بقولے مہوش، طالبان کا بیج امریکہ نے بویا تھا اور اس فصل کو اگانے، پال پوس کر بڑا کرنے میں پاکستان نے پوری مدد کی تھی۔اگر ان کی بات کچھ دیر کے لیے مان لی جائے تو ۔۔۔۔۔
یہی تو مسئلہ ہے کہ آپ ماضی میں بھی ہمیشہ اس حقیقت سے نظریں چرائے ہوئے تھے اور آج بھی دل سے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کاش کہ بزور پروپیگنڈہ حقائق چھپانے اور نظر انداز کرنے کی بجائے ان کو روشنی میں لانے کی روش آپ نے اپنائی ہوتی تو بہت سے معصوم لوگ طالبان کا آلہ کار بننے سے بچ گئے ہوتے اور خود کو اس امریکی سازش سے دور رکھتے۔
۔۔۔۔اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ طالبان سے بڑے مجرم تو وہ ہیں جنہوں نے طالبان کا بیج بویا۔ یعنی ہمیں طالبان سے پہلے امریکہ اور آئ ایس آئ کا گریبان پکڑنا چاہیے تھا۔ ہمیں اس کی خبر لینی چاہیے تھی جس نے یہ کھیتی اگائ ہے۔
تو یہ خبر آپ کیسے لیں گے؟ آپ کا رویہ تو ایسا ہے کہ طالبان کو ہیرو بنانے کے لیے ان حقائق کو ہمیشہ سے تاریک پردوں میں لپیٹتے آئے ہیں اور کبھی عوام الناس کو مطلع نہ کیا کہ امریکہ اپنے کن مقاصد کے لیے طالبان کے ذریعے افغانستان میں اپنے ہی لاکھوں دیگر مسلمانوں کا خون بہانے کے بعد حکومت میں لا کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
//////////////////////////////////////////
قاتل کا عذر قبول نہیں کہ اسے کسی اور نے بہکا دیا تھا
۔۔۔لیکن کیونکہ ہمیں تو خون پسند ہے۔ آئے روز کے دھماکوں، سلگتے جسموں اور انسانی راکھ دیکھے بغیر تو ہمارا کھانا ہضم نہیں ہوتا اسی لیے ہم نے پاکستان کو ایک ایسی مہم میں جھونک دیا جس میں خون کی ندیاں بہہ جانے کے بعد بھی اصل مجرم پر آنچ نہیں آئیگی۔
بھائی جی، جب آپ تحریریں لکھتے ہیں تو اپنی آنکھوں پر کتنے پردے ڈال کر لکھتے ہیں؟
یہ خون، یہ دھماکے، یہ سلگتے جسم، یہ ذبح کیے ہوئے بے جان لاشے، یہ سربریدہ لاشوں کے کٹے ہوئے ہاتھ پاوں، یہ انسانوں کو آگ میں زندہ جلا دینا اور انسانی راکھ کو دیکھے بغیر کھانا ہضم نہ ہونا ۔۔۔۔۔۔ یہ تو سب اُس طالبانی فتنے کی خصلتیں ہیں کہ جس کو امریکہ نے جنم ہی اس لیے دیا تھا اور آج جن کی ان وحشتناک درندگیوں کا آپ دفاع کر رہے ہیں۔
آپکا عذر وہی ہے کہ ایک وحشی قاتل درندے کو معصوم فرشتہ ثابت کرنے کے لیے آپ بہانہ کر رہے ہیں کہ اسے کسی اور نے ورغلا دیا تھا۔ حالانکہ قاتل کو کسی نے بھی ورغلایا ہو، مگر قتل کی سزا میں اسکو جوابا قتل کرنا ہی ہے۔ ورنہ روز قیامت ہر قاتل یہ کہہ کر جان بچا لے گا کہ یہ تو ابلیس شیطان تھا کہ جسکے ورغلانے پر اُس نے قتل کیا تھا۔
//////////////////////////////////////////////
اور مذہب کے ان ٹھیکے داروں کا فتوی کہ ہمیں خوف خدا ہی نہیں
مہوش جیسے لاکھوں کردار ہیں جن کی اس نفرت بھری سوچ نے آج پاکستان کو اس حال پر پہنچایا ہے۔ ان میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ اس خرابے کی اصل جڑ امریکہ پر صرف انگلی ہی اٹھا سکیں۔ یہ خدا سے نہیں پتھر کے دور سے ڈرتے ہیں۔ یہ وہ ڈریکولا ہیں جو خود تو خون پینے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے لیکن امریکہ کی خونی پیاس بجھانے کے لیے فضا ہموار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو ٹوکو تو یہ امریکی ٹیکنالوجی کا حوالہ دیتے ہیں ان کی سوچ کی پرواز ٹیکنالوجی سے آگے نہیں جاتی ان کی گفتگو کے تناظر میں کہیں خدا نہیں، کہیں ان دیکھی طاقت کا بھروسہ نہیں۔ یہ ظاہر پر بھروسہ کرتے ہیں ان کو جو نظر آتا ہے اسی کی مالا جپتے ہیں۔ یہ ہر طاقت ور کی چوکھٹ پر گرنے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔
جہاد بالمقابل صبر
دین کے ٹھیکے داروں کی طرف سے الزام ہے کہ ہمیں خوف خدا نہیں، بلکہ صرف خوف امریکہ ہے۔
جبکہ ہم انہیں مسلسل بتا رہے ہیں کہ اسلام کے درس کے مطابق ہمیں اس وقت وہ کام کرنا ہے کہ جس سے اسلام کی سب سے زیادہ بہتری ہو۔ اور آجکل کے حالات کے مطابق اسلام کی سب سے زیادہ بہتری یہ ہے کہ جہاد کے نام پر سیدھی تلوار لیکر چڑھ جانے کی بجائے پہلے اپنے آپ کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں مضبوط بنایا جائے، اور اسی دوران عوام میں صبر کے ساتھ حق بات کا شعور اجاگر کیا جائے۔
چنانچہ آج جب ہم چند مظالم پر آجکل کے حالات کے مطابق اللہ کے واسطے "صبر" کرتے ہیں، اور جہاد بالسیف کی بجائے جہاد بالشعور کرنے کو افضلیت دیتے ہیں تو دین کے یہ ٹھیکے دار ہمیں خوف خدا نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔
یہ الزام مسلسل دہرایا جاتا ہے، اور جب میں اسکا جواب دیتی تھی تو سب لوگ [جہاد کی تبلیغ کرنے والے] خاموش ہو جاتے تھے اور اسی خاموشی کے ساتھ کھسک لیتے تھے۔
میرا یہ سوال ابھی تک قائم ہے اور یہاں اسی سوال کو میں مختصرا دہرا دیتی ہوں۔
1۔ اسلام کا اصول ہے کوئی کافر کسی مسلمان کو اذیت پہنچائے تو جہاد فرض ہو جاتا ہے۔
2۔ اب یاد کریں وہ وقت جب رسول ص ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے اور مکہ میں کفار نے باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑ دیے۔
3۔ اب مدینے کے مسلمانوں پر فرض تھا کہ وہ مکہ کے ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے جہاد کریں، مگر وہاں سے کوئی فوجیں روانہ نہیں ہوتیں۔
4۔ حتی کہ جنگ بدر میں اہل مدینہ کو کامیابی بھی حاصل ہو جاتی ہے مگر پھر بھی مکہ کے مسلمانوں کو بچانے کے لیے رسول ص مکہ روانہ نہیں ہوتے، بلکہ صبر سے کام لیے رہتے ہیں۔
5۔ اور جب 8 سال گذر جاتے ہیں، اور مدینے کے مسلمان قوت حاصل کر لیتے ہیں، تو صرف اور صرف اسکے بعد آپ مکہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔
تو دین کے یہ ٹھیکے دار بتائیں کہ معاذ اللہ معاذ اللہ کیا آپ اب رسول ص پر بھی الزام لگائیں کہ کہ ان پہلے 8 سالوں میں ان میں خوف خدا نہ تھا جو جہاد فرض ہو جانے کے باوجود بھی جنگ کے لیے مکہ روانہ نہ ہوتے تھے؟؟؟
اس وقت جو طالبانی جہاد کروا کر آپ امت کو جو نقصان پہنچوا رہے ہیں، اسکا ازالہ امت بہت مشکل سے ہی کر پائے گی۔
اور مہوش ایم کیو ایم کے حوالے سے تو بات ہی کیا کروں۔ ایک طرف آپ سید مودودی پر یہ الزام دھرتی ہیں کہ آپ کی شخصیت پر ان کی فکر کا کچھ نہ کچھ اثر ہے دوسری جانب الطاف حسین جیسے قاتلوں کے جرم پر پردہ ڈالتی ہیں۔ کہاں تو یہ بلندی اور کہاں یہ پستی۔ خدا کی پناہ۔ مجھے تو اسے ڈبل اسٹینڈرڈ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ ڈبل اسٹینڈرڈ بھی اتنا ڈبل نہیں ہوتا۔
یا اللہ یہ پردے وہ ڈالتے ہوں گے جن کے دل میں انصاف نہ ہو۔
یہ ایم کیو ایم کے متعلق تھریڈ نہیں، مگر مختصرا یہ کہنا ہے کہ میں نے کسی کے جرائم پر پردہ نہیں ڈالا بلکہ ایم کیو ایم سمیت بقیہ تمام کے جرائم سے بھی پردہ چاک کر کے انہیں سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
شکر الحمد للہ میں اُن میں سے نہیں تھی جو مودودی صاحب سے ایسے متاثر ہوں کہ انصاف کرنا ہی چھوڑ دیں اور جنہیں جمیعت کا غیر قانونی اسلحہ، غنڈہ گردی و مار پیٹ تو نظر نہ آئے مگر دوسروں کے لیے تمام تیر و تلوار تیار ہوں۔