پاکستانی دستاویزی فلم ۔ سیونگ فیس ۔ نے آسکر ایوارڈ حاصل کرلیا۔

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائى بات تو آپ كى ٹھيک ہے ليكن ... بات اتنى سادہ ہے نہيں۔ جو ملك بغير پائلٹ طياروں کے حملوں ميں ہمارے ہزاروں بھائيوں بہنوں کے چہرے اور زندگياں بگاڑ چكا ہے اس كو ہمارى عورتوں كا اتنا درد كيوں اٹھ رہا ہے؟
آپ صرف افيكٹيز يا متاثرہ افراد کے اعداد وشمار سامنے ركھ كر ديكھيں بڑا ايشو كيا ہے: تيزاب يا ڈرون حملے؟ يہ لوگ مچھر چھانتے ہيں اور اونٹ سموچا نگلتے ہيں۔

میری بہن ! آپ کی بات بجا لیکن، میں اس سب کو امریکی ایوارڈ یافتہ فلم کے بجائے ایک مسئلے کی نشاندہی کی حد تک ہی دیکھتا ہوں۔ پھر یہ ایوارڈ بھی امریکی حکومت کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک خودکار ادارے کی طرف سے ہے۔ میں نے نہ کبھی امریکی پالیسیز کی حمایت کی اور نہ ہی ڈرون حملوں کی۔ مغربی جمہوریت کا حال تو اس وقت ہی کھل جاتا ہے جب اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے میں اکثریت کے بجائے طاقت کی بات مانی جاتی ہے۔

امریکہ جیسا بھی ہے اچھا یا بُرا۔ لیکن ہمارے ہاں ایک رجحان بہت ہی بُرا پڑتا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی ہر برائی کا سہرا کسی نہ کسی غیر کے سر سجا دیتے ہیں اور اس طرح خود کو با عزت بری کروا لیتے ہیں۔ یا اگر کوئی ہمیں یہ کہے کہ آپ میں یہ بُرائی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم میں تو صرف یہ برائی ہےلیکن امریکہ میں تو یوں ہوتا ہے اور برطانیہ میں تو ایسے ایسے ہوتا ہے۔ ہم تو پھر بھی بہت اچھے ہیں۔

جب تک ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا نہیں سیکھیں گے اور ذمہ دار دوسروں کو ٹہھراتے رہیں گے ہمارے معاملات نہیں سنورنے والے۔ ہمارا مقابلہ غیروں سے بعد میں پہلے اپنے اس رویے سے ہے اور ہمیں اس سے خود کو نکالنا ہوگا۔

جتنا ہم امریکہ کو برا کہتے ہیں، امریکہ اتنا برا بھی نہیں ہے جتنے ہمارے حکمران ہیں جو خود ہمارے خلاف امریکہ کے آلہ ء کار بنے ہوئے ہیں ، اگر ہم نے برا ہی کہنا ہے تو اپنے حکمرانوں کو کہنا چاہیے کہ یہ اگر نہ چاہیں تو ہماری حالت اتنی ابتر بھی نہ ہو۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ کلہاڑی اس وقت تک لکڑی کو نہیں کاٹ سکتی جب تک خود لکڑی کا بنا ہوا دستہ اُس کا معاون نہ ہو۔

کوئی بات طبیعت پر ناگوار گزرے تو بہت معذرت۔
 
نہيں بھائى آپ نے بہت اچھی وضاحت كى ہے اور آپ ك مراسلے نظر سے گزرتے رہے ہيں مجھے آپ کے اور ديگر اراكين محفل كے موقف كا اندازہ ہے ، ہم سب بلاشك پاكستانى ہيں اور سب وطن سے اپنے اپنے انداز ميں محبت ركھتے ہيں ۔اس حد تك كوئى اختلاف بھى نہيں بس جب ميڈيا كى تخليق كر دہ ہائپ ، ايشوز كے سائز سے ہٹ كر مبالغے كى حدوں كو چھوتى نظر آئے اور سٹيٹ ڈپارٹمنٹ كا نمائندہ ، اسى تنخواہ ميں آسكر ايوارڈز كى وكالت كرنے لگے تو دال ميں كالا محسوس ہوتا ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نہيں بھائى آپ نے بہت اچھی وضاحت كى ہے اور آپ ك مراسلے نظر سے گزرتے رہے ہيں مجھے آپ کے اور ديگر اراكين محفل كے موقف كا اندازہ ہے ، ہم سب بلاشك پاكستانى ہيں اور سب وطن سے اپنے اپنے انداز ميں محبت ركھتے ہيں ۔اس حد تك كوئى اختلاف بھى نہيں بس جب ميڈيا كى تخليق كر دہ ہائپ ، ايشوز كے سائز سے ہٹ كر مبالغے كى حدوں كو چھوتى نظر آئے اور سٹيٹ ڈپارٹمنٹ كا نمائندہ ، اسى تنخواہ ميں آسكر ايوارڈز كى وكالت كرنے لگے تو دال ميں كالا محسوس ہوتا ہے ۔

بہت شکریہ۔

بلاشبہ ، ٹھیک کہا آپ نے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہماری ہاں زیادہ تر معاملات اتنے زیادہ ابتر ہو چکے ہیں کہ کہیں نہ کہیں برداشت جواب دے ہی جاتی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



اس موضوع کے حوالے سے ميری پوسٹنگ کا بنيادی نقطہ يہی باور کروانا تھا کہ امريکی حکومت کا آسکر ايوارڈ کی تقريب کے ساتھ نا تو کوئ تعلق ہے اور نا ہی ہمارا اس سارے عمل پر کوئ اثر يا کسی قسم کا کوئ کنٹرول ہے۔ ميں نے اپنی پوسٹنگز ميں جو مثاليں دی ہيں ان سے يہ واضح ہے کہ ہماری خارجہ پاليسی کے اہداف اور ہمارے حکومتی فيصلوں سے فلم کے شعبے سے متعلق ماہرين کا متفق ہونا ضروری نہيں اور بسا اوقات ايوارڈ حاصل کرنے والی فلموں کا موضوع اس متنوع سوچ کی حوصلہ افزائ اور آزادی اظہار کا مظہر ہوتا ہے جو ہمارے آئين کی بنيادی اساس ہے۔

اگر ہم اپنے فلمی ماہرين اور تکنيک کاروں کو خود اپنی پاليسيوں اور طرز حکومت کے ليے حمايت اور تعاون پر مجبور نہيں کر سکتے تو پھر اطمينان رکھيں کہ ہم ان وسائل اور پليٹ فارمز کو ہزاروں ميل دور ايک بيرونی ملک کے خلاف استعمال کرنے کے ليے نا تو وسائل رکھتے ہيں اور نا ہی ہماری ايسی کوئ خواہش ہے۔

اس کے علاوہ يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ يہ کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ کس فلم ميکر نے اپنے ملک ميں موجود کسی معاشرتی مسلئے کو اجاگر کرنے کے ليے کوئ فلم تخليق کی ہے۔ دنيا بھر ميں فلمی ماہرين عمومی طور پر ايسی فلميں بناتے رہتے ہيں جن ميں معاشرتی اہميت کے حامل موضوعات، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور معاشرے ميں موجود عدم مساوات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے ليے کوشش کی جاتی ہے۔ سارا سال بے شمار بين الاقوامی فلمی ميلوں کی تقريبات اور ايوارڈز کے ذريعے ان فلمی ماہرين کو اپنی تخليقی صلاحيتوں کے صلے ميں مختلف طريقوں سے سراہا جاتا ہے۔ ايک پاکستان فلم ميکر کے ليے ايوارڈ اسی روايت اور عمل کا حصہ ہے۔ يہ کوئ امريکی سازش يا پاکستان کے خلاف پروپيگنڈہ کو جلا دينے کی کوشش نہيں ہے۔

اگر امريکی حکومت کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہوتا، جيسا کہ کچھ رائے دہندگان کی جانب سے غلط تاثر ديا جا رہا ہے تو پھر اس کی کيا توجيہہ پيش کی جا سکتی ہے کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی کاوشوں سے ايسے کئ ثقافتی، علمی اور تخليقی پروگراموں کا اجراء کيا گيا ہے جن کا مقصد پاکستان کے فنکاروں، لکھاريوں اور دانشوروں کو عالمی سطح پر ايسے مواقع اور وسائل فراہم کرنا ہے تا کہ وہ انٹرنيشنل فورمز پر اپنی بھرپور صلاحيتوں کو بروئے کار لا کر پاکستان کے مثبت اميج کو دنيا کے سامنے پيش کر سکيں۔
اس ضمن ميں ايک حاليہ مثال

http://islamabad.usembassy.gov/pr-021112.html



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top