غلام رسول مہر نے کہا ہے کہ غزل 1841 کی ہے یعنی ملازمت سے پہلے کی ہے.غالب کے بیشتر شارحین کا خیال ہے کہ یہاں "خسرو" بادشاہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اور "خسروِ شیریں سخن" سے مراد بہادر شاہ ظفر ہیں- اس وقت میرے سامنے غلام رسول مہر کی شرح دیوان غالب موجود نہیں ہے جس میں انہوں نے اس بات کا ذکر کر کے اس سے اختلاف کیا ہے، اور کہا ہے کہ "خسرو شیریں سخن" سے غالب کی مراد امیر خسرو ہیں-
غلام رسول مہر نے کہا ہے کہ غزل 1841 کی ہے یعنی ملازمت سے پہلے کی ہے.
- آغا محمد باقر "بیانِ غالب" میں اس شعر کی تشریح یوں کرتے ہیں: "اپنے کلام کو مزیدار کہنے کے لئے بادشاہ کو خسرو شیریں سخن کہا ہے"-خسروِ شیریں سخن -- ظفر