۶۴ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۶ میں اللہ عزوجل نے اپنی اور اپنے فرشتوں کی ایک سنت کا ذکر کر کے اہل ایمانکو دعوت دی ہے کہ وہ بھی اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہ کام آقا علیہ الصلاۃ والسلام پر درود و سلام بھیجنا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۵۶۔
کفار نے بڑے کروفر اور شکوہ و طمطراق کے ساتھ مدینہ طیبہ پر بار بار یورش کی لیکن انہیں ہر بار ان مٹھی بھر اہل ایمان سے شکست کھا کر واپس آنا پڑا۔ اب انہوں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات اقدس و اطہر پر طرح طرح کے بے جا الزامات تراشنے شروع کر دیے تا کہ لوگ رشد و ہدایت کی اس نورانی شمع سے نفرت کرنے لگیں اور یوں اسلام کی ترقی رک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی ان امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ فرمایا کہ یہ میرا حبیب اور میرا پیارا رسول وہ ہے جس کی وصف و ثنا میں اپنی زبان قدرت سے کرتا ہوں اور میرے سارے ان گنت فرشتے اپنی نورانی اور پاکیزہ زبانوں سے اس کی جناب میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تم چند لوگ اگر اس کی شان عالی میں ہرزہ سرائی کرتے بھی رہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جس طرح تمہارے پہلے منصوبے خاک میں مل گئے اور تمہاری کوششیں ناکام ہو گئیں اسی طرح اس ناپاک مہم میں بھی تم خائب و خاسر ہو گے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ میں اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ جملہ اسمیہ ہے لیکن اس کی خبر جملہ فعلیہ ہے تو یہاں دونوں جملے جمع کر دیے گئے ہیں۔ اس میں راز یہ ہے کہ جملہ اسمیہ استمرار و دوام پر دلالت کرتا ہے اور فعلیہ تجدد و حدوث کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر دم، ہر گھڑی اپنے نبی مکرم پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرماتا ہے اور آپ کی شان بیان فرماتا ہے۔ اسی طرح اس کے فرشتے بھی اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ عراقی نے کیا خوب لکھا ہے۔
ثنائے زلف و رخسار تو اے ماہ ، ملائک ورد صبح و شام کروند۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندے پر ہمیشہ اپنی برکتیں نازل فرماتا رہتا ہے اور اس کے فرشتے اس کی ثنا گستری میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور اس کی رفعت شان کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں، تو اے اہل ایمان تم بھی میرے محبوب کی رفعت شان کے لیے دعا مانگا کرو۔ اگرچہ صلوٰۃ بھیجنے کا ہمیں حکم دیا جا رہا ہے (اور ہم بساط بھر بھیجتے بھی ہیں) لیکن ہم نہ شان رسالت کو کما حقہ جانتے ہیں اور نہ اس کا حق ادا کر سکتے ہیں اس لیے اعتراف عجز کرتے ہوئے ہم عرض کرتے ہیں : اللٰھم صل ۔۔ یعنی اے مولا کریم تو ہی اپنے محبوب کی شان کو اور قدر و منزلت کو صحیح طور پر جانتا ہے۔ اس لیے تو ہی ہماری طرف سے اپنے محبوب پر درود بھیج جو اس کی شان کے شایاں ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
اس موقع پر غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
تیرِ قضا ہر آئنہ در ترکش ِ حق است ، اما کشاد آں زِ کمان محمد است۔
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم ، کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است۔
یعنی قضا کا تیر بلا شبہ حق ہی کے ترکش میں ہوتا ہے ، لیکن یہ تیر حضور ﷺ کی کمان سے چلتا ہے۔ غالب ؔنے حضور ﷺ کی نعت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے ،کیونکہ وہ ذاتِ پاک ہی حضرت محمد ﷺ کی شان و عظمت سے صحیح معنوں میں آگاہ ہے ۔۔۔
اللٰھم صل وسلم وبارک علیٰ سیدنا ومولانا و حبیبنا وشفعینا و سندنا محمد وعلیٰ آلہ و اصحابہ وازواجہ وعترتہ اجمعین۔
۔۔۔