ہمارا محبوب قومی مشغلہ: احمدیوں کو برا بھلا کہنا
وزیر اعظم عمران خان کی تشکیل کردہ معاشی مشاورتی کونسل میں ایک احمدی کا نام کیا آ گیا کہ جو لوگ ایسی چیزوں کو مسئلہ بنانے کا فن رکھتے ہیں انہوں نے بھونچال پیدا کر دیا۔ مشاورتی کونسل میں کوشش کی گئی ہے کہ اعلیٰ درجہ کے معاشی ماہرین چُنے جائیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر عاطف میاں ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ امریکہ کی مشہور پرنسٹن یونیورسٹی میں معیشت کے پروفیسر ہیں۔ اُن کی تعلیمی قابلیت یا جو اعزاز اُنہوں نے امریکہ میں حاصل کیا ہے اُس کے بارے میں کوئی اُنگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ لیکن پاکستان کے چند حلقوں میں اعتراض اُن کی احمدیت پہ ہے۔
یہ لوگ کم از کم خدا کو مانتے ہیں۔ لیکن فرض کیجیے کہ وہ کافر بھی ہوں تو اُس کا اُن کی علمی قابلیت سے کیا تعلق ہے؟ جو نام اِس مشاورتی کونسل میں شامل کیے گئے ہیں وہ کسی مسلک یا مذہب کی بنیاد پہ نہیں چُنے گئے۔ جس نے اپنے شعبے میں نام کمایا اور جن کی کوئی بین الاقوامی شناخت ہے اُن کو اِس کونسل میں شامل کیا گیا ہے تاکہ ملک و قوم کی خاطر بہتر سے بہتر معاشی مشورے مل سکیں ۔ کوئی سوالنامہ یہ نہیں پُر کروایا گیا کہ اِس کونسل کے ممبران پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں یا نہیں یا دیگر مذہبی عقائد کے پابند ہیں یا نہیں۔ لیکن ہماری سینیٹ کو دیکھیے جس کے چند ممبران نے ڈاکٹر عاطف میاں پہ سوال اُٹھایا ہے کہ یہ تو احمدی ہیں۔ 1974کی آئینی ترمیم کے حوالے سے احمدی غیر مسلم قرار پائے ہیں۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کے تحت احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ اگر وہ ایسا کریں اور اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہیں تو یہ قابل دست اندازیِ پولیس مقدمہ ہو سکتا ہے۔
ہمارا قانون تو اَب یہی کہتا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ اِس ماجرے کا علمی قابلیت سے کیا تعلق ہے؟
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام احمدی تھے یعنی ہمارے آئین کے تحت غیر مسلم تھے۔ لیکن شعبہ طبیعات میں جو کچھ اُنہوں نے کیا اور جس کے تحت وہ نوبل انعام کے حقدار ٹھہرے اس کا اُن کی احمدیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ ہندو بھی ہو سکتے تھے، سکھوں کی پگڑی پہن سکتے تھے۔ یہودی رغبت رکھ سکتے تھے، پتھروں کی پوجا کر سکتے تھے۔ لیکن اِن ساری روشوں کا اُن کے شعبہ طبیعات کے کام سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
ہمارے اعلیٰ فوجی افسران امریکہ کے وار کالج میں کورسز کرنے جاتے ہیں۔ انگلستان کے ملٹری کالجز سے بھی اُن کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن یہ سوال کبھی نہیں اُٹھا کہ اُن کو عیسائی مسلک کے امریکن یا برطانوی افسران درس دیتے ہیں۔ ہمارے سب سے قریبی تعلقات چین سے ہیں۔ چین والے سرے سے خدا کو مانتے ہی نہیں۔ وہاں کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتی۔ لیکن چین سے تعلق استوار کرتے وقت ہم یہ چیزیں ملحوظ خاطر نہیں لاتے۔
امریکہ کی ترقی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے اعلیٰ ترین دماغ امریکی یونیورسٹیوں میں جانا اور وہاں مستقل قیام کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ بھی امریکی یونیورسٹیوں میں ہیں جیسا کہ ڈاکٹر عاطف میاں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم سے کہیں زیادہ انڈیا کے اساتذہ اور پروفیسروں نے امریکن یونیورسٹیوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ آپ کی اگر علمی قابلیت اُس معیار کی ہے تو امریکی یہ نہیں پوچھتے کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔ اپنے مخصوص شعبے میں آپ نے کچھ مقام حاصل کیا ہے تو امریکن اور یورپین یونیورسٹیوں میں آنکھیں بند کر کے آپ کو لے لیا جاتا ہے۔ ہمارا تماشہ دیکھئے۔ ڈاکٹر عاطف میاں پہ تو سب سے پہلا اعتراض کسی دینی مدرسے سے آنا چاہیے تھا‘ لیکن آیا کہاں سے ؟ سینیٹ آف پاکستان سے۔ جس سینیٹ کا معیار یہ ہو آپ اُس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟
پوچھنے والی بات تو صرف ایک ہے کہ ڈاکٹر عاطف میاں پاکستانی ہیں یا نہیں۔ اگر پاکستانی ہیں تو اُن کی مرضی کہ اُن کا مذہب کیا ہے۔ آئین میں صدر اور وزیر اعظم کیلئے شرط ہے کہ مسلمان ہونا ضروری ہے۔ لیکن کسی اور عہدے کیلئے ایسی کوئی شرط نہیں۔ ہندؤ، عیسائی، سکھ یا احمدی ہوں تو آپ فوج میں جا سکتے ہیں اور دیگر شعبوں میں بھی۔ یہ تو ایک مشاورتی کونسل ہے کہ پاکستان کو اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کیلئے اور اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے کیا کچھ کرنا چاہیے۔ ہماری سینیٹ کے فلسفیوں کو دیکھیں کہ اِس پہ اعتراض کر رہے ہیں۔ دنیا کہاں پہنچ گئی ہے۔ ہم ہیں اور ہمارا کشکول۔ لیکن کیسی باتوں پہ اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عاطف میاں اس قابل ہیں تو اُن کی رائے لیں اور اُن کی خدمات حاصل کریں۔ نماز کا وقت آئے تو آپ اپنی نماز پڑھیں اور اُن کو اپنے طور پہ عبادت کرنے دیں، اگر وہ عبادت کے عادی ہوں کیونکہ ہم میں سے بہت سے مذہبی رسومات کے بارے میں ڈھیلا رویہ رکھتے ہیں۔
پاکستان ٹائمز کے مشہور فوٹو گرافر ایف ای چوہدری‘ جو کہ کرسچیئن تھے‘ کے بیٹے سکواڈرن لیڈر سیسل چوہدری 1965ء کی جنگ کے ایک ہیرو ہیں۔ مختلف حوالوں سے قومی زندگی میں اقلیتوں کا کردار نمایاں رہا ہے۔ لیکن ہمارا اقلیتوں کے ساتھ کیا رویہ رہا ہے؟ گزشتہ سالوں میں کتنے ہی حملے کرسچیئن آبادیوں پہ ہوئے ہیں… گوجرہ، گوجرانوالہ اور سینٹ جوزف کالونی لاہور چند مثالیں ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی مخالفت مقتدر علماء اور دینی حلقوں نے تو کی، تمام اقلیتیں… کیا کرسچیئن، کیا احمدی، کیا کوئی اور… سب کے سب نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی کا کوئی مذہب ہو اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ بجائے اِس کے کہ اِن تاریخ ساز الفاظ کو سمجھا جائے ہمارے دینی اور سماجی حلقے جناح صاحب کے اِن الفاظ پہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔
جو آئین کی رُو سے غیر مسلم ہیں وہ غیر مسلم ہیں۔
یہ مسئلہ بحث طلب نہیں۔ لیکن مذہبی عقیدہ ایک چیز ہے اور پاکستانیت مختلف۔ ہم نے تو اقلیتوں کو یہاں سے بھگا دیا ہے۔ پڑھے لکھے اور انگریزی بولنے والے کرسچیئن سب امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا آباد ہو گئے۔ قومی زندگی میں اِن لوگوں کا بہت کردار تھا۔ اِن کیلئے حالات خراب کر کے نقصان ہمارا ہوا ہے۔ ہماری قومی زندگی اچھی چیزوں سے محروم ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عاطف میاں جیسے نامور معاشی ماہر کو مشاورتی کونسل میں شامل کرنا اچھا فیصلہ ہے۔ اِس بات پہ شور مچانے یا جھنڈے لہرانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مصلحت کی کسی غلط تشریح کے تحت اس فیصلے کو واپس نہیں لینا چاہیے۔ سینیٹ کے جن ممبران نے اِس بات کو مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے اُنہیں اپنے کیے پہ نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔