روز نامہ ایکسپریس پہلے اپنی بنیادی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنی اردو ہی درست کر لے، تنقید کرنے کے لیے تو ساری عمر پڑی ہے!کچھ نظر اخباروں میں مچی ہاہوکار اور صفہائے ماتم پہ
روزنامہ ایکسپریس سے
نا امیدواروں میں سے شاید کوئی کر سکےمشکل ہے جی، میں اتنا متغزل ہو سکتا تو اور کیا چاہئے تھا ۔
جنگ والوں کا بھی کوئی حال نہیں بلکہ یہ تو ایکسپریس سے بھی گئے گزرے ہو گئے، انھوں نے تو املاء میں خود "کرکٹ" کے ہی ٹکڑے کر ڈالے ہیں۔روزنامہ جنگ کی شراکت
ایکسپریس سے ہی
مشکل ہے جی آج کل کے صحافی حضرات سے ایسی توقعات رکھنا عبث ہے۔ اس سے بھی زیادہ دردناک اردو ٹی وی اینکرز خصوصاََ ماڈرن دکھائی دینے کی کوشش کرنے والی زنانہ اینکرز کی ہوتی ہے۔روز نامہ ایکسپریس پہلے اپنی بنیادی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنی اردو ہی درست کر لے، تنقید کرنے کے لیے تو ساری عمر پڑی ہے!
مشکل ہے جی آج کل کے صحافی حضرات سے ایسی توقعات رکھنا عبث ہے۔ اس سے بھی زیادہ دردناک اردو ٹی وی اینکرز خصوصاََ ماڈرن دکھائی دینے کی کوشش کرنے والی زنانہ اینکرز کی ہوتی ہے۔
وہ زمانے لد گئے جب اخباروں کے مدیر حضرات زباندانی پہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔
میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ مولانا ظفر علی خان نے خبر میں لفظ "فوتیدگی" استعمال کرنے پر اپنے بھانجے (نام یاد نہیں آ رہا) پہ ایسا غصہ کیا کہ اس کو کھڑے کھڑے نوکری سے ہی نکال دیا۔
وہ بے چارہ دھکے کھاتا کہیں بمبئی پہنچا اور بعد میں فلمی نغمے وغیرہ لکھ کر کافی نام کمایا۔
آج کل تو حال ہی کوئی نہیں ہے۔