جاسمن

لائبریرین
سورۃ الحشر ۔ ۵۹

۷۸ ۔ سورۃ الحشر کی آیت نمبر ۱۸ میں اہل ایمان کو محاسبہ نفس کے بارے میں نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَO
اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہوo
سورۃ الحشر ، آیت نمبر ۱۸۔​

اس آیت میں اہل ایمان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے فرزندان اسلام ! تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ۔ ہوشیار ! ایسی راہ پر قدم نہ اٹھے جس سے تمہارے رب نے تمہیں روکا ہے اور اس کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی نہ ہو۔ نیز یہ بھی تاکید فرمائی کہ ہر شخص اپنا محاسبہ کرتا رہے کہ اس نے اپنی عاقبت کے لیے کیا ذخیرہ تیار کیا ہے۔ جو شخص آج کی خوشیوں میں یوں کھو جائے کہ اسے کل کا ہوش نہ رہے وہ دانا نہیں، نادان ہے۔ تم ایسا نہ کرنا۔ تم اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کے غلام ہو، قیامت کے دن تمہاری شان نرالی ہونی چاہیے۔ تمہاری زندگی کے گرد نور کا ہالہ ہو اور اس نورانی ہالہ کے اندر تم چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہو تب لطف ہے۔ دوبارہ پھر تقویٰ کی تاکید فرمائی اور بتا دیا کہ تم جو کچھ کام کرتے ہو تمہارا خدا وند ذوالجلال اس سے خوب باخبر ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
سُورة الْمُمْتَحِنَة ۔ ۶۰

۷۹ ۔ سُورة الْمُمْتَحِنَة کی پہلی آیت میں اللہ عزوجل حق کے منکروں کو اپنا اور اہل ایمان کا دشمن قرار دے رہا ہے اور مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِO
اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم (اپنے) دوستی کے باعث اُن تک خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ وہ اس حق کے ہی مُنکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے، وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تم کو اس وجہ سے (تمہارے وطن سے) نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا پروردگار ہے، ایمان لے آئے ہو۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا تلاش کرنے کے لئے نکلے ہو (تو پھر اُن سے دوستی نہ رکھو) تم اُن کی طرف دوستی کے خفیہ پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم آشکار کرتے ہو، اور جو شخص بھی تم میں سے یہ (حرکت) کرے سو وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہےo
سُورة الْمُمْتَحِنَة ، آیت نمبر ۱ ۔​

اگرچہ یہ آیت حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے اس خط کے واقعہ پر نازل ہوئی جو انہوں نے فتح مکہ سے قبل اہل مکہ کو ہشیار کرنے کے لیے لکھا تھا (جس کی تفصیل کتب تفسیر میں موجود ہے)۔ لیکن اس میں روئے سخن ساری ملت اسلامیہ کی طرف ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اے ایمان والو ! جو لوگ میرے دین کے دشمن ہیں اور جو لوگ تمہارے بھی بد خواہ ہیں ان کو اپنا دوست مت بناؤ۔ تم ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو، حالانکہ وہ اس دین حق کا انکار کرتے ہیں جو تمہارے پاس اللہ کا رسول لے کر آیا ہے۔ اور ان کی عداوت کی اس سے بڑی روشن دلیل تمہیں اور کیا چاہیے کہ انہوں نے اللہ کے محبوب رسول ﷺ کو بھی مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور تمہیں بھی جلا وطن کر دیا۔ تم نے ان کا کوئی قصور نہیں کیا تھا ۔ تم نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی۔ ان کی نظروں میں تمہارا اللہ پر ایمان لانا ایک ایسا گناہ ہے جو قابل عفو نہیں۔ اگر تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے میدان میں آئے ہو اور اس کی خوشنودی کے جویا ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ تم انہیں اپنا دوست مت بناؤ۔ تم میں سے بعض لوگ خفیہ طور پر کفار کو اپنی دوستی اور خیر خواہی کا یقین دلاتے ہیں۔کیا انہیں یہ بات بھول جاتی ہے کہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی اور ظاہر ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے۔ قیامت تک آنے والے مسلمانوں میں سے اگر کسی نے ایسی غلطی کی تو وہ راہ راست سے بھٹک گیا اور اپنی منزل سے بہک گیا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
 

الشفاء

لائبریرین
۸۰ ۔ سُورة الْمُمْتَحِنَة کی آیت نمبر ۱۰ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيْمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو انہیں اچھی طرح جانچ لیا کرو، اللہ اُن کے ایمان (کی حقیقت) سے خوب آگاہ ہے، پھر اگر تمہیں اُن کے مومن ہونے کا یقین ہو جائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ یہ (مومنات) اُن (کافروں) کے لئے حلال ہیں اور نہ وہ (کفّار) اِن (مومن عورتوں) کے لئے حلال ہیں، اور اُن (کافروں) نے جو (مال بصورتِ مَہر اِن پر) خرچ کیا ہو وہ اُن کو ادا کر دو، اور تم پر اس (بات) میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اِن سے نکاح کر لو جبکہ تم اُن (عورتوں) کا مَہر انہیں ادا کر دو، اور (اے مسلمانو!) تم بھی کافر عورتوں کو (اپنے) عقدِ نکاح میں نہ روکے رکھو اور تم (کفّار سے) وہ (مال) طلب کر لو جو تم نے (اُن عورتوں پر بصورتِ مَہر) خرچ کیا تھا اور وہ (کفّار تم سے) وہ (مال) مانگ لیں جو انہوں نے (اِن عورتوں پر بصورتِ مَہر) خرچ کیا تھا، یہی اللہ کا حکم ہے، اور وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرما رہا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo
سُورة الْمُمْتَحِنَة ، آیت نمبر ۱۰۔​

یہ آیت صلح حدیبیہ کے تناظر میں ہے جس کی مکمل تفصیل کتب تفاسیر میں موجود ہے۔ آیت میں بیان ہے کہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کو بلا تحقیق اپنے اندر شامل نہ کر لو بلکہ اچھی طرح جانچ پڑتال کر لو۔ اگر تمہیں اطمینان ہو جائے کہ یہ عورت صرف اپنے دین و ایمان کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی ہے تو اس کو کفار کے حوالے مت کرو اور اگر اس کی آمد کی غرض و غایت اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو پھر اسے واپس کر دو۔ اس آیت کے نزول سے پہلے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان باہمی ازدواج جائز تھا۔ مسلمان عورتیں کفار کے ساتھ نکاح کر لیتی تھیں اور مسلمان مرد، کافر عورتوں سے شادی کر لیتے تھے۔ لیکن اس آیت نے باہمی ازدواج کا دروازہ بند کر دیا۔ کوئی مسلمان مرد اہل کتاب کے علاوہ کسی کافر عورت سے نکاح نہیں کر سکتا اور کوئی مسلمان عورت کسی کافر سے خواہ وہ اہل کتاب سے ہی کیوں نہ ہو نکاح نہیں کر سکتی۔ ایک نیا حکم یہ بیان ہوا کہ جو مسلمان عورتیں ہجرت کر کے دارالاسلام میں آ جائیں تو حکومت اسلامیہ پر لازم ہے ہے کہ ان کے شوہروں نے جو مہر انہیں دیا تھا وہ بیت المال سے انہیں واپس کر دیا جائے۔ اور پھر اگر وہ عورتیں کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے اور نئے خاوند پر ضروری ہے کہ وہ اسے مہر ادا کرے۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آج سے پہلے جو کافر عورتیں تمہارے نکاح میں تھیں ان کو مت روکے رکھو بلکہ ان کو آزاد کر دو کہ وہ اس قابل نہیں کہ تمہاری بیویاں بن سکیں۔ اسی طرح پہلے جو فرمایا کہ جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے دارالاسلام میں چلی جائیں ان کے کافر خاوندوں کو مہر ادا کر دیا جائے ، اب فرمایا جا رہا ہے کہ تمہاری بیویاں جو دارالکفر میں رہ گئیں، تم نے انہیں جو مہر دیا تھا اس کا مطالبہ تم ان سے کر سکتے ہو۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ وہ اللہ جو علیم اور حکیم ہے وہ حال و مستقبل پر نظر رکھتا ہے۔ اس کا ہر فرمان حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۸۱ ۔ سُورة الْمُمْتَحِنَة کی آیت ۱۳ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِO
اے ایمان والو! ایسے لوگوں سے دوستی مت رکھو جن پر اللہ غضبناک ہوا ہے بیشک وہ آخرت سے (اس طرح) مایوس ہو چکے ہیں جیسے کفار اہلِ قبور سے مایوس ہیںo
سُورة الْمُمْتَحِنَة ، آیت نمبر ۱۳۔
اس سورۃ کی ابتداء میں جو حکم تھا وہی انتہاء میں بیان ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار سے جن پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت اتر چکی ہے اور خدا کی رحمت اور شفقت سے دور ہو چکے ہیں تم ان سے دوستانہ اور میل ملاپ نہ رکھو۔ وہ آخرت کے ثواب سے اور وہاں کی نعمتوں سے ایسے ناامید ہو چکے ہیں جیسے قبروں والے کافر۔ اس پچھلے جملے کے دو معنی کئے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جیسے زندہ کافر اپنے مردہ کافروں کے دوبارہ زندہ ہونے سے مایوس ہو چکے ہیں ، دوسرے یہ کہ جس طرح مردہ کافر ہر بھلائی سے نا امید ہو چکے ہیں، وہ مر کر آخرت کے احوال دیکھ چکے اور اب انہیں کسی قسم کی بھلائی کی توقع نہیں رہی۔۔۔(تفسیر ابن کثیر)۔
مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ میں مِنْ بیانیہ ہے یعنی وہ کفار جو مر کر قبروں میں دفن کیے جا چکے ہیں۔ کیونکہ ان کی موت کفر پر ہوئی اس لیے اب ان کی نجات کی کوئی صورت نہیں ، وہ اپنی بخشش کے بارے میں مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔ علامہ محمود آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ای الذین ھم اصحاب القبور ای الکفار الموتیٰ۔ جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر اپنی نجات سے مایوس ہو چکے ہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الصف ۔ ۶۱
سورۃ الصف کی آیت نمبر ۲ میں اہل ایمان کو قول و فعل کے تضاد سے بچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَO
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہوo
سورۃ الصف ، آیت نمبر ۲۔​

کئی لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب اکٹھے بیٹھتے تو بڑی لافیں مارتے اور کہتے کہ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے تو ہم اس پر عمل کرتے اور اس کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیتے۔ جب جہاد کے بارے میں حکم نازل ہوا اور احد کا معرکہ پیش آیا تو بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے والے میدان میں ٹھہر نہ سکے۔ اس آیت سے اس قسم کے لوگوں کو عار دلائی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو تربیت دی جا رہی ہے کہ نیکی کی دعوت جو بڑے جوش و خروش سے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں خود بھی اس پر عمل کر کے دکھائیں تا کہ سننے والوں کو ان کی بات کا یقین آ جائے۔ شب معراج حضور ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ حضور ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔ جبریل نے کہا یہ آپ کی امت کے خطبا ہیں جو کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔ جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۸۳ ۔ سورۃ الصف کی آیت نمبر ۱۰ ، ۱۱ اور ۱۲ میں اللہ عزوجل اپنے اہل ایمان بندوں کو ایک نفع مند تجارت کی خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍO تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتا دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لےo (وہ یہ ہے کہ) تم اللہ پر اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (حقیقت کو) جانتے ہوo وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور نہایت عمدہ رہائش گاہوں میں (ٹھہرائے گا) جو جناتِ عدن (یعنی ہمیشہ رہنے کی جنتوں) میں ہیں، یہی زبردست کامیابی ہےo
سورۃ الصف ، آیت نمبر ۱۲،۱۱،۱۰۔

دوسرے لوگ بھی تجارت کرتے ہیں ، اس میں نفع بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ بسا اوقات تو سرمایہ تک برباد ہو جاتا ہے۔ اگر نفع ہو تو یہی ہو گا کہ دولت کی فراوانی اور اسباب عیش و آرام مہیا ہو جائیں گے۔ لیکن ایک تجارت وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو باخبر کر رہا ہے اور اس میں حصہ لینے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس تجارت کی چند خصوصیات ہیں۔ اس میں نفع ہی نفع ہے، نقصان کا ذرا احتمال نہیں۔ اس کا نفع عارضی اور فانی نہیں بلکہ ابدی اور سرمدی ہے۔ اس کے فوائد سے اس کا تاجر صرف قیامت کے روز ہی بہرہ ور نہ ہوگا بلکہ اس دنیا میں بھی اس کا نفع اسے ملے گا اور نفع بھی یہ ہے کہ جس میدان میں قدم رکھے گا تنہا نہیں ہو گا اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے ہمراہ ہو گی اور فتح و کامرانی اس کے قدم چومے گی۔ پہاڑ اس کی ٹھوکر اور سمندر اس کی ضرب سے راستہ چھوڑ دیں گے۔ اور وہ تجارت یہ ہے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اپنے اموال اور اپنی جانیں اپنے رب کے راستہ میں قربان کر دو۔ بتایا کہ مال کو بچا بچا کر رکھنے میں تمہارا نفع نہیں بلکہ اس کی رضا کے لیے گھر بار لٹا دینا یہ تمہارے لیے سود مند ہے۔ جان کو بحفاظت رکھنے میں تمہاری سلامتی نہیں بلکہ تمہاری سلامتی اس میں ہے کہ اس کے نام کو بلند کرنے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دو اور اپنا سر قربان کر دو۔ تمہیں حیات جاوید بخش دی جائے گی۔ موت تمہارا دامن چھو تک نہ سکے گی۔بقول علامہ محمد اقبال

بر تر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی۔

(ضیاء القرآن)۔​

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۸۴ ۔ سورۃ الصف کی آیت نمبر ۱۴ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّيْنَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَO
اے ایمان والو! تم اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) نے (اپنے) حواریوں سے کہا تھا: اللہ کی (راہ کی) طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کافر ہوگیا، سو ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لے آئے تھے اُن کے دشمنوں پر مدد فرمائی پس وہ غالب ہوگئےo
سورۃ الصف ، آیت نمبر ۱۴۔

اللہ تعالیٰ کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ نہ اس کا کوئی کام ہماری اعانت کا محتاج ہے۔ جو لوگ دین کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہتے ہیں وہ گوناگوں برکات سے اپنی زندگی کو مالا مال کرتے ہیں اور محض اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کا بھلا کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کریم ہے۔ ان کے جذبہ اخلاص کی قدر فرماتے ہوئے ان کو انصاراللہ کے معزز لقب سے یاد فرماتا ہے۔ یہ اس کی کمال مہربانی ، شان بندہ پروری اور ذرہ نوازی ہے۔ حواری لفظ حوار سے مشتق ہے اور حوار سفیدی کو کہتے ہیں۔ دھوبی کو عربی میں حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ میلے کپڑوں کو پاک اور اجلا کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی شاگرد دھوبی تھے اس لیے انہیں حواریون کہا گیا۔ بعد میں پر خلوص دوست اور باوفا ساتھی کو حواری کہا جانے لگا۔ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ کہہ کر دعوت حق دی تو سلیم الطبع لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوئے اور مشرف بایمان ہوئے۔ لیکن بنی اسرائیل کے ہٹ دھرم اور ضدی لوگ چڑ گئے اور کفر پر آمادہ ہو گئے۔ اپنی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایمان دار گروہ کی امداد فرمائی اور ان کو غلبہ اور کامیابی سے سرفراز فرمایا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الجمعہ ۔ ۶۲

۸۵ ۔ سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر ۹ میں اہل ایمان کو جمعہ کی اذان ہونے پر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جلد پہنچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوo
سورۃ الجمعہ ، آیت نمبر ۹۔
سورۃ الجمعہ کی اس آیت سے شروع ہونے والے پورے رکوع میں نماز جمعہ کے احکام و آداب کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو ، جب تم نماز جمعہ کی اذان سنو تو جلدی سے اللہ کے ذکر کی طرف پہنچنے کی کوشش کرو اور اسی وقت خرید و فروخت بند کر دو۔ نُودِيَ سے مراد جمعہ کی اذان ہے اور احناف کے نزدیک یہ پہلی اذان ہے جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے۔ اسْعَوْا کا معنی دوڑنا یا بھاگنا نہیں ہے کیونکہ حضور ﷺ نے بھاگ کر نماز میں شرکت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ نماز کی اقامت سنو تو بھاگ کر نہ آؤ بلکہ بڑے سکون اور وقار کے ساتھ نماز کی طرف آؤ۔ جو رکعتیں مل جائیں وہ امام کے ساتھ پڑھو اور جو فوت ہو جائیں انہیں سلام کے بعد پورا کر لو۔ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۔ یہاں صرف خرید و فروخت کو ختم کرنے یا بند کرنے کا حکم نہیں بلکہ وہ تمام مشاغل جو جمعہ کی حاضری میں رکاوٹ بن سکیں تمام کو ترک کرنا ضروری ہے۔ اور خرید و فروخت کا خصوصی ذکر اس لیے ہوا کہ جمعہ کے روز لوگ باہر سے آتے اور بیچنے کے لیے اپنا سامان بھی لاتے اور شہر سے اپنی ضروریات خرید کے بھی لے جاتے۔ ملحقہ بستیوں کے لوگوں کے آنے کی وجہ سے جمعہ کے دن بڑی چہل پہل ہو جاتی اور خرید و فروخت کا بازار خوب گرم ہو جاتا اس لیے خصوصیت سے وَذَرُوا الْبَيْعَ کا حکم فرمایا گیا۔ پھر نماز سے فراغت کے بعد اس کی اجازت دی گئی۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

 

جاسمن

لائبریرین
۸۱ ۔ سُورة الْمُمْتَحِنَة کی آیت ۱۳ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِO
اے ایمان والو! ایسے لوگوں سے دوستی مت رکھو جن پر اللہ غضبناک ہوا ہے بیشک وہ آخرت سے (اس طرح) مایوس ہو چکے ہیں جیسے کفار اہلِ قبور سے مایوس ہیںo
سُورة الْمُمْتَحِنَة ، آیت نمبر ۱۳۔
اس سورۃ کی ابتداء میں جو حکم تھا وہی انتہاء میں بیان ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار سے جن پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت اتر چکی ہے اور خدا کی رحمت اور شفقت سے دور ہو چکے ہیں تم ان سے دوستانہ اور میل ملاپ نہ رکھو۔ وہ آخرت کے ثواب سے اور وہاں کی نعمتوں سے ایسے ناامید ہو چکے ہیں جیسے قبروں والے کافر۔ اس پچھلے جملے کے دو معنی کئے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جیسے زندہ کافر اپنے مردہ کافروں کے دوبارہ زندہ ہونے سے مایوس ہو چکے ہیں ، دوسرے یہ کہ جس طرح مردہ کافر ہر بھلائی سے نا امید ہو چکے ہیں، وہ مر کر آخرت کے احوال دیکھ چکے اور اب انہیں کسی قسم کی بھلائی کی توقع نہیں رہی۔۔۔(تفسیر ابن کثیر)۔
مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ میں مِنْ بیانیہ ہے یعنی وہ کفار جو مر کر قبروں میں دفن کیے جا چکے ہیں۔ کیونکہ ان کی موت کفر پر ہوئی اس لیے اب ان کی نجات کی کوئی صورت نہیں ، وہ اپنی بخشش کے بارے میں مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔ علامہ محمود آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ای الذین ھم اصحاب القبور ای الکفار الموتیٰ۔ جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر اپنی نجات سے مایوس ہو چکے ہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ الصف ۔ ۶۱
سورۃ الصف کی آیت نمبر ۲ میں اہل ایمان کو قول و فعل کے تضاد سے بچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَO
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہوo
سورۃ الصف ، آیت نمبر ۲۔​

کئی لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب اکٹھے بیٹھتے تو بڑی لافیں مارتے اور کہتے کہ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے تو ہم اس پر عمل کرتے اور اس کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیتے۔ جب جہاد کے بارے میں حکم نازل ہوا اور احد کا معرکہ پیش آیا تو بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے والے میدان میں ٹھہر نہ سکے۔ اس آیت سے اس قسم کے لوگوں کو عار دلائی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو تربیت دی جا رہی ہے کہ نیکی کی دعوت جو بڑے جوش و خروش سے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں خود بھی اس پر عمل کر کے دکھائیں تا کہ سننے والوں کو ان کی بات کا یقین آ جائے۔ شب معراج حضور ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ حضور ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔ جبریل نے کہا یہ آپ کی امت کے خطبا ہیں جو کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔ جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

استغفراللہ ربی من کل ذنبی و اتوب الیہ۔
اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور ڈھیروں آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۸۳ ۔ سورۃ الصف کی آیت نمبر ۱۰ ، ۱۱ اور ۱۲ میں اللہ عزوجل اپنے اہل ایمان بندوں کو ایک نفع مند تجارت کی خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍO تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتا دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لےo (وہ یہ ہے کہ) تم اللہ پر اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (حقیقت کو) جانتے ہوo وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور نہایت عمدہ رہائش گاہوں میں (ٹھہرائے گا) جو جناتِ عدن (یعنی ہمیشہ رہنے کی جنتوں) میں ہیں، یہی زبردست کامیابی ہےo
سورۃ الصف ، آیت نمبر ۱۲،۱۱،۱۰۔

دوسرے لوگ بھی تجارت کرتے ہیں ، اس میں نفع بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ بسا اوقات تو سرمایہ تک برباد ہو جاتا ہے۔ اگر نفع ہو تو یہی ہو گا کہ دولت کی فراوانی اور اسباب عیش و آرام مہیا ہو جائیں گے۔ لیکن ایک تجارت وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو باخبر کر رہا ہے اور اس میں حصہ لینے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس تجارت کی چند خصوصیات ہیں۔ اس میں نفع ہی نفع ہے، نقصان کا ذرا احتمال نہیں۔ اس کا نفع عارضی اور فانی نہیں بلکہ ابدی اور سرمدی ہے۔ اس کے فوائد سے اس کا تاجر صرف قیامت کے روز ہی بہرہ ور نہ ہوگا بلکہ اس دنیا میں بھی اس کا نفع اسے ملے گا اور نفع بھی یہ ہے کہ جس میدان میں قدم رکھے گا تنہا نہیں ہو گا اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے ہمراہ ہو گی اور فتح و کامرانی اس کے قدم چومے گی۔ پہاڑ اس کی ٹھوکر اور سمندر اس کی ضرب سے راستہ چھوڑ دیں گے۔ اور وہ تجارت یہ ہے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اپنے اموال اور اپنی جانیں اپنے رب کے راستہ میں قربان کر دو۔ بتایا کہ مال کو بچا بچا کر رکھنے میں تمہارا نفع نہیں بلکہ اس کی رضا کے لیے گھر بار لٹا دینا یہ تمہارے لیے سود مند ہے۔ جان کو بحفاظت رکھنے میں تمہاری سلامتی نہیں بلکہ تمہاری سلامتی اس میں ہے کہ اس کے نام کو بلند کرنے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دو اور اپنا سر قربان کر دو۔ تمہیں حیات جاوید بخش دی جائے گی۔ موت تمہارا دامن چھو تک نہ سکے گی۔بقول علامہ محمد اقبال

بر تر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی۔

(ضیاء القرآن)۔​

۔۔۔​

سبحان اللہ!
اللہ ہمیں دمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

جاسمن

لائبریرین
۸۴ ۔ سورۃ الصف کی آیت نمبر ۱۴ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّيْنَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَO
اے ایمان والو! تم اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) نے (اپنے) حواریوں سے کہا تھا: اللہ کی (راہ کی) طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کافر ہوگیا، سو ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لے آئے تھے اُن کے دشمنوں پر مدد فرمائی پس وہ غالب ہوگئےo
سورۃ الصف ، آیت نمبر ۱۴۔

اللہ تعالیٰ کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ نہ اس کا کوئی کام ہماری اعانت کا محتاج ہے۔ جو لوگ دین کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہتے ہیں وہ گوناگوں برکات سے اپنی زندگی کو مالا مال کرتے ہیں اور محض اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کا بھلا کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کریم ہے۔ ان کے جذبہ اخلاص کی قدر فرماتے ہوئے ان کو انصاراللہ کے معزز لقب سے یاد فرماتا ہے۔ یہ اس کی کمال مہربانی ، شان بندہ پروری اور ذرہ نوازی ہے۔ حواری لفظ حوار سے مشتق ہے اور حوار سفیدی کو کہتے ہیں۔ دھوبی کو عربی میں حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ میلے کپڑوں کو پاک اور اجلا کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی شاگرد دھوبی تھے اس لیے انہیں حواریون کہا گیا۔ بعد میں پر خلوص دوست اور باوفا ساتھی کو حواری کہا جانے لگا۔ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ کہہ کر دعوت حق دی تو سلیم الطبع لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوئے اور مشرف بایمان ہوئے۔ لیکن بنی اسرائیل کے ہٹ دھرم اور ضدی لوگ چڑ گئے اور کفر پر آمادہ ہو گئے۔ اپنی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایمان دار گروہ کی امداد فرمائی اور ان کو غلبہ اور کامیابی سے سرفراز فرمایا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ الجمعہ ۔ ۶۲

۸۵ ۔ سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر ۹ میں اہل ایمان کو جمعہ کی اذان ہونے پر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جلد پہنچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوo
سورۃ الجمعہ ، آیت نمبر ۹۔
سورۃ الجمعہ کی اس آیت سے شروع ہونے والے پورے رکوع میں نماز جمعہ کے احکام و آداب کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو ، جب تم نماز جمعہ کی اذان سنو تو جلدی سے اللہ کے ذکر کی طرف پہنچنے کی کوشش کرو اور اسی وقت خرید و فروخت بند کر دو۔ نُودِيَ سے مراد جمعہ کی اذان ہے اور احناف کے نزدیک یہ پہلی اذان ہے جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے۔ اسْعَوْا کا معنی دوڑنا یا بھاگنا نہیں ہے کیونکہ حضور ﷺ نے بھاگ کر نماز میں شرکت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ نماز کی اقامت سنو تو بھاگ کر نہ آؤ بلکہ بڑے سکون اور وقار کے ساتھ نماز کی طرف آؤ۔ جو رکعتیں مل جائیں وہ امام کے ساتھ پڑھو اور جو فوت ہو جائیں انہیں سلام کے بعد پورا کر لو۔ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۔ یہاں صرف خرید و فروخت کو ختم کرنے یا بند کرنے کا حکم نہیں بلکہ وہ تمام مشاغل جو جمعہ کی حاضری میں رکاوٹ بن سکیں تمام کو ترک کرنا ضروری ہے۔ اور خرید و فروخت کا خصوصی ذکر اس لیے ہوا کہ جمعہ کے روز لوگ باہر سے آتے اور بیچنے کے لیے اپنا سامان بھی لاتے اور شہر سے اپنی ضروریات خرید کے بھی لے جاتے۔ ملحقہ بستیوں کے لوگوں کے آنے کی وجہ سے جمعہ کے دن بڑی چہل پہل ہو جاتی اور خرید و فروخت کا بازار خوب گرم ہو جاتا اس لیے خصوصیت سے وَذَرُوا الْبَيْعَ کا حکم فرمایا گیا۔ پھر نماز سے فراغت کے بعد اس کی اجازت دی گئی۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔


اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ المنافقون ۔ ۶۳

سورۃ المنافقون کی آیت نمبر ۹ میں اہل ایمان کو مال و اولاد کی بے جا محبت میں گم ہو کر اللہ عزوجل کی یاد سے غافل ہو جانے کے فتنے سے خبردار کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَO
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo
سورۃ المنافقون ، آیت نمبر ۹۔​

اہل ایمان کو منافقین کے طریقہ کار سے اجتناب کی تاکید فرمائی جا رہی ہے کہ ان لوگوں کو تو ان کے اموال نے اور ان کی اولاد نے اپنے خالق کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ اے مسلمانو ، تم ایسا نہ کرنا۔ جس شخص کو دنیا کی دلچسپیاں اپنے پروردگار کی بندگی اور اطاعت سے محروم کر دیتی ہیں وہ انسان سراسر خسارے اور گھاٹے میں ہے۔ حقیقی نفع حاصل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی فانی زندگی کے لمحات اپنے رب کی یاد اور اپنے پیارے رسول ﷺ کی غلامی اور محبت میں بسر کر دیتے ہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ التغابن ۔ ۶۴

۸۷ ۔ سورۃ التغابن کی آیت نمبر ۱۴ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم صرفِ نظر کر لو اور درگزر کرو اور معاف کر دو تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
سورۃ التغابن ، آیت نمبر ۱۴۔
راہ حق کے مسافر کے لیے وہ لمحے بڑے خطرناک ہوتے ہیں جب اس کی محبوب بیوی یا پیاری اولاد سنگ راہ بن کر سامنے آتی ہے اور ایمان کے تقاضوں اور ان کے مطالبات میں تصادم شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے نازک لمحوں میں اپنے بندوں کی رہنمائی فرماتا ہے۔ انہیں بتاتا ہے کہ بے شک تیری بیوی تیری ارضی جنت کی حور ہے، اگرچہ تیری اولاد تیری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے لیکن اگر یہ تجھے راہ راست سے بہکانے کی کوشش کرتے ہیں تو خبردار ، یہ تیرے دشمن ہیں۔ تیری عاقبت کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ تجھے اپنے مالک کی بغاوت پر اکساتے ہیں۔ ان کی چالوں سے ہوشیار رہنا۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی ناز برداریاں کرتے ہوئے اپنی متاع ایمان لٹا بیٹھو۔ یہ خسارہ ناقابل برداشت ہو گا۔ مال اور اہل و عیال کی محبت اگر یاد حق میں خلل انداز ہو تو یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے (جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں فرمایا ہے)۔مومن کو چاہیے کہ ان کی محبت میں ایسا وارفتہ نہ ہو جائے کہ یاد حق میں غفلت اور احکام شریعت کی پابندی میں تساہل ہونے لگے۔ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا ۔ اہل و عیال کی کھلی عداوت کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک اور عفو و درگزر کا درس دیا جا رہا ہے۔ یہ وسیع القلبی اور تسامح اسلام کے بغیر آپ کو کسی اور دین میں نہیں ملے گی۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ التحریم ۔ ۶۶

۸۸ ۔ سورۃ التحریم کی آیت نمبر ۶ میں اہل ایمان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ خود کو اور اپنے گھر والوں کو عذاب جہنم سے بچانے کی تدبیر کرو۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لاَّ يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَO
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اﷲ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہےo
سورۃ التحریم ، آیت نمبر ۶۔​

اہل ایمان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو آتش جہنم سے بچائیں لیکن ان کی ذمہ داری اپنی ذات تک محدود نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی عذاب دوزخ سے بچانے کی پوری کوشش کرنا ان پر لازم ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، اپنے آپ کو تو دوزخ سے بچانے کا مفہوم سمجھ میں آ گیا، ہم اپنے اہل و عیال کو کیونکر دوزخ سے بچا سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تنھونھم عمّا نھاکم اللہ وتامرونھم بما امراللہ۔ یعنی تم اس طرح ان کو بچا سکتے ہو کہ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں روکا ہے تم اپنے اہل و عیال کو بھی ان سے روکو، اور جن کاموں کو بجا لانے کا اس نے حکم دیا ہے تم انہیں حکم دو کہ وہ بھی بجا لائیں۔ مقاتل کہتے ہیں ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو ، اپنی اولاد، اپنی بیوی اور اپنے خدام کو عذاب جہنم سے بچانے کی کوشش کرے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے حق الولد علیٰ الوالدان ان یحسن اسمہ ویعلمہ الکتابۃ ویزوجہ اذا بلغ ۔ یعنی باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ جب پیدا ہوں تو ان کے لیے عمدہ نام تجویز کرے، جب بڑے ہوں تو انہیں تعلیم دے اور جب وہ بالغ ہوں تو ان کی شادی کرے۔ دوسرا ارشاد نبوی ہے ما نحل والد ولداً أفضل من أدب حسن۔ یعنی کسی باپ نے اپنے بچے کو حسن ادب سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
(اللہ عزوجل ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو حسن ادب کی دولت عطا فرمائے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا کر اپنے کرم سے جنت میں داخل فرمائے۔آمین۔)

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۸۹ ۔ سورۃ التحریم کی آیت نمبر ۸ (جو ہمارے اس سلسلے کی آخری آیت ہے) میں اللہ عزوجل اپنے اہل ایمان بندوں کو خلوص دل کے ساتھ توبہ کرنے پر اپنی مغفرت ، رضا اور جنت کی خوشنودی عطا فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO
اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کر لو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا اور تمہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ (اپنے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور اُن اہلِ ایمان کو جو اُن کی (ظاہری یا باطنی) معیّت میں ہیں رسوا نہیں کرے گا، اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں طرف (روشنی دیتا ہوا) تیزی سے چل رہا ہوگا، وہ عرض کرتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لئے مکمل فرما دے اور ہماری مغفرت فرما دے، بیشک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہےo
سورۃ التحریم ، آیت نمبر ۸۔​

اس آیت میں اہل ایمان کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ اگر اس سے پہلے جہالت، کم فہمی یا بشری کمزوری کی وجہ سے تم سے غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں تو وقت ضائع مت کرو، فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے توبہ کرو تا کہ تمہارا رحیم و کریم پروردگار تمہارے گناہوں کے بد نما داغوں کو اپنے دامن کرم میں یوں چھپا لے کہ کسی کو ان کا اتہ پتہ بھی معلوم نہ ہو سکے۔ روز محشر فرشتے بھی تمہارے اعمال نامے سے کوئی ایسی چیز پیش نہ کر سکیں جو تمہاری رسوائی کا باعث ہو۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سچی توبہ وہ ہے جس میں تین چیزیں جمع ہوں ۔ ۱۔ اس گناہ کو ترک کر دے، ۲۔ جو گناہ کر بیٹھا ہے اس پر دل میں ندامت اور شرمندگی محسوس کرے، ۳۔ پختہ عزم کرے کہ پھر یہ گناہ نہیں کرے گا۔
عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ : یعنی اگر تم سچے دل سے توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ تمہارے گناہوں کو اپنے دامن کرم سے ڈھانپ دے اور اس طرح ڈھانپ دے کہ ان کا سراغ ہی نہ ملے۔ علامہ راغب اصفہانی يُكَفِّرَ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں یعنی کسی گناہ کو یوں ڈھانپ دینا اور اس پر یوں پردہ ڈال دینا کہ وہ ایسا نسیاً منسیا ہو جائے جیسے یہ ہوا ہی نہ تھا۔ تاج العروس میں ازہری کا یہ قول منقول ہے کہ کسی چیز کو ایسا ڈھانپ دینا کہ اس کا نام و نشان ہی باقی نہ رہے۔
يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ : کفار اپنی ثروت و سرداری کے زعم میں اہل حق کی غربت و بے بسی کے وقت اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ قیامت اگر آ بھی گئی تو اس دن بھی ہم ہی معزز و سرفراز ہوں گے۔ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہمارے محبوب مکرم ، خاتم الانبیا اور ان کے غلاموں کی عزت و سرفرازی کا دن ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی شان کو بلند کرے گا۔ مقام محمود پر آپ جلوہ افروز ہوں گے۔ لواء الحمد آپ کے دست مبارک میں ہو گا۔ جملہ انبیاء آپ کے ظل ہمایوں میں پناہ لیے ہوں گے۔ اور وہ مسلمان جو آپ پر ایمان لائے ان کی شان ہی نرالی ہو گی۔ بارگاہ الٰہی سے انہیں گوناگوں انعامات بخشے جائیں گے۔ انہیں اذن ملے گا کہ اپنے ماں باپ، بیویوں ، بچے بچیوں ، بھائی بہنوں اور دوست احباب کی شفاعت کریں۔ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے نبی مکرم کو اور اس کے غلاموں کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا۔ یہ کفار کی غلط فہمیاں ہیں۔
نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ: اہل ایمان میدان حشر میں بالکل ممتاز ہوں گے۔ ان کے آگے ان کا نور ایمان چمک رہا ہو گا۔ ان کی دائیں جانب بھی روشنی ہی روشنی ہو گی اور دوسرے لوگ اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے۔مومن عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ، ہمارے نور کو اور تابانیاں بخش، الٰہی جنت کا جو سفر ہمیں درپیش ہے اس میں یہ شمع روشن رہے، یہ چراغ جلتا رہے اور ہمیں بخش دے۔ بے پایاں رحمتوں کے باوجود ان کے عجز و نیاز کا یہ عالم ہو گا۔ اہل حق کی یہی امتیازی شان ہے۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
الحمد للہ رب العالمین۔
اللہ عزوجل کی توفیق و عنایت سے آج ہمارا یہ سلسلہ مکمل ہوا۔ اللہ عزوجل اس میں ہونے والی کوتاہیوں اور غلطیوں کو اپنے عفو و کرم سے معاف فرمائے اور اس کو تمام مسلمانوں کے لیے نفع مند بنائے۔ اور تمام پڑھنے والوں کے لیے ہدایت و رہنمائی اور برکت و بخشش کا ذریعہ بنائے۔ اللہ عزوجل اس کوشش کو اپنے کرم و فضل سے قبول فرماتے ہوئے اس حقیر کی بے حساب مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ آمین بجاہ النبی الامین۔۔۔
۔۔۔​
 
Top