الف عین
لائبریرین
میں تو یہی کہوں گا کہ ہر کتاب کی ضرورت ہے۔ اور میرا یہی معروضہ ہے کہ اردو کی ہر کتاب کو کاپی رائٹ سے آزاد تصور کیا جائے جب تک کہ اس پر کچھ تحریر نہ ہو، یا جب تک کہ اس کے مصنفیں یا ناشرین اعتراض نہ کریں۔ یوں محفل میں پہلے بھی بہت سی کتب ایسی ہو چکی ہیں جن کو لائبریری کی زینت نہیں بنایا جا سکا مثلإ ابن صفی کی ساری کتابیں۔ البتہ یوسفی کی کتابوں کے علیحدہ مضامین ہی اتنی ضخامت کے تھے کہ الگ الگ کتابیں بنائی جا سکیں، جو میں تو کر چکا ہوں اپنی برقی کتابوں میں۔ کیا اس کتاب میں بھی الگ الگ اایسے باب ہیں جن کو الگ سے بھی شائع کیا جا سکتا ہے؟ میرے پاس انٹر نیٹ ج کل بہت سست ہے، اس لئے خود ہی ڈاؤن لوڈ نہیں کر رہا ہوں۔