دوستو۔۔۔ٹماٹروں سے اپنی کوئی ایسی یاری نا تھی اور نا ہی کوئی کھلی یا ڈھکی چھپی دشمنی۔ لیکن ان کمبخت ماروں نے ہمارے ساتھ وہ کیا جو ہم بھلانا بھی چاہیں تو کوئی نا کوئی گاہے بگاہے ہمیں ضرور یاد کروا دیتا ہے اور یاد نا بھی کروائے تو جب کبھی بازار سبزی لینے جاتے ہیں ٹماٹر دیکھتے ہی سب کچھ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔
ٹماٹروں سے دشمنی ہونے کے ابتدائی کچھ برسوں میں کوئی ٹماٹروں کا ذکر بھی کردیتا تو ہماری بھنویں تن جاتی، آنکھیں لال ہو جاتیں اور اردگرد موجود لوگوں کو ہمارے نتھنوں سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دینا شروع ہو جاتی تھی۔
خیر، تمہید چھوڑتا ہوں اور قصے کی طرف آتا ہوں کہ بقول اپنے
محمداحمد صاحب، اب لمبی لمبی تحریریں کون پڑھتا ہے۔
یہی سردیوں کے چھوٹے چھوٹے ننھے منے سے دن تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس روز یخ بستہ ہوائیں بھی خوب چل رہیں تھی اور ہم شام گئے ہیٹر جلائے، منہ سر لپیٹے کمبل کو گھٹ کے جپھی ڈالے کچھ تھکن اتار رہے تھے کہ وہ سارا دن اور اس سے پچھلے دو دن ہم اپنی ہی شادی میں مصروف رہےتھے اور آج بارات لیکر واپس پہنچے تھے۔
موبائل ابھی پاکستان میں نیا نیا آیا تھا اور ہنوز ہماری دسترس سے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر جتنا دور تھا۔ گھر میں لگے پی ٹی سی ایل کی ٹلی کھڑکی اور کسی نے سنا تو دوسری طرف ہمارے ایک دوست تھے جو یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ ولیمے کی تیاری کے سلسلے میں وہ کتنے بجے تک آ جائیں۔ ہم نے انھیں بتایا کہ باورچی نے گیارہ بجے کا وقت دیا ہے آپ اس وقت تک آ جائیے گا۔
تو صاحبو۔۔۔ رات ساڑھے گیارہ بجے ہم چار دوست اس خالی پلاٹ میں کھڑے تھے جہاں پکوائی کا انتظام وغیرہ کرنا تھا۔ کھانے کی تیاری کے لیے باورچی صاحب بمعہ اپنے ہتھیاروں اور اوزاروں کے آئے بیٹھے تھے۔ ہم دوستوں نے آہستہ آہستہ سائیٹ پر گھر سے سامان لانا شروع کر دیا۔ سامان لاتے لیجاتے، آگ روشن کرتے اور دیگیں سیدھی کرتے کراتے ایک ڈیڈھ گھنٹہ لگ گیا کہ باورچی صاحب جو ایک چارپائی پر بکھرے پڑے
چھلائی کترائی میں مصروف تھے، بولے ' جناب ٹماٹر کدھر ہیں ؟' اب ہم نے جو سامان کی تلاشی لینا شروع کی تو پتا لگا ٹماٹر یہاں نہیں ہیں۔ گھر کا رخ کیا اور سب سے ہی دریافت کیا لیکن سامان میں ٹماٹر آئے ہوتے تو ملتے ؟
واپس ہوئے اور باورچی کو بتایا کہ بھئی ٹماٹر تو نہیں ہیں۔
وہ تنک کر بولا 'اچھا۔۔۔۔ ٹماٹروں کا بندوبست کریں یا پھر ہم یہ سلسلہ بند کرتے ہیں، صبح دیکھیں گے' ۔ ہمارے تو طوطے اڑ گئے
کہ اگر یہ سب کچھ صبح پر چلا گیا تو پھر لنچ کے بجائے ڈنر ہی کروانا پڑے گا اور اندرون پنجاب سے آئے ہمارے چار پانچ درجن عزیزوں نے ساری زندگی ہماری کلاس لیے رکھنی ہے۔
ہم چاروں دوست سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کیا جائے ؟
رات کا ایک ڈیڈھ بج رہا تھا، شدید سردی، یخ ہوا اور ہر طرف ہو کا عالم، ہم لوگوں کے علاوہ اردگرد کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ آخر ہمارے ایک دوست بولے کہ انھیں ایک سبزی والے کا گھر پتا ہے، اس کے پاس جاتے ہیں، اگر جگانے میں کامیاب ہو گئے تو شاید مل جائیں۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد دو دوستوں نے موٹر سائیکل لی اور اس علاقے کی طرف چل دئیے جو دو اڑھائی کلومیٹر دور تھا۔
اس دوران ہم کچھ اور کاموں میں مگن رہے۔ گھنٹہ بیت گیا پھر تین، سوا تین، ساڑھے تین اور پونےچار بھی بج گئے لیکن نا دوستوں کی خبر آئی نا ٹماٹروں کی۔ ہم تینوں کو فکر لگ گئی کہ یااللہ خیر کتھے رہ گئے؟ اس دوران ہمیں گھر سے بھی بلاوے آ رہے تھے جبکہ ہم اس فکر میں تھے کہ ٹماٹر تو رہے ایک طرف دوست بمعہ موٹر سائیکل کدھر غائب ہو گئے ہیں؟
خیر۔۔۔۔ گھر گئے، اکا دکا بڑوں کو صورتحال بتائی، دوسری موٹر سائیکل نکالی اور ہم باقی دو، باورچی میاں کو وہیں چھوڑ اس علاقے کی طرف نکل گئے۔ وہاں پہنچے تو سوچ میں پڑ گئے کدھر جائیں، کس سے پوچھیں ؟ پھر خود سے مفروضہ قائم کیا کہ اگر سبزی والے کا گھر اس علاقے میں ہے تو دوکان بھی نزدیکی مارکیٹ میں ہی ہو گی، وہیں چلتے ہیں۔ ادھر جا نکلے تو ایک جگہ آگ جلتی اور چوکیداروں کو بیٹھے دیکھا، جا ان کے پاس بریک لگائی اور ان سے پوچھا کہ بھئی ہمارے دو دوست ٹماٹر لینے نکلے تھے اور اس طرف آئے تھے آپ نے تو نہیں دیکھے ؟ چوکیداروں نے جب یہ ماجرا سنا تو لگے آپس میں پشتو میں گفتگو کرنے۔ پھر ان میں سے ایک اٹھا اور مجھے سائیڈ پر لے گیا اور بولا 'لکا۔۔۔ وہ تو ام نے تین چھوکرا لوگوں کو پکڑ کے پولیس موبائل کے حوالے کیا ہے، وہ ادھر ایک دکان کھولتا تھا اور جب ام نے پکڑا تو بولتا کہ ام ٹماٹر لینے آیا ہے'۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا 'او تیری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
ہوا یہ کہ دوست سبزی والے کے گھر گئے اور اسے کسی طرح جگا لیا تو اس نے خود جانے کے بجائے اپنے بیٹے کو بھیج دیا۔ ( کم و بیش سولہ سترہ برس گزرنے کے بعد بھی ہم دوست اس بات پر بحث کر لیتے ہیں کہ سبزی والا خود کیوں نہیں گیا تھا
) چوکیداروں میں سے کوئی بھی بیٹے کو نہیں جانتا تھا اور عین اس وقت جب چوکیدار ان پر تھری ناٹ تھری
تانے کھڑے تھے، حیرت انگیز طور پر وہاں پولیس موبائل نمودار ہو گئی۔
انھوں نے اپنی ساری رام لیلی سنائی لیکن بدقسمتی سے تینوں اس وقت بغیر کسی شناختی کارڈ اور موٹر سائیکل کے کاغذات کے تھے، اوپر سے چوکیداروں نے کسی کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا تو پولیس والوں نے موٹر سائیکل سمیت اٹھا تھانے لا کر لاک اپ میں بند کر دیا کہ رات گزارو صبح دیکھیں گے۔
خان صاحب سے پوچھا کہ بھائی موبائل کس تھانے کی تھی اور پھر موٹر سائیکل گھما سیدھا وہاں پہنچ گئے۔ پہلے تو اکا دکا جاگتے پلسیوں نے ہمیں کوئی خاص لفٹ نا کروائی پھر جب انھیں سارا مدعا بیان کیا تو کہنے لگے ابھی کچھ نہیں ہو سکتا آپ صبح آئیے گا کہ انچارج صاحب گشت پر ہیں اور فجر کے بعد آئیں گے۔ وہاں بحث کرنے کے بجائے ہم موٹر سائیکل پر علاقے میں نکل گئے اور کوئی پینتالیس منٹ کی خواری کے بعد موبائل کو ایک جگہ جا ڈھونڈا۔ ایک سپاہی کے علاوہ سب خراٹے مار رہے تھے، اس کی منت ترلہ کر کے انچارج کو جگایا اور ساری کتھا اسے سنائی۔ پہلے تو خوب ہنسا
اور پھر بولا اچھا ہمیں کل ولیمے کی دعوت دیں تو پھر کچھ کرتے ہیں۔ ہم نے اسی وقت پورے تھانے کو مدعو کر لیا کہ ساروں کو لے آنا اور یہ بھی کہا کہ جس کے بیوی بچے ساتھ ہیں وہ انھیں بھی لے آئے۔
انچارج صاحب نے وہیں سے وائرلیس کی اور آدھے پونے گھنٹے بعدہم سب پھر مارکیٹ میں کھڑے دوکان سے شاپروں میں ٹماٹر ڈال رہے تھے۔
یہ سارا قضیہ مکاتے مکاتے جب ہم گھر پہنچے تو اذانیں ہونے والی تھیں، پہلے تو جاگتے اور پریشان ہوئے چہروں کو اکٹھا کر کے ساری رام کہانی سنائی۔ پھر کمرے میں جا کر اپنی نوبیاہتا کو کہا 'چل اٹھ فیر ھن نماز ای پڑھیے'