جنابِ والا یہی تو المیہ ہے کہ آپ محض ایک رخ سے دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ کس نے کہہ دیا کہ سب قانون سازی سے ہی منطبق ہے ۔۔ اور یہ آہستہ پروسس کیا ہے ۔۔۔ 60 برسوں میں ایم کیو ایم ، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت کس نے کیا تیر مارا ہے مجھے سب خبر ہے ۔۔عوام کو ڈھکوسلے دینا بند کیجئے ،،،
جنابِ من ملک صرف پارلیمنٹ سے ہی نہیں چلتے ذرا کشادہ دلی کا مظاہرہ کیجئے اور اپنے علم میں اضافہ کیجئے
میرے بھائی میںذاتی حملے نہیںکروں گا۔ 60 برس پاکستان کی تاریخ ہے۔ ا یم کیو ایم وپیپلز پارٹی و حالیہ مسلم لیگ ن کی نہیں۔ ان ساٹھ برسوں کی زیادہ تر عرصہ پاکستان میں غیر عوامی حکومت رہی۔ معاشرتی ارتقا ایک اھستہ عمل ہے اگر اپ کو نہیںپتہ یا متفق نہیںتو بھی اس حقیقت پر اثر نہیںپڑتا۔
ملک / ریاست کے چلانے کیلئے مقننہ (پارلیمنٹ) ، انتظامیہ (فورسز)، عدلیہ (جوڈشنری) اور صحافت (میڈیا) کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں مقننہ کا جو کردار ہے اس سے ملتا جلتا کردار انتظامیہ کا ہوتا ہے ( جو عمارت کے ظاہری دو ستون ہوتے ہیں) ۔۔ جبکہ عدلیہ اور میڈیا ریاست کی اس عمارت کے دو نسبتاّ غیر ظاہر ستون ہوتے ہیں (یہاں صحافت (میڈیا ) کی اعلی اقدار کی بات ہے جو محض خبر نہیں ہے ۔۔ بلکہ تجزیہ و تجاویز ہیں) ۔۔۔۔اور ان سب میں (کسی غیر مسلم معاشرے یا مسلم معاشرے میں) بنیادی وکلیدی کردار عدلیہ کا ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو قوانین کے تحت معاشرے میں عدل کو قائم رکھنے پر معمور ہے۔۔۔عدلیہ (منصفی پر ایک ہی دلیل حضرت علی کاقول ہے ۔۔۔ " کہ معاشرہ کفر پر تو زندہ رہ سکتا ہے نا انصافی پر نہیں ۔۔ جو آپ کی دس کروڑ واضاحتوں اور دلیلوں پر بھاری ہے چاہے آپ مانیں یا نہ مانیں ) اقوامِ عالم میں کافر ریاستیں صرف اسی لیے مستحکم ہیں کہ وہاں عدل قائم ہے جبکہ بشمول پاکستان کئی دیگر ممالک اس لئے ذلت اور پستی میں غرق ہیں کہ یہاں عدل نہیں ۔۔۔آپ حقائق سے آنکھیں چراتے رہیں ۔۔۔۔ یہ آپ ذاتی صوابدید پر منحصر ہے۔۔
پارلیمنٹسپریم ہے جو ہر ادارے کے دائرہ کار کو وضع کرتی ہے۔ یہ سب ادارے جن کا ذکر اپ نے کیا ہے کیسے جانیںگے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ یہ تو بنیادی بات ہے جو اپ کی سمجھ میں نہیںارہی۔ پارلیمنٹ ہی ان سب اداروں کا دائرہ کار متعین کرتی ہے اور یہ سب ادارے پارلیمنٹ کے ماتحت ہیں۔ جب اپ پارلیمنٹ کو ہو تباہ کردیں گے تو یہ سب ادارے کیا بھٹے بیچیں گے۔
حضرت علی کی قول کی میںنے مخالفت کی ہی نہیں اس قول کا درست موضوع پاکستان میںخود عدلیہ و فوج کی ملی بھگت ہے۔ اقوام عالم میں کافر ریاستیں اس لیے قائم ہیں کہ ایک ارتقائی عمل کے ذریعے انھیں نے متفقہ طور پر کچھ فلاحی اصول وضع کیے۔ مگر بھائی یہ انصاف اگر وہاںقائم ہے (مجھے کچھ اختلاف ہے) تو بھی یہ وہاں پارلیمنٹ یا جو بھی مشاورتی ادارہ ہے کے ماتحت ہے۔
ہمیں ایک نئی صبح کا انتظار ہے ۔۔۔ جو شب پرستوں سے سینے پھاڑتی ہوئی طلوع ہوتی نظر آرہی ہے ۔۔
یہ نئی صبح پی پی پی کے خلاف 1977 میںتحریک چلانے والوںکو بھی نظر ارہی تھیںجن کا سورج ضیاالحق کی صورت میں طلوع ہوا۔ پھر یہ نواز شریف کے جانے اور مشرف کے انے پر مٹھائی بانٹنے والوں کو بھی نظر ارہی تھیں۔ یہ نئی صبح دراصل امریت کی صبح تھی۔ بھائی میرے نیا سورج جب ہی طلوع ہوگا جب ائین پاکستان کی برتری کی بات ہوگی ۔ وہ اسلامی ائین جو بھٹو کے دور میںپارلمینٹ نے متفقہ دور پر دیا تھا۔ ورنہ اپ کی نئی صبح پر جی ایچ کیو سے نمودار ہوگی۔
خدا نخواستہ ایسا نہیں بھی ہوتا تو ۔۔۔ ہمیں وکلا تحریک کی صورت ایک نئی سیاسی بصیرت کے حامل پڑھے لکھے لوگوں کا گروہ نظر آرہا ہے جو آئندہ اس ملک کی صحیح معنوں میں بھاگ دوڑ سنبھالے کا مجاز ہے۔۔۔
وکیل عدالتی کاروائی کے ماہر ہیں اور ان کا دائرہ کار ہی عدالتی کاروائیوں سے جڑا ہے۔ اس سے بڑھ کر ان سے کچھ توقع رکھنا زیادتی ہوگی۔ خود وکلا سیاسی عمل کے خلاف ہیں تو پھر کیسے وہ سیاسی بصیرت کے حامی ہیں۔ وہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی چاہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی اسکول کے ھیڈماسٹر کو برطرف کردیا جائے پھر اسکول کے اساتذہ احتجاج کریںبالاخر ھیڈ ماسٹر بحال ہوجائے۔ اور بس۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پھر اسکول اساتذہ تمام شھر کے کوتوال بن جائیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ شاید اپ کو سمجھ اجائے۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ۔۔۔ جب تخت اچھالے جائیںگے۔۔
میری دعا ہے کہ پاکستانی قوم اب اچھل اچھال سے باز اجائے اور تعمیری کام کرے ورنہ ان کی گوشمالی کے لیے امریکی سرحد پرکھڑے ہیں۔خدانہ خواستہ ایسا نہ ہو کہ تخت ہی تختہ ہوجائے۔