جاسمن

لائبریرین
۶۲ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت ۴۹ میں طلاق کے بارے میں کچھ اہم ہدایات دی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًاO
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کروo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۴۹۔
یہاں شرعی حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر تم اپنی کسی ایسی منکوحہ کو طلاق دو جس سے تم نے خلوت صحیحہ نہیں کی تو اس مطلقہ کا عدت گزارنا لازمی نہیں۔ لیکن جب ان کو عقد نکاح سے آزاد کرو تو بے مروتی کا ثبوت نہ دو۔ طلاق دے کر تم نے ان کا دل توڑا ہے۔ ان کی کچھ مالی اعانت کردو تا کہ ان کی دلجوئی ہو جائے۔ اگر ایسی عورت کا مہر مقرر تھا تو نصف مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں ایک جوڑا کپڑوں کا دینا لازمی ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
اللہ تمام شادی شدہ جوڑوں کو شیطان کی شر انگیزی سے بچائے اور ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۶۳ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۳ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو اللہ کے رسول ﷺ کے گھر آنے جانے ، ان کے گھر کھانے پینے ، بات چیت کرنے اور امھات المؤمنین سے برتاؤ کا ادب و سلیقہ سکھا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًاO
اے ایمان والو! نبیِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب) تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہوجایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقیناً تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکرم) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطّہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لئے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد ابَد تک اُن کی اَزواجِ (مطّہرات) سے نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہےo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۵۳۔​

یہاں مسلمانوں کو حضور ﷺ کے حجروں میں داخل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق ہدایات دی جا رہی ہیں۔ فرمایا، جب تک حضور اجازت نہ دیں تمہارا داخل ہونا قطعاً ممنوع ہے اور جب اجازت ملے تو داخل ہو سکتے ہو اور وہ بھی اتنے وقت کے لیے کہ کھانا کھاؤ اور اس کے بعد فوراً اٹھ کر چلے جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتیں کرنے لگو اور حضور کو اس طرح تمہارے دیر تک بیٹھنے سے تکلیف پہنچے۔ حضور تو شرم کی وجہ سے تمہیں اٹھ کر چلے جانے کا حکم نہیں فرمائیں گے اور خاموش رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی باتوں پر خبردار کرنے سے حیا نہیں کرتا جن کا جاننا تمہارے لیے ضروری ہے۔ یہاں دوسرا ادب یہ سکھایا جا رہا ہے کہ تمہیں حضور کے اہل خانہ سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر مانگو، اندر گھس آنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ ارشاد فرمایا کہ تمہیں کسی ایسے کام کرنے کی اجازت نہیں جس سے میرے رسول کو تکلیف پہنچے۔ تمہارا فرض ہے کہ ہر ایسے کام سے اجتناب کرو جو نبی کریم ﷺ کی گرانئ طبیعت کا سبب بن سکتا ہو۔ یہاں ایک اور حکم بیان فرمایا کہ حضور کے وصال کے بعد حضور کی ازواج مطہرات سے کسی کو نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ وہ تمہاری مائیں ہیں اور تم پر قطعاً حرام ہیں۔ تم اس چیز کو معمولی بات مت خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی بڑا جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں اپنے نبیﷺ کا کہنا ماننے کی توفیق اور آسانی دے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۶۴ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۶ میں اللہ عزوجل نے اپنی اور اپنے فرشتوں کی ایک سنت کا ذکر کر کے اہل ایمانکو دعوت دی ہے کہ وہ بھی اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہ کام آقا علیہ الصلاۃ والسلام پر درود و سلام بھیجنا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۵۶۔​

کفار نے بڑے کروفر اور شکوہ و طمطراق کے ساتھ مدینہ طیبہ پر بار بار یورش کی لیکن انہیں ہر بار ان مٹھی بھر اہل ایمان سے شکست کھا کر واپس آنا پڑا۔ اب انہوں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات اقدس و اطہر پر طرح طرح کے بے جا الزامات تراشنے شروع کر دیے تا کہ لوگ رشد و ہدایت کی اس نورانی شمع سے نفرت کرنے لگیں اور یوں اسلام کی ترقی رک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی ان امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ فرمایا کہ یہ میرا حبیب اور میرا پیارا رسول وہ ہے جس کی وصف و ثنا میں اپنی زبان قدرت سے کرتا ہوں اور میرے سارے ان گنت فرشتے اپنی نورانی اور پاکیزہ زبانوں سے اس کی جناب میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تم چند لوگ اگر اس کی شان عالی میں ہرزہ سرائی کرتے بھی رہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جس طرح تمہارے پہلے منصوبے خاک میں مل گئے اور تمہاری کوششیں ناکام ہو گئیں اسی طرح اس ناپاک مہم میں بھی تم خائب و خاسر ہو گے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ میں اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ جملہ اسمیہ ہے لیکن اس کی خبر جملہ فعلیہ ہے تو یہاں دونوں جملے جمع کر دیے گئے ہیں۔ اس میں راز یہ ہے کہ جملہ اسمیہ استمرار و دوام پر دلالت کرتا ہے اور فعلیہ تجدد و حدوث کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر دم، ہر گھڑی اپنے نبی مکرم پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرماتا ہے اور آپ کی شان بیان فرماتا ہے۔ اسی طرح اس کے فرشتے بھی اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ عراقی نے کیا خوب لکھا ہے۔
ثنائے زلف و رخسار تو اے ماہ ، ملائک ورد صبح و شام کروند۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندے پر ہمیشہ اپنی برکتیں نازل فرماتا رہتا ہے اور اس کے فرشتے اس کی ثنا گستری میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور اس کی رفعت شان کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں، تو اے اہل ایمان تم بھی میرے محبوب کی رفعت شان کے لیے دعا مانگا کرو۔ اگرچہ صلوٰۃ بھیجنے کا ہمیں حکم دیا جا رہا ہے (اور ہم بساط بھر بھیجتے بھی ہیں) لیکن ہم نہ شان رسالت کو کما حقہ جانتے ہیں اور نہ اس کا حق ادا کر سکتے ہیں اس لیے اعتراف عجز کرتے ہوئے ہم عرض کرتے ہیں : اللٰھم صل ۔۔ یعنی اے مولا کریم تو ہی اپنے محبوب کی شان کو اور قدر و منزلت کو صحیح طور پر جانتا ہے۔ اس لیے تو ہی ہماری طرف سے اپنے محبوب پر درود بھیج جو اس کی شان کے شایاں ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
اس موقع پر غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
تیرِ قضا ہر آئنہ در ترکش ِ حق است ، اما کشاد آں زِ کمان محمد است۔
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم ، کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است۔
یعنی قضا کا تیر بلا شبہ حق ہی کے ترکش میں ہوتا ہے ، لیکن یہ تیر حضور ﷺ کی کمان سے چلتا ہے۔ غالب ؔنے حضور ﷺ کی نعت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے ،کیونکہ وہ ذاتِ پاک ہی حضرت محمد ﷺ کی شان و عظمت سے صحیح معنوں میں آگاہ ہے ۔۔۔​
اللٰھم صل وسلم وبارک علیٰ سیدنا ومولانا و حبیبنا وشفعینا و سندنا محمد وعلیٰ آلہ و اصحابہ وازواجہ وعترتہ اجمعین۔​

۔۔۔​

اللہ ہمیں توفیق و آسانی دے کہ زیادہ سے زیادہ درود ع سلام بھیجیں اپنے پیارے پیارے نبیﷺ پہ۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۷۶ ۔ سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر ۱۱ میں اہل ایمان کو مجلس کے آداب سکھائے جا رہے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌO
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہو جاؤ تو تم کھڑے ہوجایا کرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہےo
سورۃ المجادلہ ، آیت نمبر ۱۱۔
اس آیت میں بھی مسلمانوں کو مل بیٹھنے کے ایسے آداب سکھائے جا رہے ہیں جن پر عمل کرنے سے باہمی محبت بڑھے اور ایک دوسرے کا احترام پیدا ہو۔ فرمایا اگر مجلس میں لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے دوسرے حضرات آ جائیں تو پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ آنے والوں کی پروا تک نہ کریں کہ انہیں بیٹھنے کی جگہ ملی یا نہیں۔ بلکہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ انہیں عزت سے بٹھائیں اور اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو پھر بھی انہیں چاہیے کہ جتنا سکڑ سکتے ہیں سکڑیں اور آنے والوں کے لیے جگہ نکالیں۔ فرمایا اگر تم اپنے بھائیوں کے لیے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے رزق کو کشادہ کر دے گا بلکہ دنیا و آخرت میں تمہیں فراخی و کشادگی نصیب فرمائے گا۔ جو لوگ پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے ان کو تو یہ تعلیم دی کہ وہ آنے والوں کے لیے جگہ کشادہ کریں لیکن حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے آنے والوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی کہ وہ ایسا نہ کریں کہ پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اٹھا دیں اور ان کی جگہ خود بیٹھ جائیں۔ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا : جب حاضرین مجلس کو کہا جائے کہ اب آپ تشریف لے جائیں تو انہیں فوراً چلے جانا چاہیے، ورنہ اہل خانہ یا منتظمین مجلس کو بڑی کوفت ہو گی۔ سرور دوعالم ﷺ جب صحابہ کو اپنے گھر میں مدعو فرماتے تو کھانا کھالینے کے بعد بھی کہنے کے باوجود کئی لوگ وہاں سے اٹھنے کا نام نہ لیتے۔ ان کی تمنا یہ ہوتی کہ سب سے آخر میں اپنے آقا و مولیٰ سے مصافحہ کریں۔ انہیں بتایا گیا کہ تمہاری محبت بجا ، لیکن حضور کے آرام کا بھی تمہیں خیال رکھنا چاہیے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلندئ مراتب اور رفع درجات کا ذریعہ ایمان اور علم ہے۔ ایک ایمان دار شخص نادار و مفلس ہی کیوں نہ ہو، کافر رئیسوں سے اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بلند ہے۔علامہ مرحوم فرماتے ہیں
قطرہء آبِ وضوءِ قنبرے
خوب تر از خون نابِ قیصرے​
یعنی قنبر جو سیدنا علی کا غلام تھا ، اس کے وضو کے پانی کا قطرہ قیصر کے خون سے زیادہ عزت والا ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین

جاسمن

لائبریرین
۶۵ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۶۹ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًاO
اے ایمان والو! تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسٰی (علیہ السلام) کو (گستاخانہ کلمات کے ذریعے) اذیت پہنچائی، پس اللہ نے انہیں اُن باتوں سے بے عیب ثابت کردیا جو وہ کہتے تھے، اور وہ (موسٰی علیہ السلام) اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت والے تھےo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۶۹۔​

بنی اسرائیل اپنے پیغمبر اور اپنے نجات دہندہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بات بات پر دکھ دیتے تھے، قدم قدم پر مخالفت کرتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں اپنا رسول مانتے تھے، لیکن ان کے ہر حکم سے سرتابی کرنا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ تورات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اس جلیل القدر پیغمبر کی دلآزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مقام بہت بلند اور مرتبہ نہایت اعلیٰ تھا۔(تورات سے کچھ مثالیں کتب تفاسیر میں دی گئی ہیں)۔ فرمایا کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو، تم بنی اسرائیل کی روش اختیار کر کے میرے محبوب ﷺ کی دلآزاری نہ کرنا ورنہ تم کو اس گستاخی کی ایسی سزا ملے گی جس سے نجات کے سارے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہر وہ چیز جس سے نبی کریم ﷺ کو تکلیف پہنچے، وہ قطعاً ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کےساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کی صفات کمال کا انکار کرنا، حضور کی ذات اقدس و اطہر پر بہتان باندھنا، اللہ تعالیٰ نے حضور کو جن کمالات سے سرفراز فرمایا ہے ان کا انکار کرنا، حضور کے دین اور شریعت کے قوانین کو ناقابل عمل کہنا، حضور کی آل اطہار پر معترض ہونا، حضور کے صحابہ پر زبان طعن دراز کرنا، یہ سب ایسے امور ہیں جن سے حضور کے قلب مبارک کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ان تمام امور سے اجتناب ضروری ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں نہ صرف عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے بلکہ ہمیں یہ بھی توفیق دے کہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے او پیارے نبیﷺ کو ہم سے ناراض کرنے والی ہو۔ آمیں!اللہ ہماری کوہتائیاں معاف فرمائے۔ آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۶۸ ۔ سورۃ محمد کی آیت نمبر ۳۳ اہل ایمان کو اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْO
اے ایمان والو! تم اﷲ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کروo
سورۃ محمد ، آیت نمبر ۳۳۔​

اللہ تعالیٰ اپنے با ایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے۔۔۔(ابن کثیر)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں اپنی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ الحجرات ۔ ۴۹
۶۹ ۔ سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں بھی رسول مکرم ﷺ کی شان رفیع بیان کر کے اہل ایمان کو بارگاہ نبوت کا ادب و احترام سکھایا جا رہا ہے۔ اس سورۃ کی پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بیشک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہےo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۱۔
اس سورۃ میں رسول ذی شان ﷺ کی عزت و تکریم کا حکم دیا جا رہا ہے۔ ادب و احترام کے انداز سکھائے جا رہے ہیں۔ چونکہ ادب ہو گا تو دل میں تعظیم ہو گی۔ تعظیم ہو گی تو احکام کی تعمیل کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جب تعمیل حکم کی خُو پختہ ہو گی تو محبت کی نعمت مرحمت فرمائی جائے گی۔ اور جب محبوب خدا وند ذوالجلال کے عشق کی شمع فروزاں ہو گئی تو حریم کبریائی تک جانے والا سارا راستہ منور ہو جائے گا۔
ادب و احترام کے درس کا آغاز لَا تُقَدِّمُوا سے فرمایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن جریر لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے پیشوا یا امام کے ارشاد کے بغیر خود ہی امر و نہی کے نفاذ میں جلدی کرے تو عرب کہتے ہیں کہ فلان یقدم بین یدی امامہ۔ یعنی فلاں شخص اپنے امام کے آگے آگے چلتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب کریم اور اس کے رسول مکرم کے ارشاد کے علی الرغم کوئی بات کہے یا کوئی کام کرے۔ جب انسان اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہے تو وہ اس امر کا بھی اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ آج کے بعد اس کی خواہش ، اس کی مرضی، اس کی مصلحت ، اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر بلا تامل قربان کر دی جائے گی۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۷۰ ۔ سورۃ الحجرات کی دوسری ، تیسری ، چوتھی اور پانچویں آیت میں بھی اہل ایمان کو دربار رسالت کا ادب و احترام سکھایا جا رہا ہے۔ اور شان رسالت میں بے ادبی و گستاخی کی سزا رب العالمین کی طرف سے زندگی بھر کے اعمال غارت کر دینے کی مقرر کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌO إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَO وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہوoبیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقوٰی کے لئے چن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہےoبیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۵،۴،۳،۲۔​

سابقہ آیت میں بتایا تھا کہ قول و عمل میں سرور عالم ﷺ سے سبقت نہ کرو۔ اب گفتگو کا طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں وہاں شرف باریابی نصیب ہو اور ہمکلامی کی سعادت سے بہرہ ور ہو تو یہ خیال رہے کہ تمہاری آواز میرے محبوب کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے۔ جب حاضر ہو تو ادب و احترام کی تصویر بن کر حاضری دو۔ اگر اس سلسلہ میں تم نے ذرا سی غفلت برتی اور بے پروائی سے کام لیا تو سارے اعمال حسنہ ہجرت، جہاد، عبادات وغیرہ تمام کے تمام اکارت ہو جائیں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے آہستہ آہستہ کلام کرنے کو اپنا معمول بنا لیا۔ صحابہ کرام جو پہلے ہی سراپا ادب و احترام تھے، مزید محتاط ہوگئے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جو قدرتی طور پر بلند آواز تھے، ان پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ دروازے کو قفل لگا کر گھر میں بیٹھ گئے اور دن رات زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ مرشد کریم ﷺ نے جب ایک دو روز ان کو نہ دیکھا تو ان کے بارے میں دریافت کیا، صورت حال عرض کی گئی تو حضور ﷺ نے بلوایا اور رونے کی وجہ پوچھی۔ غلام اطاعت شعار نے عرض کیا یا رسول اللہ، میری آواز اونچی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آیت میرے حق میں نازل ہوئی ہے۔ میری تو عمر بھر کی کمائی غارت ہو گئی۔ اس دلنواز آقا نے تسلی دے کر خوشخبری دیتے ہوئے کچھ یوں ارشاد فرمایا ، اما ترضیٰ ان تعیش جیدا وتقتل شہیدا وتدخل الجنۃ ، کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم قابل تعریف زندگی بسر کرو اور شہید قتل کیے جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔ عرض کیا رضیت ، اس نوازش بے پایاں پر یہ بندہ راضی ہے۔(روح المعانی) علامہ ابن قیم اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت ثابت کی شہادت حضور کے وصال کے بعد مسیلمہ کذاب کے فتنے کے خلاف جنگ یمامہ میں ہوئی اور اس وقت انہوں نے ایک نفیس اور قیمتی زرہ پہن رکھی تھی۔ ایک شخص آپ کی نعش کے پاس سے گزرا تو اس نے وہ زرہ اتار کر چھپا دی۔ اسی رات حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو خواب میں فرمایا کہ میں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں اور خبردار یہ خیال نہ کرنا کہ یہ محض خواب ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ سنو میں جب کل شہید ہوا تو ایک شخص نے میری زرہ اتار لی۔ اس کی رہائش گاہ پڑاؤ کے آخری کنارہ پر ہے۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے خیمے کے نزدیک ایک گھوڑا چر رہا ہے جس کے پاؤں میں ایک لمبی رسی بندھی ہے۔ اس شخص نے میری زرہ پر ایک دیگچہ الٹا کر رکھ دیا ہے اور اس کے اوپر اونٹ کا کجاوہ ہے۔ تم صبح حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ میری زرہ اس شخص سے لے لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تم مدینہ طیبہ پہنچو تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنا کہ ثابت پر اتنا قرضہ ہے ، وہ ادا کر دیں اور میرے فلاں فلاں غلام کو آزاد کر دیں۔ جب وہ شخص بیدار ہوا تو حضرت خالد کے پاس گیا اور اپنا خواب سنایا۔ حضرت خالد نے وہ زرہ وہاں سے تلاش کر لی اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت ثابت کی وصیت کو عملی جامہ پہنایا۔(کتاب الروح)۔ جن خوش نصیبوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے حبیب مکرم ﷺ کا ادب ہوتا ہے، ان کی رفعت شان کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔
أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ : تمہارے سارے اعمال غارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر ہی نہ ہو۔ اس جملہ میں گستاخوں کی محرومی و بد نصیبی کا بیان ہے۔ اس کو سن کر بھی علم و زہد کا خمار اگر نہ اترے، فضیلت و پارسائی کا طلسم اگر نہ ٹوٹے تو بدقسمتی کی انتہا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں گے، سب نیکیاں ملیا میٹ ہو جائیں گی اور تمہیں خبر تک نہ ہو گی۔ تم اس غلط فہمی کا شکار رہو گے کہ تم بڑے نمازی اور غازی ہو۔ صائم الدہر اور قائم اللیل ہو، مفسر ہو، محدث ہو، واعظ آتش بیان ہو اور جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ اور جب وہاں پہنچو گے تو اس وقت پتہ چلے گا کہ اعمال کا جو باغ تم نے لگایا تھا اس کو تو بے ادبی اور گستاخی کی باد صرصر نے خاک سیاہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت کف افسوس ملو گے، سر پیٹو گے لیکن بے سود ، لا حاصل۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا۔


۔۔۔​

ان کے ذکر کی محفل ہو خاص طور پہ روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ جب بھی جائیں،بھگدڑ ،شورو غل اور ایک دوسرے کو دھکے دینے سے حتی الامکان بچنے کی توفیق دے اللہ کریم۔وہاں ہمیں سارے آداب کے ساتھ حاضری کی توفیق اور آسانی دے۔اور ہاں ہمیں بار بار بار بار۔۔۔۔۔۔بلائے۔آمین!ثم آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۷۳ ۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۲ میں اہل ایمان کو بد ظنی ، تجسس اور غیبت جیسی برائیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۱۲۔
مسلم معاشرہ کو ہر قسم کی شکر رنجی سے محفوظ رکھنے کے لیے جو ہدایات پچھلی آیت میں دی جا رہی تھیں ان کا سلسلہ اس آیت میں بھی جاری ہے۔ فرمایا، کثرت ظن و گمان سے اجتناب کیا کرو۔ کیونکہ بعض ظن ایسے ہیں جو گناہ ہوتے ہیں۔ ان کلمات سے پتہ چلتا ہے کہ مطلقاً ظن سے نہیں روکا اور نہ ہر قسم کے ظن کو گناہ کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی ظن جائز ہیں۔ اس لیے علمائے کرام نے ظن کی متعدد قسمیں ذکر کی ہیں۔ واجب ، مستحب، مباح، اور ممنوع۔ اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ظن کرنا واجب ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے وصال سے تین روز پہلے فرمایا لاَ يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلاَّ وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ۔ تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو۔ مومن کے ساتھ جس کا ظاہری حال اچھا ہو حسن ظن رکھنا مستحب ہے۔ ایسا شخص جس کے احوال مشکوک ہوں اس کے متعلق سوئے ظن کرنا مباح ہے لیکن یقینی دلائل کے بغیر محض ظن کے مطابق اس کے خلاف کاروائی کرنا جائز نہیں۔ پھر فرمایا لَا تَجَسَّسُوا یعنی کسی مسلمان کے عیبوں کا سراغ لگانا اور اس کے پوشیدہ حالات کو کریدنا ممنوع ہے۔ اس طرح اس کی پردہ دری ہوگی، حالانکہ ہمیں پردہ پوشی کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہےمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہ یَوْمَ الْقیامۃ۔ جو دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
لَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا : پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نہ کرو۔ غیبت کی تعریف خود زبان رسالت نے بیان فرمائی ہے۔ ایک دن حضور ﷺ دریافت فرمایا کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ ورسولہ اعلم ، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ذِكْرُكَ أخاك بما يكْره یعنی اپنے بھائی کا ایسا ذکر جسے وہ ناپسند کرے۔ عرض کی گئی اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہو تو بھی اس کا ذکر غیبت ہو گی۔ فرمایا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے تو تُو نے غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں نہیں تو تُو نے اس پر بہتان باندھا۔ (اللہ عزوجل ہمیں غیبت و بہتان سے بچائے)۔ قرآن کریم نے لوگوں کو غیبت سے متنفر کرنے کے لیے ایک ایسی تشبیہ دی جس کو سن کر کوئی سلیم الطبع غیبت کی طرف راغب نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کیا کوئی شخص انسانی گوشت کھانا پسند کرے گا اور انسان بھی وہ جو مردہ ہو اور مردہ بھی وہ جو اس کا بھائی ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص غیبت کر بیٹھے تو وہ توبہ کرے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کر بیٹھو اس کے لیے بکثرت مغفرت کی دعا مانگو۔ لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جبکہ غیبت مباح ہو جاتی ہے۔ وہ فاسق جو اعلانیہ فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہے اس کے عیوب کا ذکر غیبت نہیں۔ اسی طرح بد عقیدہ عالم اور ظالم بادشاہ کے عیوب بیان کرنا بھی غیبت نہیں۔ حدیث شریف میں ہے مَنْ أَلْقَى جِلْبَابَ الْحَيَاءِ فَلا غِيبَةَ لَهُ جو شخص حیاء کی چادر اتار کر پھینک دے اس کی کوئی غیبت نہیں۔ دوسرا ارشاد ہے،اذکروالفاجر بمافیہ یحذرہ الناس یعنی فاجر کی خرابیاں بیان کیا کرو تاکہ لوگ اس سے بچتے رہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ الحدید ۔ ۵۷

۷۴ ۔ سورۃ الحدید کی آیت نمبر ۲۸ میں اللہ عزوجل تقویٰ اختیار کرنے اور رسالت محمدی ﷺ کی تصدیق کرنے والوں کے لیے اپنی طرف سے دو خصوصی رحمتوں کی نوید سنا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! اللہ کا تقوٰی اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
سورۃ الحدید، آیت نمبر ۲۸۔​

علمائے تفسیر نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں: اہل کتاب میں سے جو لوگ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے صحیح دین پر قائم تھے ، انہیں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں پہلے انبیاء پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہے۔ اب تم خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ ﷺ پر بھی ایمان لے آؤ جن پر ایمان لانے کی تاکید تمہارے انبیاء نے کی ہے اور جن کی آمد کی بشارتوں سے تمہاری آسمانی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ان پر بھی سچے دل سے ایمان لاؤ تو تمہیں اس کی رحمت سے دوہرا حصہ ملے گا۔ قرآن کریم جو سراپا نور ہے اس کے انوار سے تمہاری دنیا اور آخرت جگمگانے لگے گی۔ تمہارے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔ دوسرے مفہوم کے مطابق مسلمانوں کو ہی تقویٰ کا حکم دیا جا رہا ہے اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اگلی آیت میں اہل ایمان پر اپنے اس فضل خاص کی وجہ یوں بیان فرمائی ہے کہ

لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
(تم پر یہ خصوصی کرم اِس لئے ہے) کہ اہلِ کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل پر کچھ قدرت نہیں رکھتے اور (یہ) کہ سارا فضل اللہ ہی کے دستِ قدرت میں ہے وہ جِسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ فضل والا عظمت والا ہےo سورۃ الحدید ، آیت نمبر ۲۹۔
اہل کتاب اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول اور کلیم کے امتی ہیں۔ انہیں اس نبی عربی کی اطاعت اور اس پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ساری رحمتیں اور انعامات ان ہی کے لیے مخصوص ہیں اور عرب کے بدؤوں کا رحمت الٰہیہ میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے ایمان والو ، تقویٰ کو اپنا شعار بنا لو اور میرے پیارے رسول پر ایمان لانے کا حق ادا کر دو اور اس کی غلامی پر فخر و ناز کرو تاکہ میں تم پر اپنی عنایات اور انعامات کی انتہا کر دوں جنہیں دیکھ کر اہل کتاب کو پتہ چل جائے کہ میری رحمت کے خزانے پر ان کا کوئی قابو نہیں ۔ میں جس کو چاہتا ہوں، جتنا چاہتا ہوں عطا فرماتا ہوں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی دے اور ہم پر اپنا خاص لطف و کرم کرے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ المجادلہ ۔ ۵۸
۷۵ ۔ سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر ۹ میں اہل ایمان کی سرگوشیوں اور خفیہ مشوروں کے بارے میں رہنمائی فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَO
اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم و سرکشی اور نافرمانئ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سرگوشی نہ کیا کرو اور نیکی اور پرہیزگاری کی بات ایک دوسرے کے کان میں کہہ لیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب جمع کئے جاؤ گےo
سورۃ المجادلہ ، آیت نمبر ۹۔​

ایسی سرگوشیاں ممنوع ہیں جن میں کسی گناہ کے بارے میں مشورے ہوں۔ لوگوں کو اذیت پہنچانے کے لیے تجویزیں سوچی جائیں یا اللہ کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی نافرمانی اور مخالفت کے لیے سکیمیں تیار کی جائیں۔ مسلمانوں کو کسی ایسی میٹنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اگر کسی نیک کام کے لیے کسی مفید بات کے لیے باہم مل کر صلاح مشورہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ محفوظ فرمائے اور ہمیں ایسے کسی بھی گناہ سے پناہ دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
ابھی کچھ آیات رہتی ہیں۔
ماشاءاللہ بہت اچھی کوشش ہے۔اللہ قبول و منظور فرمائے اور مزید کوشش کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔ان سب کوششوں کا بہترین اجر دونوں جہانوں میں عطا فرمائے۔خوشیاں اور آسانیاں دے۔گھر والوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے۔صحت و عافیت عنایت کرے۔اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
عرض کیا حیلہ (یعنی تدبیر) کیا ہے؟ فرمایا ترک حیلہ۔
تفسیر مظہری میں ترک حیلہ سے مراد " قطع اسباب" بھی لکھا ہے۔ شاید اس سے تقدیر کے مقابلے میں اپنی تدبیر سے دستبردار ہو جانا مراد ہو جو کہ اولوالعزم لوگوں کا خاصہ ہے۔۔ ویسے بھی یہ "مدینۃ العلم" اور "باب مدینۃ العلم " کے مابین سوال و جواب ہیں اس لیے وہی بہتر جانتے ہیں۔۔۔

حکم کی وجہ تو سمجھ آتی ہے لیکن منسوخ کی حکمت سمجھ نہیں آرہی۔
جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے خوف اور ہر سرگوشی کے وقت ان پر صدقات کی مشقت کو ملاحظہ فرمایا تو ان پر معاملے کو آسان کر دیا اور سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ ترک کرنے پر مواخذہ نہیں فرمایا۔ البتہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم اور آپ کا احترام باقی رکھا اس کو منسوخ نہیں فرمایا۔ کیونکہ سرگوشی سے قبل صدقہ مشروع لغیرہ کے باب سے ہے فی نفسہ مقصود نہیں۔ اصل مقصد تو رسول اللہ ﷺ کا ادب اور اکرام ہے۔۔۔ (تفسیر السعدی)۔
 

الشفاء

لائبریرین
ابھی کچھ آیات رہتی ہیں۔
ماشاءاللہ بہت اچھی کوشش ہے۔اللہ قبول و منظور فرمائے اور مزید کوشش کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے۔ان سب کوششوں کا بہترین اجر دونوں جہانوں میں عطا فرمائے۔خوشیاں اور آسانیاں دے۔گھر والوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے۔صحت و عافیت عنایت کرے۔اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اللہ عزوجل اخلاص بھی عطا فرمائے۔ اور ان دعاؤں کو آپ کے حق میں بھی قبول فرمائے۔ جزاک اللہ الف خیر۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
تفسیر مظہری میں ترک حیلہ سے مراد " قطع اسباب" بھی لکھا ہے۔ شاید اس سے تقدیر کے مقابلے میں اپنی تدبیر سے دستبردار ہو جانا مراد ہو جو کہ اولوالعزم لوگوں کا خاصہ ہے۔۔ ویسے بھی یہ "مدینۃ العلم" اور "باب مدینۃ العلم " کے مابین سوال و جواب ہیں اس لیے وہی بہتر جانتے ہیں۔۔۔


جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے خوف اور ہر سرگوشی کے وقت ان پر صدقات کی مشقت کو ملاحظہ فرمایا تو ان پر معاملے کو آسان کر دیا اور سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ ترک کرنے پر مواخذہ نہیں فرمایا۔ البتہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم اور آپ کا احترام باقی رکھا اس کو منسوخ نہیں فرمایا۔ کیونکہ سرگوشی سے قبل صدقہ مشروع لغیرہ کے باب سے ہے فی نفسہ مقصود نہیں۔ اصل مقصد تو رسول اللہ ﷺ کا ادب اور اکرام ہے۔۔۔ (تفسیر السعدی)۔

اونٹ باندھو اور توکل کرو۔
انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔
مزید سمجھنا چاہتی ہوں۔
اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق و آسانی دے۔آمین!
 

الشفاء

لائبریرین
اونٹ باندھو اور توکل کرو۔
انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔
جی بالکل۔ ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔۔۔:)

ہم نے جملے کے آخر میں ایک اشارہ تو دیا تھا لیکن شاید آپ کی توجہ نہیں گئی۔(چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک)
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الحشر ۔ ۵۹

۷۸ ۔ سورۃ الحشر کی آیت نمبر ۱۸ میں اہل ایمان کو محاسبہ نفس کے بارے میں نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَO
اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہوo
سورۃ الحشر ، آیت نمبر ۱۸۔​

اس آیت میں اہل ایمان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے فرزندان اسلام ! تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ۔ ہوشیار ! ایسی راہ پر قدم نہ اٹھے جس سے تمہارے رب نے تمہیں روکا ہے اور اس کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی نہ ہو۔ نیز یہ بھی تاکید فرمائی کہ ہر شخص اپنا محاسبہ کرتا رہے کہ اس نے اپنی عاقبت کے لیے کیا ذخیرہ تیار کیا ہے۔ جو شخص آج کی خوشیوں میں یوں کھو جائے کہ اسے کل کا ہوش نہ رہے وہ دانا نہیں، نادان ہے۔ تم ایسا نہ کرنا۔ تم اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کے غلام ہو، قیامت کے دن تمہاری شان نرالی ہونی چاہیے۔ تمہاری زندگی کے گرد نور کا ہالہ ہو اور اس نورانی ہالہ کے اندر تم چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہو تب لطف ہے۔ دوبارہ پھر تقویٰ کی تاکید فرمائی اور بتا دیا کہ تم جو کچھ کام کرتے ہو تمہارا خدا وند ذوالجلال اس سے خوب باخبر ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
سُورة الْمُمْتَحِنَة ۔ ۶۰

۷۹ ۔ سُورة الْمُمْتَحِنَة کی پہلی آیت میں اللہ عزوجل حق کے منکروں کو اپنا اور اہل ایمان کا دشمن قرار دے رہا ہے اور مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِO
اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم (اپنے) دوستی کے باعث اُن تک خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ وہ اس حق کے ہی مُنکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے، وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تم کو اس وجہ سے (تمہارے وطن سے) نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا پروردگار ہے، ایمان لے آئے ہو۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا تلاش کرنے کے لئے نکلے ہو (تو پھر اُن سے دوستی نہ رکھو) تم اُن کی طرف دوستی کے خفیہ پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم آشکار کرتے ہو، اور جو شخص بھی تم میں سے یہ (حرکت) کرے سو وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہےo
سُورة الْمُمْتَحِنَة ، آیت نمبر ۱ ۔​

اگرچہ یہ آیت حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے اس خط کے واقعہ پر نازل ہوئی جو انہوں نے فتح مکہ سے قبل اہل مکہ کو ہشیار کرنے کے لیے لکھا تھا (جس کی تفصیل کتب تفسیر میں موجود ہے)۔ لیکن اس میں روئے سخن ساری ملت اسلامیہ کی طرف ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اے ایمان والو ! جو لوگ میرے دین کے دشمن ہیں اور جو لوگ تمہارے بھی بد خواہ ہیں ان کو اپنا دوست مت بناؤ۔ تم ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو، حالانکہ وہ اس دین حق کا انکار کرتے ہیں جو تمہارے پاس اللہ کا رسول لے کر آیا ہے۔ اور ان کی عداوت کی اس سے بڑی روشن دلیل تمہیں اور کیا چاہیے کہ انہوں نے اللہ کے محبوب رسول ﷺ کو بھی مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور تمہیں بھی جلا وطن کر دیا۔ تم نے ان کا کوئی قصور نہیں کیا تھا ۔ تم نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی۔ ان کی نظروں میں تمہارا اللہ پر ایمان لانا ایک ایسا گناہ ہے جو قابل عفو نہیں۔ اگر تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے میدان میں آئے ہو اور اس کی خوشنودی کے جویا ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ تم انہیں اپنا دوست مت بناؤ۔ تم میں سے بعض لوگ خفیہ طور پر کفار کو اپنی دوستی اور خیر خواہی کا یقین دلاتے ہیں۔کیا انہیں یہ بات بھول جاتی ہے کہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی اور ظاہر ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے۔ قیامت تک آنے والے مسلمانوں میں سے اگر کسی نے ایسی غلطی کی تو وہ راہ راست سے بھٹک گیا اور اپنی منزل سے بہک گیا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 
Top