اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ کسی بھی معرکے اور جنگ ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت قابل مذمت ہے۔ کسی بھی جنگ کے دوران اس تلخ حقيقت سے انکار ممکن نہيں ہے۔ ليکن ميں يہ واضح کر دوں کہ حکمت عملی کے اعتبار سے امريکہ کو بے گناہ شہريوں کی ہلاکت سے کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا بلکہ اس کے برعکس سفارتی لحاظ سے بے شمار مشکلات پيدا ہوتی ہيں۔ اس کے برعکس بےگناہ شہريوں کی ہلاکت سےدہشت گردوں کو جذبات بھڑکانے، معاشرے کو دھمکانے اور واقعے کو "استعمال" کرنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے ليے آپ ان تنظيموں کے پوسٹرز، بينرز، ويب سائٹس اور ديگر اشتہاری مواد کا جائزہ ليں۔ يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ دہشت گردوں کے پراپيگينڈے کا بنيادی مرکز اور خيال ہميشہ وہ تصاوير ہوتی ہيں جن ميں عورتوں اور بچوں کو ظلم کا شکار دکھايا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان واقعات کے حوالے سے حقائق اور اصل صورت حال کی تصديق کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہيں کی جاتی۔
يہ بات ياد رہنی چاہيے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد ابتدا ميں بھی اور اس وقت بھی بے گناہ شہريوں کی جان کی حفاظت ہے۔ اس ميں مسلمان اور غير مسلم دونوں شامل ہيں۔ اس کے برعکس دہشت گرد دانستہ بے گناہ شہريوں کو حکمت عملی کے تحت نشانہ بناتے ہيں اور اس کے بعد بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کو اپنی کاروائيوں کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دہشت گردی ايک بيماری ہے اور اس بيماری کا علاج نہ تو طے شدہ ہے اور نہ ہی مکمل۔ اگر آپ اس بيماری کا علاج روک ديں تو اس صورت ميں اس بيماری کی روک تھام ممکن نہيں اور يہ پورے جسم کو اثر انداز کرے گی۔ اس تناظر ميں آپ اس بيماری کے علاج کو ترک نہيں کر سکتے تا کہ کاميابی کا امکان برقرار رہے بصورت ديگر دہشت گردی کا مرض يقينی طور پر پھيلے گا اور سارے سماج پر اثرانداز ہو گا۔ اس کی ايک مثال ہم نے چند ماہ قبل سوات ميں ديکھی جب مسلح افراد نے تھوڑے ہی عرصے ميں باجوڑ اور دير کی طرف پيش قدمی شروع کر دی اور اس سے بھی آگے اپنے اثرو رسوخ ميں اضافے کے لیے ارادے ظاہر کر ديے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں سب سے بڑا چيلنج يہ ہے کہ دہشت گرد کسی مخصوص يونيفارم ميں اپنے آپ کو منظر عام پر لے کر نہيں آتے اور نہ ہی وہ کسی عسکری معرکے ميں طے شدہ اصول و ضوابط کی پيروی کرتے ہيں۔ اس معرکے کے ليے کوئ ميدان جنگ بھی مخصوص نہيں ہے۔ دہشت گرد ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو نہ صرف عام شہريوں کی صف ميں شامل رکھيں بلکہ ضرورت پڑنے پر انھيں بطور ڈھال بھی استعمال کريں۔
ظاہر ہے کہ پاکستانی، امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے کيے جانے والے ہر فوجی آپريشن کی تفصيل ميرے پاس نہيں ہے۔ اس ليے اس تھريڈ پر پوسٹ کی جانے والی تصاوير کی حقيقت کے حوالے سے ميری رائے حقائق پر نہيں بلکہ قياس کی بنياد پر ہو گی۔ ليکن اس کے باوجود ميں يہ بات آپ کو پورے وثوق کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ امريکی افواج مشترکہ آپريشن سے پہلے وہ تمام ممکنہ اقدامات اٹھاتی ہيں جس کے نتيجے ميں شہريوں کی جان و مال کا تحفظ يقينی بنايا جا سکے۔ اس کے مقابلے ميں طالبان اور عسکريت پسند دانستہ عام شہريوں ہی کو اپنی کاروائيوں کا نشانہ بناتے ہيں۔
يہ کوئ ڈھکی چپھی بات نہيں ہے کہ امريکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف باہم اتحادی ہيں۔ انکی باہمی تعاون اور وسائل کا اشتراک اس حکمت عملی کا حصہ ہےجس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے دونوں طرف موجود اس مشترکہ دشمن کا خاتمہ ہے جو بے گناہ افراد کو بے دريخ قتل کر رہا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov