اس سلسلے کی پہلی آیت سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۰۴ ہے۔ جس میں خالق کائنات مسلمانوں کو اپنے پیارے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ بے کس پناہ کا ادب سکھا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت ۱۰۴۔
"راعنا" ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ہماری رعایت فرمائیے اور صحابہ کرام جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے کسی ارشاد گرامی کو اچھی طرح سمجھ نہ سکتے تو عرض کرتے راعنا یا رسول اللہ۔ ہم پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ ہماری رعایت فرماتے ہوئے دوبارہ سمجھا دیجیئے۔ لیکن یہود کی عبرانی زبان میں یہی لفظ ایسے معنی میں استعمال ہوتا جس میں گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی۔ اللہ تعالٰی کو اپنے محبوب کی عزت و تعظیم کا یہاں تک پاس ہے کہ ایسے لفظ کا استعمال بھی ممنوع فرما دیا جس میں گستاخی کا شائبہ تک بھی ہو۔ چنانچہ علماء کرام نے تصریح کی ہے
"فیھا دلیل علی تجنب الالفاظ المحتملۃ التی فیھا التعریض للتنقیص والغض
" (قرطبی)۔ یعنی اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر ایسے لفظ کا استعمال بارگاہ رسالت میں ممنوع ہے جس میں تنقیص اور بے ادبی کا احتمال تک ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کو حد قذف لگانے کا حکم دیا ہے۔
"راعنا کی جگہ انظرنا" (یعنی ہماری طرف نگاہ لطف فرمائیے) کہا کرو۔ کیونکہ یہ لفظ ہر طرح کے احتمالات فاسدہ سے پاک ہے۔ اور
"واسمعو" کا حکم دے کر یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ جب میرا رسول تمہیں کچھ سنا رہا ہو تو ہمہ تن گوش ہو کر سنو۔ تاکہ انظرنا کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ بھی تو شان نبوت کے مناسب نہیں کہ ایک ایک بات تم بار بار پوچھتے رہو۔
یہ کمال ادب اور انتہائے تعظیم ہے جس کی تعلیم عرش و فرش کے مالک نے غلامان مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام کو دی ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں اس آیت مبارکہ کے فیضان سے بہرہ مند فرمائے اور اس کی برکت سے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے ادب اور تعظیم کو ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے کہ "ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں"۔
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
کہ اس آسماں کے نیچے عرش عظیم سے بھی نازک تر جگہ بارگاہ رسالت ﷺ ہے کہ جہاں جنید بغدادی و بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہما جیسی بزرگ ہستیاں بھی دم بخود حاضر ہوتی ہیں۔۔۔
۔۔۔