حسان خان
لائبریرین
یہ جاننا مجھے دلچسپ معلوم ہوا ہے کہ جس طرح جنابِ «صائبِ تبریزی» کی فارسی غزلوں نے دیارِ آلِ عُثمان کے ہمہ شاعروں اور ادیبوں کے دِل فتح کر لیے تھے، اُسی طرح اُن کی تُرکی غزلیں بھی دیارِ رُوم جا کر پذیرِش و مقبولیت حاصل کرنے میں مُوَفّق رہی تھیں۔ حال ہی میں یہ چیز میرے عِلم میں آئی ہے کہ ایک عُثمانی شاعر «شهری» (وفات: ۱۰۷۱ھ) نے «صائب» کی ایک تُرکی غزل، کہ جو "نه احتیاج که ساقی ویره شراب سنه" کے مصرعے سے شروع ہوئی ہے، کی زمین میں نظیرہ کہا تھا۔ اُس جوابی غزل کے مقطع میں مذکور عُثمانی شاعر کہتے ہیں:
صد آفرین غزلِ رومِیانوڭه صائب
که ویردی شهری دۆ صد شَوق ایله جواب ساڭا
(شهری)
اے «صائب»! تمہاری غزلیاتِ رُومی (تُرکی) پر صد آفرین!۔۔۔ کہ «شهری» نے دو صد اِشِتیاق کے ساتھ تم کو (یعنی تمہاری غزل کا) جواب دیا [ہے]۔
Sad âferîn gazel-i Rûmiyânuña Sâ'ib
Ki virdi Şehrî dü-sad şevk ile cevâb saña
صد آفرین غزلِ رومِیانوڭه صائب
که ویردی شهری دۆ صد شَوق ایله جواب ساڭا
(شهری)
اے «صائب»! تمہاری غزلیاتِ رُومی (تُرکی) پر صد آفرین!۔۔۔ کہ «شهری» نے دو صد اِشِتیاق کے ساتھ تم کو (یعنی تمہاری غزل کا) جواب دیا [ہے]۔
Sad âferîn gazel-i Rûmiyânuña Sâ'ib
Ki virdi Şehrî dü-sad şevk ile cevâb saña
آخری تدوین: