عدیل منا
محفلین
quote="محمداحمد, post: 943921, member: 740"]
دوستو۔۔۔ ! یہ کوئی فتویٰ نہیں تھا، کسی پر فردِ جرم نہیں عائد کیا گیا، نہ ہی کسی کو خدانخواستہ کافر قرار دیا گیا۔ اگر آپ یقین کریں تو اس تحریر کا مرکزی خیال بالکل جینوئن ہے اور اس تحریر میں موجود ہندو کردار سے میری اپنی گفتگو اس سلسلے میں ہوئی ہے (اور وہ بھی میرے لئے لائقِ احترام ہے)۔ اس خیال کی ترسیل کے لئے افسانوی انداز بھی اسی لئے اختیار کیا کہ اسے ایک خیال ہی سمجھا جائے فتویٰ نہ سمجھا جائے۔
ایک عرصے تک میرے اپنے عقائد بالکل ویسے ہی تھے ، جیسے اُن دوستوں کے جو آج مجھ پر برہم نظر آرہے ہیں او ر اب بھی میرے بہت سے رشتہ دار اور دوست اِ ن عقائد پر ہی ہیں تو کیا آپ کا خیال ہے کہ میں اپنے اُن دوستوں اور جان سے عزیز رشتہ داروں کو کافر قرار دے کر جہنم میں بھیجنے کا خواہشمند ہوسکتا ہوں۔ یا اگر میرے دوست مجھ سے شکوہ کریں کہ تم تو ہمارے مسلک پر پیدا ہوئے تھے تم اس سے کیوں کر پھرے تو کیا اُن کا یہ شکوہ جائز ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ہم فرقوں سے بالا تر ہو کر صرف یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے جھگڑے از خود ہی ختم ہو جائیں ۔
یہ لڑی اور زمرہ شاید اس قسم کی گفتگو کے متحمل نہیں ہیں سو انتظامیہ کے دوست اگر مناسب سمجھیں تو اسے مقفل ہی کردیں۔
۔[/quote]
محمداحمد بھائی! السلام وعلیکم!
اس موضوع پر چونکہ سب سے پہلے میں نے لب کشائی کی تو خطا کار بھی میں ہی ہوں۔ آپ نے بہت مختصر اور جامعہ تحریر یہاں پوسٹ کی جس میں لمحہ فکریہ ہے۔میں نے یہ نہیں چاہا تھا کہ کوئی کسی کو تنقید کا نشانہ بنائے، بلکہ اس لئے کہ اس موضوع پر اپنے اپنے علم کے مطابق بات کرے۔
بات اصل میں یہ ہے کہ جہاں بات عقیدے کی آجائے وہاں عقل کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ کسی کے سالوں سال پر مبنی عقائد چند سطروں میں ختم کردیں تو یہ ناممکنات میں سے ہے۔
سوئم، چہارم اور برسی جیسی بہت سی ایسی رسومات جن کا ثبوت نہ تو کسی حدیث میں ملتا ہے اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کسی فعل سے۔بلکہ یہاں تک کہ اگر کسی کے ہاں فوتگی ہوجائے تو عزیز و اقارب کو ان کے گھر کھانا پہنچانے کا حکم ہے۔کیونکہ وہ مصیبت میں مشغول ہوتے ہیں۔
دین میں کوئی نئی بات جو قرآن و سنت اور تعامل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی بات یا طریقہ دینی مقاصد کے حصول کے لئے بطور تدبیر اختیار کیا جائے تو وہ بدعت نہیں ہے۔ البتہ اس کو دین کا حصہ سمجھ کر کرنا غلط ہے۔
فوت شدگان کو ایصال ثواب پہنچانے کیلئے جب قرآن خوانی کی جاتی ہے تو اس میں دینی فائدہ منسوب ہے، کچھ نہیں تو یہی کہ اس طرح آج کل غفلت زدہ لوگوں کو کبھی کبھار قرآن مجید کی تلاوت کا موقع مل جاتا ہے۔
اپنے عزیز دوستوں کو یہ کہنا بھی درست ہے کہ اگر ہم پر احسان کرنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر میں ایک یا دو سپارے پڑھ کر فوت شدہ کو اس کا ثواب بخش دیں۔ تو آج کل کے افراتفری کے دور میں کوئی یاد رکھتا ہے تو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
بہرحال موضوع بہت لمبا ہے۔۔۔تحقیقات سے خاص کر ایک بہت ہی اصولی بات سمجھ میں آئی اور دلنشین ہوگئی کہ"جب کسی فعل کے سنت و بدعت ہونے میں تردد ہوجائے توترک سنت فعل بدعت سے بہتر ہے۔"
اگر کوئی چاہے کہ جو ہمارے پیارے ہم سے بچھڑ چکے ہیں اور وہ اس وقت منتظر ہیں کہ ہمارے اس نیک عمل کے جو ہم ان کے لئے کریں تو ان کو ثواب پہنچا سکتا ہے۔ جو کہ حدیث سے بھی ثابت ہے۔
اور جو یہ سوچے کہ یہ بدعت ہے وہ بے شک نہ کرے۔
یہ بالکل اصولی بات ہے اور احتیاط پر مبنی ہے۔
دوستو۔۔۔ ! یہ کوئی فتویٰ نہیں تھا، کسی پر فردِ جرم نہیں عائد کیا گیا، نہ ہی کسی کو خدانخواستہ کافر قرار دیا گیا۔ اگر آپ یقین کریں تو اس تحریر کا مرکزی خیال بالکل جینوئن ہے اور اس تحریر میں موجود ہندو کردار سے میری اپنی گفتگو اس سلسلے میں ہوئی ہے (اور وہ بھی میرے لئے لائقِ احترام ہے)۔ اس خیال کی ترسیل کے لئے افسانوی انداز بھی اسی لئے اختیار کیا کہ اسے ایک خیال ہی سمجھا جائے فتویٰ نہ سمجھا جائے۔
ایک عرصے تک میرے اپنے عقائد بالکل ویسے ہی تھے ، جیسے اُن دوستوں کے جو آج مجھ پر برہم نظر آرہے ہیں او ر اب بھی میرے بہت سے رشتہ دار اور دوست اِ ن عقائد پر ہی ہیں تو کیا آپ کا خیال ہے کہ میں اپنے اُن دوستوں اور جان سے عزیز رشتہ داروں کو کافر قرار دے کر جہنم میں بھیجنے کا خواہشمند ہوسکتا ہوں۔ یا اگر میرے دوست مجھ سے شکوہ کریں کہ تم تو ہمارے مسلک پر پیدا ہوئے تھے تم اس سے کیوں کر پھرے تو کیا اُن کا یہ شکوہ جائز ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ہم فرقوں سے بالا تر ہو کر صرف یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے جھگڑے از خود ہی ختم ہو جائیں ۔
یہ لڑی اور زمرہ شاید اس قسم کی گفتگو کے متحمل نہیں ہیں سو انتظامیہ کے دوست اگر مناسب سمجھیں تو اسے مقفل ہی کردیں۔
۔[/quote]
محمداحمد بھائی! السلام وعلیکم!
اس موضوع پر چونکہ سب سے پہلے میں نے لب کشائی کی تو خطا کار بھی میں ہی ہوں۔ آپ نے بہت مختصر اور جامعہ تحریر یہاں پوسٹ کی جس میں لمحہ فکریہ ہے۔میں نے یہ نہیں چاہا تھا کہ کوئی کسی کو تنقید کا نشانہ بنائے، بلکہ اس لئے کہ اس موضوع پر اپنے اپنے علم کے مطابق بات کرے۔
بات اصل میں یہ ہے کہ جہاں بات عقیدے کی آجائے وہاں عقل کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ کسی کے سالوں سال پر مبنی عقائد چند سطروں میں ختم کردیں تو یہ ناممکنات میں سے ہے۔
سوئم، چہارم اور برسی جیسی بہت سی ایسی رسومات جن کا ثبوت نہ تو کسی حدیث میں ملتا ہے اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کسی فعل سے۔بلکہ یہاں تک کہ اگر کسی کے ہاں فوتگی ہوجائے تو عزیز و اقارب کو ان کے گھر کھانا پہنچانے کا حکم ہے۔کیونکہ وہ مصیبت میں مشغول ہوتے ہیں۔
دین میں کوئی نئی بات جو قرآن و سنت اور تعامل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی بات یا طریقہ دینی مقاصد کے حصول کے لئے بطور تدبیر اختیار کیا جائے تو وہ بدعت نہیں ہے۔ البتہ اس کو دین کا حصہ سمجھ کر کرنا غلط ہے۔
فوت شدگان کو ایصال ثواب پہنچانے کیلئے جب قرآن خوانی کی جاتی ہے تو اس میں دینی فائدہ منسوب ہے، کچھ نہیں تو یہی کہ اس طرح آج کل غفلت زدہ لوگوں کو کبھی کبھار قرآن مجید کی تلاوت کا موقع مل جاتا ہے۔
اپنے عزیز دوستوں کو یہ کہنا بھی درست ہے کہ اگر ہم پر احسان کرنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر میں ایک یا دو سپارے پڑھ کر فوت شدہ کو اس کا ثواب بخش دیں۔ تو آج کل کے افراتفری کے دور میں کوئی یاد رکھتا ہے تو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
بہرحال موضوع بہت لمبا ہے۔۔۔تحقیقات سے خاص کر ایک بہت ہی اصولی بات سمجھ میں آئی اور دلنشین ہوگئی کہ"جب کسی فعل کے سنت و بدعت ہونے میں تردد ہوجائے توترک سنت فعل بدعت سے بہتر ہے۔"
اگر کوئی چاہے کہ جو ہمارے پیارے ہم سے بچھڑ چکے ہیں اور وہ اس وقت منتظر ہیں کہ ہمارے اس نیک عمل کے جو ہم ان کے لئے کریں تو ان کو ثواب پہنچا سکتا ہے۔ جو کہ حدیث سے بھی ثابت ہے۔
اور جو یہ سوچے کہ یہ بدعت ہے وہ بے شک نہ کرے۔
یہ بالکل اصولی بات ہے اور احتیاط پر مبنی ہے۔