وحدت الوجود

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عبدالغنی العمری کی تحریر میں سے ایک اقتباس کا عربی ترجمہ پیش کیا جائے۔۔۔۔فرماتے ہیں :
ہم پڑھنے والے سے ایک سوال پوچھتے ہیں لیکن جواب کے منتظر نہیں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اس پر ذرا غور کرے تاکہ اسے اپنے مرتبے کا علم ہوسکے ، تاکہ وہ اس مرتبے کے مطابق اپنا عمل رکھے، اور مھض تقلیدی طور پر سنی سنائی باتوں کے پیچھے نہ چلے۔ایسی سنی سنائی باتیں جنکی صحت کا اسےکوئی علم نہیں، اور نہ ہی اسے ان پر کوئی واضح برہان میسر آسکی۔ پس ہم کہتے ہیں کہ:
۔۔۔کیا تم موجود ہو؟ اور اگر تم موجود ہو، تو کیا تمہارا یہ وجود، وجودِ حق ہے یا اسکا غیر ہے؟
۔۔۔پس اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کے سوا ہے (اسکا غیر ہے)، تو یہی تو شرکِ جلی ہے۔ اور اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کا عین ہے، تو یہی وہ معنوی توحید ہے جسکی طرف لغت بھی اشارہ کرتی ہے۔ یعنی دو یا دو سے زائد کو ایک بنادینا۔
۔۔۔لیکن اس توحید کو کسی مضبوط برہان کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر وجودِ حق تمہارے لئے ہے، تو بالفاظِ دگر تم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو عدم سے ملحق کردیا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔کیونکہ وہ تمہیں محیط ہے، جبکہ تم اسے محیط نہیں ہو۔ کیونکہ یہ سب بات، وجود کی حیثیت سے کی جارہی ہے۔
۔۔۔لیکن اگر وجودِ حق اللہ کیلئے ہے، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اپنے آپ کو عدم سے ملحق کردیا۔لیکن اگر تم معدوم ہو، تو مشہود کیسے ہوگئے؟
۔۔۔یا پھر یہ کے ذات کے دو اعتبارات ہیں، ایک وجود اور ایک عدم؟ پس اگر بات ایس ہے تو ایک موصوف دو متضاد صفتوں سے بیک وقت کیسے متصف ہوسکتا ہے؟ یا یہ کہ دو متضاد صفات ایک ہی مقام و محل پر کیسے وارد ہوسکتی ہیں؟
۔۔۔یا پھر یہ کہ وجود و عدم کا اکٹھا ہونا، محض ایک عقلی اور ذہنی بات ہے، جبکہ حقیقت میں یہ تضاد کوئی بنیاد نہیں رکھتا؟
۔۔۔پس اگر عدم مشہود ہوسکتا ہے تو ایک مشہود دوسرے مشہود سے کیسے ممتاز ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کی حقیقت ایک ہی ہو (یعنی عدم)؟؟
یہ ایسے سوالات ہیں کہ جنکا جواب سوائے عارف باللہ کے، اور کوئی نہیں دے سکتا۔ اور جو ایسی معرفت کا حامل نہیں ہے، اسے چاہئیے کہ توقف کرے اور ارکانِ ایمان کو خود پر لازم کرے۔ تاکہ اسکا دین اسکے نفس کے مقابلے میں اسکی حفاظت کرے۔ اور وہ ایسے کام میں مشغول ہو جو اسکے رب کے نزدیک اسکے لئے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اور اسے جان لینا چاہئیے کہ توحید ایک جلیل القدر بات ہے، اور اس تک پہنچنا ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور توحید کے حوالے سے کلام کی ابتداء تو ہے، لیکن انتہاء کوئی نہیں۔ پس اس بات سے کا دھیان رکھو کہ کہیں تمہاری توحید ، شرک نہ بن جائے۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی اسکی حقیقت اور بلندیوں سے خوب آگاہ ہے۔
اور بندے کو چاہئیے کہ اپنے نفس پر شیطان کو تسلط پانے کا موقع نہ دے۔کیونکہ وہ ہر قلبی و بدنی عمل کی تاک میں رہتا ہے۔ اور قلیل لیکن یقینی باتیں، ان باتوں سے بہرحال بہتر ہیں جو اگر چہ کثیر ہوں، لیکن ظن و تخمین اور گمان پر مبنی ہوں۔
ترجمہ ختم ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
جناب، میں نے تو سوال ان سے کیا تھا جنہوں نے یہ اقتباس شئیر کیا تھا۔ میں نے یہ اقتباس شئیر کیا ہوتا تو ضرور آپ مجھ سے سوال کرتے۔
محترم بھائی دلی معذرت غلطی ہوئی ۔ " آپ کا اقتباس " میرے سوال کو غلط جگہ پہنچا گیا ۔
 

نایاب

لائبریرین
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عبدالغنی العمری کی تحریر میں سے ایک اقتباس کا عربی ترجمہ پیش کیا جائے۔۔۔ ۔فرماتے ہیں :
ہم پڑھنے والے سے ایک سوال پوچھتے ہیں لیکن جواب کے منتظر نہیں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اس پر ذرا غور کرے تاکہ اسے اپنے مرتبے کا علم ہوسکے ، تاکہ وہ اس مرتبے کے مطابق اپنا عمل رکھے، اور مھض تقلیدی طور پر سنی سنائی باتوں کے پیچھے نہ چلے۔ایسی سنی سنائی باتیں جنکی صحت کا اسےکوئی علم نہیں، اور نہ ہی اسے ان پر کوئی واضح برہان میسر آسکی۔ پس ہم کہتے ہیں کہ:
۔۔۔ کیا تم موجود ہو؟ اور اگر تم موجود ہو، تو کیا تمہارا یہ وجود، وجودِ حق ہے یا اسکا غیر ہے؟
۔۔۔ پس اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کے سوا ہے (اسکا غیر ہے)، تو یہی تو شرکِ جلی ہے۔ اور اگر تمہارا وجود، وجودِ حق کا عین ہے، تو یہی وہ معنوی توحید ہے جسکی طرف لغت بھی اشارہ کرتی ہے۔ یعنی دو یا دو سے زائد کو ایک بنادینا۔
۔۔۔ لیکن اس توحید کو کسی مضبوط برہان کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر وجودِ حق تمہارے لئے ہے، تو بالفاظِ دگر تم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو عدم سے ملحق کردیا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔کیونکہ وہ تمہیں محیط ہے، جبکہ تم اسے محیط نہیں ہو۔ کیونکہ یہ سب بات، وجود کی حیثیت سے کی جارہی ہے۔
۔۔۔ لیکن اگر وجودِ حق اللہ کیلئے ہے، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اپنے آپ کو عدم سے ملحق کردیا۔لیکن اگر تم معدوم ہو، تو مشہود کیسے ہوگئے؟
۔۔۔ یا پھر یہ کے ذات کے دو اعتبارات ہیں، ایک وجود اور ایک عدم؟ پس اگر بات ایس ہے تو ایک موصوف دو متضاد صفتوں سے بیک وقت کیسے متصف ہوسکتا ہے؟ یا یہ کہ دو متضاد صفات ایک ہی مقام و محل پر کیسے وارد ہوسکتی ہیں؟
۔۔۔ یا پھر یہ کہ وجود و عدم کا اکٹھا ہونا، محض ایک عقلی اور ذہنی بات ہے، جبکہ حقیقت میں یہ تضاد کوئی بنیاد نہیں رکھتا؟
۔۔۔ پس اگر عدم مشہود ہوسکتا ہے تو ایک مشہود دوسرے مشہود سے کیسے ممتاز ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کی حقیقت ایک ہی ہو (یعنی عدم)؟؟
یہ ایسے سوالات ہیں کہ جنکا جواب سوائے عارف باللہ کے، اور کوئی نہیں دے سکتا۔ اور جو ایسی معرفت کا حامل نہیں ہے، اسے چاہئیے کہ توقف کرے اور ارکانِ ایمان کو خود پر لازم کرے۔ تاکہ اسکا دین اسکے نفس کے مقابلے میں اسکی حفاظت کرے۔ اور وہ ایسے کام میں مشغول ہو جو اسکے رب کے نزدیک اسکے لئے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اور اسے جان لینا چاہئیے کہ توحید ایک جلیل القدر بات ہے، اور اس تک پہنچنا ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور توحید کے حوالے سے کلام کی ابتداء تو ہے، لیکن انتہاء کوئی نہیں۔ پس اس بات سے کا دھیان رکھو کہ کہیں تمہاری توحید ، شرک نہ بن جائے۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی اسکی حقیقت اور بلندیوں سے خوب آگاہ ہے۔
اور بندے کو چاہئیے کہ اپنے نفس پر شیطان کو تسلط پانے کا موقع نہ دے۔کیونکہ وہ ہر قلبی و بدنی عمل کی تاک میں رہتا ہے۔ اور قلیل لیکن یقینی باتیں، ان باتوں سے بہرحال بہتر ہیں جو اگر چہ کثیر ہوں، لیکن ظن و تخمین اور گمان پر مبنی ہوں۔
ترجمہ ختم ہوا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بہت خوب حکیمانہ انداز کی نصیحت
 

تلمیذ

لائبریرین
اور بندے کو چاہئیے کہ اپنے نفس پر شیطان کو تسلط پانے کا موقع نہ دے۔کیونکہ وہ ہر قلبی و بدنی عمل کی تاک میں رہتا ہے۔ اور قلیل لیکن یقینی باتیں، ان باتوں سے بہرحال بہتر ہیں جو اگر چہ کثیر ہوں، لیکن ظن و تخمین اور گمان پر مبنی ہوں۔

یہ بات اس اقتباس کا حاصل ہے۔ اور تمام مباحث میں اسے ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔
 
خاصاں دی گل ، عاماں اگے ، نئیں مناسب کرنی مِٹھی کھیر پکا محمد، ،،،کُتیاں اگے دھرنی
نایاب جی دیکھئے محمود احمد غزنوی جی بھی میاں محمد بخش صاحب سے اتفاق کرتے ہیں۔اور پھر ان لوگوں سے بات کرنا تو ہر خوشہ زخمانے والی بات ہے۔
درست فرمایا بابا جی۔۔۔لیکن اُس اقتباس سے ایک بات سامنے آئی کہ :
وہ لوگ صریح طور پر شرکِ جلی میں مبتلا ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ خدا وہاں ہے، ہم یہاں ہیں خدا یہاں نہیں۔۔اور یہ کہ خدا بھی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہم بھی ہیں، ہونا ایک صفت ہے اور خدا بھی ہے، اسی طرح ہم بھی ہیں۔۔۔
یہی تو شرک ہے۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
درست فرمایا بابا جی۔۔۔ لیکن اُس اقتباس سے ایک بات سامنے آئی کہ :
وہ لوگ صریح طور پر شرکِ جلی میں مبتلا ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ خدا وہاں ہے، ہم یہاں ہیں خدا یہاں نہیں۔۔اور یہ کہ خدا بھی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہم بھی ہیں، ہونا ایک صفت ہے اور خدا بھی ہے، اسی طرح ہم بھی ہیں۔۔۔
یہی تو شرک ہے۔۔

مجھے ایک بات یاد آ گئی کہ میرے دوست کی والدہ کہا کرتی تھیں "وہابیوں کو ہر جگہ غیر اللہ ہی نظر آتا ہے۔ اللہ کہیں نظر نہیں آتا۔" :)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
"ہمہ اوست" کے فلسفے کو درست مانا جائے یا "ہمہ از اوست" کے فلسفے کو ۔۔۔ اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ بات تو نیت کی ہے ۔۔۔ راہِ توحید پر چلنے والے کبھی بھٹکتے نہیں ۔۔۔
 
محمود احمد غزنوی جی سرِ وحدت سے اتنی آشنائی اور عواملِ جمعیت سے اتنی آشنائی کہ انسان کثرات سے نکل کر جمع الجمع کے مقام تک رسائی حاصل کرلے بہت دشوار ہے جب کسی کو یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے تو وہ ہر کسی کے سامنے اس مقام کا راز نہیں بیان کرسکتا ہے کیونکہ اس کے لیئے بڑی تربیت اور ازحد تہذیب نفس کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیئے تو صوفیوں کو اہلِ راز کہا گیا ہے۔
گفت پیغمبر کہ ہر کو سرَ نہفت
زود باشد بمراد خویش جفت
دانہ چوں اندر زمیں پنہاں شود
سرِ آں سر سبزی بستاں شود
رازِ عرفانی کے افشاء میں دو قباحتیں ہیں ایک تو اہل ظاہر اور بے مغز پوست پرستوں کی طرف سے اور دوسرے اپنے آپ کو عالم ظاہر کرنے والوں کی طرف سے ۔ یہ ظاہری جنگ و جدل کے زور پر استدلال کرنا چاہتے ہیں جب تک عقل کا قیاس نور عرفان سے منور نہ ہوجائے لاکھ عقل سر پٹکے حق تک اس کی رسائی ممکن نہیں۔
 

باباجی

محفلین
محمود احمد غزنوی جی سرِ وحدت سے اتنی آشنائی اور عواملِ جمعیت سے اتنی آشنائی کہ انسان کثرات سے نکل کر جمع الجمع کے مقام تک رسائی حاصل کرلے بہت دشوار ہے جب کسی کو یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے تو وہ ہر کسی کے سامنے اس مقام کا راز نہیں بیان کرسکتا ہے کیونکہ اس کے لیئے بڑی تربیت اور ازحد تہذیب نفس کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیئے تو صوفیوں کو اہلِ راز کہا گیا ہے۔
گفت پیغمبر کہ ہر کو سرَ نہفت
زود باشد بمراد خویش جفت
دانہ چوں اندر زمیں پنہاں شود
سرِ آں سر سبزی بستاں شود
رازِ عرفانی کے افشاء میں دو قباحتیں ہیں ایک تو اہل ظاہر اور بے مغز پوست پرستوں کی طرف سے اور دوسرے اپنے آپ کو عالم ظاہر کرنے والوں کی طرف سے ۔ یہ ظاہری جنگ و جدل کے زور پر استدلال کرنا چاہتے ہیں جب تک عقل کا قیاس نور عرفان سے منور نہ ہوجائے لاکھ عقل سر پٹکے حق تک اس کی رسائی ممکن نہیں۔
واہ بجا فرمایا آپ نے سر جی
پل پل آگ پہ گزرتا ہے ایک َ اہلِ راز کا
کندن بننے کا عمل اتنا آسان نہیں ہے
اور اس پر ٹینشن یہ ہوتی ہے کہ
آگ ہو کر ، ٹھنڈک پہنچانے کا حکم ہے
 
1101530148-2.gif

1101530742-2.gif
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
وحدت الوجود پر ہونے والی بحث "لایعنی" نہیں ہے ۔۔۔ خاص اور عام کا سوال اٹھایا جانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے ۔۔۔ وحدت الوجود کا نظریہ ایسا باطل کب سے ہو گیا کہ اکیسویں صدی میں اس کا دفاع نہ کیا جا سکے ۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
علامہ سر محمد اقبال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
"خودی یا انا ، ذات انسانی میں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے اور وجود حقیقی وہی ہے جسے اپنی حقیقت کا شعور ہو جتنا کسی کا شعور ذات گہرا ہے اتنا ہی مدارج حقیقت میں اس کا درجہ بلند ہے " ﴿ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ صفحہ 110﴾
مزید فرماتے ہیں :
"یہ صرف تصوف تھا جس نے کوشش کی کہ عبادت اور ریاضت کے ذریعے واردات باطن کی وحدت تک پہنچے قرآن پاک کے نزدیک یہ واردات علم کا ایک سرچشمہ ہیں جن میں عالم تاریخ اور عالم فطرت کا اضافہ کر لینا چاہئے اور ان واردات کی نشو نما حضرت حلاج رحمہ اللہ تعالی کے نعرہ انا الحق میں اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی "
مزید فرماتے ہیں:
"ابن خلدون نے محسوس کر لیا تھا کہ ان مراتب کی تخلیق کے لئے ایسے منہاج علم کی ضرورت ہے جو فی الواقع موثر ہو جدید نفسیات کو بھی اگرچہ اس قسم کی کسی منہاج کی ضرورت کا اعتراف ہے لیکن اس کا قدم ابھی اس اکتشاف سے آگے نہیں بڑھا کہ صوفیانہ مراتب شعور کی خصوصیات کیا ہیں ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے اس قسم کے احوال اور مشاہدات کی تحقیق علمی نہج پر کی جائے جیسے حضرت حلاج کو پیش آئے جو کہ علم کا ایک سرچشمہ ہیں لیکن ہم ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے "

پچھلے دنوں پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔۔۔ اقبال کا تصورِ حقیقتِ مطلق از محمد قمر اقبال ۔۔۔
اس مقالے کے ایک باب میں صاحبِ مقالہ نے وحدت الوجود کے حوالے سے علامہ اقبال کے افکار کا نچوڑ پیش کیا ہے ۔۔۔ سوچا، کیوں نہ شیئر کر دیا جائے ۔۔۔

وحدۃ الوجود کی جانب علامہ اقبال کے رجحانات سے متعلق جو حقائق سامنے آتے ہیں، انہیں اجمالاََ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ:
1۔ علامہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں تقریباََ 1908ء تک وحدۃ الوجود کے قائل رہے۔ اس دور میں وہ نو فلاطونی، ویدانتی اور شنکر اچاریہ کے نظریہء وحدۃ الوجود کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔
2۔ علامہ قیامِ یورپ کے دوران مستشرقین کی کتب اور گفتگوؤں سے مستفیض ہوئے جو وحدۃ الوجود کی اصل ویدانت اور نوفلاطونیت کو قرار دیتے ہوئے اسے حلول اور اتحاد کا مترادف سمجھتے ہیں نیز قیامِ یورپ کے دوران اور وطن لوٹ کر علامہ نے ابنِ عربی اور وحدۃ الوجود کے نقادوں کی کتب کا مطالعہ کیا تو وہ وحدۃ الوجود کے مخالف ہو گئے اور 1910ء سے لگ بھگ 1922ء تک اس نظریے کو حلول اور اتحاد کا مترادف سمجھتے ہوئے، اس کی شدید مخالفت پر کمربستہ رہے۔ 'اسرارِ خودی' اور اس کے نتیجے میں ہونے والی قلمی معرکہ آرائی اس مخالفت کا نقطہء عروج ہے۔
3۔ اس بحث و مباحثہ اور بعض بزرگوں اور علماء سے خط و کتابت اور گفت گو کے نتیجے میں علامہ غیر اسلامی اور اسلامی وحدۃ الوجود میں فرق کرنے لگے اور 'اسرارِ خودی' کے بعد بتدریج اسلامی وحدۃ الوجود کی جانب بڑھنے لگے اور بالآخر پوری طرح اس کے قائل ہو گئے۔
4۔ اقبال نظریہء وحدۃ الوجود کو کچھ تحدیدات کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ وہ ذاتِ باری کو کائنات میں جاری و ساری تسلیم کرتے ہیں مگر حلول و اتحاد کے قائل نہیں۔ اسلام کے مقتدر وحدۃ الوجودی صوفیاء اور علماء بھی اس کے قائل نہیں۔
5۔ اس طرح اقبال، انسانی انا کے انائے مطلق میں فنا کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ہر صورت میں انائے انسانی کی بقا پر زور دیتے ہیں۔
6۔ علامہ اقبال، ذات باری کے کائنات میں جاری و ساری ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اگر سریانیت کا اقرار کرتے ہیں تو ساتھ ہی وہ ذاتِ باری کی ماورائیت پر بھی زور دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ ذاتِ باری کو 'فرد' اور 'انا' کہتے ہیں اور پھر 'فردِ کامل' اور 'انائے مطلق' قرار دے کر اس کی ماورائیت کا اقرار کرتے ہیں۔
7۔ اقبال کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عالم، ذاتِ الٰہیہ کا عین تو نہیں مگر غیر بھی نہیں یعنی علامہ کا تصورِ وحدۃ الوجود لاعین اور لاغیر کے تصور پر قائم ہے۔
8۔ حقیقتِ اصلیہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ذاتِ باری یعنی حقیقتِ مطلقہ ہے۔ کائنات اور اس کی اشیاء و مظاہر اعتباری ہیں، یعنی اصل میں یہ کائنات تجلیء صفات یا ظہورِ ذات ہے، اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔
میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لامکاں ہے
یہ جہاں ترا جہاں ہے ۔۔۔۔۔ کہ تری کرشمہ سازی
9۔ اقبال کے تصورِ وحدۃ الوجود میں ذاتِ باری کے علاوہ انسان بھی موجود ہے مگر اس کا وجود ظلی ہے، اصلی نہیں اور وہ قائم بالذات نہیں۔
10۔ نفسِ انسانی یا خودی، ذاتِ مطلق کے اظہار کی ایک کیفیت ہے، لہٰذا واجب اور ممکن دو متضاد الاصل یا متضاد النوع وجود نہیں۔
11۔ وجود اگر مطلق ہے تو خدا ہے اور اگر وہی وجود متعین ہو جائے تو انسانی خودی ہے۔
12۔ خودی بہ اعتبارِ وجود عین خدا ہے لیکن بااعتبارِ ذات وہ غیر خدا ہے۔ خودی بااعتبارِ وجود عین خدا ہونے سے اقبال کی مراد یہ ہے کہ انسانی خودی (انائے مقید) مطلق خودی (انائے مطلق) کا مظہر ہے کیوں کہ ان کے نزدیک ذات باری 'انا' ہے یعنی 'انائے مطلق' اور انا سے اناؤں ہی کا صدور ہوتا ہے۔ یقیناََ یہ عینیت، حلول یا اتحاد نہیں کیوں کہ اقبال کے نزدیک خدا اور انسان میں بلحاظِ ذات مغائرت پائی جاتی ہے، یعنی بندہ لاکھ ترقی کرے مگر خدا نہیں بن سکتا۔ خدا، خدا ہے اور بندہ، بندہ ہے۔ حقیقتاََ ابن عربی کا بھی یہی نظریہ ہے۔
13۔ اقبال کے نزدیک، حقیقتِ مطلقہ کی تعبیر، استدامِ محض ہی کے طور پر ممکن ہے، جس میں فکر، حیات اور غایت باہم مدغم ہو کر ایک وحدتِ نامیہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ علامہ حقیقتِ مطلقہ کا قیاس ایک خودی ۔۔۔ محیط بر کل خودی ۔۔۔۔ کی وحدت پر کرتے ہیں جو ہر فرد کی زندگی، مشیت اور فکر کا حقیقی سرچشمہ ہے۔
دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود
یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر
مگر ہر کہیں بے چگوں بے نظیر
14۔ علامہ کا نظریہ وحدۃ الوجود، حضرت مجدد الف ثانی کے نظریہ وحدۃ الشہور کے قریب دکھائی دیتا ہے لیکن ان کے آخری دور کے وحدۃ الوجودی خیالات کی شیخ اکبر کے خیالات سے خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ویسے بھی وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہور میں محض نزاعِ لفظی ہے ورنہ دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے۔
 

فرسان

محفلین
نایاب بھائی الدنیا جیفہ و طالبہ کلب دنیا مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔

خاصاں دی گل ، عاماں اگے ، نئیں مناسب کرنی
محمود غزنوی الف نظامی

وحدت الوجود بلا شبه انتهائي خواص لوگوں كے بس كي بات هے۔

اس كو سمجھنے كيلئے تقريبا اتنے هي دم خم كي ضرورت هے جتنا كه تثليث كو سمجھنے كيلئے۔

يعني خدا ايك هي هے مگر تين هے۔ ايك تين كيسے هو سكتا هے اس كے لئے علوم ومعارف سے بھری بحثيں آپ كو روم میں مل سكتي هیں۔
مگر افسوس كه يه بحثيں صرف خواص كي سمجھ میں آسكتي ہیں۔

علوم اور عقل اور برصغير میں حديث كي آمد كے بعد صوفيوں كو بھی ويسا هي وختا پڑا هے جيسا كه عيسائيت كو سائنس سے پڑا تھا۔

لوگوں كو چلے چالیسويں اور درباروں كي خاك چھاننے پر لگا كر خود خواص بنے بيٹھے ہیں۔

بجائے اس كے كه كسي كي خطا په اس كے لئے دعا كي جائے یہاں صديوں اس دفاع جاري رهتا هے۔

كاش صوفي شيخ الطائفه كي سنهري نصيحت كو پلے باندھتے "عِلْمُنَا مَضْبُوطٌ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، مَنْ لَمْ يَحْفَظِ الكِتَابَ وَيَكْتُبِ الحَدِيْثَ وَلَمْ يَتَفَقَّهْ، لاَ يُقْتَدَى بِهِ

یہاں حديث و فقه كي الف با معلوم نهيں هوتي اور خواص بنے كا جي چراتا ہے۔
 

فرسان

محفلین
تصوف كو خود ساتويں صدي كي تاريخي غلطي كي لونڈی بنا دينا خود تصوف كے ساتھ انتهائي بھیانک ظلم هوگا۔
 
وحدت الوجود بلا شبه انتهائي خواص لوگوں كے بس كي بات هے۔

اس كو سمجھنے كيلئے تقريبا اتنے هي دم خم كي ضرورت هے جتنا كه تثليث كو سمجھنے كيلئے۔

يعني خدا ايك هي هے مگر تين هے۔ ايك تين كيسے هو سكتا هے اس كے لئے علوم ومعارف سے بھری بحثيں آپ كو روم میں مل سكتي هیں۔
مگر افسوس كه يه بحثيں صرف خواص كي سمجھ میں آسكتي ہیں۔

علوم اور عقل اور برصغير میں حديث كي آمد كے بعد صوفيوں كو بھی ويسا هي وختا پڑا هے جيسا كه عيسائيت كو سائنس سے پڑا تھا۔

لوگوں كو چلے چالیسويں اور درباروں كي خاك چھاننے پر لگا كر خود خواص بنے بيٹھے ہیں۔

بجائے اس كے كه كسي كي خطا په اس كے لئے دعا كي جائے یہاں صديوں اس دفاع جاري رهتا هے۔

كاش صوفي شيخ الطائفه كي سنهري نصيحت كو پلے باندھتے "عِلْمُنَا مَضْبُوطٌ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، مَنْ لَمْ يَحْفَظِ الكِتَابَ وَيَكْتُبِ الحَدِيْثَ وَلَمْ يَتَفَقَّهْ، لاَ يُقْتَدَى بِهِ

یہاں حديث و فقه كي الف با معلوم نهيں هوتي اور خواص بنے كا جي چراتا ہے۔
معذرت کے ساتھ صوفیوں کو کوئی وختہ نہیں پڑا ہے بلکہ صوفیاء الحمد للہ اب بھی موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہزارہا گنا اپڈگریٹڈ یعنی بتدریج آگے ہیں اتنی بلند و بالا کہ آپ جیسے بونے ان کو دیکھ بھی نہیں سکتے ہیں اور آپ کے ساتھ کوئی کیا بحث کرے کہ جس کی تبحر علمی کا اندازہ تو لفظ وختہ سے ہی ہوجاتا ہے کہ میرا مخاطب کتنا علم دان اور مہذب ہے ۔۔۔۔کسی سیانے نے سچ کہا ہے کہ انسان اپنی گفتگو سے پہچانا جاتا ہے۔ سو اپ پر یہ کہاوت صادق آتی ہے۔
 

فرسان

محفلین
حضرت شاه صاحب رحمه الله كو وجودي كهنے كے بارے میں احتياط اور تثبت سے كام لينا چاہیے۔

شاه صاحب فرماتے ہیں "وقد وقع عندنا أن المكشوفين صحيحان جميعا"۔ شاه صاحب نے ايك نئي جهت دي هے۔

اس مسئله میں شاه صاحب كي تحقيقات كا جائزه لينے كي فرصت مجھ میں سردست تو نهيں هے بهرحال وحدة الوجود كے اوپر حضرت شاه صاحب كے فرزند ارجمند كي توجيهات بھی ضرور سامنے ركھ كر كام كرنا چاہیے۔
 
Top