ایم اے او کالج: ہراسانی کے جھوٹے الزام پر ٹیچر کی خودکشی، قصور وار کون؟
ترہب اصغر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایم اے او کالج میں انگریزی پڑھانے والے لیکچرار افضل محمود نے ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات کے بعد اس کے غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر خودکشی کر لی ہے۔
ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد افضل محمود نے نو اکتوبر کو زہر کھا کر خودکشی کر لی تھی۔
افضل محمود کی لاش کے ساتھ ان کی اپنی تحریر میں ایک نوٹ موجود تھا جس پر تحریر تھا کہ وہ اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر رہے ہیں اور ان کی موت کے بارے میں کسی کی نہ تفتیش کریں اور نہ ہی زحمت دیں۔
پولیس اور میڈیکل رپورٹ سے ان کی خودکشی اور نوٹ لکھنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
محمد افضل کے ایک دوست نے ایک خط بی بی سی کو دکھایا جو اپنی موت سے ایک دن قبل انھوں نے اپنی سینیئر ساتھی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمان کو لکھا تھا۔ پروفیسر عالیہ محمد افضل کے خلاف ایک خاتون طالب علم کو ہراساں کرنے کی انکوائری کرنے والی کمیٹی کی سربراہ تھیں۔
افضل محمود نے خودکشی کیوں کی؟
خودکشی کرنے سے ایک روز قبل ڈاکٹر عالیہ کے نام اپنے خط میں افضل محمود نے شکایت کی کہ انھیں ہراس کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کے باوجود ابھی تک انھیں تحریری طور پر کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا ہے۔
’یہ بات ہر طرف پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور جب تک کمیٹی مجھے تحریری طور پر اس الزام سے بری نہیں کرتی میرے بارے میں یہ تاثر رہے گا کہ میں ایک برے کردار کا شخص ہوں۔
میری خواہش ہے کہ یا تو تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کر لی جائے تاکہ میرے علاوہ باقی اساتذہ جو طلبا کے ساتھ (پڑھائی کے معاملے میں) سختی کرتے ہیں یا انھیں امتحان میں کارکردگی کے مطابق نمبر دیتے ہیں نہ کہ دباؤ کے تحت، انھیں بھی مستقبل میں اس طرح کے الزامات سے بچایا جا سکے۔‘
افضل محمود نے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس جھوٹے الزام کی وجہ سے میرا خاندان پریشانی کا شکار ہے۔
’میری بیوی بھی آج مجھے بد کردار قرار دے کر جا چکی ہے۔ میرے پاس زندگی میں کچھ نہیں بچا۔ میں کالج اور گھر میں ایک بدکردار آدمی کے طور پر جانا جاتا ہوں۔ اس وجہ سے میرے دل اور دماغ میں ہر وقت تکلیف ہوتی ہے۔‘
افضل محمود آخر میں لکھتے ہیں کہ ’اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے۔‘
افضل محمود کے خلاف الزام جھوٹا ثابت ہو چکا تھا
افضل محمود پر ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام کی تفیتیش کرنے والی، ایم اے او ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ افضل محمود پر لگنے والا الزام دوران تفتیش جھوٹا ثابت ہوا تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان تک ماس کمیو نیکشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالب علم کی ایک درخواست پہنچی تھی جس میں لکھا تھا کہ سر افضل لڑکیوں کو گھور کر دیکھتے ہیں۔
’جب یہ کیس میرے پاس آیا تو میں نے اس لڑکی سے بات کی تو اس نے مجھے کہا کہ اصل میں سر ہمارے نمبر کاٹتے ہیں اور ہماری کلاس میں حاضری کم تھی اس لیے سر نے ہمارے نمبر کاٹ لیے۔‘
’میں نے ان سے کہا کہ اس بات کو سائیڈ پر کریں اور ان کے کریکٹر کی بات کریں اور یہ بتائیں کہ افضل نے ان کے ساتھ کبھی کوئی غیر اخلاقی بات یا حرکت کی؟
جس پر الزام لگانے والی طالبہ نے جواب دیا کہ ’نہیں مجھے تو نہیں کہا لیکن میری کلاس کی لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ ہمیں گھورتے ہیں۔‘
ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انھوں نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد انکوائری رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ افضل کے اوپر غلط الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ میں نے اپنی انکوائری رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ افضل بے قصور ہیں اور اس لڑکی کے کو وارننگ جاری کی جائے اور اسے سختی سے ڈیل کیا جائے۔
ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ انھوں نے افضل سے بھی انکوائری کی اور اپنی تمام تر تحقیقات فائنڈنگز میں لکھ دی تھیں۔
’ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی لکھا کہ اس معاملے کو خصوصی طور پر دیکھا جائے تاکہ آئندہ کوئی طالبہ کسی بھی استاد پر غلط الزام نہ لگائے۔‘
پھر افضل کو بری الذمہ قرار کیوں نہیں دیا گیا؟
ڈاکٹر عالیہ نے اس سوال پر کہا کہ ان کا مینڈیٹ اس معاملے کی تفتیش کر کے رپورٹ کالج پرنسپل کے حوالے کرنا تھا۔
’ہم نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے تین ماہ قبل پرنسپل صاحب کو بھجوا دی تھی۔ اگلے مرحلے میں پرنسپل صاحب نے افضل کو ایک کلیئرنس لیٹر جاری کرنا تھا جس میں یہ لکھا جاتا کہ افضل بے قصور ہیں اور ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔‘
ڈاکٹر عالیہ نے کہا کہ افضل نے مجھ سے جس سرٹیفیکٹ کا مطالبہ مرنے سے ایک دن پہلے کیا وہ جاری کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔ ایسا صرف کالج پرنسپل ہی کر سکتے تھے۔ بی بی سی نے کالج کے پرنسپل فرحان عبادت سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’افضل میرے پاس آیا ہی نہیں اگر وہ آتا تو میں اسے لیٹر جاری کر دیتا۔‘
ڈاکٹر فرحان نے کہا کہ انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد سے افضل نے ان سے کبھی بات نہیں کی جبکہ کہ افضل کو زبانی بتا دیا گیا تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کو کلیئر کیا جا چکا ہے۔
تاہم ڈاکٹر فرحان عبادت کے مطابق ’یہ معاملہ ڈاکٹر عالیہ نے حل کرنا تھا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘
ڈاکٹر فرحان کا کہنا ہے مجھے ڈاکٹر عالیہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان بچوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ہے۔
کیا ایک خط افضل کی جان بچا سکتا تھا؟
ڈاکٹر عالیہ رحمان کے مطابق ’میں نے افضل سے کہا کہ آپ ایک درخواست دے دیں کہ مجھے خط جاری کیا جائے میں وہ آگے تک پہنچا دوں گی۔‘
’8 اکتوبر کی دوپہر افضل میرے پاس آئے اس وقت میں کالج گیٹ سے گھر کے لیے نکل رہی تھی۔ انھوں نے مجھے ایک لیٹر دیا میں نے اس لیٹر کی پہلی تین چار لائنیں پڑھیں جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھے کلیرنس لیٹر جاری کردیں میں نے وہ اپنی فائل میں رکھا اور میں چلی گئی۔‘تاہم اگلے دن جب میں کالج پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ افضل نے خودکشی کرلی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’میری غلطی ہے کہ میں نے وہ لیٹر پورا نہیں پڑھا کیونکہ لیٹر کی آخری لائنوں میں لکھا تھا کہ میری تنخواہ میری والدہ کو دے دی جائے۔ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ افضل کھبی اپنی جان بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ہنستا کھیلتا رہتا تھا۔‘
ڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ ’افضل کی موت کے بعد میں نے پرنسپل صاحب کو وہ ایپلیکیشن دکھائی جو افضل نے مجھے دی تھی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ یہ تو افضل نے آپ کو لکھا ہے تو آپ اس کو دیکھیں جبکہ میں نے ان سے کہا کہ سر میں کیسے دیکھ سکتی ہوں جب تک آپ مجھے اجازت نہیں دیتے لکھ کر۔ انھوں نے جواب دیا کہ چھوڑ دیں جب تک ضرورت نہیں پڑتی آپ صرف اپنے کاغذات مکمل رکھیں، جب آپ سے کوئی مانگے تو دے دیجیے گا۔‘
تاہم ڈاکٹر فرحان نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ڈاکٹر عالیہ کا لیٹر افضل محمود کی موت کے بعد ان کے پاس لے کر آئیں۔
کیاانتظامیہ ہراس کے خلاف اقدامات کے طریقہ کار سے لا علم ہے؟
ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت نے دعویٰ کیا کہ انھیں ہراس کے خلاف اقدامات کا اختیار تو دیا گیا ہے لیکن اس بارے میں کوئی تربیت یا آگاہی نہیں دی گئی۔
’ہمیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ٹریننگ یا تربیت نہیں دی جاتی کہ ہم نے ایسے معاملات کو کیسے دیکھنا ہے۔‘
بی بی سی کی نامہ نگار کی جانب سے ڈاکٹر فرحان سے سوال کیا گیا کہ ’کیا تین مہینے میں میں آپ نے اس کیس کو فالو اپ کیا یا ان سٹوڈنٹس کے خلاف ڈسپلن کے تحت کوئی کارروائی کی یا افضل کی موت کے بعد آپ نے معاملے کی چھان بین کی؟ تو ڈاکٹر فرحان نے جواب دیا کہ ’نہیں یہ بات میرے ذہن ہی میں نہیں آئی کہ ایسا کرنا چاہیے۔‘
کالج پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ میں نے کلیئرنس خط افضل کو جاری نہیں کیا کیونکہ میں سمجھا کہ ڈاکٹر عالیہ نے افضل کو بتا دیا ہے۔ پرنسپل سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ تین ماہ کا وقت گزرنے کے بعد آپ نے اس کیس میں کیا؟ جس پر وہ کسی قسم کا جواب نہ دے سکے۔