانی ضمیر اور کمزور ہوا اور امریکی طیاروں کی شہری آبادی پر بمباری روکنے میں ناکام ہوا، تو پھر یہی طالبان ایک دفعہ پھر اپنی شہری آبادی کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں و غاروں میں فرار اور چھپتی پھر رہی ہو گی۔
ہم اسرائیل میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ ان خود کش حملوں کی وجہ سے اسرائیل کو فری لائسنس مل گیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں بمباریاں کرے اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ دیکھ لیں کہ فلسطین کا وہ برا حال کیا ہے کہ آج ہم بھول گئے ہیں کہ بھلا آخری خود کش حملہ کب ہوا تھا۔ پوری دنیا میں اور اسرائیل کے اپنے اندر انسان دوست قوتیں کمزور ہوئی ہیں اور اُس طرف کے انتہا پسند حکومت میں آ گئے ہیں۔
////////////////////////
۔۔۔۔۔۔۔کہہ دیتے کہ ہم کوئ گلی کے کتے نہیں کہ آپ نے پتھر دکھایا اور ہم دبک لیے۔۔۔۔۔ اگر ایک دفعہ بھی اپنی قوم کی طرف دیکھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ قوم کوفہ کے رذیلوں سے نہیں بلکہ بدرو حنین کے وارثوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر حق کی خاطر سر پر آزمائش آتی تو پوری قوم اختلافات بھلا کر جنگ ستمبر کا منظر پیش کررہی ہوتی۔ زندہ دلانِ لاہور ایک دفعہ پھر اپنی روایت نبھانے کو لپکتے۔ کراچی کے مہاجر ایک دفعہ پھر خدا اور اس کے رسول کے نام پر اپنا آپ نچھاور کرتے۔ صرف ایک دفعہ، ایک دفعہ دیکھا ہوتا اپنی قوم کی طرف تو معلوم ہوتا کہ یہ قوم ٹیپو سلطان کی طرح شیر کی ایک دن کی زندگی جینا چاہتی ہے۔ لیکن نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے، ہمارے فلسفیوں، ہمارے ڈریکولاؤں نے اور آدم خور نسل کی بچی کھچی کھرچنوں نے اس وقت گیدڑ کی سو سالہ زندگی کا انتخاب کیا۔ اپنی قوم نیلام کردی۔

یہ بڑھ بڑھ کر اور چڑھ چڑھ کر بڑکیں ہانکنے والے وہ نادان ہیں جو ابھی حال ہی میں افغانی طالبان کو اپنی جانیں بچانے کے لیے معصوم نہتی شہری عوام کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہو کر پہاڑوں و غاروں میں چھپتا دیکھ چکے ہیں مگر پھر بھی اپنی بڑکیں ہانکے جا رہے ہیں۔
اور ایسے نادانوں سے دانا دشمن بہتر کیونکہ یہ نادان جو قوم پر آفات و مصائب لائیں گے وہ کوئی دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا۔

نوٹ:
بھائی جی، آپ کوفے کا مسئلہ بیچ میں لے آئیں ہیں جو کہ آپکو نہیں لانا چاہیے تھا۔ بہرحال آپ اپنی تاریخ کے علم کی تصحیح کر لیں، اور تاریخ میں ایک بہت بڑا مغالطہ ہے اور وہ یہ کہ ان میں فرق کریں:
۱۔سیاسی شیعہ
۲۔ امامی شیعہ
لفظ "شیعہ" کا اپنا مطلب "گروہ" ہے۔ علی ابن ابی طالب کی جن لوگوں نے جنگ جمل، صفین و نہروان میں مدد کی انہیں "شیعان علی" کے نام سے جانا گیا [اور اسکے مقابلے میں شیعان عثمان یا شیعان معاویہ کی اصطلاح استعمال ہوئی]۔
اور پھر یہ اصطلاح چلتی رہی اور روایات اور علم الرجال میں ہزاروں شیعان علی کے نام آئے۔ مگر یہ سب "سیاسی شیعہ" تھے اور علی ابن ابی طالب کو خلیفہ چہارم تسلیم کرتے تھے۔ مثال کے طور "ابن جریر طبری" کو شیعہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ علی ابن ابی طالب کو حق پر مانتے تھے جبکہ معاویہ کو ناحق پر مانتے تھے۔
جبکہ شیعان علی کا ایک گروہ تھا جنہیں "شیعانِ خاص" یا "امامی شیعہ" کہا جاتا تھا اور یہ پہلے دن سے خلافت پر علی کا حق سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو امامی شیعہ کہتے تھے [جبکہ مخالفین انہیں "رافضی" کے نام سے پکارتے تھے]
چنانچہ کوفہ کی آبادی کو شیعان علی کہا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے جنگوں میں علی کا ساتھ دیا مگر کوفے کی یہ آبادی ان "سیاسی شیعوں" پر مشتمل تھی جن کا مذہب علی ابن ابی طالب کو پہلا امام نہیں بلکہ خلیفہ چہارم تسلیم کرنا تھا۔ اور ایسا ہرگز نہ تھا کہ آجکل والی اصطلاح کے مطابق سارے شیعہ [امامی شیعہ] علی کے پیچھے جمع ہو گئے تھے اور آجکل کی اصطلاح کے مطابق سارے سنی معاویہ ابن ابی سفیان کے پیچھے جمع ہو گئے تھے۔
چنانچہ آپ پہلی بات آپ اپنے اس تاریخی مغالطے کی اصلاح کر لیں، اور دوئم یہ کہ میرے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس سیاسی گفتگو میں اہل تشیع پر مذہب کے حوالے سے طعنے دینے سے پرھیز کریں۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کی اس غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی وجہ سے ناظمین کو یہ تھریڈ بھی بند کرنا پڑے۔

///////////////////////////////////
رسول ص کا جہاد کے بالمقابل حالات کے مطابق صبر کرنا
چلیں کوئی تو ہے جو اتنی بار یہ سوال اٹھانے کے بعد جواب دینے کی ہمت تو کرتا ہے۔
خاتون عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کو موجودہ کینوس پر فٹ کرتے ہوئے ارشاد کر رہی ہیں کہ مکے کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں مدینہ کے انصار نے کیوں نہ مکہ پر چڑھائ کردی۔ ویسے تو یہ سوال اس قابل بھی نہیں کہ اسے ردی کی ٹوکری کی نذر کیا جائے لیکن چلیں کچھ وقت برباد کرلیتے ہیں اس کے پوسٹ مارٹم پر۔ تصور کریں اس وقت کا جب اسلام کا آغاز ہوا تھا۔ پورے کرہ ارض پر گنتی کے چند نفوس یعنی بمشکل تین سو کے آس پاس۔ کوئ موازنہ نظر آرہا ہے آپ کو اس دور کی افرادی قوت میں اور آج کے عالم اسلام میں؟ دوم کیا مدینے کے مسلمانوں نے مکہ کے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی مدد کی تھی، جس طرح پاکستان نے افغانوں کے خلاف امریکہ کو مدد فراہم کی؟ سوم کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے فیصلے کیا کرتے تھے یا کسی اور کی ڈکٹیشن پر جیسے آج پاکستان امریکہ کی ڈکٹیشن پر فیصلے کرتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پابند ہوگئے تھے کہ وہ مشرکین مکہ پر اس وقت تک چڑھائ نہیں کرسکتے جب تک وہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ کریں جبکہ حدیبیہ کے معاہدے سے پہلے تک مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج مدینے کی ریاست کو تشکیل دینا تھا۔ مدینے میں جس طرح اوس اور خزرج جیسے پازیٹو اور نیگیٹو (یعنی سو سالوں سے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما قبائلوں کے دو اتحاد) اسلام میں ضم ہوئے تھے اور علاقے میں جس طرح یہودیوں کی ایک باثر طاقت موجود تھی اس میں خود مدینے کو ہی سنبھال لینا ایک کارنامہ تھا۔ یعنی آپ تصور کریں کہ پوری زمین پر مسلمانوں کے قبضہ میں محض تین کلومیٹرمربع بھی ایسا نہ تھا جسے ریاست کہا جاسکے۔ موازنہ ہے ہی نہیں اس وقت کی اور اب کی صورتحال کا۔ اس کے علاوہ خاتون نے امریکی ٹیکنالوجی کا حوالہ بھی دیا۔ ہمارے ہاں یہ بات عام ہوگئ ہے کہ اگر سامنے والے کو لاجواب کرنا ہے تو اسے ٹیکنالوجی کا طعنہ دیدو تاکہ اس کا منہ بند ہوجائے۔ ورنہ اصل بات تو یہ ہے کہ بے ضمیروں کے ہاتھوں میں ٹیکنالوجی آبھی گئ تو وہ کیا کارنامہ کرلیں گے۔ ایسے لوگ جو اپنا آپ دوسروں کے حوالے کرچکے ہوں ان کو تو کیا ہی ٹیکنالوجی ملے گی اور کیا ہی وہ دنیا میں کارنامہ کریں گے۔ زیادہ دور نہیں قریب کی مثال لیں کہ اسرائیل جیسی بھیانک طاقت کو لبنان میں حزب اللہ نے گھٹنے ٹکادیے۔ اس سے کچھ اور پیچھے جائیں جب روس نے افغانستان پر چڑھائ کی۔ کچھ موازنہ ہے روس جیسی دیوہیکل طاقت کا اور افغانوں کا؟ تھا کیا افغانوں کے پاس؟ سٹیلائٹ؟ راڈار؟ جہاز؟ گن شپ؟ ٹینک؟ کچھ بھی تو نہیں محض ہلکے ہتھیار۔ لیکن ہمت تھی خدا پر یقین تھا۔ خدا نے بھی ان کی مدد کی اور روس کو ایسی شکست ہوئ کہ اسے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ کچھ کر گذرنے اور حاصل کرنے کے لیے یقین کی طاقت اور ہمت چاہیے ہوتی ہے اور جہاں ہمت ہوتی ہے وہاں غیروں سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی جاتی۔ ان کی حیثیت تو اس فقیر کی سی ہے کہ جس کے کشکول میں کسی نے رحم کھاکے کچھ ڈال دیا تو صحیح ورنہ اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ تاریخ کے وہ گھناؤنے کردار ہیں کہ عین آزمائش کے وقت لشکرِ یزید کے ساتھ جاکھڑے ہوئے اور اس پر طرہ یہ کہ اسے شعور کا نام دیتے ہیں، اسلام کی بہتری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انہیں شرم نہیں آتی لیکن اسلام کو ضرور ان سے شرم آتی ہوگی۔
مجھے ساری ڈینگوں اور بڑکوں کا جواب نہیں دینا، مگر صرف مختصر:
۱۔ اگر مسلمان ۳۰۰ تھے تو جواب میں کفار بھی ۷۰۰ سامنے آئے تھے اور جنگ بدر میں مسلمانوں نے انہیں شکست دے دی مگر پھر بھی مکہ پر براہ راست حملہ کر کے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات نہیں دلوائی کیونکہ ایسا حملہ کرنے سے مسلمانوں کا مجموعی طور پر کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔
۲۔ کفار مکہ اور مسلمانوں میں "علم" اور "ٹیکنالوجی" کے میدان میں کوئی فرق نہ تھا۔ واحد فرق صرف "افرادی قوت" میں تھا۔
آج یہ حالت ہے کہ جب امریکی طیارے طالبان پر حملہ کر رہے تھے تو یہ بتائیے کہ طالبان نے اس پوری جنگ میں فرار ہونے سے قبل کتنے امریکی طیارے گرائے اور کتنے امریکی فوجی قتل کیے؟ تو اگر ہمت کر سکیں تو اس سوال کا جواب دے دیجئیے۔
۳۔ رسول ص کے زمانے کے مسلمان چاہے عددی طور پر کمزور ہی کیوں نہ رہے ہوں، مگر انہوں نے کبھی اپنے ہی عورتوں و بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی انکے پیچھے چھپ کر جا کر بیٹھ گئے، بلکہ ہمیشہ کھل کر سامنے آ کر جنگ لڑی۔
۴۔ اور رسول ص کے زمانے میں یہ 300 اصحاب مکمل طور پر رسول ص کی پیچھے تھے۔ جبکہ طالبان و القاعدہ کا کردار اتنا گھناونا اور پست اور اسلام کے خلاف ہے کہ امت کی کثیر اکثریت خود انہیں ہی امریکہ سے بڑا شیطان و فتنہ سمجھتی ہے۔ تو یہ کس بل بوتے پر امریکہ سے آج لڑنے چلے ہیں؟ ابتک انکا کل بل بوتہ اپنی شہری آبادی اور اپنی عورتوں کا پلو ہے کہ جسکی آڑ سے نکل کر یہ خود کش حملے کرتے ہیں اور پھر واپس انہی معصوموں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

تو شکر ہے خدا کا کہ کم از کم انہوں نے طوعا کرحا پر قبول تو کیا کہ رسول ص نے جہاد فرض ہوتے ہوئے بھی حالات کے مطابق جہاد پر صبر کو افضلیت دی۔

آئیے اب دیکھتے ہیں طالبانی جہاد کے مسلم امت کو کیا فائدے ہوئے ہیں۔

۲۰۰ امریکی قتل بالمقابل ڈھائی تین لاکھ مسلم قتل
جب سے طالبان قوت میں آئی ہے، انکی وجہ سے ڈھائی یا تین یا پتا نہیں چار لاکھ مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں یا پھر امریکہ کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
اسکے مقابلے میں ابتک طالبان نے کتنے امریکی فوجی قتل کیے ہیں؟
جی ہاں ابتک طالبان نے ان تمام سالوں میں صرف 200 کے لگ بھگ ہی امریکی فوجی قتل کیے ہیں، اور وہ بھی ایسی جنگ میں کہ جہاں وہ اپنی عورتوں کی پلووں سے نکل کر اسلام کے حکم کے خلاف خود کش حملہ کرتے تھے اور پھر دوبارہ اپنی عورتوں کے پلووں میں گھس جاتے تھے۔ ایسے اسلام کے حکم کے خلاف خود کش حملے کرنے سے بہتر ہوتا یہ 200 امریکی فوجی بھی نہ مارے ہوتے کیونکہ خود کش حملے کر کے اسلام کو جو انہوں نے نقصان پہنچایا ہے اور اسے بدنام کیا ہے اس کے اثرات ان 200 فوجیوں کے قتل کئی گنا زیادہ ہیں۔

آج یہ واویلا کرتے ہیں امریکہ نے افغانستان میں ہزاروں لاکھوں معصوم نہتے لوگوں کو مار دیا۔ مگر ان بے وقوفوں کو یونہی اپنی دہشت گرد کاروائیاں کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا تو کل یہ کڑوڑوں مزید نہتے معصوم لوگوں کو امریکہ کے ہاتھوں مروا دیں گے اور خود میدان جنگ سے فرار ہو کر پہاڑوں میں چھپ جائیں گے۔
//////////////////////////////////////

کیا القاعدہ اور طالبان نے کبھی 9/11 کے خود کش حملے کو خلاف اسلام قرار دیا؟

یہ احمق ابھی تک یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ جس طرح یہ اپنے مدارس میں معصوم لوگوں کو پروپیگنڈہ کے زور سے برین واش کر لیتے ہیں اسی طرح اس دفعہ بھی جھوٹ بول بول کر اور برین واش کر کے القاعدہ و طالبان کی دہشت گردیوں کو دبا کر انہیں فرشتہ ثابت کر دیں گے۔

اور 9/11 تو بہت بعد کا واقعہ ہے اور اس سے قبل ہی االقاعدہ نے اپنی دہشت گرد کاروائیاں جاری رکھی ہوئی تھیں۔
القاعدہ و طالبان نے نو گیارہ کے بعد پھر جھوٹ بولنے کی کوشش کی مگر اللہ کی قدرت کہ ایک مرتبہ بھی انکے منہ سے یہ نہ نکل سکا کہ نو گیارہ کا خود کش حملہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
پھر جب سارے دہشتگردوں کا پتا چل گیا اور ماسٹر مائینڈ خالد شیخ بھی پکڑا گیا تو القاعدہ کے لیڈر کھل کر پاکستانی میڈیا پر اعتراف کر رہے ہیں۔

مگر یہ احمقوں کا ٹولہ ابھی تک سمجھتا ہے کہ وہ مزید جھوٹ بولتا رہا تو باقی پوری دنیا کو بے وقوف بنا کر رام کر لے گا۔

مگر کوئی ان احمقوں کو بتائے کہ جتنا وہ یہ جھوٹ بولتے جائیں گے اتنا ہی انکا اعتبار کم ہوتا جائے گا۔ اور پھر "شیر آیا، شیر آیا" کی طرح اگر کبھی انہوں نے سچ بھی بولا تو بھی کوئی انکا اعتبار نہیں کرے گا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

آپکے امریکہ اور ان میں کوئی فرق ہے کیا؟ آپ یہی کام بغیر اعلان جنگ اور بغیر خودکش حملوں کے کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ سياسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے بے گناہ افراد کی ہلاکت سے امريکہ کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ اس کے برعکس بےگناہ شہريوں کی ہلاکت سےدہشت گردوں کو جذبات بھڑکانے اور واقعے کو "استعمال" کرنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے ليے آپ ان تنظيموں کے پوسٹرز، بينرز، ويب سائٹس اور ديگر اشتہاری مواد کا جائزہ ليں۔ يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ دہشت گردوں کے پراپيگينڈے کا بنيادی مرکز اور خيال ہميشہ وہ تصاوير ہوتی ہيں جن ميں عورتوں اور بچوں کو ظلم کا شکار دکھايا جاتا ہے۔ يہ بات غور طلب ہے کہ ايک طرف تو يہ دہشت گرد ان تصاوير کو بنياد بنا کر اپنی کاروائيوں کو جائز قرار دينے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کی قريب تمام کاروائياں دانستہ عورتوں، بچوں اوربے گناہ لوگوں کے خلاف ہوتی ہيں جس کے نتيجے ميں ظلم کی مزيد داستانيں لکھی جاتی ہيں۔

جہاں تک افغانستان ميں حاليہ حملے کا تعلق ہے، تو اس ضمن ميں يہ درست ہے کہ افغان نيشنل سيکورٹی فورسز اور اتحادی افواج نے 22 اگست کو ہرات صوبے کے ضلع شندند ميں ايک فضائ حملے ميں 25 عسکريت پسندوں اور 5 غير مسلح افراد کی موت کی تصديق کی ہے۔ ہلاک ہونے والوں ميں طالبان کمانڈر ملا صادق بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس آپريشن ميں 5 عسکريت پسندوں کو گرفتار بھی کيا گيا۔

اس کے علاوہ دو افغان شہری بھی زخمی ہوئے جنھيں موقع پر طبی امداد دينے کے بعد ہسپتال منتقل کيا گيا۔ اس کے علاوہ اس آپريشن کے دوران اتحادی افواج نے اے – کے 47 رائفلز کا ايک بڑا ذخيرہ، 4000 سے زائد گولياں اور دھماکہ خيز مواد بھی اپنے قبضے ميں ليا۔

افغان حکومت کے ايک کميشن کی جانب سے 95 افغان شہريوں کی ہلاکت کی رپورٹ امريکی حکومت کو موصول ہوئ ہے۔ ليکن ابھی تک يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کو ايسے کوئ شوائد موصول نہيں ہوئے ہيں جن سے اس دعوے کی تصديق کی جا سکے۔ ليکن اس رپورٹ کی روشنی ميں امريکی حکام نے فيلڈ کمانڈر کو تفتيش کا حکم دے ديا ہے تاکہ حقائق معلوم کيے جا سکيں۔ ابھی تک ان کی جانب سے اس رپورٹ ميں موجود اعداد وشمار کا کوئ ثبوت سامنے نہيں آيا۔

اتحادی افواج اور افغان افواج مشترکہ آپريشن سے پہلے وہ تمام ممکنہ اقدامات اٹھاتی ہيں جس کے نتيجے ميں شہريوں کی جان و مال کا تحفظ يقينی بنايا جا سکے۔ اس کے مقابلے ميں طالبان اور عسکريت پسند دانستہ عام شہريوں ہی کو اپنی کاروائيوں کا نشانہ بناتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

محمد سعد

محفلین
جہاں تک افغانستان ميں حاليہ حملے کا تعلق ہے، تو اس ضمن ميں يہ درست ہے کہ افغان نيشنل سيکورٹی فورسز اور اتحادی افواج نے 22 اگست کو ہرات صوبے کے ضلع شندند ميں ايک فضائ حملے ميں 25 عسکريت پسندوں اور 5 غير مسلح افراد کی موت کی تصديق کی ہے۔ ہلاک ہونے والوں ميں طالبان کمانڈر ملا صادق بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس آپريشن ميں 5 عسکريت پسندوں کو گرفتار بھی کيا گيا۔

اس کے علاوہ دو افغان شہری بھی زخمی ہوئے جنھيں موقع پر طبی امداد دينے کے بعد ہسپتال منتقل کيا گيا۔ اس کے علاوہ اس آپريشن کے دوران اتحادی افواج نے اے – کے 47 رائفلز کا ايک بڑا ذخيرہ، 4000 سے زائد گولياں اور دھماکہ خيز مواد بھی اپنے قبضے ميں ليا۔

افغان حکومت کے ايک کميشن کی جانب سے 95 افغان شہريوں کی ہلاکت کی رپورٹ امريکی حکومت کو موصول ہوئ ہے۔ ليکن ابھی تک يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کو ايسے کوئ شوائد موصول نہيں ہوئے ہيں جن سے اس دعوے کی تصديق کی جا سکے۔ ليکن اس رپورٹ کی روشنی ميں امريکی حکام نے فيلڈ کمانڈر کو تفتيش کا حکم دے ديا ہے تاکہ حقائق معلوم کيے جا سکيں۔ ابھی تک ان کی جانب سے اس رپورٹ ميں موجود اعداد وشمار کا کوئ ثبوت سامنے نہيں آيا۔

اتحادی افواج اور افغان افواج مشترکہ آپريشن سے پہلے وہ تمام ممکنہ اقدامات اٹھاتی ہيں جس کے نتيجے ميں شہريوں کی جان و مال کا تحفظ يقينی بنايا جا سکے۔ اس کے مقابلے ميں طالبان اور عسکريت پسند دانستہ عام شہريوں ہی کو اپنی کاروائيوں کا نشانہ بناتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

اچھا! تو وہ سالوں تک امریکہ کی چمچہ گیری کرنے والا حامد کرزئی اب اچانک پاگل ہو گیا ہے کہ یوں بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے؟ بھلا امریکہ بہادر میں ایسی کون سی خرابی ہے کہ وہ اسے گھر بھجوانا چاہتا ہے؟
اور پاکستانی حکومت بھی پاگل ہے کہ کل امریکہ کے یوں پاکستان میں گھس کر دہشت گردی مچانے پر اعتراض کر رہی ہے۔ آخر یہ امریکہ بہادر کا اپنا گھر ہے۔ جتنی چاہے تباہی مچائے۔ بھلا ہمیں کیا حق حاصل ہے اس پر اعتراض کرنے کا۔ کیا ہوا جو پاکستانی حکومت کی مکمل حمایت کے باوجود اس نے پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر ہی عام شہریوں کا دن دہاڑے قتلِ عام کیا۔ یقیناً وہ عام شہری نہیں تھے۔ دہشت گرد تھے۔ تبھی تو امریکہ بہادر نے ہماری آسانی کے لیے انہیں خود ہی ختم کر دیا۔
 

محمد سعد

محفلین
مجھے ساری ڈینگوں اور بڑکوں کا جواب نہیں دینا، مگر صرف مختصر:
۱۔ اگر مسلمان ۳۰۰ تھے تو جواب میں کفار بھی ۷۰۰ سامنے آئے تھے اور جنگ بدر میں مسلمانوں نے انہیں شکست دے دی مگر پھر بھی مکہ پر براہ راست حملہ کر کے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات نہیں دلوائی کیونکہ ایسا حملہ کرنے سے مسلمانوں کا مجموعی طور پر کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔
۲۔ کفار مکہ اور مسلمانوں میں "علم" اور "ٹیکنالوجی" کے میدان میں کوئی فرق نہ تھا۔ واحد فرق صرف "افرادی قوت" میں تھا۔
آج یہ حالت ہے کہ جب امریکی طیارے طالبان پر حملہ کر رہے تھے تو یہ بتائیے کہ طالبان نے اس پوری جنگ میں فرار ہونے سے قبل کتنے امریکی طیارے گرائے اور کتنے امریکی فوجی قتل کیے؟ تو اگر ہمت کر سکیں تو اس سوال کا جواب دے دیجئیے۔
۳۔ رسول ص کے زمانے کے مسلمان چاہے عددی طور پر کمزور ہی کیوں نہ رہے ہوں، مگر انہوں نے کبھی اپنے ہی عورتوں و بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی انکے پیچھے چھپ کر جا کر بیٹھ گئے، بلکہ ہمیشہ کھل کر سامنے آ کر جنگ لڑی۔
۴۔ اور رسول ص کے زمانے میں یہ 300 اصحاب مکمل طور پر رسول ص کی پیچھے تھے۔ جبکہ طالبان و القاعدہ کا کردار اتنا گھناونا اور پست اور اسلام کے خلاف ہے کہ امت کی کثیر اکثریت خود انہیں ہی امریکہ سے بڑا شیطان و فتنہ سمجھتی ہے۔ تو یہ کس بل بوتے پر امریکہ سے آج لڑنے چلے ہیں؟ ابتک انکا کل بل بوتہ اپنی شہری آبادی اور اپنی عورتوں کا پلو ہے کہ جسکی آڑ سے نکل کر یہ خود کش حملے کرتے ہیں اور پھر واپس انہی معصوموں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

تو شکر ہے خدا کا کہ کم از کم انہوں نے طوعا کرحا پر قبول تو کیا کہ رسول ص نے جہاد فرض ہوتے ہوئے بھی حالات کے مطابق جہاد پر صبر کو افضلیت دی۔

آپ کا حافظہ شاید کچھ زیادہ ہی کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ کفار 800 نہیں بلکہ 1000 کے لگ بھگ تھے۔ دوسری بات یہ کہ مجاہدین کے پاس نہ صرف افرادی قوت، بلکہ اچھے ہتھیاروں کی بھی کمی تھی۔ لیکن چونکہ اللہ پر یقین تھا، مادی وسائل پر نہیں، اسی لیے انہیں اپنے آپ سے 3 گنا بڑے لشکر پر فتح حاصل ہوئی۔
اب آتے ہیں موجودہ دور کی طرف۔ پہلے پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے آج پاکستان حربی ٹیکنالوجی کے معاملے میں اس حد تک خود کفیل ہو چکا ہے کہ بحری جہاز سے لے کر آبدوز تک، بکتربند اور ٹینک سے لے کر لڑاکا طیارے تک، عام راکٹ سے کروز میزائیل تک اور بندوق سے لے کر ایٹم بم تک یہاں مقامی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔ کیا اس کے باوجود آپ کہیں گی کہ ہمارا امریکہ کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں؟
یہ تو ہو گیا ایک زاویے سے جائزہ، اب دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حربی حکمتِ عملی ان کے دور کے لحاظ سے بہترین تھی۔ آج کل کے حالات قدرے مختلف ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ ایک مسلمان ملک کو تباہ کرنے کے بعد دوسرے کا رخ کرتا ہے۔ آج وہ افغانستان پر لشکرکشی کیے ہوئے ہے تو کل کے لیے پاکستان پر اس کی نظر ہے۔ ایسے حالات میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ آپس میں متحد ہو جائیں اور مل کر امریکہ کا مقابلہ کریں۔ ورنہ بصورتِ دیگر آج کل کرتے کرتے دنیا بھر میں گنتی کے ہی چند مسلمان رہ جائیں گے۔
اس سے مجھے ایک بات یاد آئی کہ آج مسلمانوں کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا شاید پانچواں حصہ ہے۔ پتا نہیں آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم سب متحد ہو کر بھی، جب ہماری کل تعداد امریکہ کی کل آبادی سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی، امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے؟ اسے میں کیا نام دوں۔ یہ تو احساسِ کمتری سے بھی زیادہ عجیب سوچ ہے۔
 

خرم

محفلین
سعد بھائی آپکی مکھیوں والی مثال میں‌ایک چیز کی کمی ہے۔ وہ مکھیاں اردگرد ہر آتے جاتے کو کاٹ رہی تھیں اور لوگ آپ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کا علاج کرو۔ کسی کے آنے کے بعد یہ احتجاج نہیں شروع ہوا، یہ منصوبہ پرانا تھا، عمل جلدی کرنا پڑ گیا۔
ویسے اگر میں نارووال میں ایک مسلح گروپ بنا کر وہاں کاروائیاں شروع کردوں اسلام کے نام پر۔ روایات کے نام پر راجپوتوں کے رسوم و رواج سے چمٹ جاؤں، گھر والوں‌کو راکھ کرکے جنگ لڑنے جاؤں، شوہر کے ساتھ بیوی کو جلادوں اور جو مجھے روکے اس کے قتل کے درپے ہو جاؤں، سکول، مساجد بموں سے اڑا دوں تو کیا آپ میری حمایت کریں گے روایات و اقدار کے نام پر؟؟؟ اگر نہیں‌تو کیوں نہیں؟
 

جیا راؤ

محفلین
قبائلی دیگر پاکستان کی ظالم نہیں تھے کہ جنہوں نے پتھر کے دور کی دھمکی میں آکر اپنی ہی امت کی نسل کشی میں مدد دی۔ یوں ان قبائلیوں پر جنگ مسلط کردی گئ۔ اپنی ہی قوم کو گولیوں کی باڑ پر رکھ لیا گیا۔ ان کے گھر مسمار کیے ان پر آسمان سے آگ کی بارش برسائ۔ ان کی بستیاں جلائیں ان کے خاندان اجاڑے۔ وہ باوفا لوگ جو قائدِ اعظم کی ایک پکار پر انڈیا سے ٹکراگئے اور آدھا کشمیر ہمیں لے دیا ان کو یہ سزا دی؟ یعنی انہوں نے آپ کا ناجائز مطالبہ نہیں مانا تو آپ نے انہیں بھاڑ میں جھونکنا شروع کردیا؟ اور پاکستان کی اوقات ہی کیا ہے؟ پاکستان کا تو اپنا کوئ مطالبہ تھا ہی نہیں جو کچھ تھا امریکا کا تھا۔ پاکستان تو امریکا کی چوکھٹ پر گرا زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، پاکستان کو تو پتھر کے دور کے ہول آرہے تھے۔ خدا پر کہاں یقین تھا؟ یقین ہوتا تو کہہ دیتے کہ اگر پتھر کا دور ہمارے نصیب میں ہے تو زلزلے کا ایک جھٹکا ہی اس کے لیے کافی ہے۔ کہہ دیتے کہ ہم کوئ گلی کے کتے نہیں کہ آپ نے پتھر دکھایا اور ہم دبک لیے۔ کہہ دیتے کہ ہم قائدِ اعظم کی قوم ہیں جنہوں نے ہمیشہ اصولوں کی جنگ لڑی۔ اگر ہمارے حکمران اپنے فوجی مشیروں کی بجائے اپنی قوم سے رائے لے لیتے تو انہیں عزت سے سر اٹھاکر جینے کا پیغام ملتا۔ انہیں سب سے پہلے پاکستان کی بجائے سب سے پہلے حق کا مشورہ ملتا۔ اگر ایک دفعہ بھی اپنی قوم کی طرف دیکھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ قوم کوفہ کے رذیلوں سے نہیں بلکہ بدرو حنین کے وارثوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر حق کی خاطر سر پر آزمائش آتی تو پوری قوم اختلافات بھلا کر جنگ ستمبر کا منظر پیش کررہی ہوتی۔ زندہ دلانِ لاہور ایک دفعہ پھر اپنی روایت نبھانے کو لپکتے۔ کراچی کے مہاجر ایک دفعہ پھر خدا اور اس کے رسول کے نام پر اپنا آپ نچھاور کرتے۔ صرف ایک دفعہ، ایک دفعہ دیکھا ہوتا اپنی قوم کی طرف تو معلوم ہوتا کہ یہ قوم ٹیپو سلطان کی طرح شیر کی ایک دن کی زندگی جینا چاہتی ہے۔ لیکن نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے، ہمارے فلسفیوں، ہمارے ڈریکولاؤں نے اور آدم خور نسل کی بچی کھچی کھرچنوں نے اس وقت گیدڑ کی سو سالہ زندگی کا انتخاب کیا۔ اپنی قوم نیلام کردی۔


اے کاش۔۔۔۔ !
 

ساجداقبال

محفلین
ہم اسرائیل میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ ان خود کش حملوں کی وجہ سے اسرائیل کو فری لائسنس مل گیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں بمباریاں کرے اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ دیکھ لیں کہ فلسطین کا وہ برا حال کیا ہے کہ آج ہم بھول گئے ہیں کہ بھلا آخری خود کش حملہ کب ہوا تھا۔
صابرہ و شتیلا اور قیام اسرائیل کے زمانے میں غالبا خودکش حملے نہیں ہوتے تھے۔ آپکی معاملہ فہمی جائز مزاحمت کو بھی شاید دہشتگردی شمار کرتی ہے۔

دوسری بات خدارا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کو ہمارے حکمرانوں‌ کی حکمت بے عملی سے نہ ملایا کریں۔ ورنہ آپ یہ ثابت کریں کہ مدینہ والوں نے اتنے درہم دیکر اپنے بندے مکہ کے مشرکین کو بیچے تھے اور اس رقم کا ذکر بڑے فخر سے روایات میں کیا۔
 

ظفری

لائبریرین
اللہ تعالی نے قرآن میں جنگ " جہاد " کے لیئے جس طاقت کےتناسب کی شرط رکھی ہے ۔ اس سے یہ بات صاف واضع ہے کہ آپ میں پہلے اتنی اہلیت ہونی کہ آپ دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں ۔ پھر اللہ فتح اور نصرت کا وعدہ کرتا ہے ۔ آج یہی صورتحال ہے کہ ہم ‌خود کش حملے کریں یا خود کشیاں کریں ۔ ایک ہی بات سمجھی جائے گی ۔ جنگیں کوئی کھیل نہیں ہے /۔ اس میں قومیں تباہ و برباد ہوجاتیں ہیں ۔ صدیوں پیچھے چلیں جاتیں ہیں ۔ پوری قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔ سمیٹنے میں بھی‌صدیاں لگتیں ہیں ۔ اس لیئے اللہ نے واضع کیا ہے کہ جب بھی ظلم و ادوان کے خلاف جہاد پر نکلو تو ایک کی نسبت دو کا تناسب ہونا چاہیئے ۔ تاکہ ایک لشکر کی غلطی کا خمیازہ ساری امہ کو نہ بھگتنا پڑے ۔ جھتوں ، گروہوں ، جماعتوں کی شکل میں جہاد نہیں ہوتا ۔ اس کے لیئے پورا ایک منظم ادارہ ہونا چاہیئے ، جو ہوش و عقل سے جہاد کا فیصلہ کرے ۔
( یہ بات میں نے کسی کی پوسٹ کے تناظر میں نہیں کی ہے ۔ بلکہ پچھلی گفتگو کے مجموعی تاثر کو دیکھ کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے (
 

فاروقی

معطل
اللہ تعالی نے قرآن میں جنگ " جہاد " کے لیئے جس طاقت کےتناسب کی شرط رکھی ہے ۔ اس سے یہ بات صاف واضع ہے کہ آپ میں پہلے اتنی اہلیت ہونی کہ آپ دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں ۔ پھر اللہ فتح اور نصرت کا وعدہ کرتا ہے ۔ آج یہی صورتحال ہے کہ ہم ‌خود کش حملے کریں یا خود کشیاں کریں ۔ ایک ہی بات سمجھی جائے گی ۔ جنگیں کوئی کھیل نہیں ہے /۔ اس میں قومیں تباہ و برباد ہوجاتیں ہیں ۔ صدیوں پیچھے چلیں جاتیں ہیں ۔ پوری قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔ سمیٹنے میں بھی‌صدیاں لگتیں ہیں ۔ اس لیئے اللہ نے واضع کیا ہے کہ جب بھی ظلم و ادوان کے خلاف جہاد پر نکلو تو ایک کی نسبت دو کا تناسب ہونا چاہیئے ۔ تاکہ ایک لشکر کی غلطی کا خمیازہ ساری امہ کو نہ بھگتنا پڑے ۔ جھتوں ، گروہوں ، جماعتوں کی شکل میں جہاد نہیں ہوتا ۔ اس کے لیئے پورا ایک منظم ادارہ ہونا چاہیئے ، جو ہوش و عقل سے جہاد کا فیصلہ کرے ۔
( یہ بات میں نے کسی کی پوسٹ کے تناظر میں نہیں کی ہے ۔ بلکہ پچھلی گفتگو کے مجموعی تاثر کو دیکھ کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے (

میرے خیال سے وہ "ادارہ" آپ منظم کیوں نہیں کرتے . . ؟. ..................کیوں کہ حکومت تو ان چونچلوں کے لیے فارغ نہیں ہے. . . . . جب بات اپنے گھر پر ،اپنے سر پر آتی ہے توٹھیک سمجھ پھر ہی آتی ہے. . . محاذ جنگ سے سینکڑوں میل دور بیٹھ کر "ادارے"بنانے سے کام چلتا ہوتا تو امریکہ کے پاس ایسے ہزراروں ادارے ہیں . . . اسے اپنے "جوانوں" کو مروانے کا شوق ہے کیا جو اداروں سے کام نہیں لیتا؟.................کیا پاک فوج ایک منظم ادارہ نہیں ہے. . . ؟کیا پاک فوج کے پاس اسلحے کی کمی ہے. . . ؟..................عددی کمی ہے کیا؟...............جذبے کی کمی ہے کیا...........؟...........ایمان کی کمی ہے کیا.........؟میرے خیال سے پاک فوج کے پاس وہ سب کچھ ہے جو دشمن کے پاس ہے. . . بلکہ "ایمان "کی نعمت بھی میسر ہے. . . تو کیوں ظالم کے خلاف جہاد نہیں کرتے پاک فوج والے............کیوں اپنے ہی مسلمان بھائیوں پہ ہتھیار آزماتے ہیں . . . ؟....اصل میں فوج میں امریکی اجنٹ گھسے بیٹھے ہیں . . .مشرف جیسے. . . . اونچے عہدوں والے ایجنٹ. . . . ایک کو دھکے دے کر نکالتے ہیں تو کوئی دوسرا . . . وعدہ شکن..... ایجنٹ آ موجود ہوتا ہے. . . .
حقیقت کا تو سبھی کو پتا ہے لیکن کچھ "عقل کے اندھے" ابھی بھی آنکھیں نہیں کھول رہے. . . ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب اپنے خون کے رشتے کے بھائی ،بہن، بیٹے،باپ،شوہر،. . . اپنوں کے ہتھیاروں کی زد میں آئیں گے. . . . تو پھر شرمندگی کے لیے الفاظ بھی نہیں ملیں گے. . . . . امریکی شیطان کی پوجا کرنے والوں کو تبھی پتا چلے گا کہ یہ تو شیطان کا بہکاوہ تھا
 

ظفری

لائبریرین
پہلے تو آپ کواس بات کی مبارکباد قبول کریں کہ You are in LOVE ۔ ;)

اور دوسرا یہ کہ لعنت ملامت کرنے سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ کوئی علمی بحث کریں ۔ :)
 

تیشہ

محفلین
zzzbbbbnnnn.gif
 

فاروقی

معطل
پہلے تو آپ کواس بات کی مبارکباد قبول کریں کہ You are in LOVE ۔ ;)

اور دوسرا یہ کہ لعنت ملامت کرنے سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ کوئی علمی بحث کریں ۔ :)

مبارک باد قبول کی جناب کی. . . :grin:
اور لعنت ،ملامت ،کا کلیہ جو آپ نے مجھے بتایا ہے آپ خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتے . . . کیا یہ آپ کے کرنے کا کام نہیں ہے:grin:
میری پوسٹ میں لعنت ملامت دیکھ لین اور اپنی پوسٹوں مین بھی جھانک لیں ،پھر نصیحت کریں تو عمل کروں گا
 

ظفری

لائبریرین
دراصل میں بھول گیا تھا کہ تم وہی ہو ۔ جس کیساتھ میں نے پہلے بھی وقت ضائع کیا تھا ۔ میں پھر باز آیا ۔
 

فاروقی

معطل
دراصل میں بھول گیا تھا کہ تم وہی ہو ۔ جس کیساتھ میں نے پہلے بھی وقت ضائع کیا تھا ۔ میں پھر باز آیا ۔

یعنی کہ تھوڑی دماغی کمزوری کی شکایت آپکوبھی ہے
قبلہ پہلے "دماغی کمزوری "کا علاج کروائیںپھر بیان داغیں. . . ایسا نہ ہو کہ بھولنے کی بیماری کی وجہ سے دوسروں کو بھی غلط راستے پہ چلنے کی طرف قائل نہ کرتے رہیں
اب اپنہ کہی بات پر غصہ آ رہا ہے تو پی لیجیے کہ افتاری کا وقت بھی قریب ہی ہے:grin:
 

ظفری

لائبریرین
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔۔ میں اپنی اس بیماری کا جلد از جلد علاج کراؤں‌گا تاکہ " دوسری دیگر " بیماریوں سے بچا جا سکے ۔ :grin:
 

محمد سعد

محفلین
میں تو ان بے کار کے مباحثوں سے تنگ آ گیا ہوں۔ آخر ہم یوں ان "فلاں صحیح اور فلاں غلط" والی بحثوں میں اپنا وقت اور توانائی ضائع کر کے کس کو فاائدہ پہنچا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے آپ کو یا امتِ مسلمہ کو ان بحثوں سے کوئی فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ اس سے کہیں بہتع ہوگا کہ ہم اس وقت اور توانائی کا استعمال کسی ایسے کام کے لیے کریں جس سے نہ صرف ہمیں، بلکہ ہماری قوم کو بھی فائدہ پہنچے۔
ذرا سوچیے! اگر اس وقت اور توانائی کا استعمال ہم حکومت اور قبائل کے درمیان صلح کرانے کے لیے کرتے تو اب تک پاکستان میں امن قائم ہو چکا ہوتا۔ اگر ہم اسے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے تو آج ہمیں کسی بھی بیرونی دشمن کا خطرہ نہ ہوتا۔ اور اگر ہم اس کا استعمال اللہ کی مخلوق تک اس کا پیغام پہنچانے کے لیے کرتے تو سینکڑوں لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہوتے۔

چنانچہ میں آج سے ایسے تمام بے کار مباحثوں سے "استعفیٰ" دیتا ہوں۔ اور اللہ نے چاہا تو آئیندہ اپنا وقت اور توانائی زیادہ بہتر کاموں میں استعمال کروں گا۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
 

زونی

محفلین
میں تو ان بے کار کے مباحثوں سے تنگ آ گیا ہوں۔ آخر ہم یوں ان "فلاں صحیح اور فلاں غلط" والی بحثوں میں اپنا وقت اور توانائی ضائع کر کے کس کو فاائدہ پہنچا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے آپ کو یا امتِ مسلمہ کو ان بحثوں سے کوئی فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ اس سے کہیں بہتع ہوگا کہ ہم اس وقت اور توانائی کا استعمال کسی ایسے کام کے لیے کریں جس سے نہ صرف ہمیں، بلکہ ہماری قوم کو بھی فائدہ پہنچے۔
ذرا سوچیے! اگر اس وقت اور توانائی کا استعمال ہم حکومت اور قبائل کے درمیان صلح کرانے کے لیے کرتے تو اب تک پاکستان میں امن قائم ہو چکا ہوتا۔ اگر ہم اسے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے تو آج ہمیں کسی بھی بیرونی دشمن کا خطرہ نہ ہوتا۔ اور اگر ہم اس کا استعمال اللہ کی مخلوق تک اس کا پیغام پہنچانے کے لیے کرتے تو سینکڑوں لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہوتے۔

چنانچہ میں آج سے ایسے تمام بے کار مباحثوں سے "استعفیٰ" دیتا ہوں۔ اور اللہ نے چاہا تو آئیندہ اپنا وقت اور توانائی زیادہ بہتر کاموں میں استعمال کروں گا۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔






بھائی شکر ھے کہ آپ نے سمجھنے میں دیر نہیں کی ،،،،،،،،:grin:
 

خاور بلال

محفلین
میں نے آپ کو پہلے بتا دیا تھا کہ امریکہ، پاکستان اور طالبان اور سعودیہ، یہ چاروں ہی اس سازش میں ملوث تھے اور طالبان نے جو اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے امریکہ، پاکستان و سعودیہ کے آشیرواد سے جو لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اس سے انہیں اس بنا پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انہیں کسی اور نے بہکا دیا تھا۔
اور ڈریکولا تو وہ ہیں جو انسانی لاشوں کو چوکوں میں برہنہ کر کے انکی بے حرمتی کر رہے ہیں، لاکھوں مسلمان انکی آمد کی وجہ سے قتل ہو چکے ہیں، جو خود کش حملے میں معصوموں کو مار رہے ہیں۔
ان ڈریکولاز کو ہر ممکن راہ دی گئی کہ وہ اس خون و دہشگردی سے باز آ جائیں، مگر یہ وہ فتنہ ہے جس کی خصلت یہ ہے کہ: "یا ہمیں مار دو، ورنہ ہم نے تو تمہیں مارنا ہی ہے اور کسی صورت اپنے قتل و غارت سے باز نہیں آنا"۔
ایسے فتنے کو اللہ قران میں کہتا ہے کہ مارو اور اس وقت تک مارو جب تک یہ ختم نہ ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے توبہ تائب نہ کر لے۔ اور ایسے فتنے کو علی ابن ابی طالب نے جنگ نہروان میں اتنا مارا کہ تقریبا سب کو ختم کر دیا [سوائے ۵/۶ کے]۔ حالانکہ یہ خوارجین کوئی الگ سے فرقہ نہیں تھا بلکہ انکا کلمہ، انکا قران، انکی شریعت، انکا فقہ سب کچھ وہی تھا جو اُس وقت کے مسلمانوں کا تھا۔ مگر صرف ایک فرق تھا، اور وہ یہ کہ یہ فرق "سیاسی فرق" ہو گیا تھا اور وہ اس میدان میں انتہا پسند ہو گئے تھے اور اسی ایک وجہ سے خون بہانا شروع کر دیا تھا۔
کریں اب ذرا یہ ہمت اور لگائیں علی ابن ابی طالب پر ڈریکولا کا الزام۔ پوری اسلامی تاریخ طالبان کے حمایتیوں کے خلاف چیخ چیخ کر احتجاج کر رہی ہے۔ قران اس فتنے کے خلاف چیخ چیخ کر ان طالبان حمایتیوں کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ ذرا انسانی شعور اور بیدار ہو جائے تو ہر طرف سے طالبان وحشت و ظلم پر احتجاج و نفرین برپا ہو گی۔ انشاء اللہ۔
//////////////////////////////

خود کو جتنا چاہے آپ بےوقوف بنائیے، مگر دوسروں کو بے وقوف بنانا ترک فرمائیے۔
طالبان کی صرف اور صرف ایک سٹریٹیجی ہے، اور وہ ہے:

۱۔ کبھی مردوں کی طرح میدان میں آ کر نہیں لڑنا
۲۔ بلکہ اپنی نہتی معصوم شہری عوام کے پیچھے بزدلوں کی طرح چھپ کر وار کرنا اور پھر واپس پلٹ کر ان معصوموں کو ڈھال بناتے ہوئے انکے پیچھے چھپ جانا ہے۔
۳۔ ان ظالموں کی وہی سٹریٹیجی ہے جو لال مسجد کے دہشت گردوں کی تھی جب انہوں نے مردوں کی طرح لڑنے کی بجائےاپنے ہی بچوں و بچیوں اور عورتوں کو ڈھال بنا لیا تھا اور جنگ کے آگ میں دھکیل دیا تھا۔

اب یہ نام نہاد دہشت گرد ملا فتوی دیتے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی عوام کو دہشت گرد حملوں میں مارنا جائز ہے کیونکہ یہ عوام اپنی حکومت کی ٹیکس دے کر مدد کرتی ہے۔ اب ایسے ملاووں کو کیا کہا جائے اور کیسے سمجھایا جائے اگر امریکہ نے بھی یہ لائسنس استعمال کرنا شروع کر دیا تو پھر کیا ہو گا۔ بلکہ انہوں نے یوں ہی خود کش حملے جاری رکھے تو آہستہ آہستہ انسانیت کمزور پڑتی جائے گی اور یہ انسانیت اور عالمی انسانی ضمیر وہ واحد چیز ہے کہ جس نے کمزور ہونے کے باوجود امریکی طیاروں کے سامنے بند باندھا ہوا کہ وہ افغانستان کی معصوم شہری آبادی پر بم نہ برسائے۔
اور جس دن یہ عالمی انسانی ضمیر اور کمزور ہوا اور امریکی طیاروں کی شہری آبادی پر بمباری روکنے میں ناکام ہوا، تو پھر یہی طالبان ایک دفعہ پھر اپنی شہری آبادی کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں و غاروں میں فرار اور چھپتی پھر رہی ہو گی۔
ہم اسرائیل میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ ان خود کش حملوں کی وجہ سے اسرائیل کو فری لائسنس مل گیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں بمباریاں کرے اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ دیکھ لیں کہ فلسطین کا وہ برا حال کیا ہے کہ آج ہم بھول گئے ہیں کہ بھلا آخری خود کش حملہ کب ہوا تھا۔ پوری دنیا میں اور اسرائیل کے اپنے اندر انسان دوست قوتیں کمزور ہوئی ہیں اور اُس طرف کے انتہا پسند حکومت میں آ گئے ہیں۔
////////////////////////


یہ بڑھ بڑھ کر اور چڑھ چڑھ کر بڑکیں ہانکنے والے وہ نادان ہیں جو ابھی حال ہی میں افغانی طالبان کو اپنی جانیں بچانے کے لیے معصوم نہتی شہری عوام کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہو کر پہاڑوں و غاروں میں چھپتا دیکھ چکے ہیں مگر پھر بھی اپنی بڑکیں ہانکے جا رہے ہیں۔
اور ایسے نادانوں سے دانا دشمن بہتر کیونکہ یہ نادان جو قوم پر آفات و مصائب لائیں گے وہ کوئی دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا۔

نوٹ:
بھائی جی، آپ کوفے کا مسئلہ بیچ میں لے آئیں ہیں جو کہ آپکو نہیں لانا چاہیے تھا۔ بہرحال آپ اپنی تاریخ کے علم کی تصحیح کر لیں، اور تاریخ میں ایک بہت بڑا مغالطہ ہے اور وہ یہ کہ ان میں فرق کریں:
۱۔سیاسی شیعہ
۲۔ امامی شیعہ
لفظ "شیعہ" کا اپنا مطلب "گروہ" ہے۔ علی ابن ابی طالب کی جن لوگوں نے جنگ جمل، صفین و نہروان میں مدد کی انہیں "شیعان علی" کے نام سے جانا گیا [اور اسکے مقابلے میں شیعان عثمان یا شیعان معاویہ کی اصطلاح استعمال ہوئی]۔
اور پھر یہ اصطلاح چلتی رہی اور روایات اور علم الرجال میں ہزاروں شیعان علی کے نام آئے۔ مگر یہ سب "سیاسی شیعہ" تھے اور علی ابن ابی طالب کو خلیفہ چہارم تسلیم کرتے تھے۔ مثال کے طور "ابن جریر طبری" کو شیعہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ علی ابن ابی طالب کو حق پر مانتے تھے جبکہ معاویہ کو ناحق پر مانتے تھے۔
جبکہ شیعان علی کا ایک گروہ تھا جنہیں "شیعانِ خاص" یا "امامی شیعہ" کہا جاتا تھا اور یہ پہلے دن سے خلافت پر علی کا حق سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو امامی شیعہ کہتے تھے [جبکہ مخالفین انہیں "رافضی" کے نام سے پکارتے تھے]
چنانچہ کوفہ کی آبادی کو شیعان علی کہا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے جنگوں میں علی کا ساتھ دیا مگر کوفے کی یہ آبادی ان "سیاسی شیعوں" پر مشتمل تھی جن کا مذہب علی ابن ابی طالب کو پہلا امام نہیں بلکہ خلیفہ چہارم تسلیم کرنا تھا۔ اور ایسا ہرگز نہ تھا کہ آجکل والی اصطلاح کے مطابق سارے شیعہ [امامی شیعہ] علی کے پیچھے جمع ہو گئے تھے اور آجکل کی اصطلاح کے مطابق سارے سنی معاویہ ابن ابی سفیان کے پیچھے جمع ہو گئے تھے۔
چنانچہ آپ پہلی بات آپ اپنے اس تاریخی مغالطے کی اصلاح کر لیں، اور دوئم یہ کہ میرے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس سیاسی گفتگو میں اہل تشیع پر مذہب کے حوالے سے طعنے دینے سے پرھیز کریں۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کی اس غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی وجہ سے ناظمین کو یہ تھریڈ بھی بند کرنا پڑے۔

///////////////////////////////////
رسول ص کا جہاد کے بالمقابل حالات کے مطابق صبر کرنا
چلیں کوئی تو ہے جو اتنی بار یہ سوال اٹھانے کے بعد جواب دینے کی ہمت تو کرتا ہے۔

مجھے ساری ڈینگوں اور بڑکوں کا جواب نہیں دینا، مگر صرف مختصر:
۱۔ اگر مسلمان ۳۰۰ تھے تو جواب میں کفار بھی ۷۰۰ سامنے آئے تھے اور جنگ بدر میں مسلمانوں نے انہیں شکست دے دی مگر پھر بھی مکہ پر براہ راست حملہ کر کے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات نہیں دلوائی کیونکہ ایسا حملہ کرنے سے مسلمانوں کا مجموعی طور پر کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔
۲۔ کفار مکہ اور مسلمانوں میں "علم" اور "ٹیکنالوجی" کے میدان میں کوئی فرق نہ تھا۔ واحد فرق صرف "افرادی قوت" میں تھا۔
آج یہ حالت ہے کہ جب امریکی طیارے طالبان پر حملہ کر رہے تھے تو یہ بتائیے کہ طالبان نے اس پوری جنگ میں فرار ہونے سے قبل کتنے امریکی طیارے گرائے اور کتنے امریکی فوجی قتل کیے؟ تو اگر ہمت کر سکیں تو اس سوال کا جواب دے دیجئیے۔
۳۔ رسول ص کے زمانے کے مسلمان چاہے عددی طور پر کمزور ہی کیوں نہ رہے ہوں، مگر انہوں نے کبھی اپنے ہی عورتوں و بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی انکے پیچھے چھپ کر جا کر بیٹھ گئے، بلکہ ہمیشہ کھل کر سامنے آ کر جنگ لڑی۔
۴۔ اور رسول ص کے زمانے میں یہ 300 اصحاب مکمل طور پر رسول ص کی پیچھے تھے۔ جبکہ طالبان و القاعدہ کا کردار اتنا گھناونا اور پست اور اسلام کے خلاف ہے کہ امت کی کثیر اکثریت خود انہیں ہی امریکہ سے بڑا شیطان و فتنہ سمجھتی ہے۔ تو یہ کس بل بوتے پر امریکہ سے آج لڑنے چلے ہیں؟ ابتک انکا کل بل بوتہ اپنی شہری آبادی اور اپنی عورتوں کا پلو ہے کہ جسکی آڑ سے نکل کر یہ خود کش حملے کرتے ہیں اور پھر واپس انہی معصوموں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

تو شکر ہے خدا کا کہ کم از کم انہوں نے طوعا کرحا پر قبول تو کیا کہ رسول ص نے جہاد فرض ہوتے ہوئے بھی حالات کے مطابق جہاد پر صبر کو افضلیت دی۔

آئیے اب دیکھتے ہیں طالبانی جہاد کے مسلم امت کو کیا فائدے ہوئے ہیں۔

۲۰۰ امریکی قتل بالمقابل ڈھائی تین لاکھ مسلم قتل
جب سے طالبان قوت میں آئی ہے، انکی وجہ سے ڈھائی یا تین یا پتا نہیں چار لاکھ مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں یا پھر امریکہ کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
اسکے مقابلے میں ابتک طالبان نے کتنے امریکی فوجی قتل کیے ہیں؟
جی ہاں ابتک طالبان نے ان تمام سالوں میں صرف 200 کے لگ بھگ ہی امریکی فوجی قتل کیے ہیں، اور وہ بھی ایسی جنگ میں کہ جہاں وہ اپنی عورتوں کی پلووں سے نکل کر اسلام کے حکم کے خلاف خود کش حملہ کرتے تھے اور پھر دوبارہ اپنی عورتوں کے پلووں میں گھس جاتے تھے۔ ایسے اسلام کے حکم کے خلاف خود کش حملے کرنے سے بہتر ہوتا یہ 200 امریکی فوجی بھی نہ مارے ہوتے کیونکہ خود کش حملے کر کے اسلام کو جو انہوں نے نقصان پہنچایا ہے اور اسے بدنام کیا ہے اس کے اثرات ان 200 فوجیوں کے قتل کئی گنا زیادہ ہیں۔

آج یہ واویلا کرتے ہیں امریکہ نے افغانستان میں ہزاروں لاکھوں معصوم نہتے لوگوں کو مار دیا۔ مگر ان بے وقوفوں کو یونہی اپنی دہشت گرد کاروائیاں کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا تو کل یہ کڑوڑوں مزید نہتے معصوم لوگوں کو امریکہ کے ہاتھوں مروا دیں گے اور خود میدان جنگ سے فرار ہو کر پہاڑوں میں چھپ جائیں گے۔
//////////////////////////////////////

کیا القاعدہ اور طالبان نے کبھی 9/11 کے خود کش حملے کو خلاف اسلام قرار دیا؟

یہ احمق ابھی تک یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ جس طرح یہ اپنے مدارس میں معصوم لوگوں کو پروپیگنڈہ کے زور سے برین واش کر لیتے ہیں اسی طرح اس دفعہ بھی جھوٹ بول بول کر اور برین واش کر کے القاعدہ و طالبان کی دہشت گردیوں کو دبا کر انہیں فرشتہ ثابت کر دیں گے۔

اور 9/11 تو بہت بعد کا واقعہ ہے اور اس سے قبل ہی االقاعدہ نے اپنی دہشت گرد کاروائیاں جاری رکھی ہوئی تھیں۔
القاعدہ و طالبان نے نو گیارہ کے بعد پھر جھوٹ بولنے کی کوشش کی مگر اللہ کی قدرت کہ ایک مرتبہ بھی انکے منہ سے یہ نہ نکل سکا کہ نو گیارہ کا خود کش حملہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
پھر جب سارے دہشتگردوں کا پتا چل گیا اور ماسٹر مائینڈ خالد شیخ بھی پکڑا گیا تو القاعدہ کے لیڈر کھل کر پاکستانی میڈیا پر اعتراف کر رہے ہیں۔

مگر یہ احمقوں کا ٹولہ ابھی تک سمجھتا ہے کہ وہ مزید جھوٹ بولتا رہا تو باقی پوری دنیا کو بے وقوف بنا کر رام کر لے گا۔

مگر کوئی ان احمقوں کو بتائے کہ جتنا وہ یہ جھوٹ بولتے جائیں گے اتنا ہی انکا اعتبار کم ہوتا جائے گا۔ اور پھر "شیر آیا، شیر آیا" کی طرح اگر کبھی انہوں نے سچ بھی بولا تو بھی کوئی انکا اعتبار نہیں کرے گا۔

تو خواتین و حضرات! “جہاد بالشعور“ آج کل اس طرح ہو رہا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے منہ اٹھا کے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئ واقعہ بغیر جزئیات و تفصیلات کے پیش کرتا ہے اس میں تھوڑی سی “کریکشن“ کرکے اسے اپنے خود ساختہ نظریے سے میچ کرتا ہے اور پھر ڈھٹائ کے ساتھ اپنی بزدلی کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتا ہے۔ اب خود ہی دیکھیے کہ بدر کے واقعے کی کیسی بوگس رپورٹنگ کی ہے خاتون نے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ چند مسلمان جو مکے میں رہ گئے تھے اور ہجرت نہ کرسکے تھے انہیں ظلم سے نجات دلانے کے لیے مدینے کے مسلمانوں نے مکے پر چڑھائ کیوں نہ کردی جبکہ مدینہ والوں کو بدر میں برتری بھی حاصل ہوگئ تھی۔ ان کی تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بدر میں مسلمانوں اور مشرکین کی کل افرادی قوت آمنے سامنے آگئ تھی جس میں مشرکین کو شکست ہوئ۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ بدر میں مسلمانوں کے تو وہ تمام افراد جو ہتھیار اٹھاسکتے تھے میدان میں تھے لیکن مشرکین کی کی ایک بڑی تعداد مکے میں ہی تھی اور پھر ابو سفیان کا ایک قافلہ بھی رستے میں تھا جو مال و زر سے لدا ہوا تھا۔ بدر کی ابتدا اس طرح ہوئ کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی معیت میں بدر کے قریب سے گذرنے والا تھا، مدینے کے مسلمانوں نے اس قافلے پر حملے کا پروگرام بنایا جس کی اطلاع ابو سفیان کو ہوگئ۔ اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعے مکے پیغام بھجوایا کہ تمہارا مالِ تجارت خطرے میں ہے لہٰذا فوری ہماری مدد کو آؤ۔ مکے کے مشرکین انتہائ سرعت کے ساتھ روانہ ہوئے کہ کہیں ان کا مالِ تجارت لٹ نہ جائے لیکن اس کی نوبت نہ آئ اور ابوسفیان کا قافلہ خیریت کے ساتھ خطرے کے علاقے سے نکل گیا اور جب اس نے اطمینان محسوس کیا تو دوبارہ نیا پیغام رساں بھجوایا کہ اب تمہارے آنے کی ضرورت نہیں، میں بچ چکا ہوں۔ مگر جو فوج مکہ سے روانہ ہوچکی تھی اس کا سردار ابو جہل تھا، اس نے کہا کہ ایسے دشمن کا خاتمہ کردینا چاہیے ورنہ آج نہیں تو کل یہ ہمیں نقصان پہنچائے گا۔ وہ کافی جمعیت کے ساتھ نکلا تھا اور اسے خیال تھا کہ ہم باآسانی اس خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے۔ اس طرح مکے کی وہ فوج جو اپنے قافلے کو مسلمانوں سے بچانے کے لیے نکلی تھی اسی نے بدر کی طرف پیش قدمی کی۔ یہ مکے کی کل افرادی قوت نہیں بلکہ نو سو پچاس وہ افراد تھے جو ابو سفیان کے پیغام کے جواب میں فوری طور پر مکے سے روانہ ہوئے تھے۔ اگر مشرکین، مدینے کو فتح کرنے کی نیت سے نکلتے تو وہ یقینا تمام افرادی قوت کے ساتھ نکلتے جیسا کہ اگلے ہی سال تین ہزار اور اس کے دو سال بعد بارہ ہزار کا اتحادی لشکر لے کر مسلمانوں کے مقابلے پر آئے۔ بدر میں مسلمانوں کی حالت بھی بہت کمزور تھی یعنی صرف دو گھوڑے اور دس یا بارہ بکتر جبکہ سامنے والوں کے لشکر میں سو گھوڑے اور دو سو بکتر تھے۔ اور پھر بدر کے فورا بعد مسلمانوں کو مدینے کے اندر یہودیوں کے ایک قبیلے بنو قینقاع سے جنگ لڑنا پڑی اس کے علاوہ منافقین کی بھی ایک تعداد تھی جن سے کوئ خیر کی توقع نہیں تھی۔ پے در پے مسلمانوں کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک آزمائش آتی رہی جبکہ یہودیوں اور مشرکین مکہ کے اتحاد کے بعد مسلمانوں کے لیے حالات پہلے سے کئ گنا زیادہ خطرناک ہوگئے تھے ایسے میں مسلمانوں کے لیے تو اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا کجا کہ وہ مکہ پر چڑھائ کرتے؟

کچھ لوگوں کے لیے طاقت کا عدم توازن ایک نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا لوگ اپنا علاج کرانے کی بجائے الٹا تاریخِ اسلامی کا آپریشن شروع کردیتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ٹیکنالوجی سے ڈرتے ہیں، طاقت سے مرعوب ہوتے ہیں لیکن دنیا کے سامنے اپنی بزدلی کا اقرار نہیں کرنا چاہتے اسی لیے جواز میں ان عظیم انسانوں پر یہ الزام رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جنہوں نے ہر طاقت کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا۔ آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آئیگی جب تک آپ عہدِ نبوی اور اس کے فورا بعد کے دور کا تصور نہیں کریں گے۔ ذرا تصور کریں اس وقت کا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ کیا بیتی ہوگی مسلمانوں پر؟ کیا کیفیت ہوگی؟ ایک غم کا پہاڑ تھا جو ان پر ٹوٹا اور عین اسی وقت جب ان کے لیے اپنے آپ کو سنبھال لینا بڑی بات تھی بیک وقت تین چیلنجز ان کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ ایک طرف منکرین زکٰوہ دوسری جانب ارتداد کا شدید فتنہ جس نے آن کی آن میں بہت بڑی قوت جمع کرلی تیسری جانب سلطنت روما، کہ جس کے خلاف پیش قدمی کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج تشکیل دیدی تھی لیکن ابھی روانہ نہ ہوئ تھی۔ ایسے میں مصلحت کا تقاضہ کیا تھا؟ ظاہر ہے مسلمانوں کو اپنی تمام قوت فتنہ ارتداد کی سرکوبی کے لیے صرف کردینی چاہیے تھی کیونکہ ارتداد کا فتنہ دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ ایسی آزمائش کے وقت میں بڑے بڑے صحابہ نے یہی مشورہ دیا کہ ہم بیک وقت اتنے محاذوں پر لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ “جس کام کا فیصلہ رسول اللہ کرچکے ہوں ابو بکر اسے کیسے تبدیل کردے“ ظاہر ہے ان کے لیے طاقت کا عدم توازن مسئلہ نہیں تھا بلکہ ان کے نزدیک اہمیت اس بات کی تھی کی خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے۔ آپ سمجھتے کیا ہیں اس وقت کے روم و فارس کو؟ کوئ موازنہ ہے آج کی سپر طاقت کا اس دور کے روما سے؟ اس وقت یونائیٹڈ نیشن نہیں تھی، انسانی حقوق کی تنظیمیں نہیں تھیں، سلامتی کونسل نہیں تھی، جنگی ضوابط نہیں تھے، انٹرنیشنل لاء نہیں تھا، میڈیا نہیں تھا۔ لیکن خدا تھا اور اس کا یقین تھا۔ خدا نے نصرت کا وعدہ ان بزدلوں سے تو نہیں کیا نا کہ جو بغیر لڑے ہی شکست مان لیں۔ خدا کی نصرت کا وعدہ تو انہی کے لیے ہے جو مشکل وقت میں اس پر بھروسہ کریں۔ اگر طاقت سے ہی ڈرنا ہے تو پھر خدا کے رسول پر یہ الزام لگانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم اس کے پیروکار ہیں۔ یعنی عازمِ کعبہ بھی رہیں اور اس قافلےکا ساتھ بھی نہ چھوٹے جو ترکستان کی طرف جاتا ہے۔

آج نائن الیون پر القاعدہ کے ملوث ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ان کے پاس یہ ہے کہ ایمن الظواہری نے ویڈیو ٹیپ میں خود اقرار کر لیا ہے۔ جبکہ نائن الیون کے فورا بعد اسامہ بن لادن کا بیان تھا کہ یہ کاروائ ہماری نہیں ہم معصوم لوگوں کو مارنا جائز نہیں سمجھتے۔ اور امکانات بھی اسی بات کے ہیں کہ نائن الیون ایک بہانہ تھا مسلمانوں پر کروسیڈ مسلط کرنے کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر القاعدہ کے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ امریکہ میں اسی کے دو جہازوں کے ذریعے سے ٹون ٹاورز کو زمین بوس کرسکتی ہے تو اسے افغانستان میں یعنی اپنے ہوم گراؤنڈ میں کچھ تو کھیل دکھانا چاہیے تھا۔ اور پھر امریکا نے عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کا الزام لگاکر چڑھائ کردی اور ثابت کردیا کہ اس کے لیے سچ اور جھوٹ کی کوئ حیثیت نہیں وہ پاکستانی پولیس کی طرح کسی کو کہیں بھی کسی بھی الزام میں پکڑ سکتا ہے۔ چلیں فرض کیا کہ یہ کام القاعدہ نے کیا ہے اور آج ایمن الظواہری نے اقرار کرلیا ہے اور آپ جیسے کچھ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کل جب پاکستان نے امریکا کو اپنا کاندھا فراہم کیا تھا وہ کس بنیاد پر تھا؟ کیا اس کے لیے کچھ شواہد تھے جن پر یقین کرکے پاکستان نے فیصلہ کیا؟ نہیں بلکہ امریکا نے کہا کہ ہم ایسا سمجھتے ہیں اور پاکستان کو اس سے وضاحت مانگنے کی جرات نہ ہوئ۔ پاکستان نے صلح حدیبیہ امریکا کے دباؤ میں آکر کی اور پرویز مشرف کے حامی اس وقت “جہاد بالدباؤ“ کی فضیلت بیان کررہے تھے۔ جسکا اپنا گھر محفوظ ہو اسے مشکل ہی سے کسی دوسرے کی تکلیف کا اندازہ ہوتا ہے۔ جن کی نفسیات کے ساتھ طاقت اور ٹیکنالوجی کا خوف چپکا ہوا ہو انہیں ایسی تمام باتیں جذباتی بھڑک ہی معلوم ہونی چاہئیں جن میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا پیغام ہو۔ تاریخ میں ایسی بے شمار ہستیاں گزری ہیں کہ جنہوں نے دو کوڑی کی زندگی کی نسبت عظیم الشان موت کو ترجیح دی اور جب کبھی اسلام کا غلبہ ہوگا وہ ان ہستیوں کا احسان مانے گی جنہوں نے حریت کی ریت کو مرنے نہ دیا۔ تاریخ سید احمد کا احسان مانے گی، ٹیپو سلطان کا احسان مانے گی، حسین (رض) کا نام چومے گی۔ تاریخ ان لوگوں کی طرف تھوکنا بھی گوارا نہ کرے گی جنہوں نے زندگی کے ہر ہر قدم پر اپنا ضمیر بیچا، اپنی آبرو دشمن کے حوالے کی اور بغیر لڑے ہتھیار ڈالے۔ زندگی اس چیز کا نام ہی نہیں جو دوسرے کے پیروں میں پڑ کر بھیک کی صورت میں ملے۔ ہمیں خدا کے رسول سے جو پیغام ملا ہے وہ یہ کہ اصل طاقت کیریکٹر کی ہوتی ہے اور یہ جس کے پاس ہوتی ہے اسے در در جھکنا نہیں پڑتا۔

نوٹ؛
کوفہ کا حوالہ میں نے اس لیے دیا کہ کہ جس طرح انہوں نے عین وقت پر یزید کی طاقت سے مرعوب ہوکر حسین (رض) کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیے اسی طرح کے حالات آج کل مسلم دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ میرے نزدیک اس بات کی کوئ اہمیت نہیں کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی۔ بحیثیت کلی ساری امت اس وقت ایک ہی منظر پیش کررہی ہے۔ سب کے سب بھیک منگے بنے ہوئے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
تو خواتین و حضرات! “جہاد بالشعور“ آج کل اس طرح ہو رہا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے منہ اٹھا کے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئ واقعہ بغیر جزئیات و تفصیلات کے پیش کرتا ہے اس میں تھوڑی سی “کریکشن“ کرکے اسے اپنے خود ساختہ نظریے سے میچ کرتا ہے اور پھر ڈھٹائ کے ساتھ اپنی بزدلی کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتا ہے۔
دوسروں کی آراء کو یوں ٹھکرا دینا اور یوں ان پر الزامات عائد کر دینا بہت آسان ہے، مگر اپنے گریبان کی خرابیوں اور کمزوریوں کو دیکھنا انتہائی مشکل۔ اگر جہاد بالشعور واقعی بزدلی ہے تو آپکے ممدوح طالبان اپنے نہتے معصوم بچوں عورتوں اور شہریوں کو جو امریکی طیاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر الٹے پاوءں میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کر کے پہاڑوں میں دوڑتے پھر رہے تھے تو وہ کیا تھا؟
دعا دیجئیے یہ عالمی ضمیر انسانی کو جس نے ان امریکی طیاروں کے سے ان معصوموں کو بچایا۔

اب خود ہی دیکھیے کہ بدر کے واقعے کی کیسی بوگس رپورٹنگ کی ہے خاتون نے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ چند مسلمان جو مکے میں رہ گئے تھے اور ہجرت نہ کرسکے تھے انہیں ظلم سے نجات دلانے کے لیے مدینے کے مسلمانوں نے مکے پر چڑھائ کیوں نہ کردی جبکہ مدینہ والوں کو بدر میں برتری بھی حاصل ہوگئ تھی۔ ان کی تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بدر میں مسلمانوں اور مشرکین کی کل افرادی قوت آمنے سامنے آگئ تھی جس میں مشرکین کو شکست ہوئ۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ بدر میں مسلمانوں کے تو وہ تمام افراد جو ہتھیار اٹھاسکتے تھے میدان میں تھے لیکن مشرکین کی کی ایک بڑی تعداد مکے میں ہی تھی اور پھر ابو سفیان کا ایک قافلہ بھی رستے میں تھا جو مال و زر سے لدا ہوا تھا۔ بدر کی ابتدا اس طرح ہوئ کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی معیت میں بدر کے قریب سے گذرنے والا تھا، مدینے کے مسلمانوں نے اس قافلے پر حملے کا پروگرام بنایا جس کی اطلاع ابو سفیان کو ہوگئ۔ اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعے مکے پیغام بھجوایا کہ تمہارا مالِ تجارت خطرے میں ہے لہٰذا فوری ہماری مدد کو آؤ۔ مکے کے مشرکین انتہائ سرعت کے ساتھ روانہ ہوئے کہ کہیں ان کا مالِ تجارت لٹ نہ جائے لیکن اس کی نوبت نہ آئ اور ابوسفیان کا قافلہ خیریت کے ساتھ خطرے کے علاقے سے نکل گیا اور جب اس نے اطمینان محسوس کیا تو دوبارہ نیا پیغام رساں بھجوایا کہ اب تمہارے آنے کی ضرورت نہیں، میں بچ چکا ہوں۔ مگر جو فوج مکہ سے روانہ ہوچکی تھی اس کا سردار ابو جہل تھا، اس نے کہا کہ ایسے دشمن کا خاتمہ کردینا چاہیے ورنہ آج نہیں تو کل یہ ہمیں نقصان پہنچائے گا۔ وہ کافی جمعیت کے ساتھ نکلا تھا اور اسے خیال تھا کہ ہم باآسانی اس خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے۔ اس طرح مکے کی وہ فوج جو اپنے قافلے کو مسلمانوں سے بچانے کے لیے نکلی تھی اسی نے بدر کی طرف پیش قدمی کی۔ یہ مکے کی کل افرادی قوت نہیں بلکہ نو سو پچاس وہ افراد تھے جو ابو سفیان کے پیغام کے جواب میں فوری طور پر مکے سے روانہ ہوئے تھے۔ اگر مشرکین، مدینے کو فتح کرنے کی نیت سے نکلتے تو وہ یقینا تمام افرادی قوت کے ساتھ نکلتے جیسا کہ اگلے ہی سال تین ہزار اور اس کے دو سال بعد بارہ ہزار کا اتحادی لشکر لے کر مسلمانوں کے مقابلے پر آئے۔ بدر میں مسلمانوں کی حالت بھی بہت کمزور تھی یعنی صرف دو گھوڑے اور دس یا بارہ بکتر جبکہ سامنے والوں کے لشکر میں سو گھوڑے اور دو سو بکتر تھے۔ اور پھر بدر کے فورا بعد مسلمانوں کو مدینے کے اندر یہودیوں کے ایک قبیلے بنو قینقاع سے جنگ لڑنا پڑی اس کے علاوہ منافقین کی بھی ایک تعداد تھی جن سے کوئ خیر کی توقع نہیں تھی۔ پے در پے مسلمانوں کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک آزمائش آتی رہی جبکہ یہودیوں اور مشرکین مکہ کے اتحاد کے بعد مسلمانوں کے لیے حالات پہلے سے کئ گنا زیادہ خطرناک ہوگئے تھے ایسے میں مسلمانوں کے لیے تو اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا کجا کہ وہ مکہ پر چڑھائ کرتے؟
سوال گندم جواب چنا۔
میں نے بذات خود یہ آرگومنٹ پیش کیا تھا:
1۔ رسول ص کے زمانے میں مسلمانوں کو اتنی طاقت تھی کہ وہ کفار کو بدر میں شکست دے سکیں۔
2۔ مگر اتنی طاقت نہ تھی کہ مکہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے جہاد فرض ہوتے ہوئے بھی مکہ پر چڑھائی کر سکیں کیونکہ اس میں خود مسلمانوں کے ہی زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ تھا۔ اس لیے جہاد فرض ہوتے ہوئے بھی صبر کا راستہ اختیار کیا گیا۔
تو بتلائیے جو آپ اتنی لمبی تحریر اسی بات پر لکھ رہے ہیں اس سے آپ میرے کس آرگومنٹ کا جواب دے رہے ہیں؟ یا پھر یہ صرف بحث برائے بحث میں الجھا کر میرے سوالات سے راہ فرار کی کوشش ہے؟
میرے اس آرگومنٹ کے جواب میں آپ کو ثابت یہ کرنا چاہیے تھا کہ طالبان کی قوت رسول ص کے زمانے کے مسلمانوں سے زیادہ ہے اور انہوں نے جہاد بالشعور کا فریضہ مکمل طور انجام دے دیا ہے جسکے نتیجے میں پوری امہ ان ہی کو اپنا لیڈر مانتی ہے اور انکے پیچھے ہے اور یہ کہ امریکہ کے خلاف جنگ میں طالبان کا پلڑا بھاری رہے گا اور ہزاروں لاکھوں نہتے معصوم مسلمان امریکی طیاروں کا نشانہ نہیں بنیں گے۔

مگر بجائے یہ ثابت کرنے کے مجھ پر ایسے نامعقول الزامات لگا رہے ہیں کہ میں دھٹائی کے ساتھ رسول ص پر بزدلی کا لیبل لگا رہی ہوں اور واقعات کو تبدیل کر رہی ہوں اور ان میں اپنی مرضی کے اضافے کر رہی ہوں۔ بخدا میں نے ایک مرتبہ بھی رسول ص پر بزدلی کا الزام نہیں لگایا ہے اور نہ ہی کوئی خود ساختہ جزئیات کا اضافہ کیا ہے بلکہ بخدا ایک حقیقت بیان کی ہے کہ جہاد فرض ہو جانے کے باوجود رسول ص نے سن 8 ہجری تک مکہ پر براہ راست حملہ نہیں کیا بلکہ صبر کا راستہ اختیار کیا اور اپنی مسلم ریاست کی طاقت کو بڑھاتے رہے۔ کیا عجیب منافقانہ رویہ ہے کہ خود بھی یہ سب کچھ مان لینے کے باوجود اور خود اس واقعے کو بیان کر لینے کے باوجود جب ہم نے اس واقعے کو بیان کیا تو ہم پر الزام کہ ہم معاذ اللہ معاذ اللہ رسول ص کو بزدل قرار دے رہے ہیں۔ اللہ کی پناہ۔

اور اب آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول ص کے زمانے میں مسلمانوں کی طاقت اور آجکل ملا عمر کی طالبان میں کتنی قوت ہے۔
1۔ کفار مکہ اپنے شہر میں تو مضبوط ہوں گے، مگر جب انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کرنا چاہی تو مسلمان بھی اتنی قوت میں تھے کہ انہوں نے میدان بدر میں انہیں شکست سے دوچار کیا۔
2۔ مگر آجکل کے طالبانیوں کی قوت کا یہ حال ہے کہ بجائے امریکہ پر حملہ کرنے کے خود امریکہ نے انکے گھر میں گھس کر ان پر حملے کر کے ان کو ایسی شکست دی ہے کہ اپنی عورتوں بچوں کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں میں بھاگے ہیں۔
اور اگر آج انسانیت کا عالمی ضمیر اتنا بیدار نہ ہوتا بلکہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہی کی طرح سو رہا ہوتا تو کون ہے جو امریکا کو روکتا کہ وہ ان ہزاروں لاکھوں نہتے معصوموں کا قتل عام نہ کرے؟
آج آپ اپنی طالبنانیت کے زعم میں اس عالمی انسانی ضمیر کو گالیاں دے رہے ہیں مگر یاد رکھیں اگر آپ نے یہ خود کش حملے کر کے لوگوں کی جانیں لینا بند نہ کیں تو یہ عالمی انسانی ضمیر ایک دن اتنا کمزور ہو چکا ہو گا کہ آپ کی نہتی معصوم شہری عوام کو دشمن سے نہیں بچا سکے گا۔

میں نے آپ سے پچھلی پوسٹ میں کہا تھا کہ طالبانی قوت و طاقت و بہادری کی ڈینگیں مارنے سے قبل اگر ہمت ہے تو صرف یہ بتا دیں کہ امریکی حملے کے خلاف طالبان نے پہاڑوں میں فرار ہونے سے قبل کتنے امریکی طیارے گرائے تھے اور کتنے امریکی فوجی قتل کیے تھے؟
تو اتنی لمبی لمبی تحریریں لکھنے اور ان میں صرف جھوٹی الزام تراشیاں کرنے کی بجائے بہتر نہیں کہ اس سوال کا ہمت کر کے براہ راست جواب دے دیا جائے؟

آج نائن الیون پر القاعدہ کے ملوث ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ان کے پاس یہ ہے کہ ایمن الظواہری نے ویڈیو ٹیپ میں خود اقرار کر لیا ہے۔ جبکہ نائن الیون کے فورا بعد اسامہ بن لادن کا بیان تھا کہ یہ کاروائ ہماری نہیں ہم معصوم لوگوں کو مارنا جائز نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔
اس موضوع پر دیگر تھریڈز میں کھل کر گفتگو ہو چکی ہے اور نائن الیون سے قبل القاعدہ بہت سے دیگر جگہوں پر دہشت گرد کاروائیوں میں بم دھاکے کروا چکی ہے۔ اور امریکہ نے نائن الیون کے اگلے دن القاعدہ پر حملہ نہیں کیا بلکہ اسکے بعد نائن الیون میں ملوث ہمبرگ جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی اور ایپلائڈ سائنس کالج کے تمام مسلم سٹوڈنٹز منظر عام پر آ چکے تھے اور یہ ثابت ہو چکا تھا کہ یہ سب پاکستان ویزوں پر آئے اور یہاں سے افغانستان غیر قانونی طور پر داخل ہوئے اور وہاں پر کئی ماہ کی ٹریننگ حاصل کی اور پھر بہ یک وقت یہ پورا گروہ امریکہ گیا اور وہاں کے فلائنگ سکولوں میں داخلہ لیا اور پھر ایک ہی صبح کو تقریبا ایک ہی وقت میں مختلف طیاروں میں سوار ہوئے۔
آج آپ لوگ اس چیز سے جتنا چاہیں نظر پھیرتے رہیں، مگر میری اپنی عدالت ہے اور میں صرف اپنی اس عدالت میں صرف اپنے اللہ کو جوابدہ ہوں۔
اور ایمن الظہواری اور اسامہ کذب بیان ہیں کہ پہلے مسلسل انکار کرتے آئے اور پھر بعد میں جب پاکستان میں ہمبرگ جرمنی کا اس گروہ کا ایک اور لڑکا "مروان الشئی" پکڑا گیا اور پھر اصل ماسٹر مائینڈ شیخ خالد بھی پکڑا گیا تو پھر انکار کی کوئی راہ ہی نہ تھی بلکہ جتنا جھوٹ بولتے اتنا ہی زیادہ بدنام ہوتے۔
اور اسامہ نے کبھی نائن الیون کے حملے کی مذمت نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ امریکہ کی کرتوتوں کا پھل ہے اور القاعدہ اس حملے میں ملوث نہیں۔ اور اس بیان کے مقابل ان ملاووءں کا یہ بیان سب سے آگے تھا کہ اسرائیلی اور امریکی عوام کو خود کش حملوں میں مارنا جائز ہے کیونکہ وہ امریکہ حکومت کو ٹیکس دے کر مضبوط کرتے ہیں۔ اور القاعدہ کی یہ وہ خونی خصلت ہے جو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر آپ کو نظر نہیں آتی تو اب تو مجھے آپ جیسے حضرات کی اس روش پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ اور طالبان تو اسرائیل و امریکہ کیا، وہ تو کھل کر پاکستانی زمین پر کھل کر معصوموں کو خود کش حملوں میں قتل کر رہے ہیں اور اپنے مدارس سے مسلسل خود کش حملے آور دہشت گرد قاتل پیدا کر رہے ہیں مگر مجال ہے جو کبھی آپ کے کان پر کبھی اس مسئلے پر جوں تک رینگی ہو اور طالبان کے خلاف آپ نے اپنی آواز اٹھائی ہو اور اس فتنے کی حمایت کی بجائے سرکوبی کی ہو۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top