محمود احمد غزنوی
محفلین
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عبدالغنی العمری کی تحریر میں سے ایک اقتباس کا عربی ترجمہ پیش کیا جائے۔۔۔۔فرماتے ہیں :
ہم پڑھنے والے سے ایک سوال پوچھتے ہیں لیکن جواب کے منتظر نہیں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اس پر ذرا غور کرے تاکہ اسے اپنے مرتبے کا علم ہوسکے ، تاکہ وہ اس مرتبے کے مطابق اپنا عمل رکھے، اور مھض تقلیدی طور پر سنی سنائی باتوں کے پیچھے نہ چلے۔ایسی سنی سنائی باتیں جنکی صحت کا اسےکوئی علم نہیں، اور نہ ہی اسے ان پر کوئی واضح برہان میسر آسکی۔ پس ہم کہتے ہیں کہ:
۔۔۔کیا تم موجود ہو؟ اور اگر تم موجود ہو، تو کیا تمہارا یہ وجود، وجودِ حق ہے یا اسکا غیر ہے؟
۔۔۔پس اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کے سوا ہے (اسکا غیر ہے)، تو یہی تو شرکِ جلی ہے۔ اور اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کا عین ہے، تو یہی وہ معنوی توحید ہے جسکی طرف لغت بھی اشارہ کرتی ہے۔ یعنی دو یا دو سے زائد کو ایک بنادینا۔
۔۔۔لیکن اس توحید کو کسی مضبوط برہان کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر وجودِ حق تمہارے لئے ہے، تو بالفاظِ دگر تم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو عدم سے ملحق کردیا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔کیونکہ وہ تمہیں محیط ہے، جبکہ تم اسے محیط نہیں ہو۔ کیونکہ یہ سب بات، وجود کی حیثیت سے کی جارہی ہے۔
۔۔۔لیکن اگر وجودِ حق اللہ کیلئے ہے، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اپنے آپ کو عدم سے ملحق کردیا۔لیکن اگر تم معدوم ہو، تو مشہود کیسے ہوگئے؟
۔۔۔یا پھر یہ کے ذات کے دو اعتبارات ہیں، ایک وجود اور ایک عدم؟ پس اگر بات ایس ہے تو ایک موصوف دو متضاد صفتوں سے بیک وقت کیسے متصف ہوسکتا ہے؟ یا یہ کہ دو متضاد صفات ایک ہی مقام و محل پر کیسے وارد ہوسکتی ہیں؟
۔۔۔یا پھر یہ کہ وجود و عدم کا اکٹھا ہونا، محض ایک عقلی اور ذہنی بات ہے، جبکہ حقیقت میں یہ تضاد کوئی بنیاد نہیں رکھتا؟
۔۔۔پس اگر عدم مشہود ہوسکتا ہے تو ایک مشہود دوسرے مشہود سے کیسے ممتاز ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کی حقیقت ایک ہی ہو (یعنی عدم)؟؟
یہ ایسے سوالات ہیں کہ جنکا جواب سوائے عارف باللہ کے، اور کوئی نہیں دے سکتا۔ اور جو ایسی معرفت کا حامل نہیں ہے، اسے چاہئیے کہ توقف کرے اور ارکانِ ایمان کو خود پر لازم کرے۔ تاکہ اسکا دین اسکے نفس کے مقابلے میں اسکی حفاظت کرے۔ اور وہ ایسے کام میں مشغول ہو جو اسکے رب کے نزدیک اسکے لئے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اور اسے جان لینا چاہئیے کہ توحید ایک جلیل القدر بات ہے، اور اس تک پہنچنا ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور توحید کے حوالے سے کلام کی ابتداء تو ہے، لیکن انتہاء کوئی نہیں۔ پس اس بات سے کا دھیان رکھو کہ کہیں تمہاری توحید ، شرک نہ بن جائے۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی اسکی حقیقت اور بلندیوں سے خوب آگاہ ہے۔
اور بندے کو چاہئیے کہ اپنے نفس پر شیطان کو تسلط پانے کا موقع نہ دے۔کیونکہ وہ ہر قلبی و بدنی عمل کی تاک میں رہتا ہے۔ اور قلیل لیکن یقینی باتیں، ان باتوں سے بہرحال بہتر ہیں جو اگر چہ کثیر ہوں، لیکن ظن و تخمین اور گمان پر مبنی ہوں۔
ترجمہ ختم ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پڑھنے والے سے ایک سوال پوچھتے ہیں لیکن جواب کے منتظر نہیں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اس پر ذرا غور کرے تاکہ اسے اپنے مرتبے کا علم ہوسکے ، تاکہ وہ اس مرتبے کے مطابق اپنا عمل رکھے، اور مھض تقلیدی طور پر سنی سنائی باتوں کے پیچھے نہ چلے۔ایسی سنی سنائی باتیں جنکی صحت کا اسےکوئی علم نہیں، اور نہ ہی اسے ان پر کوئی واضح برہان میسر آسکی۔ پس ہم کہتے ہیں کہ:
۔۔۔کیا تم موجود ہو؟ اور اگر تم موجود ہو، تو کیا تمہارا یہ وجود، وجودِ حق ہے یا اسکا غیر ہے؟
۔۔۔پس اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کے سوا ہے (اسکا غیر ہے)، تو یہی تو شرکِ جلی ہے۔ اور اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کا عین ہے، تو یہی وہ معنوی توحید ہے جسکی طرف لغت بھی اشارہ کرتی ہے۔ یعنی دو یا دو سے زائد کو ایک بنادینا۔
۔۔۔لیکن اس توحید کو کسی مضبوط برہان کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر وجودِ حق تمہارے لئے ہے، تو بالفاظِ دگر تم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو عدم سے ملحق کردیا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔کیونکہ وہ تمہیں محیط ہے، جبکہ تم اسے محیط نہیں ہو۔ کیونکہ یہ سب بات، وجود کی حیثیت سے کی جارہی ہے۔
۔۔۔لیکن اگر وجودِ حق اللہ کیلئے ہے، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اپنے آپ کو عدم سے ملحق کردیا۔لیکن اگر تم معدوم ہو، تو مشہود کیسے ہوگئے؟
۔۔۔یا پھر یہ کے ذات کے دو اعتبارات ہیں، ایک وجود اور ایک عدم؟ پس اگر بات ایس ہے تو ایک موصوف دو متضاد صفتوں سے بیک وقت کیسے متصف ہوسکتا ہے؟ یا یہ کہ دو متضاد صفات ایک ہی مقام و محل پر کیسے وارد ہوسکتی ہیں؟
۔۔۔یا پھر یہ کہ وجود و عدم کا اکٹھا ہونا، محض ایک عقلی اور ذہنی بات ہے، جبکہ حقیقت میں یہ تضاد کوئی بنیاد نہیں رکھتا؟
۔۔۔پس اگر عدم مشہود ہوسکتا ہے تو ایک مشہود دوسرے مشہود سے کیسے ممتاز ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کی حقیقت ایک ہی ہو (یعنی عدم)؟؟
یہ ایسے سوالات ہیں کہ جنکا جواب سوائے عارف باللہ کے، اور کوئی نہیں دے سکتا۔ اور جو ایسی معرفت کا حامل نہیں ہے، اسے چاہئیے کہ توقف کرے اور ارکانِ ایمان کو خود پر لازم کرے۔ تاکہ اسکا دین اسکے نفس کے مقابلے میں اسکی حفاظت کرے۔ اور وہ ایسے کام میں مشغول ہو جو اسکے رب کے نزدیک اسکے لئے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اور اسے جان لینا چاہئیے کہ توحید ایک جلیل القدر بات ہے، اور اس تک پہنچنا ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور توحید کے حوالے سے کلام کی ابتداء تو ہے، لیکن انتہاء کوئی نہیں۔ پس اس بات سے کا دھیان رکھو کہ کہیں تمہاری توحید ، شرک نہ بن جائے۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی اسکی حقیقت اور بلندیوں سے خوب آگاہ ہے۔
اور بندے کو چاہئیے کہ اپنے نفس پر شیطان کو تسلط پانے کا موقع نہ دے۔کیونکہ وہ ہر قلبی و بدنی عمل کی تاک میں رہتا ہے۔ اور قلیل لیکن یقینی باتیں، ان باتوں سے بہرحال بہتر ہیں جو اگر چہ کثیر ہوں، لیکن ظن و تخمین اور گمان پر مبنی ہوں۔
ترجمہ ختم ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔