ٹینسرحساب میں آسانی کے لیے ہے۔ ٹینسر کے نقص میں سب سے اہم اس کے سمجھنے کی مشکلات ہیں جوعام لوگوں کو n-dimensional خاکہ ذہن میں بنانے میں آتی ہیں۔ دماغ زیادہ سے زیادہ 3 ڈی خاکہ بنا اور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن قلب n-dimensional خاکہ سہارنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ٹینسرز کے اور بھی نقائص ہیں؟ اگر ہیں تو وہ درج کر دیجئے۔ جہاں تک سمجھنے میں مشکل کی بات ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ہر کوئی سائنسدان یا انجنئیر نہیں بن سکتا ہے۔ کسی انجنئیر کے لئے میڈیکل ٹرمز اور لٹریچر سمجھنا مشکل ہوگا اور کسی پی ایچ ڈی ان لٹریچر کے لئے میتھس سمجھنا مشکل ہوگا۔ ہر کسی کے دماغ کی صلاحیت ہوتی ہے اور جس طرف اس کی دلچسپی ہوتی ہے یا یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جس کسی کو جو سمجھنا آسان لگتا ہے وہ ویسی ہی فیلڈ کا انتخاب کرتا ہے۔
آئنسٹائن کے بارے میں ایک بڑے مزے کی بات پڑھی تھی کہ وہ اتنا بڑا جینئس تھا کہ تجربات اپنے دماغ میں ترتیب دیتا تھا اور ان کے بارے میں اس وقت تک سوچتا رہتا تھا جب تک ان تجربات کے متعلق اس کے دماغ میں اصول واضح نہیں ہو جاتے تھے ۔
Einstein’s Relativity Explained in 4 Simple Steps
ذہین افراد کی کمی نہیں ہے اس دنیا میں اور آئن سٹائن ان میں سے ایک تھا۔ بہت بار جب ہمارا دماغ ایسے افراد کے دماغ کی طرح کام نہیں کرتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس نے چیٹنگ کی ہوگی یا اس کو کوئی خفیہ مدد حاصل ہوگی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہر انسانی دماغ مختلف ہے۔
قلب کے بارے میں آپ کیا کہہ رہے ہیں، یہ میں نہیں سمجھ سکی ہوں۔
اس وقت سلامتی کے برعکس اشیاء کی تعظیم عام ہے۔ ایک دجل ہے جو پورے جوبن پر ہے!
اگر آپ سائنسی ترقی کے نقصانات زیادہ سمجھتے ہیں اور فوائد کم تو اپنا موقف تفصیل سے بیان کیجئے۔ اس طرح سے سوئیپنگ سٹیٹمنٹ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ آپ نقصانات کھل کر بیان کیجئے پھر ہی سب کو سمجھ آئے گا۔
چنانچہ قصہ مختصر نقص یہ ہے کہ ایک دنیا اصل آلہ مشاہدہ یعنی قلب کو چھوڑ کر سرن اور ٹینسر کی مدد سے ملکوتی راز پانے کی فکر میں ہے۔ ایسے میں وہ انسانیت سے ہی دستبردار ہو گئی ہے۔ حالانکہ اسکے آسان راستے ہیں۔ کائنات کی سیر کی شدید خواہش کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ اچھی بات ہے۔ ملکوتی راز پانے کی خواہش انسان کی فطرت میں ہے۔ لیکن جیسے زنا شہوت کی خواہش کو پورے کرنے کا طریقہ نہیں ہے اسی طرح ٹینسر کی تعلیم کائنات کے راز جاننے کا ذریعہ نہیں۔
ملکوتی راز؟ سائنس کا دائرہ کار صرف اور صرف فطری دنیا (نیچرل ورلڈ) تک محدود ہے۔ مذہب یا روحانیت کیا کہتی ہے، اس بارے میں سائنس میں جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔
آپ کو چاہئے کہ ٹینسرز کے بارے میں مزید پڑھیں۔ آپ کی اس بات "ٹینسر کی تعلیم کائنات کے راز جاننے کا ذریعہ نہیں۔" سے ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ جیسے آپ صرف ٹینسرز کی اپلیکیشن آئن سٹائن کی فیلڈ ایکویشنز کے لئے جانتے ہیں۔
آپ کو چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گی۔
ایل سی ڈی لکوڈ کرسٹلز سے بنایا جاتا ہے اور آجکل سمارٹ فونز، ٹی وی، لیپ ٹاپس اور بے شمار جدید الیکٹرانکس میں استعمال ہوتا ہے۔ لکوڈ کرسٹلز کی magnetic susceptibility رینک ۲ کا ٹینسر ہے اور لکوڈ کرسٹلز کی magnetic properties کو سمجھے بغیر، لکوڈ کرٹلز کو استعمال میں لانا ناممکن تھا اور ہے۔ آپ یہاں
Introduction to liquid crystals - ScienceDirect
Response to external fields
میں جا کر magnetic susceptibility کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح بے شمار مثالیں ہیں جن کو ٹینسرز کی مدد کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔
آپ نے ٹینسر کے موثر ٹول نہ ہونے کے لئے ایک بڑے گناہ کی مثال کیوں دی ہے، یہ بات سمجھ نہیں آئی۔
پہلے لوگ پلے دوسرے تیسرے اور زرد رنگ کے چوتھے آسمان تک سیر کرتے۔ کچھ اس سے آگے پانچویں، چھٹے، ساتویں اور اس سے آگے کی سیر کرتے۔ آجکل یہ حال ہے کہ 200 کلو گرام کا لوہے کا سیٹلائٹ بمشکل آگ کو ایک ضبط سے جلا کر زمین سے کچھ دور بھیجا دیا جاتا ہے۔ اتنی نچلی سیر کثیر کفر کی وجہ سے ہے۔
آسمانی سیر کون اور کب لوگ کرتے رہے ہیں اگر آپ مثال سے واضح کر دیں تو کچھ سمجھ آئے گا۔ سیٹلائٹ خلاء میں بھیجنے کی وجہ آپ کے بقول کثیر کفر کی وجہ سے ہے۔ بہت افسوس ہوا ایسی بات پڑھ کر کیونکہ مسلم دنیا کے کتنے ہی مسلمان سائنسدان اور انجنئیرز سپیس پراجیکٹس سے وابستہ ہیں۔ عرب امارات نے کچھ ہی عرصے پہلے خلائی مشن مریخ پر بھیجا ہے۔
متحدہ عرب امارات کا مریخ پر جانے والا خلائی مشن ’ہوپ‘
پاکستان کا بھی سپیس پروگرام ہے اور بھی مسلم ممالک میں سپیس پروگرامز ہیں۔ آپ نے تو سب کو ہی کثیر کفر کرنے کا کہہ دیا ہے۔ آپ کے یہ کہنے کے پیچھے کیا وجہ ہے، یہ واضح نہیں ہے۔
یہاں ایک یہ "
دجل" بھی صاف کر چلوں کہ بعض دوست ویکیپیڈیا اور کتابوں سے مدد لینے سے بھی تمسخر کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ آئنسٹائن کو حساب کے اصولوں کو سمجھنے میں اس کے بہت سے دوستوں نے مدد کی ورنہ وہ خود ان پر گرفت نہ رکھتا تھا۔ مثلا
A Brief History of Mathematics - The Mathematicians Who Helped Einstein - BBC Sounds
Marcel Grossmann
Michel Janssen
Jürgen Renn
Jonas Bolyai
Nicolas Loachevski
Bernhard Riemann
ہمیں MIT, Stanford، Harvard، Oxford، Cambridge کی علمی گرفت کرنی ہو گی تاکہ مخبوط الحواس علم اور اس سے متاثر لوگوں سے بچ سکیں۔
جب آپ کسی کی پی ایچ ڈی کی ریسرچ اور ایک ایسی ریسرچ جس کو بے شمار سائنسدانوں نے ناصرف تجربات کر کے صحیح ثابت کیا ہے اور اس ریسرچ کی بنیاد پر اور لاکھوں ریسرچز ہو چکی ہیں، کو غلط قرار دیں گے تو ایسے اعتراض تو اٹھیں گے ہی نا کہ ویکیپیڈیا کا مطالعہ ناکافی ہے۔ کسی کی عام سی پی ایچ ڈی کی ریسرچ پر بھی تبصرہ اسی شعبے کے دوسرے پی ایچ ڈیز جنھوں نے نجانے کتنے ریسرچ پیپرز کا مطالعہ کر رکھا ہوتا ہے، کرتے ہیں تو ان کی سنی جاتی ہے۔ کیا آپ آج تک کشش ثقل اور آئن سٹائن کی theory of relativity سے متعلق ہوئِی ساری ریسرچز پڑھ چکے ہیں؟ یا چلیں دو تین ہی آپ نے پڑھی ہوں تو بتائیے؟
جہاں تک آئن سٹائن کے میتھس کے اصول نہ سمجھنے کا تعلق ہے تو بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو ریسرچ میں دوسرے سائنسدانوں سے مدد لینا پڑ جاتی ہے۔ کسی کو کوئی نیا سوفٹوئیر چلانا سیکھنا پڑ جاتا ہے، میڈیکل والوں کو حساب پڑھنا پڑ جاتا ہے۔ مدد لینا تو بہت ہی عام بات ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ جس ریسرچ پر تبصرہ کر رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں اور کیا آپ بہت ہی بنیادی باتوں سے واقف ہیں یا نہیں؟ جیسے اگر کوئی پرائمری کا بچہ شاعری کے وزن پر بات کرنے لگے تو اس کو یہی کہا جائے گا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ یا چلیں اگر بہت اصرار کرے گا تو اس کی بنیادی معلومات اس معاملے میں چیک کی جائے گی۔
مطلب یہ کوئی دجل نہیں ہے۔ ایک کامن سینس کی بات ہے۔
گرفت کرنے کے لئے پہلے ان کے معیار کی ریسرچز بھی لانا پڑیں گی اور ان کی ریسرچز کی تعداد بھی برابر کرنا پڑے گی۔