ٹیلی پیتھی کیا ہے - از فیصل عظیم فیصل

باباجی

محفلین
اگر آپ مستقل مزاج ہی نہیں ہیں تو پھر استاد تو ہو ہی نہیں سکتے۔ جہاں تک ٹیلی پیتھی کا تعلق ہے تو اسے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں وہ ٹیلی پیتھی جس پر دیوتا کے نام سے کاغذات کا انبار لگایا گیا ہے۔ ایک لا یعنی بات ہے۔ :cool:
جہاں تک انتقال خیالات کا تعلق ہے ! تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ممکن بھی ہے اور قابل عمل بھی۔ اس کے لیے بعض لوگوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور بعض کو کم۔ مگر اس صلاحیت کا حصول ممکن ہے۔
کیسے ممکن ہے شاہ جی
 

حسن نظامی

لائبریرین
یاد رہے میں نے انتقال خیالات کی بات کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زید کا کوئی خیال بکر کی طرف منتقل ہو گیا۔ جیسے کال ڈائیورٹ لگائی جاتی ہے۔ مثلا زید سوچ رہا تھا کہ اسے بھوک لگی ہے اس نے کہا مجھے بھوک لگی ہے اور بکر نے بھی اسی وقت بھوک محسوس کی۔ زید کو چوٹ لگی اور اسے دیکھ کر بکر صدمے سے بے ہوش گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ :rolleyes:
 
فیصل عظیم فیصل صاحب بہت عمدہ تحریر ہے۔ لیکن یہ فورم اس قسم کے علوم کے لیئے موزوں نہیں ہے ادھر لوگ ان علوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ میری اکثر مصر اور مراکش کے شیوخ سے بات چیت چلتی رہتی ہے وہ مجھے جو بھی رمز بتاتے ہیں تو پہلے حلف لیتے ہیں کہ اس کو صرف اہل کے حوالے کروگے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہو تو انہوں نے کہا کہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ ان علوم و فنون کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔
آپ کے حوصلے اور ٹھنڈے مزاج کو داد دیتا ہوں کہ کچھ لوگوں کہ استہزاہیہ لہجے کو آپ نے خندہ پیشانی اور خوشدلی سے برداشت کیا میرے جیسا بندہ تو شائد ایک لمحہ بھی صبر نہ کرسکے اور اگر معترض سامنے ہو تو شائد اس کی پٹائی سے بھی دریغ نہ کرے۔
ہمارے ادھر پشاور میں اس کے ماہرین میں صدیقی صاحب حال مفقود الخبر اور عبدالکریم فوزی حال کینیڈا اس فن کے امام گزرے ہیں میرا کسی زمانے میں نعیم وارثی ساکن ملتان جو نجانے زندگی کی بھیڑ کدھر گم ہوگیا ہے سے بہت تعلق اور محبت رہی ہے اس زمانے میں روحانی بابا سراپا عجز اور خاک تھے نعیم وارثی اس فن کا بہت ماہر تھا اور اس نے اس فن کو حضرت عنبر شاہ وارثی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سیکھا تھا واضح ہو کہ یہ وہی عنبر شاہ وارثی ہیں جو کہ بیدم وارثی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ اکبر تھے عنبر شاہ وارثی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ مہر منیر جو کہ گولڑہ شریف سے شائع ہوئی ہے اور ہنوز ہورہی میں مؤجود ہے۔
آپ ایسا کریں کہ فیس بک پر رابطہ کریں ادھر ان علوم و فنون کے گروپس ہیں ادھر تو ایسی کوئی بات نہیں ہے دیکھیں میں آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں کہ ہیرے کی قدر جوہری کے پاس ہوتی ہے ادھر تو آپ کسی کو ہیرا دکھائیں تو وہ کہے گا یا سمجھے گا کہ یہ تو بلور ہے جس سے بچے کھیلتے ہیں۔
محمود احمد غزنوی الف نظامی باباجی شاکرالقادری نایاب
 
اگر آپ مستقل مزاج ہی نہیں ہیں تو پھر استاد تو ہو ہی نہیں سکتے۔ جہاں تک ٹیلی پیتھی کا تعلق ہے تو اسے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں وہ ٹیلی پیتھی جس پر دیوتا کے نام سے کاغذات کا انبار لگایا گیا ہے۔ ایک لا یعنی بات ہے۔ :cool:
جہاں تک انتقال خیالات کا تعلق ہے ! تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ممکن بھی ہے اور قابل عمل بھی۔ اس کے لیے بعض لوگوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور بعض کو کم۔ مگر اس صلاحیت کا حصول ممکن ہے۔
برادرم حسن نظامی آپ نے درست فرمایا کہ میں استاد نہیں ہو سکتا ۔ استاد ہونے کے لیئے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسے پورا کرنے سے میں قاصر ہوں ۔ دوسری بات آپ نے فرمایا کہ دیوتا کے نام سے جو کاغذات کا انبار لگایا گیا ہے اسے ٹیلی پیتھی کی کسی بھی قسم سے جوڑا جا سکتا ہے تو یقینا ہر صاحب عقل عمومی آپ کی بات ست مکمل اتفاق کرے گا ۔
دوسرے پیرا گراف میں آپ نے اس علم کے وجود کو تسلیم فرمایا اس کے لیئے میں شکر گزار ہوں اور اسکے قابل عمل ہونے اور اس صلاحیت کے حصول کے لیئے مختلف گروہ اور افراد مختلف طریقوں کا استعمال کرتے ہیں اور میرے پچھلے آرٹیکلز اسی پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ٹیلی پیتھی کرنے سے عامل معمول کو قابو کرکے اس سے اسکی بنیادی اخلاقیات ۔ مذہب یا اسکی سوچ میں موجود مضبوط عوامل کو روندتے ہوئے کسی عمل پر مجبور کر سکتا ہے ۔ ہاں اسکی سوچ پر اثر انداز ہونا اور اسے کسی عمل کے لیئے اکسانا اور بات ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
جو بھی محترم دوست " خیال خوانی ۔ ہپناٹزم ۔ مسمریزم " سیکھنے میں دل چسپی رکھتے ہوں ۔
وہ سب سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ اپنے اپنے دین و مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اوپر عائد فرائض کی ادائیگی بارے اپنا احتساب کریں ۔
یہ علوم سیکھنے کی سب سے بڑی شرط اپنے دین و مذہب کی تعلیمات پر بے چون و چرا عمل کرنا ہوتا ہے ۔
یہ علوم ایسے ہیں جن سے انسان کے گمراہی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ لازم ہوتا ہے ۔
شاید درج ذیل تحریر مندرجہ بالا " شرط " کی معنویت کو مفصل بیان کر سکے ۔
کسی کو " اسم اعظم " کی تلاش تھی ۔ وہ اس تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا ۔ کسی نے اسے خبر دی کہ فلاں جنگل میں اک بزرگ ہستی ہے ۔ جو کہ " اسم اعظم " جانتی ہے ۔ وہ شخص جنگل کی جانب چل نکلا ۔ جب وہ جنگل میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اک بوڑھا ضعیف انسان گری پڑی لکڑیاں چن کر اپنے گدھے پر لاد رہا ہے ۔ اس نے اس کی جانب زیادہ توجہ نہ کی اور " بزرگ " کی تلاش میں محو رہا ۔ کچھ وقت بعد اسے کچھ شور کی سی آواز آئی اس نے شور کی جانب دیکھا تو پایا کہ دو تنومند انسان اس ضعیف بوڑھے کو دھکا دیکر گراتے اس کی جمع شدہ لکڑیاں چھین کر لے گئے ۔ اس نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر مجھے " اسم اعظم " مل گیا تو وہ ان وحشیوں کو نہیں چھوڑے گا ۔ اس کے دل میں یہ خیال ابھرا ہی تھا کہ وہ ضعیف بوڑھا بول اٹھا کہ " اے متلاشی اسم اعظم " تو ابھی خام ہے اور" اسم اعظم " کے قابل نہیں ہے ۔ اگر تیرے پاس اسم اعظم ہوتا تو تو ان دونوں سے اسم اعظم کے زریعے انتقام لیتا ۔ پہلے اپنے دل و دماغ کو تو اس سچی پاک ذات کا تابع کر جو اس "اسم اعظم " سے پکاری جاتی ہے ۔ جب وہ ذات پاک تجھے اس قابل جانے گی ۔ عطا کر دے گی ۔
کوئی بندہ فرائض سے زیادہ کسی اور چیز کے ذریعہ میرا تقرب حاصل نہیں کرتا۔ وہ نوافل کے ذریعہ میرا اس حد تک تقرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں کسی کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ حملے کرتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اسے قبول کرتا ہوں اور اگر مجھ سے سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرماتا ہوں۔
ہندو یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے وہ جو ان علوم کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے عقائد میں پختہ اور تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔
علم کوئی بھی جھوٹا اور غلط نہیں ہوتا اس کا استعمال ہی اسے جھوٹ اور غلط کے درجے پر پہنچاتا ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
فیصل عظیم فیصل صاحب بہت عمدہ تحریر ہے۔ لیکن یہ فورم اس قسم کے علوم کے لیئے موزوں نہیں ہے ادھر لوگ ان علوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ میری اکثر مصر اور مراکش کے شیوخ سے بات چیت چلتی رہتی ہے وہ مجھے جو بھی رمز بتاتے ہیں تو پہلے حلف لیتے ہیں کہ اس کو صرف اہل کے حوالے کروگے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہو تو انہوں نے کہا کہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ ان علوم و فنون کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔
آپ کے حوصلے اور ٹھنڈے مزاج کو داد دیتا ہوں کہ کچھ لوگوں کہ استہزاہیہ لہجے کو آپ نے خندہ پیشانی اور خوشدلی سے برداشت کیا میرے جیسا بندہ تو شائد ایک لمحہ بھی صبر نہ کرسکے اور اگر معترض سامنے ہو تو شائد اس کی پٹائی سے بھی دریغ نہ کرے۔
ہمارے ادھر پشاور میں اس کے ماہرین میں صدیقی صاحب حال مفقود الخبر اور عبدالکریم فوزی حال کینیڈا اس فن کے امام گزرے ہیں میرا کسی زمانے میں نعیم وارثی ساکن ملتان جو نجانے زندگی کی بھیڑ کدھر گم ہوگیا ہے سے بہت تعلق اور محبت رہی ہے اس زمانے میں روحانی بابا سراپا عجز اور خاک تھے نعیم وارثی اس فن کا بہت ماہر تھا اور اس نے اس فن کو حضرت عنبر شاہ وارثی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سیکھا تھا واضح ہو کہ یہ وہی عنبر شاہ وارثی ہیں جو کہ بیدم وارثی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ اکبر تھے عنبر شاہ وارثی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ مہر منیر جو کہ گولڑہ شریف سے شائع ہوئی ہے اور ہنوز ہورہی میں مؤجود ہے۔
آپ ایسا کریں کہ فیس بک پر رابطہ کریں ادھر ان علوم و فنون کے گروپس ہیں ادھر تو ایسی کوئی بات نہیں ہے دیکھیں میں آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں کہ ہیرے کی قدر جوہری کے پاس ہوتی ہے ادھر تو آپ کسی کو ہیرا دکھائیں تو وہ کہے گا یا سمجھے گا کہ یہ تو بلور ہے جس سے بچے کھیلتے ہیں۔
محمود احمد غزنوی الف نظامی باباجی شاکرالقادری نایاب
محترم روحانی بابا جی
یہ فورم " محفل اردو " تو بہت مناسب ہے ۔ اور رہی بات مذاق اڑانے کی ۔ تو میرے بھائی " ہیروں کی تلاش " میں جانے کتنے کنکروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ اگر " کنکروں " کے باعث تلاش ہی روک دی تو کیا ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
جو وقت گزارہ کرتے ہیں وہ مذاق اڑاتے اور جو سنجیدہ ہوتے ہیں وہ " گوہر مقصود " پا ہی لیتے ہیں ۔ آپ اس فورم " محفل اردو " پر کوئی علمی معلوماتی دھاگہ شروع کریں ۔ مذاق برائے مذاق والوں سے نپٹنا میرا ذمہ ۔
 
فیصل عظیم فیصل صاحب بہت عمدہ تحریر ہے۔ لیکن یہ فورم اس قسم کے علوم کے لیئے موزوں نہیں ہے ادھر لوگ ان علوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ میری اکثر مصر اور مراکش کے شیوخ سے بات چیت چلتی رہتی ہے وہ مجھے جو بھی رمز بتاتے ہیں تو پہلے حلف لیتے ہیں کہ اس کو صرف اہل کے حوالے کروگے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہو تو انہوں نے کہا کہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ ان علوم و فنون کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔
آپ کے حوصلے اور ٹھنڈے مزاج کو داد دیتا ہوں کہ کچھ لوگوں کہ استہزاہیہ لہجے کو آپ نے خندہ پیشانی اور خوشدلی سے برداشت کیا میرے جیسا بندہ تو شائد ایک لمحہ بھی صبر نہ کرسکے اور اگر معترض سامنے ہو تو شائد اس کی پٹائی سے بھی دریغ نہ کرے۔
ہمارے ادھر پشاور میں اس کے ماہرین میں صدیقی صاحب حال مفقود الخبر اور عبدالکریم فوزی حال کینیڈا اس فن کے امام گزرے ہیں میرا کسی زمانے میں نعیم وارثی ساکن ملتان جو نجانے زندگی کی بھیڑ کدھر گم ہوگیا ہے سے بہت تعلق اور محبت رہی ہے اس زمانے میں روحانی بابا سراپا عجز اور خاک تھے نعیم وارثی اس فن کا بہت ماہر تھا اور اس نے اس فن کو حضرت عنبر شاہ وارثی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سیکھا تھا واضح ہو کہ یہ وہی عنبر شاہ وارثی ہیں جو کہ بیدم وارثی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ اکبر تھے عنبر شاہ وارثی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ مہر منیر جو کہ گولڑہ شریف سے شائع ہوئی ہے اور ہنوز ہورہی میں مؤجود ہے۔
آپ ایسا کریں کہ فیس بک پر رابطہ کریں ادھر ان علوم و فنون کے گروپس ہیں ادھر تو ایسی کوئی بات نہیں ہے دیکھیں میں آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں کہ ہیرے کی قدر جوہری کے پاس ہوتی ہے ادھر تو آپ کسی کو ہیرا دکھائیں تو وہ کہے گا یا سمجھے گا کہ یہ تو بلور ہے جس سے بچے کھیلتے ہیں۔
محمود احمد غزنوی الف نظامی باباجی شاکرالقادری نایاب
میری استاد ہونے کی نا اہلیت تو اس بات سے ہی ظاہر ہوچکی کہ سات برس پرانی پوسٹس کو یونی کوڈ کرنے کے لیئے یہاں پوسٹ کیا اور بحث شروع ہوگئی ۔ حالانکہ مقصد صرف معلوماتی مواد کو عام کرنا تھا ۔ ہاں رموز کے حوالے سے یہی امر واجب ہے کہ سالک صابر و واثق کو راہ پر چلانے کی ذمہ داری بڑے بزرگوں کی اجازت سے اٹھائی جاتی ہے اور فی الحال (موجودہ صورت حال) میرے پاس اب مزید اجازت نہیں ہے ۔
دوسرے یہ کہ بزرگان فرماتے ہیں کہ طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے ورنہ وہی حال ہوتا ہے جو بندر کے ہاتھ ماچس کے آنے سے ہوتا ہے
 
جو بھی محترم دوست " خیال خوانی ۔ ہپناٹزم ۔ مسمریزم " سیکھنے میں دل چسپی رکھتے ہوں ۔
وہ سب سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ اپنے اپنے دین و مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اوپر عائد فرائض کی ادائیگی بارے اپنا احتساب کریں ۔
یہ علوم سیکھنے کی سب سے بڑی شرط اپنے دین و مذہب کی تعلیمات پر بے چون و چرا عمل کرنا ہوتا ہے ۔
یہ علوم ایسے ہیں جن سے انسان کے گمراہی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ لازم ہوتا ہے ۔
شاید درج ذیل تحریر مندرجہ بالا " شرط " کی معنویت کو مفصل بیان کر سکے ۔
کسی کو " اسم اعظم " کی تلاش تھی ۔ وہ اس تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا ۔ کسی نے اسے خبر دی کہ فلاں جنگل میں اک بزرگ ہستی ہے ۔ جو کہ " اسم اعظم " جانتی ہے ۔ وہ شخص جنگل کی جانب چل نکلا ۔ جب وہ جنگل میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اک بوڑھا ضعیف انسان گری پڑی لکڑیاں چن کر اپنے گدھے پر لاد رہا ہے ۔ اس نے اس کی جانب زیادہ توجہ نہ کی اور " بزرگ " کی تلاش میں محو رہا ۔ کچھ وقت بعد اسے کچھ شور کی سی آواز آئی اس نے شور کی جانب دیکھا تو پایا کہ دو تنومند انسان اس ضعیف بوڑھے کو دھکا دیکر گراتے اس کی جمع شدہ لکڑیاں چھین کر لے گئے ۔ اس نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر مجھے " اسم اعظم " مل گیا تو وہ ان وحشیوں کو نہیں چھوڑے گا ۔ اس کے دل میں یہ خیال ابھرا ہی تھا کہ وہ ضعیف بوڑھا بول اٹھا کہ " اے متلاشی اسم اعظم " تو ابھی خام ہے اور" اسم اعظم " کے قابل نہیں ہے ۔ اگر تیرے پاس اسم اعظم ہوتا تو تو ان دونوں سے اسم اعظم کے زریعے انتقام لیتا ۔ پہلے اپنے دل و دماغ کو تو اس سچی پاک ذات کا تابع کر جو اس "اسم اعظم " سے پکاری جاتی ہے ۔ جب وہ ذات پاک تجھے اس قابل جانے گی ۔ عطا کر دے گی ۔
کوئی بندہ فرائض سے زیادہ کسی اور چیز کے ذریعہ میرا تقرب حاصل نہیں کرتا۔ وہ نوافل کے ذریعہ میرا اس حد تک تقرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں کسی کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ حملے کرتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اسے قبول کرتا ہوں اور اگر مجھ سے سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرماتا ہوں۔
ہندو یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے وہ جو ان علوم کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے عقائد میں پختہ اور تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔
علم کوئی بھی جھوٹا اور غلط نہیں ہوتا اس کا استعمال ہی اسے جھوٹ اور غلط کے درجے پر پہنچاتا ہے ۔
خوب فرمایا اور ماشاءاللہ کیا خوب فرمایا ۔
 
محترم روحانی بابا جی
یہ فورم " محفل اردو " تو بہت مناسب ہے ۔ اور رہی بات مذاق اڑانے کی ۔ تو میرے بھائی " ہیروں کی تلاش " میں جانے کتنے کنکروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ اگر " کنکروں " کے باعث تلاش ہی روک دی تو کیا ملے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
جو وقت گزارہ کرتے ہیں وہ مذاق اڑاتے اور جو سنجیدہ ہوتے ہیں وہ " گوہر مقصود " پا ہی لیتے ہیں ۔ آپ اس فورم " محفل اردو " پر کوئی علمی معلوماتی دھاگہ شروع کریں ۔ مذاق برائے مذاق والوں سے نپٹنا میرا ذمہ ۔
نایاب بھرا جی ۔
کنکروں سے آپ اور ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں ۔ کسی کے لیئے وہ ایک کنکر اور کسی کے لیئے ایک حسین سبق ہوا کرتا ہے ۔ جنہیں کچھ اچھا چاہیئے اللہ تعالیٰ جل شانہ وہ مالک حقیقی اسے اس سے بڑھ کر عطا فرماتا ہے ۔ شاید ہمیں اسکی سمجھ آسکے یا نہ آسکے اس علیم و خبیر کو ہر خبر ہے
 
یاد رہے میں نے انتقال خیالات کی بات کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زید کا کوئی خیال بکر کی طرف منتقل ہو گیا۔ جیسے کال ڈائیورٹ لگائی جاتی ہے۔ مثلا زید سوچ رہا تھا کہ اسے بھوک لگی ہے اس نے کہا مجھے بھوک لگی ہے اور بکر نے بھی اسی وقت بھوک محسوس کی۔ زید کو چوٹ لگی اور اسے دیکھ کر بکر صدمے سے بے ہوش گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ :rolleyes:
ڈائیورٹ لگایا جانا تو ایک عمل ہے جو کوئی کرتا ہے ۔ آپ کا مطلب شاید سوچ کی لہر کے پھیلنے اور اس لہر کا استقبال کرنے والے پر اثر کے ظاہر ہونے کی کیفیت سے ہے ۔ بے شک ایسا ہوتا ہے مگر جیسے توانائی کا منتقل ہونا ہوتا ہے کیا سوچ کا اسی طرح منتقل ہونا ممکن ہے یا نہیں اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے
 

باباجی

محفلین
ٹیلی پیتھی سے کچھ یاد آیا مجھے

میرا ایک خالہ زاد ہے کاشف
میری اور اس کی بہت زیادہ دوستی ہے
بلکہ یوں سمجھیئے کہ دلی، ذہنی اور روحانی وابستگی بہت زیادہ ہے
کافی عرصہ سے ایک بات نوٹ کی میں نے کہ
میں جب بھی اسے یاد کرتا ہوں تو کسی نہ کسی طریقے ہمارا رابطہ ہو جاتا ہے
کئی بار ایسا ہوا کہ میں اچانک اس کے گھر پہنچ گیا کیونکہ وہ دوسرے شہر میں رہتا ہے
تو میری خالہ نے بہت حیران ہو کر کہا کہ تم نے کاشف کو بتایا تھا کہ تم آرہے ہو
تو میں نے کہا کہ نہیں یہ سرپرائز وزٹ ہے تو وہ کہنے لگی کہ مجھے کاشف نے کہا تھا آج روٹیاں زیادہ پکا لینا ہو سکتا ہے فراز آئے آج
اور اکثر یہی ہوتا ہے
کہ اچانک بہت شدت سے احساس ہوتا ہے کہ آج کاشف آ رہا ہے یا اس سے رابطہ ہو گا
کیا اسے ٹیلی پیتھی کہہ سکتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایسا اکثر ہوتا ہے کہ میں بے ارادہ کہیں چل پڑتا ہوں خالی ذہن کے ساتھ
اور کسی ایسے فرد سے بات یا ملاقات ہوتی ہے جو ملنے یہی کہتا ہے کہ آپ کو بہت دنوں سے یاد کر رہا تھا
 

نایاب

لائبریرین
ڈائیورٹ لگایا جانا تو ایک عمل ہے جو کوئی کرتا ہے ۔ آپ کا مطلب شاید سوچ کی لہر کے پھیلنے اور اس لہر کا استقبال کرنے والے پر اثر کے ظاہر ہونے کی کیفیت سے ہے ۔ بے شک ایسا ہوتا ہے مگر جیسے توانائی کا منتقل ہونا ہوتا ہے کیا سوچ کا اسی طرح منتقل ہونا ممکن ہے یا نہیں اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے
محترم بھائی خود پر گزری زندگی کو سوچو تو " بلا ارادہ سوچ کے منتقل " ہونے کی تو بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں ۔
لیکن " با ارادہ " سوچ کو کسی مخصوس مقام تک صرف اپنی ذہنی قوت کے ساتھ پہنچانا اک ایسا عمل ہے جو کہ صرف وہ " ماہر " ہی جانتے ہیں جنہوں نے برسوں کی کڑی ریاضت کے بعد اس عمل میں مہارت پائی ۔
میں ذاتی طور پر ان علوم پر مکمل یقین رکھتا ہوں ۔ اپنی " لاپرواہی اور من موجیت " کے ہاتھوں مجبور رہتے ان علوم میں مہارت تو حاصل نہ کر پایا ۔ مگر ان علوم کے بارے جو " الف بے " جانی وہ اکثر میری مددگار ٹھہرتی ہے ۔
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اک " فنکار " صرف اپنی نگاہ جما کر " کس کو بھی حرکت کرنے پر مجبور کر دیتا تھا ۔ ۔ لوگ کہتے تھے کہ جنات کا عامل ہے مگر اس کا کہنا تھا کہ یہ صرف نگاہ کے ارتکاز کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ وہ کہتا تھا کہ آپ کسی کے پیچھے بیٹھ کھڑے ہو کر اس کی گردن کی نچلی جانب اک مخصوس مقام پر نگاہ جمائیں ۔ اور اپنے خیال سے اس کسی حرکت پر مجبور کریں ۔ کچھ دیر بعد وہ ایسی ہی حرکت کرے گا جو آپ کے حکم سے ملتی جلتی ہوگی ۔
باقی " علم " تو اک سمندر ہے ۔ اسے پانے کے لیئے چین جانا یعنی سخت محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ اک الگ بحث ہے کہ "ایسے علوم " سیکھنا فائدہ مند ہوتا ہے یا پھر وقت کا زیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ٹیلی پیتھی سے کچھ یاد آیا مجھے

میرا ایک خالہ زاد ہے کاشف
میری اور اس کی بہت زیادہ دوستی ہے
بلکہ یوں سمجھیئے کہ دلی، ذہنی اور روحانی وابستگی بہت زیادہ ہے
کافی عرصہ سے ایک بات نوٹ کی میں نے کہ
میں جب بھی اسے یاد کرتا ہوں تو کسی نہ کسی طریقے ہمارا رابطہ ہو جاتا ہے
کئی بار ایسا ہوا کہ میں اچانک اس کے گھر پہنچ گیا کیونکہ وہ دوسرے شہر میں رہتا ہے
تو میری خالہ نے بہت حیران ہو کر کہا کہ تم نے کاشف کو بتایا تھا کہ تم آرہے ہو
تو میں نے کہا کہ نہیں یہ سرپرائز وزٹ ہے تو وہ کہنے لگی کہ مجھے کاشف نے کہا تھا آج روٹیاں زیادہ پکا لینا ہو سکتا ہے فراز آئے آج
اور اکثر یہی ہوتا ہے
کہ اچانک بہت شدت سے احساس ہوتا ہے کہ آج کاشف آ رہا ہے یا اس سے رابطہ ہو گا
کیا اسے ٹیلی پیتھی کہہ سکتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایسا اکثر ہوتا ہے کہ میں بے ارادہ کہیں چل پڑتا ہوں خالی ذہن کے ساتھ
اور کسی ایسے فرد سے بات یا ملاقات ہوتی ہے جو ملنے یہی کہتا ہے کہ آپ کو بہت دنوں سے یاد کر رہا تھا
اسے آپ خیالات کا غیر ارادی متصل ہونا کہ سکتے ہیں ۔ اگر یہی چیز ارادی طور پر کی جائے تو خیال خوانی کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر دونوں افراد اس بات پر قادر ہوں کہ ایک دوسرے سے خیالات کا ارادی تبادلہ کر سکیں اور دوسرے کے خیالات کو اپنے خیالات سے الگ کر سکیں تو یہ بھی خیال خوانی ہے
 

باباجی

محفلین
اسے آپ خیالات کا غیر ارادی متصل ہونا کہ سکتے ہیں ۔ اگر یہی چیز ارادی طور پر کی جائے تو خیال خوانی کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر دونوں افراد اس بات پر قادر ہوں کہ ایک دوسرے سے خیالات کا ارادی تبادلہ کر سکیں اور دوسرے کے خیالات کو اپنے خیالات سے الگ کر سکیں تو یہ بھی خیال خوانی ہے
اوکے
ایک فرد کے ساتھ خیالات کا اتنا زیادہ غیر ارادی متصل ہونا کہ تقریباً رابطہ ہی ہو جانا
کیا یہ چیز ارادتاً سیکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے ؟
 

باباجی

محفلین
اسے آپ خیالات کا غیر ارادی متصل ہونا کہ سکتے ہیں ۔ اگر یہی چیز ارادی طور پر کی جائے تو خیال خوانی کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر دونوں افراد اس بات پر قادر ہوں کہ ایک دوسرے سے خیالات کا ارادی تبادلہ کر سکیں اور دوسرے کے خیالات کو اپنے خیالات سے الگ کر سکیں تو یہ بھی خیال خوانی ہے
اوکے
ایک فرد کے ساتھ خیالات کا اتنا زیادہ غیر ارادی متصل ہونا کہ تقریباً رابطہ ہی ہو جانا
کیا یہ چیز ارادتاً سیکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے ؟
 
سیکھنے کی صلاحیت ہر شخص میں مختلف ہوتی ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک معین شخص کے ساتھ آپ کا غیر ارادی اتصال قوی ہو مگر اس اتصال کا مرکز کون ہے۔۔؟۔ آپ یا شخص آخر۔۔؟ اور کیا جو بھی اس اتصال کا مرکز ہے اسکی اپنی سوچ پر قابو پانے اور اسے ایک معینہ سمت میں مرتکز کرنے کی صلاحیت کو نکھارا جا سکتا ہے۔۔؟ یقینا ایسا ممکن ہے اور یہ آپکی صلاحیت کو بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے
 
Top