S. H. Naqvi
محفلین
ویسے کے پی کے حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے
پان والےنےپیسے بھی واپس نہیں کیے ۔بڑے افسوس کی بات ہے ۔سکول کے لئے ہمیں 2 روپے کا کڑاکے دار نوٹ ملتا تھا، اور ہم پیسے جمع کرنے کے سخت خلاف تھے اور اسی وقت اڑا لیتے۔ کہیں سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری وین ہمیں سکول سے اٹھا کر جہاں دوسرے سکول کے سامنے رکتی ہے، وہاں پر بازار کے بالکل آخر میں پان کی دکان ہے۔ ہمیں گھر سے سخت ہدایات ملی تھیں کہ وین سے کسی صورت میں نہیں اترنا، اگر بہت بھی ضرورت ہو تو چند قدم سے زیادہ دور نہیں جانا۔
بہت مشکل سے دو دن فاقہ کر کے چار روپے جمع کئے۔ ایک کزن، جو ہمارا کلاس فیلو بھی تھا، کو ساتھ ملایا۔ اور کل پانچ روپے سے اوپر ہو گئے۔ ہم نے سوچا کہ ایک پان لیتے ہیں، بعد میں آدھا آدھا کر لیں گے۔ کہیں سے ہمیں خبر ملی کہ ایک پان کی قیمت پانچ روپے ہے۔ بازار کے آخر تک ڈر ڈر کر سفر طے کیا، ادھر ادھر دیکھتے جاتے کہ کہیں رنگے ہاتھوں دھر نہ لئے جائیں۔ بس ہمیں اتنا معلوم تھا کہ پان، ایک بڑے سے پتے میں کچھ چیزیں ڈال کر بنایا جاتا ہے۔ اور اس کا استعمال ہمارے ہاں کافی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ آخر کار منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔پان والا ایک عظیم الجثہ اور خطرناک قسم کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ یہ سب باتیں پس پشت ڈال کر، کچھ ہمت کر کے، پان والے کو پانچ روپے تھما دئیے۔ اور ہلکی سی آواز میں کہا، ”انکل، ایک پان دے دو“ اس پر پان والے کی تیوری پر بل پڑ گئے اور غصے سے لال پیلا ہو کر چنگھاڑا ”بھاگ جاؤ یہاں سے، نہیں تو خنزیر ہو جاو گے“ اس کے بعد جو ہم نے دوڑ لگائی تو وین میں ہی جا کر دم لیا اور پان کھانے کی حسرت دل میں دبا کر ہی سارا بچپن گذار دیا۔
سکول کے لئے ہمیں 2 روپے کا کڑاکے دار نوٹ ملتا تھا، اور ہم پیسے جمع کرنے کے سخت خلاف تھے اور اسی وقت اڑا لیتے۔ کہیں سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری وین ہمیں سکول سے اٹھا کر جہاں دوسرے سکول کے سامنے رکتی ہے، وہاں پر بازار کے بالکل آخر میں پان کی دکان ہے۔ ہمیں گھر سے سخت ہدایات ملی تھیں کہ وین سے کسی صورت میں نہیں اترنا، اگر بہت بھی ضرورت ہو تو چند قدم سے زیادہ دور نہیں جانا۔
بہت مشکل سے دو دن فاقہ کر کے چار روپے جمع کئے۔ ایک کزن، جو ہمارا کلاس فیلو بھی تھا، کو ساتھ ملایا۔ اور کل پانچ روپے سے اوپر ہو گئے۔ ہم نے سوچا کہ ایک پان لیتے ہیں، بعد میں آدھا آدھا کر لیں گے۔ کہیں سے ہمیں خبر ملی کہ ایک پان کی قیمت پانچ روپے ہے۔ بازار کے آخر تک ڈر ڈر کر سفر طے کیا، ادھر ادھر دیکھتے جاتے کہ کہیں رنگے ہاتھوں دھر نہ لئے جائیں۔ بس ہمیں اتنا معلوم تھا کہ پان، ایک بڑے سے پتے میں کچھ چیزیں ڈال کر بنایا جاتا ہے۔ اور اس کا استعمال ہمارے ہاں کافی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ آخر کار منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔پان والا ایک عظیم الجثہ اور خطرناک قسم کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ یہ سب باتیں پس پشت ڈال کر، کچھ ہمت کر کے، پان والے کو پانچ روپے تھما دئیے۔ اور ہلکی سی آواز میں کہا، ”انکل، ایک پان دے دو“ اس پر پان والے کی تیوری پر بل پڑ گئے اور غصے سے لال پیلا ہو کر چنگھاڑا ”بھاگ جاؤ یہاں سے، نہیں تو خنزیر ہو جاو گے“ اس کے بعد جو ہم نے دوڑ لگائی تو وین میں ہی جا کر دم لیا اور پان کھانے کی حسرت دل میں دبا کر ہی سارا بچپن گذار دیا۔
حسن پہ مرنے والے زہر سے کیوں ڈریں
موت تو اک دن آنی ہے، عیش کیوں نہ کریں
تک بندی
بہت پرانی بات ہے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس نے پیسے لئے ہی نہیں اور ہمیں بھگا دیا۔
ماوا چلے گا فاتح بھائی؟ مین پوری بھی دستیاب ہے۔۔ایک ظہور راجا جانی تو باندھ دیجیو استاد
ایسی ویسی خوشبوئیں۔شیشہ سموکنگ کے بارے میں کیا خیال ہے، بڑی ہی مزے دار خوشبوئیں آ رہی ہوتی ہیں
ایک ظہور راجا جانی تو باندھ دیجیو استاد
ماوا چلے گا فاتح بھائی؟ مین پوری بھی دستیاب ہے۔۔
افسانہ نگار صاحب! "نسوار" کے متعلق بھی کچھ ارشاد فرمائیں!