وجے کمار مسلمان ہو گیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عدیل منا

محفلین
quote="محمداحمد, post: 943921, member: 740"]
دوستو۔۔۔ ! یہ کوئی فتویٰ نہیں تھا، کسی پر فردِ جرم نہیں عائد کیا گیا، نہ ہی کسی کو خدانخواستہ کافر قرار دیا گیا۔ اگر آپ یقین کریں تو اس تحریر کا مرکزی خیال بالکل جینوئن ہے اور اس تحریر میں موجود ہندو کردار سے میری اپنی گفتگو اس سلسلے میں ہوئی ہے (اور وہ بھی میرے لئے لائقِ احترام ہے)۔ اس خیال کی ترسیل کے لئے افسانوی انداز بھی اسی لئے اختیار کیا کہ اسے ایک خیال ہی سمجھا جائے فتویٰ نہ سمجھا جائے۔
ایک عرصے تک میرے اپنے عقائد بالکل ویسے ہی تھے ، جیسے اُن دوستوں کے جو آج مجھ پر برہم نظر آرہے ہیں او ر اب بھی میرے بہت سے رشتہ دار اور دوست اِ ن عقائد پر ہی ہیں تو کیا آپ کا خیال ہے کہ میں اپنے اُن دوستوں اور جان سے عزیز رشتہ داروں کو کافر قرار دے کر جہنم میں بھیجنے کا خواہشمند ہوسکتا ہوں۔ یا اگر میرے دوست مجھ سے شکوہ کریں کہ تم تو ہمارے مسلک پر پیدا ہوئے تھے تم اس سے کیوں کر پھرے تو کیا اُن کا یہ شکوہ جائز ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ہم فرقوں سے بالا تر ہو کر صرف یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے جھگڑے از خود ہی ختم ہو جائیں ۔
یہ لڑی اور زمرہ شاید اس قسم کی گفتگو کے متحمل نہیں ہیں سو انتظامیہ کے دوست اگر مناسب سمجھیں تو اسے مقفل ہی کردیں۔
۔[/quote]
محمداحمد بھائی! السلام وعلیکم!
اس موضوع پر چونکہ سب سے پہلے میں نے لب کشائی کی تو خطا کار بھی میں ہی ہوں۔ آپ نے بہت مختصر اور جامعہ تحریر یہاں پوسٹ کی جس میں لمحہ فکریہ ہے۔میں نے یہ نہیں چاہا تھا کہ کوئی کسی کو تنقید کا نشانہ بنائے، بلکہ اس لئے کہ اس موضوع پر اپنے اپنے علم کے مطابق بات کرے۔
بات اصل میں یہ ہے کہ جہاں بات عقیدے کی آجائے وہاں عقل کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ کسی کے سالوں سال پر مبنی عقائد چند سطروں میں ختم کردیں تو یہ ناممکنات میں سے ہے۔
سوئم، چہارم اور برسی جیسی بہت سی ایسی رسومات جن کا ثبوت نہ تو کسی حدیث میں ملتا ہے اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کسی فعل سے۔بلکہ یہاں تک کہ اگر کسی کے ہاں فوتگی ہوجائے تو عزیز و اقارب کو ان کے گھر کھانا پہنچانے کا حکم ہے۔کیونکہ وہ مصیبت میں مشغول ہوتے ہیں۔
دین میں کوئی نئی بات جو قرآن و سنت اور تعامل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی بات یا طریقہ دینی مقاصد کے حصول کے لئے بطور تدبیر اختیار کیا جائے تو وہ بدعت نہیں ہے۔ البتہ اس کو دین کا حصہ سمجھ کر کرنا غلط ہے۔
فوت شدگان کو ایصال ثواب پہنچانے کیلئے جب قرآن خوانی کی جاتی ہے تو اس میں دینی فائدہ منسوب ہے، کچھ نہیں تو یہی کہ اس طرح آج کل غفلت زدہ لوگوں کو کبھی کبھار قرآن مجید کی تلاوت کا موقع مل جاتا ہے۔
اپنے عزیز دوستوں کو یہ کہنا بھی درست ہے کہ اگر ہم پر احسان کرنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر میں ایک یا دو سپارے پڑھ کر فوت شدہ کو اس کا ثواب بخش دیں۔ تو آج کل کے افراتفری کے دور میں کوئی یاد رکھتا ہے تو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
بہرحال موضوع بہت لمبا ہے۔۔۔تحقیقات سے خاص کر ایک بہت ہی اصولی بات سمجھ میں آئی اور دلنشین ہوگئی کہ"جب کسی فعل کے سنت و بدعت ہونے میں تردد ہوجائے توترک سنت فعل بدعت سے بہتر ہے۔"
اگر کوئی چاہے کہ جو ہمارے پیارے ہم سے بچھڑ چکے ہیں اور وہ اس وقت منتظر ہیں کہ ہمارے اس نیک عمل کے جو ہم ان کے لئے کریں تو ان کو ثواب پہنچا سکتا ہے۔ جو کہ حدیث سے بھی ثابت ہے۔
اور جو یہ سوچے کہ یہ بدعت ہے وہ بے شک نہ کرے۔
یہ بالکل اصولی بات ہے اور احتیاط پر مبنی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو چند ایک احکام میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ثقافت بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جہاں بھی اسلام پہنچا تو اس نے اس علاقے کا رنگ اپنا لیا۔ لیکن اپنے essence (روح) کو برقرار رکھا۔ ایک عرب اور ملائشیا کے رہنے والے میں اور ان کی ثقافت میں بہت فرق ہے لیکن اسلام کے رشتے سے استوار ہیں۔ اس کو میں اسلام کی بڑی کامیابی سمجھتا ہوں کہ وہ ہر رنگ میں ڈھل جاتا ہے اور ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔
ظاہری اعمال کی اگرچہ بہت اہمیت ہے لیکن یہ ایک خول کی طرح ہیں کہ اگر ہم صرف ان کو لے لیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں لیکن اگر ان کی روح بھی موجود ہو تو تب یہ با معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم صرف ظاہر ہی پر مرتکز ہو جائیں تو ان تمام اعمال کی روح انہی ظاہری باتوں میں کھو جائے گی۔ مثال کے طور پر اگر ہم سڑک پر لگی سرخ بتی کے رنگ میں کھو جائیں تو ہمیں یہ بھول جائے گا کہ اس کا مقصد ہے کہ یہاں رک جاو ورنہ کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسلام میں تنوع اتنا ہے کہ کچھ لوگ ساز کو حرام سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ اسی کو استعمال کر کے خدا کی کھوج لگاتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے کہ کس کو صحیح کہیں اور کس کو غلط کیونکہ ہر کوئی رب کو پانے کی لگن میں مصروف ہے۔
 
مانیں یا نہ مانیں ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس تحریر میں دل آزاری کا عنصر پایا جاتا ہے۔۔۔یہ اختلافی مسائل ہیں اور بریلوی دیوبندی اختلافات میں سے ہیں۔۔۔۔دونوں فریقوں کے پاس دلائل ہیں چنانچہ یہ ایسے مسائل نہیں کہ جنکی بنیاد کفر اور اسلام پر ہو۔۔۔حق دائر اور حق متعین کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ چنانچہ ان مسائل پر یوں افسانے تحریر کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ کوئی بالغ نظری نہیں ہے۔۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ایسی کون سی عینک لائیں گے کہ جس میں دیوبندیت، بریلویت اور باقی سب کی جھلک نہ ہو؟؟؟ بات بڑی پتے کی کر دی آپ نے محترم، عینک کوئی بھی لیں برانڈ تو کسی نہ کسی کا لگا ہوا ہی ہو گا نا۔۔۔۔۔ رے بین ہو یا چائنہ کی کوئی کمپنی۔۔۔۔! ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ برانڈ کوئی بھی ہو عینک کی آرام دینے کی کیا کوالٹی ہے، لگانے میں کیسی ہے اور لگا کر ہم دکھیں گے کیسے!!!! باقی کوئی نہ کوئی برانڈ تو ایکسپٹ کرنا ہی پڑے گا نا۔۔۔!
 
میرے یا آپکے اس عینک کے اتاردینے سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہوگی ناں؟۔۔۔دیوبندیت اور بریلویت اور اسکے ساتھ ساتھ بیسیوں دوسرے فرقے، ایک حقیقت ہیں۔۔۔آپ نے جو تحریر رقم کی ہے وہ ان میں سے ایک فریق کے موقف کی ترجمانی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے نقطہ نظر کو ہندوانہ قرار دیکر آپ نے کوئی اچھی بات نہیں کی۔۔۔کل کو اگر کوئی شخص آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اور آپ ہی کے طرزِ استدلال سے کام لیکر مسلمانوں کے ہی ایک دوسرے گروہ کو یہودی قرار دے دے تو پھر آپ کیا کہیں گے؟؟؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
آج کل کے پرفتن دور میں امن سے رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ جیو اور جینے دو کے اصول پر چلیں، کسی کا چھیڑیں نہ اور اپنا چھوڑیں نہ۔۔۔۔!باقی اپنا عقیدہ پھیلائیں بھی اور قائل بھی کریں مگر اس طریقہ سے جس طریقہ سے ہادی برحق نے تبلیغ کی، عمل کرکے اگلے کو ثابت کریں کہ دیکھو میں ٹھیک ہوں اور تم غلط ہو اور میرے طریقے کا یہ یہ فائدہ ہے۔ آپ کا مقصد اگر غور و فکر کے لیے اکسانا تھا تو ایسی تحریروں سے کہ جن میں پہلے ہی مرحلے میں مخاطب کو(غلط) ہندو قرار دے دیا جائے، بھلا کس کا دماغ گہرائی تک جا کر سوچنے کی زحمت کرے گا؟ خاص کر ہم فرقہ واران جو جذبات کے میڈل سینوں پر سجائے پھرنے والے ہیں، بھلا جذباتیت سے پیچھا چھڑا کر، گہرائی میں جا کر سوچنے کی زحمت بھلا کیوں کریں گے!!! ہمارے لیے زیادہ آسان تو لڑائی کرنا ہے، بجائے فکروعمل کے!
 

محمد وارث

لائبریرین
بحث کا رنگ دیکھتے ہوئے میں نے اس موضوع کو محفلِ ادب سے حالاتِ حاضرہ کے ذیلی زمرے ہمارا معاشرہ میں بھیج دیا ہے اور یوں یہ ساجد صاحب کی عملداری میں آ گیا ہے۔ اس موضوع کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ یا مزید اقدامات اب ساجد صاحب انجام دیں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بڑی عجیب بات ہے کہ جس بات کا ثبوت، نہ تو قران میں موجود ہے نہ ہی صحیح احادیث میں اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کہیں اس کی دلیل ملتی ہے اس کے لئے ہم اس قدر جذباتی ہو رہے ہیں۔ پھر ذرا سا غور کرنے پر یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ یہ چیز ہم میں کہاں سے آئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رسومات برِ صغیر میں تو عام نظر آتی ہیں لیکن دنیا کے دیگر مسمانوں میں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ بہر کیف بات تو تب سمجھ آتی ہے جب کوئی سمجھنا چاہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
محفلِ ادب سے حالاتِ حاضرہ کی جانب اور حالاتِ حاضرہ کی جانب سے قفل کی جانب رُخ نظر آ رہا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
بڑی عجیب سی بات ہے کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر کسی بھی دوست نے موضوع پر کوئی بات نہیں کی۔

مجھے اس بات کا بھی دکھ ہے کہ کچھ دوستوں نے میرے اصرار کے باوجود اس پوسٹ کو دوستانہ نہیں لیا اور خود پر حملہ تصور کرتے ہوئے جوابی حملہ شروع کردیا اور جوابی حملوں میں جو کچھ بھی کہا گیا اس کا موضوع سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔

دوستو۔۔۔ ! یہ کوئی فتویٰ نہیں تھا، کسی پر فردِ جرم نہیں عائد کیا گیا، نہ ہی کسی کو خدانخواستہ کافر قرار دیا گیا۔ اگر آپ یقین کریں تو اس تحریر کا مرکزی خیال بالکل جینوئن ہے اور اس تحریر میں موجود ہندو کردار سے میری اپنی گفتگو اس سلسلے میں ہوئی ہے (اور وہ بھی میرے لئے لائقِ احترام ہے)۔ اس خیال کی ترسیل کے لئے افسانوی انداز بھی اسی لئے اختیار کیا کہ اسے ایک خیال ہی سمجھا جائے فتویٰ نہ سمجھا جائے۔

ایک عرصے تک میرے اپنے عقائد بالکل ویسے ہی تھے ، جیسے اُن دوستوں کے جو آج مجھ پر برہم نظر آرہے ہیں او ر اب بھی میرے بہت سے رشتہ دار اور دوست اِ ن عقائد پر ہی ہیں تو کیا آپ کا خیال ہے کہ میں اپنے اُن دوستوں اور جان سے عزیز رشتہ داروں کو کافر قرار دے کر جہنم میں بھیجنے کا خواہشمند ہوسکتا ہوں۔ یا اگر میرے دوست مجھ سے شکوہ کریں کہ تم تو ہمارے مسلک پر پیدا ہوئے تھے تم اس سے کیوں کر پھرے تو کیا اُن کا یہ شکوہ جائز ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ہم فرقوں سے بالا تر ہو کر صرف یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے جھگڑے از خود ہی ختم ہو جائیں ۔

بہر کیف، وہ تمام دوست جو میری بات پر دل گرفتہ ہوئے ہیں میں اُن سے دل سے معذرت چاہتا ہوں ۔ میرے لئے وہ اب بھی بہت عزیز ہیں اور آئندہ بھی انشااللہ رہیں گے، اُمید ہے احباب درگزر سے کام لیں گے۔

یہ لڑی اور زمرہ شاید اس قسم کی گفتگو کے متحمل نہیں ہیں سو انتظامیہ کے دوست اگر مناسب سمجھیں تو اسے مقفل ہی کردیں۔

۔
محترم دوستو بلا شک ہم نے اگر گندم بوئی ہوگی تو گندم ہی کاٹنا نصیب ہوگا
اور جو چنے کی فصل لگائے گا وہ چنے ہی کی فصل کاٹے گا ۔
بات تو بہت دور نکلنے کو تھی مگر
چونکہ اب مسالک کی بات کھل کر سامنے آگئی ہے ۔
اس لیئے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس گفتگو سے کنارہ کر لوں ۔
میں اپنے مسلک کو کسی صورت چھوڑ نہیں سکتا ۔
تو کسی دوسرے کے مسلک کو کیوں چھیڑوں ۔
اور ویسے بھی میں ان مسالک کی حدود سے بہت باہر ہوں ۔
اس لیئے جن محترم ہستیوں کو میرے تبصرے گراں گزرے ان سے دلی معذرت
اور جنہوں نے موافقت کی ان کو فرمان الہی ( وقولوا قولا سديدا ) بطور التجا یاد کرواتے شکریہ ادا کرتا ہوں
اللہ تعالی ہم سب کو تعصب سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
بڑی عجیب بات ہے کہ جس بات کا ثبوت، نہ تو قران میں موجود ہے نہ ہی صحیح احادیث میں اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کہیں اس کی دلیل ملتی ہے اس کے لئے ہم اس قدر جذباتی ہو رہے ہیں۔ پھر ذرا سا غور کرنے پر یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ یہ چیز ہم میں کہاں سے آئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رسومات برِ صغیر میں تو عام نظر آتی ہیں لیکن دنیا کے دیگر مسمانوں میں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ بہر کیف بات تو تب سمجھ آتی ہے جب کوئی سمجھنا چاہے۔
احادیث میں کس جگہ منع کیا گیا ہے کہ مرنے والے کے پیچھے کچھ پڑھ کر نہ بھیجو؟ کسی مرحوم "مسلمان" کو قرآن پاک پڑھ کر اس کا ثواب بھیجنا گناہ ہے یا شرکیہ قدم ہے؟
کہنے کو تو بہت سی باتیں ہیں لیکن پھر بات آؤٹ آف کنٹرول ہو جائیگی
 

محمد امین

لائبریرین
چند مؤدبانہ گزارشات عرض کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ اس تحریر پر اگر تعمیری اور مثبت طریقے سے بحث کی جائے تو مناسب رہے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ احمد بھائی نے یہ تحریر جذبۂ اسلامی کے تحت لکھی ہے اور کسی مسلمان کے جذبے پر شک کرنا میرا کام نہیں۔ مگر میں اس تحریر اور نظریے سے اختلاف ضرور رکھتا ہوں۔

تمام بھائیوں کی آراء بہت اہم اور محترم ہیں کیوں کہ سبھی نورِ ایمان سے سرشار ہیں اور جذبۂ اسلامی کی کہیں کمی نہیں ہے۔ الحمد للہ۔ میں احمد بھائی کی تحریر سے تھوڑا سا الگ جا کر کچھ کہنا چاہتا ہوں کیوں کہ گفتگو کی سمت بدل رہی ہے اور میں اس پر اپنا مؤقف بتانا چاہتا ہوں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ فی زمانہ دیوبند اور بریلوی مکاتبِ فکر غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ جو جو خرابیاں دونوں فریقین میں امتدادِ زمانہ اور شدتِ جذبات سے پیدا ہوگئی تھیں، وہ اصلاح کی جانب گامزن ہیں۔ اسکی مثال یہ ہے کہ 10 سال قبل تک ہمارے علاقے کے دیوبندی دارالعلوم و مسجد (کافی مشہور و مؤقر جامعہ ہے) میں "نعت خوانی" نہیں ہوتی تھی۔ اب باقاعدگی سے وہاں "لاؤڈ اسپیکر" پر یہ "بدعت" سرانجام دی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں اس جامعہ میں ختمِ بخاری شریف ہوا تو سڑک پر شامیانہ لگا کر "چیمبر" پر نعتیں بھی پڑھی گئیں (حالانکہ 10 برس قبل یہ بدعتِ شنیعہ تھی اور اعتراضات یہ ہوتے تھے سڑک بند ہوجاتی ہے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، اور لاؤڈ اسپیکر سے بھی لوگ تنگ ہوتے ہیں۔۔۔۔اب نہیں ہوتے شاید)۔۔۔ اور ہاں ان نعتوں کی طرز ویسی ہی تھی جیسی بریلوی نعت خواں پڑھتے ہیں۔

اسی طرح بریلویوں نے جس طرح نعتوں کو غلط انداز میں پڑھنا شروع کیا تھا (جسے ڈسکو نعتیں بھی کہا جاتا ہے) وہ چیز اب دم توڑ چکی ہے اور کثیر بریلوی علماء و عوام نے اسے مسترد کردیا ہے۔

بدعات کے بارے میں ہر زمانے کے علماء نے اپنا مؤقف لکھا ہے اور اس پر اتنی بحث ہوچکی کہ اب کچھ کہنے کا دل بھی نہیں چاہتا۔ اگر یہ سوئم برسی وغیرہ بدعت ہیں (حالانکہ قرآن پڑھنا بدعت نہیں) تو پھر فی زمانہ عالم و مفتی کے لیے درسِ نظامی اور تخصص فی الفقہ کی شرط تو سب سے بڑی اور پہلی بدعت ہے۔ اور درسِ نظامی تو کیا بھی "دینی فریضہ" سمجھ کر جاتا ہے۔ بدعت کے فتاویٰ کی فیکٹری ابنِ عبدالوہاب کے بعد سے لگی ہے۔ اس سے قبل بھی اہل السنۃ کا ان باتوں پر عمل رہا ہے اور علماء نے توثیق کی ہے۔ بر صغیر کے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کہ جن کو دیوبندی اور بریلوی یکساں مانتے اور اپنا اپنا زیادہ حق جماتے ہیں، ان کے سارے عقائد و اعمال وہی ہیں جو آج بریلویوں کے ہیں، تو پھر کس بات کا جھگڑا ہے؟ دونوں ہی مکاتبِ فکر علامہ امین ابن عابدین شامی کی تحریر کردہ "فتاویٰ شامی" کو مستند مانتے ہیں، عالمگیر کے زمانے کے"فتاویٰ عالمگیری" کو مستند مانتے ہیں تو پھر یہ اختلافات کیوں؟ علامہ سیوطی دونوں کے لیے محترم ہیں، قاضی عیاض دونوں کے لیے محترم ہیں، پھر یہ ابنِ عبدالوہاب کی تعلیمات لے کر اختلاف کا بیج کیسے پھوٹ پڑا؟
 

ساجد

محفلین
برادر محترم عبدالرزاق قادری صاحب، آپ کا ایک اور مراسلہ مجھے حذف کرنا پڑا۔ اور مجھے افسوس ہے کہ آپ جیسے دیندار لوگ دینی اور مسلکی معاملات پر بولتے وقت بات چیت کے اسلامی و شرعی قواعد کا پاس نہیں کریں گے تو دوسروں کو کیوں کر تعلیمات نبوی کی تلقین کر سکتے ہیں۔
 
بدعات کے بارے میں ہر زمانے کے علماء نے اپنا مؤقف لکھا ہے اور اس پر اتنی بحث ہوچکی کہ اب کچھ کہنے کا دل بھی نہیں چاہتا۔ اگر یہ سوئم برسی وغیرہ بدعت ہیں (حالانکہ قرآن پڑھنا بدعت نہیں) تو پھر فی زمانہ عالم و مفتی کے لیے درسِ نظامی اور تخصص فی الفقہ کی شرط تو سب سے بڑی اور پہلی بدعت ہے۔ اور درسِ نظامی تو کیا بھی "دینی فریضہ" سمجھ کر جاتا ہے۔ بدعت کے فتاویٰ کی فیکٹری ابنِ عبدالوہاب کے بعد سے لگی ہے۔ اس سے قبل بھی اہل السنۃ کا ان باتوں پر عمل رہا ہے اور علماء نے توثیق کی ہے۔ بر صغیر کے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کہ جن کو دیوبندی اور بریلوی یکساں مانتے اور اپنا اپنا زیادہ حق جماتے ہیں، ان کے سارے عقائد و اعمال وہی ہیں جو آج بریلویوں کے ہیں، تو پھر کس بات کا جھگڑا ہے؟ دونوں ہی مکاتبِ فکر علامہ امین ابن عابدین شامی کی تحریر کردہ "فتاویٰ شامی" کو مستند مانتے ہیں، عالمگیر کے زمانے کے"فتاویٰ عالمگیری" کو مستند مانتے ہیں تو پھر یہ اختلافات کیوں؟ علامہ سیوطی دونوں کے لیے محترم ہیں، قاضی عیاض دونوں کے لیے محترم ہیں، پھر یہ ابنِ عبدالوہاب کی تعلیمات لے کر اختلاف کا بیج کیسے پھوٹ پڑا؟
سو فیصد متفق۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محترم دوستو بلا شک ہم نے اگر گندم بوئی ہوگی تو گندم ہی کاٹنا نصیب ہوگا
اور جو چنے کی فصل لگائے گا وہ چنے ہی کی فصل کاٹے گا ۔
بات تو بہت دور نکلنے کو تھی مگر
چونکہ اب مسالک کی بات کھل کر سامنے آگئی ہے ۔
اس لیئے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس گفتگو سے کنارہ کر لوں ۔
میں اپنے مسلک کو کسی صورت چھوڑ نہیں سکتا ۔
تو کسی دوسرے کے مسلک کو کیوں چھیڑوں ۔
اور ویسے بھی میں ان مسالک کی حدود سے بہت باہر ہوں ۔
اس لیئے جن محترم ہستیوں کو میرے تبصرے گراں گزرے ان سے دلی معذرت
اور جنہوں نے موافقت کی ان کو فرمان الہی ( وقولوا قولا سديدا ) بطور التجا یاد کرواتے شکریہ ادا کرتا ہوں
اللہ تعالی ہم سب کو تعصب سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


بھائی! میں نے تو اب تک نہ کسی مسلک کی بات کی نہ فرقے کی، نہ میں خود کو کسی فرقے، مسلک سے جوڑنا چاہتا ہوں کہ میرے لئے صرف مسلمان ہونا ہی نجات کے لئیے کافی ہے۔ میں نے پہلے بھی یہی کہا ہے کہ اگر ہم فرقوں سے بالا تر ہو کر صرف یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے جھگڑے از خود ہی ختم ہو جائیں ۔

بہر کیف مجھے رنج ہے کہ میری وجہ سے بہت سے لوگوں کو تکلیف پہنچی۔
 

شمشاد

لائبریرین
احادیث میں کس جگہ منع کیا گیا ہے کہ مرنے والے کے پیچھے کچھ پڑھ کر نہ بھیجو؟ کسی مرحوم "مسلمان" کو قرآن پاک پڑھ کر اس کا ثواب بھیجنا گناہ ہے یا شرکیہ قدم ہے؟
کہنے کو تو بہت سی باتیں ہیں لیکن پھر بات آؤٹ آف کنٹرول ہو جائیگی

اور حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ مرنے والے کو قرآن پڑھ کر بھیجو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اصحاب کرام کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو قرآن خوانی کروا کے ثواب بھیجا ہو؟
 

سید ذیشان

محفلین
اور حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ مرنے والے کو قرآن پڑھ کر بھیجو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اصحاب کرام کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو قرآن خوانی کروا کے ثواب بھیجا ہو؟
یہ fallacious argument ہے۔ حدیث میں تو یہ بھی نہیں ہے کہ لاوڈ سپیکر سے آذان دے سکتے ہیں۔ تو کیا اس کا مظلب یہ ہوا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا؟
مزے کی بات یہ ہے کہ پچاس سال پہلے مولیوں نے یہ فتوے لگائے تھے کہ لاوڈ سپیکر سے آذان منع ہے۔
 
اگر ہم فرقوں سے بالا تر ہو کر صرف یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے جھگڑے از خود ہی ختم ہو جائیں ۔
اچھی بات ہے۔۔۔فرقوں سے بالاتر ہوکر اگر سوچیں تب بھی یہ ایک دل آزاری پر مبنی پوسٹ تھی۔ میں اپنی مثال دیتا ہوں۔ مجھے آپکی اس پوسٹ سے اس وجہ سے دکھ پہنچا ہے کہ چند سال قبل میری والدہ محترمہ وفات پا گئیں، ہم لوگوں نے انکی وفات کے بعد چند دن کیلئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا۔ پہلے لوگ جمعرات کو ایسا کیا کرتے تھے لیکن اب چونکہ پاکستان میں اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے، چنانچہ ہم نے اتوار کے دنوں میں یہ اہتمام کیا۔ اور انکی وفات سے چالیس دن تک ایسا کیا گیا۔۔۔تھوڑا بہت دین اسلام کا مطالعہ میرا بھی ہے، میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہم لوگوں نے ایسا کرکے شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، کسی حرام کا ارتکاب نہیں کیا۔۔۔لیکن آپ نے اپنے مضمون میں کافی تجاھلِ عارفانہ اور سطحی قسم کی ظاہر پرستی سے کام لیتے ہوئے پہلے تو اس وجے کمار کو مسلمان قرار دیا اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ وہ مسلمان لوگ جو ایسا کرتے ہیں، انہیں ہندو قرار دے دیا گیا۔۔اس پر بھی آپ معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ ایسا کیا کہہ دیا میں نے۔۔۔۔
میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ آپ اپنی سوچ میں تھوڑی سی مزید وسعت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔۔
 

عدیل منا

محفلین
اور حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ مرنے والے کو قرآن پڑھ کر بھیجو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اصحاب کرام کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو قرآن خوانی کروا کے ثواب بھیجا ہو؟
حضرت عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آئے اور انھوں نے پوچھا نبی صلی اللہ سے کہ میری ماں فوراََ مر گئی اور وصیت نہ کرپائی۔ اگر بولتی تو صدقہ دیتی۔اگر میں صدقہ دوں تو اسے ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں۔ (مسلم۔جلد 3۔ حدیث۔2326)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ دنیا میت کی طرف سے میت کو نفع دیتا ہے اور اس کو با اتفاق علمائے اہل سنت کے ثواب پہنچتا ہے۔ اور اسی طرح دعا کے پہنچنے میں بھی اجماع ہے اور دین کے ادا میں بھی۔ قرض کا بھی اور حج کا بھی۔ صرف اصحاب شافعیہ کے نزدیک قراءت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔ جبکہ امام حنبل رحمت اللہ نے فرمایا ہے کہ سب کا ثواب پہنچتا ہے حج کی طرح سے۔شرط یہ ہے کہ مال حلال ہو، اس میں بدعت شامل نہ ہو۔ ایصال کا خیال بھی ہو۔
 
السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ
ماشاء اللہ احمد بھائى بہت عمدہ اور فكرانگيز تحرير ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالى آپ كو مزيد توفيق عطا فرمائے۔ افسوس اس بات كا ہے كہ ان خودساختہ رسوم و رواج نے ہمارى دينى ، اخلاقى اور معاشى ابترى ميں كوئى كسر نہيں چھوڑی ليكن پھر بھی ہم ان كو گلے سے لگائے بيٹھے ہيں اور اس اسلام کے نام پر يہ سب ہو رہا ہے جو لوگوں كو ان خود ساختہ خداؤں اور رسموں كى پابنديوں سے آزادى دلانے آيا تھا ۔ ابھی پچھلے مہينے ہمارے ادارے كى نصرانى مہترانى (کرسچئن سویپرس ) نے ايك فوت شدہ ساتھی كے ليے چاول بنا كر بانٹنے كے ليے ہم سے مدد كى درخواست كى ، ميں نے حيرت سے يہی سوال كيا كہ فوت ہونے والوں کے گھر سے كيسا كھانا پينا ؟ جوابا اس نے ہميں تفصيلا سمجھايا كہ جس طرح مسلمان تيسرا چاليسواں كرتے ہيں ہم بھی كرتے ہيں ۔ يعنى ہم نے اپنے ہاں بسنے والے غير مسلموں تك اسلام كا پيغام كيا پہنچانا تھا الٹا ان كو بھی ان رسومات كے بوجھ سے لاد ديا ؟
افسوس اس بات کا ہے كہ غريب لوگ جن كے جسموں پر ہڈیوں پر جلد منڈھی ہے ، قرض اٹھا كر ، ہاتھ پھيلا كر، ادھار لے كر، ان رسوم كو پورا كرتے ہيں اور پھر ہر سال برسى كى فكر ميں مبتلا ہوتے ہيں۔ ہمارى خادمہ ناقص غذا كى وجہ سے گردے كى مريضہ ہے اس كے چہرے پر جھائی نما نشانات بن گئے ہيں ليكن ہر سال تين برسياں آبائى علاقے تك سفر كر كے منانى ضروری ہيں ۔ ان كا ايك بھائى مدرسے ميں پڑھ كر برسى كے خلاف ہو گيا ہے ، گھر ميں بحث چلتى ہے۔ ابھی ان كى ايك عزيزہ فوت ہوئيں ميں نے پوچھا آخر كب تك كتنى مناؤ گے ؟ خاندان ميں زندگی موت تو لگى رہتى ہے ؟ بولى باجى پھر ہم يوں كرتے ہيں كہ جس كى جوان موت ہو اس كى منا لى ، جو بوڑھا ہو كر فوت ہوا اس كى نہ منائى يا جس كى پانچ برسياں منا ليں پھر اس كى منانى بند كر دى ۔ ۔ ۔
ميں حيرت سے سوچتى ہوں خود ساختہ رسم اس كے خود ساختہ آداب اور پھر اس كى غلامی ۔۔۔ ؟؟؟ ہميں كوئى بيرونى دشمن دركار ہے ؟ يہی حال جہيز اور برى كا ہے اتنے جوڑے ، اتنے ريشمى اتنے سوتى ، اتنے كامدار ، اتنے زيور ، اتنے نقرئى ، اتنے طلائى ، اتنے جڑاؤ يہ سب پروٹوكولز ہر دس ميل كے فاصلے پر بدل جاتے ہيں ان پر كوئى اجماع نہيں ، يہ كسى الہامى كتاب كى آيات ميں مرقوم نہیں ليكن پھر بھى سب اس كے پابند ؟
اتنى عمدہ تحرير پر مبارك باد قبول كريں ، كاش ہم ان رسومات کے صرف فرقہ وارانہ پہلو ميں اٹك كر نہ رہ جائيں بلكہ وسيع تر معاشى اور معاشرتى پہلؤوں پر بھی نگاہ كریں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top