وزیرِ اعظم نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے ڈیووس کے سفر کا خرچ ان کے دوستوں نے اٹھایا ہے

وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے ڈیووس کے سفر اور ٹھہرنے کا خرچ ان کے دو کاروباری دوستوں جناب اکرام سہگل اور جناب عمران چوہدری نے اٹھایا ہے۔


اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا​

ہم نے سنا تھا کہ "دیر از نو فری لنچ" ، اس مشہور کہاوت کے مصداق وزیرِ اعظم کے دوستوں کی یہ سخاوت ایک ایسی رشوت ہے جس کی وزیر اعظم پاکستان کو اجازت نہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ بحیثیت وزیر اعظم دنیا میں جہاں کہیں جائیں، حکومت پاکستان کے پیسے اور وسائل ہی کو بروئے کار لائیں۔ اس میں اگر بچت کرسکتے ہیں تو کریں ورنہ ان مراعات کا بھرپور استعمال کریں۔ ہمارا وزیرِ اعظم کوئی ٹٹ پونجیا نہیں ہونا چاہیے جو اپنے دوستوں کے خرچ پر زندگی گزارے۔

جب ان دوستوں کا احسان لیا ہے تو اس احسان کا بدلہ بھی چکانا پڑے گا۔ ظاہر ہے وزیراعظم یہ بدلہ اپنی جیب سے نہیں بلکہ ہم ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادا کریں گے جیسا کہ پچھلے پندرہ اٹھارہ مہینوں میں وہ اپنے ان دوستوں کے احساسات کے بدلے اتار رہے ہیں جنھوں نے الیکشن میں ان کی مدد کی تھی۔ نتیجہ کے طور پر عوام، دوائیوں کا بحران، بجلی، گیس کا بحران، آٹے چینی کا بحران سمیت کئی بحران سہہ چکے اور اپنے بچوں کے پیٹ کاٹ کر ان احسانات کا بدلہ چکایا ہے۔ اب خدارا مزید ایسا نہ کیجیے۔
 
مہذب دنیا کیسے سوچتی ہے۔ کیا وزیرِ اعظم اپنے عہدے پر ہوتے ہوئے دوستوں سے مراعات لے سکتا ہے؟ کیا ایسا کرتے ہوئے conflict of interest اور ethics کی بھی کوئی اہمیت ہے؟

کیا اسلامی تعلیمات بھی اس بارے میں نہیں سکھاتیں؟ کیا کانفلیکٹ آف انٹرسٹ اور اخلاقیات کے بارے میں اسلامی اور مغربی تہذیب میں کوئی بنیادی فرق ہے؟

Trudeau Holiday on Aga Khan’s Island Broke Ethics Law, Report Says
 

فرقان احمد

محفلین
مہذب دنیا کیسے سوچتی ہے۔ کیا وزیرِ اعظم اپنے عہدے پر ہوتے ہوئے دوستوں سے مراعات لے سکتا ہے؟ کیا ایسا کرتے ہوئے conflict of interest اور ethics کی بھی کوئی اہمیت ہے؟

کیا اسلامی تعلیمات بھی اس بارے میں نہیں سکھاتیں؟ کیا کانفلیکٹ آف انٹرسٹ اور اخلاقیات کے بارے میں اسلامی اور مغربی تہذیب میں کوئی بنیادی فرق ہے؟

Trudeau Holiday on Aga Khan’s Island Broke Ethics Law, Report Says
کیا میں وزیراعظم ہوں؟ اب تک اس سوال کا تسلی بخش جواب خان صاحب کو نہ مل سکا۔ جب یہ جواب مل جائے گا تو آپ کا اور ہمارا گلہ بھی امکانی طور پر دُور ہو جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
انہیں چاہیے کہ وہ بحیثیت وزیر اعظم دنیا میں جہاں کہیں جائیں، حکومت پاکستان کے پیسے اور وسائل ہی کو بروئے کار لائیں۔ اس میں اگر بچت کرسکتے ہیں تو کریں ورنہ ان مراعات کا بھرپور استعمال کریں۔ ہمارا وزیرِ اعظم کوئی ٹٹ پونجیا نہیں ہونا چاہیے جو اپنے دوستوں کے خرچ پر زندگی گزارے۔
جب ان دوستوں کا احسان لیا ہے تو اس احسان کا بدلہ بھی چکانا پڑے گا۔ ظاہر ہے وزیراعظم یہ بدلہ اپنی جیب سے نہیں بلکہ ہم ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادا کریں گے جیسا کہ پچھلے پندرہ اٹھارہ مہینوں میں وہ اپنے ان دوستوں کے احساسات کے بدلے اتار رہے ہیں جنھوں نے الیکشن میں ان کی مدد کی تھی۔ نتیجہ کے طور پر عوام، دوائیوں کا بحران، بجلی، گیس کا بحران، آٹے چینی کا بحران سمیت کئی بحران سہہ چکے اور اپنے بچوں کے پیٹ کاٹ کر ان احسانات کا بدلہ چکایا ہے۔ اب خدارا مزید ایسا نہ کیجیے۔
اس دلیل میں کوئی منطق نہیں ہے۔ جب پچھلی حکومتوں میں وزرا اعظم کا پورا پورا خاندان جہاز بھر کر ان عالمی کانفرنسز میں جاتا تھا تو ان کے اخراجات بھی سرکاری خزانہ یعنی عوام پر ٹیکس لگا کر ہی پورے کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان چور لٹیرے حکمرانوں نے اپنے گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کیا ہوا اور یوں سرکاری مراعات جن میں اس کی حفاظت کیلئے پولیس نفری، تزئین و آرائش کے اخراجات، بجلی، گیس، کھانے وغیرہ سب سرکاری خزانہ سے ہڑپ کئے جاتے تھے۔ ابھی کل پرسوں ہی خبر چل رہی تھی کہ شریف خاندان نے جاتی امرا کے ۴۰ سے زائد ملازمین فارغ کر دئے ہیں۔ یہ وہ ملازمین تھے جس کے اخراجات انہوں نے دوران اقتدار سرکاری خزانہ پر ڈالے ہوئے تھے۔ اور اقتدار سے نکلتے ہی مراعات کی کمی پر ان کو فارغ کر رہے ہیں۔
اس وقت وزیر اعظم عمران خان اپنے ذاتی گھر میں رہتے ہیں۔ اسے کیمپ آفس بھی ڈکلیئر نہیں کیا ہوا۔ نہ ہی قومی خزانہ سے اس کی حفاظت، تزئین و آرائش کیلئے کروڑوں روپے سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ نیز وہ امیر دوست جو عمران خان کے بیرون ملک ٹور فنڈ کر رہے ہیں وہ خود لمبے عرصہ سے تارکین وطن ہیں۔ ان کے پاکستان میں کوئی اسٹیکس نہیں جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جائے کہ یہ ایک قسم کی رشوت ہے۔
Who is Imran Chaudhry
Prime Minister Khan’s decades-old close friend Imran Chaudhry has been an ardent donor towards his charitable causes, mainly the Shaukat Khanum Memorial Hospital. Mr Chaudhry is a Dubai-based businessman and philanthropist, having investment in the United Arab Emirates, Bahrain and Saudi Arabia
Old friends picked up the tab for Davos trip: PM - Pakistan - DAWN.COM
 

جاسم محمد

محفلین
وزیر اعظم کو اُن کے گھر والوں نے "سیلف ریسپیکٹ" نہیں سکھائی ہوگی۔
عمران خان نے ساری عمر عزت سے کرکٹ کھیلی ہے۔ اس کی کمائی سے لندن میں ایک گھر خریدا جسے بیچ کر زرمبادلہ پاکستان لائے اور ان پیسوں سے اپنا بنی گالہ والا گھر بنایا۔ اس کی تمام تر منی ٹریل جو ۶۰ سے زائد بینک ڈاکومنٹس پر مشتمل تھی کو عمران خان اور ان کی اہلیہ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جمع کروایا تھا۔ جس پر عدالت نے ان کو صادق و امین قرار دیا تھا۔

یہ وہی بینک دستاویزات یا منی ٹریل ہیں جو قومی چور لٹیرے نواز شریف جمع نہ کروا سکے کیونکہ حرام کی کمائی کی دستاویزات نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ تاحیات نااہل ہیں۔
سیلف ریس پیکٹ حرام کی کمائی والے کی ہوتی ہے یا حق حلال سے کمانے والے کی؟
 
اس دلیل میں کوئی منطق نہیں ہے۔ جب پچھلی حکومتوں میں وزرا اعظم کا پورا پورا خاندان جہاز بھر کر ان عالمی کانفرنسز میں جاتا تھا تو ان کے اخراجات بھی سرکاری خزانہ یعنی عوام پر ٹیکس لگا کر ہی پورے کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان چور لٹیرے حکمرانوں نے اپنے گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کیا ہوا اور یوں سرکاری مراعات جن میں اس کی حفاظت کیلئے پولیس نفری، تزئین و آرائش کے اخراجات، بجلی، گیس، کھانے وغیرہ سب سرکاری خزانہ سے ہڑپ کئے جاتے تھے۔ ابھی کل پرسوں ہی خبر چل رہی تھی کہ شریف خاندان نے جاتی امرا کے ۴۰ سے زائد ملازمین فارغ کر دئے ہیں۔ یہ وہ ملازمین تھے جس کے اخراجات انہوں نے دوران اقتدار سرکاری خزانہ پر ڈالے ہوئے تھے۔ اور اقتدار سے نکلتے ہی مراعات کی کمی پر ان کو فارغ کر رہے ہیں۔
اس وقت وزیر اعظم عمران خان اپنے ذاتی گھر میں رہتے ہیں۔ اسے کیمپ آفس بھی ڈکلیئر نہیں کیا ہوا۔ نہ ہی قومی خزانہ سے اس کی حفاظت، تزئین و آرائش کیلئے کروڑوں روپے سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ نیز وہ امیر دوست جو عمران خان کے بیرون ملک ٹور فنڈ کر رہے ہیں وہ خود لمبے عرصہ سے تارکین وطن ہیں۔ ان کے پاکستان میں کوئی اسٹیکس نہیں جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جائے کہ یہ ایک قسم کی رشوت ہے۔
Who is Imran Chaudhry
Prime Minister Khan’s decades-old close friend Imran Chaudhry has been an ardent donor towards his charitable causes, mainly the Shaukat Khanum Memorial Hospital. Mr Chaudhry is a Dubai-based businessman and philanthropist, having investment in the United Arab Emirates, Bahrain and Saudi Arabia
Old friends picked up the tab for Davos trip: PM - Pakistan - DAWN.COM
بھائی جب اخلاقیات میں کوئی منطق نہیں ہے تو پھر وہ جو چاہے کرتے پھریں، کس نے روکا ہے؟

نواز شریف اور زرداری نے جو کیا، آپ جواب میں ان کا کنڈکٹ کیسے پیش کرسکتے ہیں۔ جیسے ہم نے لکھا ہے conflict of interest اور ethics پر بات ہورہی ہے ۔ جو شخص ان باتوں سے یکسر عاری ہو، اس کے متعلق اور کیا بات ہوسکتی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
کیا میں وزیراعظم ہوں؟ اب تک اس سوال کا تسلی بخش جواب خان صاحب کو نہ مل سکا۔ جب یہ جواب مل جائے گا تو آپ کا اور ہمارا گلہ بھی امکانی طور پر دُور ہو جائے گا۔
عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو روایت سے ہٹ کر ایک منفرد وزیر اعظم دیکھنے کو ملے گا۔ جو عالمی فورمز پر ملک و قوم کی نمائندگی کرتے وقت پرچیوں کا سہارا نہیں لے گا۔ جو بیرون ممالک سے ملنے والی امداد اپنی بیگم کو بطور تحفہ پیش نہیں کرے گا۔ جو سرکاری اخراجات میں کمی لائے گا۔
عمران خان قوم سے کئے گئے انہی وعدوں پر عمل پیرا ہیں لیکن اس ناشکری قوم کو یہ سب پسند نہیں۔ اسے وہی دو نمبر وہی پرچی والے اور زلزلہ زدگان کیلئے عطیہ کئے جانے والا ہار اپنی بیگم کو آگے تحفہ کر دینے والے کرپٹ وزرا اعظم ہی پسند ہیں۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو روایت سے ہٹ کر ایک منفرد وزیر اعظم دیکھنے کو ملے گا۔ جو عالمی فورمز پر ملک و قوم کی نمائندگی کرتے وقت پرچیوں کا سہارا نہیں لے گا۔ جو بیرون ممالک سے ملنے والی امداد اپنی بیگم کو بطور تحفہ پیش نہیں کرے گا۔ جو سرکاری اخراجات میں کمی لائے گا۔
عمران خان قوم سے کئے گئے انہی وعدوں پر عمل پیرا ہیں لیکن اس ناشکری قوم کو یہ سب پسند نہیں۔ اسے وہی دو نمبر وہی پرچی والے اور زلزلہ زدگان کیلئے عطیہ کئے جانے والا ہار اپنی بیگم کو آگے تحفہ کر دینے والے کرپٹ وزرا اعظم ہی پسند ہیں۔ :)
پرچی والے وزیراعظم آپ کے اعصاب پر سوار ہو چکے ہیں۔ :) اب اس کا کیا علاج!
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی جب اخلاقیات میں کوئی منطق نہیں ہے تو پھر وہ جو چاہے کرتے پھریں، کس نے روکا ہے؟

نواز شریف اور زرداری نے جو کیا، آپ جواب میں ان کا کنڈکٹ کیسے پیش کرسکتے ہیں۔ جیسے ہم نے لکھا ہے conflict of interest اور ethics پر بات ہورہی ہے ۔ جو شخص ان باتوں سے یکسر عاری ہو، اس کے متعلق اور کیا بات ہوسکتی ہے؟
عمران چوہدری جنہوں نے وزیر اعظم کا حالیہ ڈیوس کا دورہ فنڈ کیا ہے وہ ماضی میں عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال میں بھی بھرپور عطیات کر چکے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمران خان کے اقتدار میں آنے کے امکانات صفر تھے۔ ایسے شخص پر کانفلکٹ آف انٹرسٹ کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اگر اس فنڈنگ کے بدلہ عمران خان قومی خزانہ کو چونا نہیں لگا رہے بلکہ سرکاری اخراجات میں کمی لا رہے ہیں تو یہ ایک مثبت فعل ہے۔
 
عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو روایت سے ہٹ کر ایک منفرد وزیر اعظم دیکھنے کو ملے گا۔ جو عالمی فورمز پر ملک و قوم کی نمائندگی کرتے وقت پرچیوں کا سہارا نہیں لے گا۔ جو بیرون ممالک سے ملنے والی امداد اپنی بیگم کو بطور تحفہ پیش نہیں کرے گا۔ جو سرکاری اخراجات میں کمی لائے گا۔
عمران خان قوم سے کئے گئے انہی وعدوں پر عمل پیرا ہیں لیکن اس ناشکری قوم کو یہ سب پسند نہیں۔ اسے وہی دو نمبر وہی پرچی والے اور زلزلہ زدگان کیلئے عطیہ کئے جانے والا ہار اپنی بیگم کو آگے تحفہ کر دینے والے کرپٹ وزرا اعظم ہی پسند ہیں۔ :)
خدارا وزیرِ اعظم کو پیغام دے دیجیے کہ پرچیوں کے سہارے ہی بولیں ورنہ جو جو لطیفے یہ کہہ چکے ہیں ان کا جواب دینا اس قوم کو بہت بھاری پڑے گا۔ کیا عساکر پاکستان نے یہ مان لیا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کو تربیت دی تھی۔ کیا انہوں نے مان لیا ہے کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے آپریشن میں ان کا بھی حصہ تھا؟ کیا ساری دنیا نے ان کی ننگی اٹیمی دھمکی کو کھلے دل کے ساتھ قبول کر لیا ہے؟ جو شخص تول کر نہیں بول سکتا اسے چاہیے کہ پرچی ہی پڑھ لے۔
 
آخری تدوین:
مزید یہ بھی کہہ دیجیے کہ پرائم منسٹر ھاؤس ہی میں رہیں۔ ان کے گھر اور پرائم منسٹر ھاؤس کی ڈبل سیکیورٹی پلس پر روز ہیلی کاپٹر کا خرچ قوم پر بھاری پڑ رہا ہے۔ یہ تسلیم کہ چھ آٹھ بھینسیں بیچ کر انہوں نے قوم کی خاصی رقم بچالی لیکن اب رحم کریں۔
 
وزیر اعظم عمران خان کا موازنہ پچھلے اور آنے والے وزرا اعظم سے ہی کیا جائے گا۔ اب آپ کو اچھا لگے یا برا :)
ذرا ان کا موازنہ بھٹو، ضیا، مشرف، بے نظیر سے بھی کیجیے جن کے کہے کسی لفظ کی وضاحت فارن آفس کو نہیں دینی پڑتی تھی یا کسی نے یوں فارن پالیسی میں اتنے یو ٹرن نہیں لیے تھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس دلیل میں کوئی منطق نہیں ہے۔ جب پچھلی حکومتوں میں وزرا اعظم کا پورا پورا خاندان جہاز بھر کر ان عالمی کانفرنسز میں جاتا تھا تو ان کے اخراجات بھی سرکاری خزانہ یعنی عوام پر ٹیکس لگا کر ہی پورے کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان چور لٹیرے حکمرانوں نے اپنے گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کیا ہوا اور یوں سرکاری مراعات جن میں اس کی حفاظت کیلئے پولیس نفری، تزئین و آرائش کے اخراجات، بجلی، گیس، کھانے وغیرہ سب سرکاری خزانہ سے ہڑپ کئے جاتے تھے۔ ابھی کل پرسوں ہی خبر چل رہی تھی کہ شریف خاندان نے جاتی امرا کے ۴۰ سے زائد ملازمین فارغ کر دئے ہیں۔ یہ وہ ملازمین تھے جس کے اخراجات انہوں نے دوران اقتدار سرکاری خزانہ پر ڈالے ہوئے تھے۔ اور اقتدار سے نکلتے ہی مراعات کی کمی پر ان کو فارغ کر رہے ہیں۔
اس وقت وزیر اعظم عمران خان اپنے ذاتی گھر میں رہتے ہیں۔ اسے کیمپ آفس بھی ڈکلیئر نہیں کیا ہوا۔ نہ ہی قومی خزانہ سے اس کی حفاظت، تزئین و آرائش کیلئے کروڑوں روپے سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ نیز وہ امیر دوست جو عمران خان کے بیرون ملک ٹور فنڈ کر رہے ہیں وہ خود لمبے عرصہ سے تارکین وطن ہیں۔ ان کے پاکستان میں کوئی اسٹیکس نہیں جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جائے کہ یہ ایک قسم کی رشوت ہے۔
Who is Imran Chaudhry
Prime Minister Khan’s decades-old close friend Imran Chaudhry has been an ardent donor towards his charitable causes, mainly the Shaukat Khanum Memorial Hospital. Mr Chaudhry is a Dubai-based businessman and philanthropist, having investment in the United Arab Emirates, Bahrain and Saudi Arabia
Old friends picked up the tab for Davos trip: PM - Pakistan - DAWN.COM
آپ ہر بار غلط مطلب لے جاتے ہیں قبلہ۔ حالانکہ آپ کو یہ استدلال کرنا چاہیئے تھا کہ یہ عمران خان کی "چولوں" ہی کا صدقہ ہے کہ عامۃ الناس کو بھی علم ہو گیا کہ ٹیکس دہندگان کی رقم کیا ہوتی ہے اور اس کے مصرفات کیا ہوتے ہیں (پڑھے لکھے باشعور لوگوں کو تو خیر پہلے ہی سے علم تھا گو تب خاموش تھے)۔ وگرنہ اسی ٹیکس دہندگان کی رقم سے ہیلی کاپٹروں پر ناشتے بھی آتے رہے ہیں اور گھوڑوں کے مربے بھی۔ اب کم از کم اگلی حکومتوں کے لیے کچھ جھوٹا سچا معیار تو بن ہی رہا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
وزیر اعظم کو اُن کے گھر والوں نے "سیلف ریسپیکٹ" نہیں سکھائی ہوگی۔
نیز اقوام عالم میں سیلف ریسپیکٹ کا معیار وہ نہیں جو پاکستان میں عموما لیا جاتا ہے۔
C2ro5AMXUAUxthB.jpg

maxresdefault.jpg

Dge-XxpXcAAYIwp.jpg

panama.jpg

آج جس وزیر اعظم کی نیک نامی کی وجہ سے پاکستان پوری دنیا میں ابھر رہا ہے ، عام پاکستانی اسے ہی سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ کیونکہ ملک میں نواز شریف، زرداری جیسے سیاست دان تو بہت ہیں۔ لیکن عمران خان جیسا لیڈر ایک ہی ہے۔
پرچی کے بغیر خطاب، عالمی اقتصادی فورم کے صدر بھی عمران خان کے معترف
PM Imran Khan emerges as 9th most popular world leader
After a year of Imran Khan, Pakistan is finally stepping into its role as a world player
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
خدارا وزیرِ اعظم کو پیغام دے دیجیے کہ پرچیوں کے سہارے ہی بولیں ورنہ جو جو لطیفے یہ کہہ چکے ہیں ان کا جواب دینا اس قوم کو بہت بھاری پڑے گا۔ کیا عساکر پاکستان نے یہ مان لیا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کو تربیت دی تھی۔ کیا انہوں نے مان لیا ہے کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے آپریشن میں ان کا بھی حصہ تھا؟ کیا ساری دنیا نے ان کی ننگی اٹیمی دھمکی کو کھلے دل کے ساتھ قبول کر لیا ہے؟ جو شخص تول کر نہیں بول سکتا اسے چاہیے کہ پرچی ہی پڑھ لے۔
اگر آپ کو سابق وزرا اعظم کے میموگیٹ، ڈان لیکس سکینڈلز، ممبئی حملے پاکستان نے کروائے جیسے بیانات پر کوئی اعتراض نہیں تو حالیہ وزیر اعظم کے اس بیان پر بھی نہیں ہونا چاہئے کہ افغان جہاد کیلئے آنے والے مجاہدین کو آئی ایس آئی نے ٹرین کیا تھا۔ جو بعد میں القائدہ، طالبان وغیرہ جیسے جہادی و دہشت گرد بن گئے۔
 

زیک

مسافر
عمران چوہدری جنہوں نے وزیر اعظم کا حالیہ ڈیوس کا دورہ فنڈ کیا ہے وہ ماضی میں عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال میں بھی بھرپور عطیات کر چکے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمران خان کے اقتدار میں آنے کے امکانات صفر تھے۔ ایسے شخص پر کانفلکٹ آف انٹرسٹ کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اگر اس فنڈنگ کے بدلہ عمران خان قومی خزانہ کو چونا نہیں لگا رہے بلکہ سرکاری اخراجات میں کمی لا رہے ہیں تو یہ ایک مثبت فعل ہے۔
اکثر یہ شک رہتا ہے کہ آپ کبھی چند دن کو بھی ناروے گئے ہیں یا نہیں
 

جاسم محمد

محفلین
آپ ہر بار غلط مطلب لے جاتے ہیں قبلہ۔ حالانکہ آپ کو یہ استدلال کرنا چاہیئے تھا کہ یہ عمران خان کی "چولوں" ہی کا صدقہ ہے کہ عامۃ الناس کو بھی علم ہو گیا کہ ٹیکس دہندگان کی رقم کیا ہوتی ہے اور اس کے مصرفات کیا ہوتے ہیں (پڑھے لکھے باشعور لوگوں کو تو خیر پہلے ہی سے علم تھا گو تب خاموش تھے)۔ وگرنہ اسی ٹیکس دہندگان کی رقم سے ہیلی کاپٹروں پر ناشتے بھی آتے رہے ہیں اور گھوڑوں کے مربے بھی۔ اب کم از کم اگلی حکومتوں کے لیے کچھ جھوٹا سچا معیار تو بن ہی رہا ہے!
اللہ اللہ اب تو عمران خان پر رشوت اور کانفلکٹ آف انٹرسٹ کا الزام وہ لوگ بھی لگے رہے ہیں جو ان کے اقتدار میں آنے سے قبل ایسے سنگین الزامات کو محض منتخب وزرا اعظم کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازش سمجھتے تھے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
عمران چوہدری جنہوں نے وزیر اعظم کا حالیہ ڈیوس کا دورہ فنڈ کیا ہے وہ ماضی میں عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال میں بھی بھرپور عطیات کر چکے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمران خان کے اقتدار میں آنے کے امکانات صفر تھے۔ ایسے شخص پر کانفلکٹ آف انٹرسٹ کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اگر اس فنڈنگ کے بدلہ عمران خان قومی خزانہ کو چونا نہیں لگا رہے بلکہ سرکاری اخراجات میں کمی لا رہے ہیں تو یہ ایک مثبت فعل ہے۔
آپ عمران چودھری صاحب کی ہسٹری سے آگاہ نہیں ہیں۔ ان پر نیب میں کرپشن کے کیس رہے ہیں۔ ایسے فرد کو شفاف کردار ہونے کا سرٹیفکیٹ دینا مناسب نہیں۔ عطیات دینے سے کوئی پاک باز نہیں بن سکتا؛ گو کہ ہم انہیں مجرم بھی قرار نہیں دے رہے ہیں۔ کانفلکٹ آف انٹرسٹ کا الزام ایسا نہیں ہے جو اس صورت حال کی مناسبت سےلگایا نہ جا سکے۔ آپ کی دلیل میں بدقسمتی سے کوئی جان نہیں ہے۔
 
Top