رانا
محفلین
31 مرد اور 36 خواتین کو اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی کروانے کے ساتھ ساتھ کوئی بیرون ملک ستر کانفرنسوں میں شریک ہوئے ۔
کوئی ایجاد نظر سے نہیں گزری ۔
کیا ان کے تحقیقی مقالات سے کہیں پاکستان کا بھی بھلا ہوا ہے یا بین الاقوامی جرائد ہی مستفید ہوتے رہے ہیں ۔ ؟
ہمارے انجینئرز نے صرف مقالات ہی لکھے کیا ۔ ؟
محترم! موجد حضرات کی اکثر ایجادات سائنسدانوں کے مقالات کی ہی مرہون منت ہوتی ہیںِ۔ چشم تصور سے ذرا دیکھیں کہ اگر آج سائنسدان ریسرچ بند کردیں تو ایجادات کا گراف ایکس اور وائی ایکسس کے وصال پر محدب عدسہ رکھ کر دیکھنا پڑے گا۔
31 مردوں اور 36 خواتین کو اپنی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کرادینا کوئی معمولی بات ہے کیا؟ ان میں سے اگر بعد میں کوئی ایجاد کرتا ہے تو اس میں اس ڈاکٹریٹ کے دور میں حاصل کیا گیا علم ایک بنیاد کی حیثیت رکھے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کے تحقیقی مقالات سے پاکستان کا بھی کہیں بھلا ہوا ہے یا نہیں۔ تو اگر تو آپ کی مراد مادی اور ڈالری بھلے سے ہے تو اس سوچ کے ساتھ سائنس کبھی پروان نہیں چڑھتی۔ اگر قرآن خدا کا قول ہے تو سائنس خدا کا فعل۔ اور خدا کا فعل اپنی تمام مخلوق کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے نہ کہ کسی خاص علاقے کے لوگوں کےلئے۔ جہاں کہیں جو بھی خدا کے فعل پر غور و فکر کرے گا نہ صرف خود اسکا فائدہ اٹھائے گا بلکہ تمام بنی نوع انسان تک اسکے فوائد پہنچتے ہیں۔
قرآن نے کائنات پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہیں بھی اس نیت کا ذکر نہیں کیا کہ کوئی ملکی فائدہ مدنظر ہو۔ بلکہ کھلی دعوت عام ہے۔ اس لئے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ جس چیز پر تحقیق کررہا ہے وہ آئندہ کب اور کسطرح انسانیت کے کام آئے گی۔ ڈھیروں ایسی تحقیقات ہیں جن سے اس وقت انسان نے فائدہ اٹھایا جب تحقیق کرنے والا بھی دنیا سے گزر چکا تھا۔ ڈاکٹر عطاالرحمان یا دوسرے پاکستانی سائنسدانوں کی تحقیقات کیا معلوم کب کہاں کن مفید کاموں میں استعمال ہوجائیں۔
ایٹم کی اندرونی ساخت پر صدیوں سے تحقیق جاری ہے۔ ہر بعد میں آنے والے سائنسدان نے پہلے سے کئے گئے کام کو ہی بنیاد بنا کر اپنی تحقیق جاری رکھی لیکن کسی کو بھی نہیں علم تھا کہ اس تحقیق کا فائدہ کب اور کیسے ہوگا۔ بس علم کی پیاس اور تحقیق کی لگن تھی۔ صدیوں بعد وہ تحقیق آج اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ اب جبکہ آئندہ کچھ عرصے تک توانائی کا ایک بڑا ذخیرہ یعنی تیل ختم ہونے کو ہے تو اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی نیوکلئیر توانائی انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے۔ ذرا تصور تو کریں اگلے آنے والے کچھ برسوں کا کہ اگر تیل آپ کی زندگی میں ہی ختم ہوجاتا اور کسی نے ایٹم پر تحقیق کرنے کی زحمت نہ کی ہوتی تو توانائی کا کیسا خطرناک بحران جنم لیتا۔ پاکستان میں ہمیں تو یہ سب دیکھنے کے لئے چشم تصور کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ اور پھر یہی صدیوں سے ہونے والی تحقیق ہی آج پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناگئی ہے۔ اس تحقیق کو ذرا صفحہ ہستی سے مٹادیں اور پھر اپنے کسی انجینئر سے کہیں کہ اب ایٹم بم کا صرف خاکہ ہی بناکردے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کا کیا گیا کام آج سرن میں گاڈ پارٹیکل کی دریافت میں مددگار ثابت ہوا ہے اور انہوں نے اسکا کھل کر اعتراف کیا ہے اور پاکستان کا نام بھی اس گاڈ پارٹیکل کی تحقیق کے ساتھ لیا گیا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس کا فائدہ کیا ہے تو یہ ایسا ہی سوال ہوگا جیسا کہ کوئی صدیوں پہلے ایٹم کی تحقیق پر کام کرنے والے کسی سائنسدان سے کہتا کہ بھائی کیوں وقت برباد کررہے ہو اسکا فائدہ تو بتاؤ۔