7۔ ڈیرہ غازی خان۔ پنجاب۔ پاکستان ساتویں نمبر پر ہم چلتے ہیں پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی طرف
ڈیرہ غازی خان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ مشہور پہاڑی سلسہ کوہ سلیمان یہیں واقع ہے۔ پرفضا مقام فورٹ منرو بھی یہیں ہے۔ اس کا مرکزی شہرڈیرہ غازی خان ہے۔ مشہور شہروں میں ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف شامل ہیں۔ 1998ء میں آبادی کا تخمینہ 16,43,118 تھا۔ ضلع ڈیرہ غازی خان میں عمومی طور پر اردو، پنجابی، سرائیکی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 11922 مربع کلومیٹر ہے۔ اسے انتظامی طور پر تین تحصیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
تحصیل ڈیرہ غازی خان
تحصیل تونسہ شریف
تحصیل قبائلی ڈیرہ غازی خان: یہ ایک قسم کا علاقہ ممنوعہ ہے
سیاحتی مقامات میں شامل ہیں۔۔ مقبرہ غازی خان پندرھویں صدی۔۔۔۔کینال کالونی میں واقع چرچ یارڈ 1910 میں تعمیر کردہ۔۔۔شاہ باغ مسجد۔۔۔جامع مسجد تعمیر کردہ 1916۔۔۔۔فورٹ منرو۔۔۔تونسہ بیراج۔۔۔پارک میں شامل ہیں ڈی سی گارڈن۔۔۔۔کمپنی باغ۔۔۔غازی پارک اور چڑیا گھر وغیرہ
ڈیرہ غازی خاں کو اگرچہ ڈویژن کا درجہ حاصل ہےلیکن بلحاظ ترقی بےحد پسماندہ ہی۔ قریب شام برلب سڑک قہوہ خانوں اور ریستورانوںکےسامنےجب لوگ بیٹھےچائےپیتےنظر آتےہیں تو قبائلی علاقےکا گمان ہوتا ہی۔ یہاں کی زبان سرائیکی ہےجس میں بےحد مٹھاس اور شیرینی ہی۔ لوگ سادہ‘ ملنسار‘ مودّب اور محبت کرنےوالےہیں۔ شاید یہ نمایاں خصوصیات ان بزرگانِ دین کی تعلیمات کا ثمرہ ہیں۔ جو اس علاقےمیں بطرف جنوب پچاسی میل کےفاصلےپر کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید بجانب مشرق اڑتالیس میل دور تونسہ شریف میں حضرت سلیمان تونسوی اور مغرب کی سمت پچیس میل دور حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید آسودہ خواب ہیں۔ سخی سرور میں صرف ایک ہی چھوٹا سا ٹیڑھا میڑھا بازار ہےجس کےشمالی کنارےپر بسوں کا اڈا اور جنوبی سرےپر حضرت سلطان سخی سرور شہید کےمزارِ اقدس کی عمارت کا صدر دروازہ کھلتا ہی۔ اس کےاوپر دو منزلہ کمرےبنےہوئےہیں اندر داخل ہوں تو سامنےکشادہ صحن اور تین کمرےہیں جن میں سےایک میں مزارِ مبارک پر چڑھائےگئےپرانےغلاف رکھےہیں۔ اس کےساتھ چھوٹےسےتاریک کمرےمیں ہر وقت شمع روشن رہتی ہی۔ دیوار کےساتھ اونچا سا تھڑا ہےجس پر مصلیٰ بچھا ہوا ہےاس پر حضرت صاحب عبادت و ریاضت کیا کرتےتھی۔ اس سےملحقہ کشادہ کمرےمیں دائیں کونےمیں آپ کا مزار ہی۔ اس کےقریب‘ چھوٹےسےچبوترےپر ہر وقت چراغ روشن رہتا ہی۔ مزارِ اقدس کےقدموں کی طرف نیچےزمین کےاندر ڈیڑھ دو بالشت چوڑا سوراخ ہےجو قبرمبارک کےاندر جاتا ہی۔ زائرین اس میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرتےہیں۔ بعض اوقات کسی کو کوئی چیز مل بھی جاتی ہےتو وہ خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہی۔ مقامی لوگوں کےسوا آٹھ صدیاں قبل جب حضرت سلطان سخی سرور شہادت کےبعد یہاں دفن کئےگئےتو اس ویرانےمیں آپ کی بیوی اور دو بچےبھی ساتھ تھی۔ آپ کی بیوی نےبارگاہِ خداوندی میں فریاد کی کہ اب مجھےکس کا سہارا ہےتو حکم ایزدی سےاس جگہ سےزمین شق ہو گئی جس میں آ پکےبیوی بچےسما گئی۔ اس واقعہ کی کسی مستند حوالےسےتصدیق نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہےکہ آپ کی محترمہ بیگم کی قبر یہیں پر ہی۔ مقبرےکےکمرےاور صحن کےبائیں جانب مسجد ہےجس کےتین محراب ہیں۔ درمیان میں چھت کےقریب چاروں طرف حضرت سلطان سخی سرور شہید کا شجرہ نسب حضرت سید احمد سخی سرور لعلاں والا بن سید زین العابدین بن سید عمر بن سید عبدالطیف بن سید شیخار بن سید اسمٰعیل بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن زین العابدین بن حضرت حسین بن حضرت علی اور ہر کونےمیں آپ کےچار یاروں سخی بادشاہ سید علی شہید‘ سیدنور شہید‘ سید عمر شہید اور سید اسحاق شہید کےاسمائےگرامی رقم ہیں۔ مسجد کےبالمقابل مشرقی سمت اونچی سی جگہ پر دو بہت بڑی دیگیں پڑی ہیں جن میں منوں اناج پک سکتا ہےکہتےہیں جب حضرت سخی سرور حیات تھےتو بغیر آگ جلائےان دیگوں میں جو چاہتےپکا لیا کرتےتھی۔ بجانب مغرب جدھر آپ کا چہرہ انور ہےآپ کےچار یاروں کی قبور ہیں۔ حضرت سید علی شہید اور حضرت سیدنور شہید کی پختہ قبریں ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہیں جبکہ حضرت سیدعمر شہید اور حضرت اسحاق شہید کی کچی قبور اس کےبالمقابل دوسری پہاڑی کی چوڑی پر ہیں۔ چشم باطن سےدیکھنےوالوں کو یوں احساس ہوتا ہےجیسےآپ اپنےیاروں کی طرف دیکھ رہےہوں۔ حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید کےوالد بزرگوار حضرت زین العابدین سرزمین پاک و ہند تشریف لانےسےقبل بائیس سال سےروضہ رسول اطہر کی خدمت کرتےچلےآرہےتھی۔ ایک روز سیدالانبیاءو ختم المرسلین ا نےعالم خواب میں ہندوستان جانےکا حکم دیا۔ آپ نےفوراً رخت سفر باندھا اور ضلع شیخوپورہ میں شاہکوٹ میں قیام کیا۔ یہ 520 ہجری (1126ئ) کا واقعہ ہی۔ آپ ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتےتھی۔ گزر اوقات کیلئےآپ نےزراعت کےعلاوہ بھیڑ بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ دو سال کےبعد آپ کی اہلیہ محترمہ بی بی ایمنہ ‘جنت الفردوس کو سدھاریں۔ ان کےبطن سےتین لڑکےحضرت سلطان قیصر‘ حضرت سید محمود اور حضرت سید سہرا تھی۔ شاہکوٹ کا نمبردار پیرا رہان آپ کا مرید تھا۔ اس نےاپنی کھوکھر برادری سےمشورہ کےبعد اپنی بڑی دختر بی بی عائشہ کو آپ کےجالہ عقد میں دےدیا۔ ان کےبطن سے524 ہجری (1130ئ) میں حضرت سید احمد سلطان پیدا ہوئےاور پھر ان کےبھائی حضرت عبدالغنی المعروف خان جٹی یا خان ڈھوڈا نےجنم لیا۔ آپ بچپن سےہی بڑےذہین و فہمیدہ تھی۔ اکثر اوقات اپنےوالد مکرم سےشرعی مسائل سیکھتےرہتےتھی۔ ان دنوں لاہور میں مولانا سید محمد اسحاق ظلہ العالی کےعلم و فضل کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کو علوم ظاہری کےزیور سےآراستہ کرنےکیلئےلاہور بھیج دیا گیا۔ حضرت مولانا کی محبت و تربیت و تعلیم کی بدولت آپ ان تمام صلاحیتوں اور صفات سےمتصف ہو گئےجو کسی عالم دین کا خاصہ ہوتی ہیں۔ تحصیل علم کےبعد واپس آکر باپ کا پیشہ اختیار کیا لیکن زیادہ تر وقت یادِ الٰہی میں ہی بسر ہوتا تھا۔ ظاہری علوم کےہم آہنگ علوم باطنی حاصل کرنےکا جذبہ اشتیاق سینےمیں کروٹیں لینےلگا جس میں روزافزوں طغیانی آتی گئی۔ آپ کےوالد محترم نےجب اپنےاس ہونہار بیٹےکا رجحان دیکھا تو اس طرح تربیت فرمانےلگےجیسےمرشد مرید کی تربیت کرتا ہی۔ لیکن دل کی خلش برقرار رہی۔ چاہتےتھےکہ سلوک و معرفت کی راہوں پر گامزن ہوں۔ علم لدنی سےمالامال ہوں اور کسی صاحب حال بزرگ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوں۔ جب 535 ہجری (1141ئ) میں آ پ کےوالد گرامی نےرحلت فرمائی اور شاہکوٹ میں ہی مدفن ہوئےتو آپ کےخالہ زاد بھائی ابی۔ جودھا‘ ساون اور مکو نےآپ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ روزافزوں ان کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نےپیرا رہان کی وفات کےبعد زرخیز زمین اپنےپاس رکھ لی اور بنجر ویران اراضی آپ کےحوالےکر دی لیکن اللہ کےکرم سےوہ زرخیز و شاداب ہو گئی تو وہ بڑےنالاں وافسردہ ہوئےاور حسد کی آگ میں جلنےلگی۔ وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتےتھےکہ حیلےبہانےآپ کو نقصان پہنچائیں۔ باپ کےوصال کےبعد آپ کی شادی گھنو خاں حاکم ملتان کی بیٹی بی بی بائی سےہو گئی۔ امراءروساءنےنذرانےپیش کئی۔ جب آپ دلہن کو گھر لائےتو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مائی عائشہ نےگھی کےچراغ جلائےاور خوب خوشیاں منائیں۔ اس پر آپ کےخالہ زاد بھائی سیخ پا ہو گئےاور دل ہی دل میں آپ کو بےعزت کرنےکےمنصوبےبنانےلگی۔ انہوں نےلاگیوں اور بھانڈ میراثیوں کو بہلا پھسلا اور لالچ دےکر بھیجا کہ وہ حضرت سید احمد سلطان کو بدنام و شرمسار کریں اور ترکیب یہ بتائی کہ اگر وہ سیر دےتو وہ سواسیر مانگیں۔ انہوں نےایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ تعالٰیٰ اپنےنیک بندوں کی خود حفاظت فرماتا ہی۔ آپ نےنہ صرف لاگیوں‘ بھانڈوں‘ میراثیوں کو ہی نہیں بلکہ غربا و مساکین اور محتاجوں کو بےشمار دولت‘ جہیز کا سامان اور دیگر اشیاءسےخوب نوازا‘ اس دن سےآپ سخی سرورر‘ لکھ داتا‘ مکھی خاں‘ لالانوالہ‘ پیرخانو‘ شیخ راونکور وغیرہ مختلف القابات سےنوازےجانےلگی۔ لیکن سخی سرور کا لقب ان سب پر حاوی ہو گیا۔ آپ کےخالہ زاد بھائی بھلا یہ کب برداشت کر سکتےتھےلہٰذا ان کی آتش حسد و انتقام مزید بھڑک اٹھی۔ اسی اثناءمیں آپ کی والدہ محترمہ اور سوتیلےبھائی سید محمود اور سید سہر راہی ملک عدم ہوکر شاہکوٹ میں ہی دفن ہوئےتو آپ دل برداشتہ ہو گئی۔ کسی مردحق کےہاتھ میں ہاتھ دینےکا جذبہ بڑی شدومد سےبیدار ہو گیا۔ چنانچہ تلاش حق کیلئےآ پ بغداد شریف پہنچےجو ان دنوں روحانی علوم کا سرچشمہ تھا۔ آپ نےسلسلہ چشتیہ میں حضرت خواجہ مودود چشتی سلسلہ سہروردیہ میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی اور سلسلہ قادریہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ علیہم سےخرقہ خلافت حاصل کیا۔ بغداد شریف سےواپسی پر آپ نےچند دن لاہور میں قیام فرمایا اور پھر وزیرآباد کےقریب سوہدرہ میں دریائےچناب کےکنارےیادِ الٰہی میں مشغول ہو گئی۔ عشق‘ مشک اور اللہ کےاولیاءکبھی چھپےنہیں رہتی۔ یہ الگ بات ہےکہ عام دنیادار انسان ان کےقریب ہو کر بھی فیضیاب نہ ہو۔ آپ کی بزرگی و ولایت کا چرچا چار دانگ عالم میں ہو گیا۔ ہر وقت لوگوں کا ہجوم ہونےلگا۔ جو بھی حاجت مند درِ اقدس پر پہنچ جاتا تہی دامن و بےمراد نہ لوٹتا۔ آ پکو جو کچھ میسر آتا فوراً راہ خدا میں تقسیم فرما دیتی۔ ہر جگہ لوگ آپ کو سخی سرور اور سختی داتا کےنام نامی اسم گرامی سےیاد کرنےلگی۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونےوالےدنیا کےساتھ دین کی دولت سےبھی مالامال ہونےلگی۔ دن بدن آپ کےمحبین‘ معتقدین اور مریدین میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دھونکل میں بھی آپ نےچند سال قیام فرمایا۔ جہاں آپ نےڈیرہ ڈالا وہ بڑی اجاڑ و ویران جگہ تھی۔ اللہ تعالٰیٰ نےاپنےفضل و کرم سےوہاں پانی کا چشمہ جاری فرما دیا۔ مخلوق خدا یہاں بھی جوق درجوق پہنچنےلگی۔ میلوں کی مسافت طےکر کےلوگ آگےاور اپنےدکھوں‘ غموں اور محرومیوں کےمداوا کےبعد ہنسی خوشی واپس لوٹ جاتےایک دن دھونکل کےنمبردار کا لڑکا مفقود الخبر ہو گیا۔نمبردار نےحاضر خدمت ہو کر عرض کیا تو ارشاد فرمایا۔ ”مطمئن رہو‘ شام تک لوٹ آئےگا۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وطن مالوف سےنکلےکئی سال ہو گئےتھی۔ لہٰذا واپس شاہکوٹ تشریف لےگئی۔ اس اثناءمیں آپ کی شہرت و بزرگی کےچرچےپورےہندوستان کے میں پہنچ چکےتھی۔ سینکڑوں میلوں کا سفر طےکر کےلوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتےتھی۔ آپ کےخالہ زاد بھائیوں کو آپ کی یہ شہرت و مرتبہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ اپنےلئےخطرہ محسوس کرنےلگی۔ لہٰذا ان کی دیرینہ دشمنی پھر عود کر آئی۔ جب خالہ زاد بھائیوں کی عداوت انتہا کو پہنچ گئی تو آپ نقل مکانی فرما کر ڈیرہ غازی خاں تشریف لےگئےاور کوہِ سلیمان کےدامن میں نگاہہ کےمقام پر قیام فرمایا اور عبادتِ الٰہی میں مصروف ہو گئی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آج کل آپ کا مزار اقدس ہےاور اب سخی سرور کےنام سےمشہور ہی۔ لوگوں کا یہاں بھی ازدحام ہونےلگا۔ ہر مذہب و ملت کےلوگ آپ کےدرِ دولت پر حاضر ہونےلگی۔ کئی ہندو‘ سکھ اور ان کی عورتیں بھی آپ کےعقیدت مندوں اور معتقدوں میں شامل تھیں جو سلطانی معتقد کہلاتےتھےاور اب بھی پاک و ہند میں موجود ہیں۔ آپ کےارادت مند‘ عقیدت مند‘ معتقد اور مریدین بےشمار تھےلیکن ان میں سےچار اصحاب خاص الخاص تھی۔ یہ چار یاروں کےنام سےمشہور تھی۔ انہیں آپ سےبےحد عشق تھا۔ آپ بھی انہیں بہت محبت کرتی۔ آپ کےخالہ زاد بھائیوں نےآپ کو یہاں بھی سکھ کا سانس نہ لینےدیا۔ انہوں نےاپنی قوم کےان گنت لوگوں کو آپ سےبدظن کر دیا اور جم غفیر لےکر آپ کو شہید کرنےکیلئےچل پڑے۔ ان دنوں آ پ کےسگےبھائی حضرت سید عبدالغنی المعروف خان ڈھوڈا نگاہہ سےبارہ کوس دور قصبہ ودود میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتےتھی۔ ان کےخادم نےجب خالہ زاد بھائیوں کےعزائم کےبارےمیں اطلاع دی تو تن تنہا ان کےمقابلےپر اتر آئےاور بہتر اشخاص کو حوالہ موت کرنےکےبعد جامِ شہادت نوش کیا۔ اس کےبعد وہ سب لوگ نگاہہ پہنچے۔ اس وقت حضرت سید احمد سلطان سخی سرور نماز پڑھنےمیں مصروف تھی۔ چند ایک خادم اور چاروں یار موجود تھے۔ نماز سےفراغت کےبعد جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ گھوڑی پر سوار ہو گئے۔ بھائیوں نےحملہ کیا تو آپ نےبھی جنگ شروع کر دی اور یاروں سمیت مقام شہادت سےسرفراز ہوئے۔ دم واپسی آپ نےارشاد فرمایا کہ میرےیاروں کو مجھ سےبلند مقام پر دفن کیا جائی۔ چنانچہ حسب الارشاد ایسا ہی کیا گیا۔ 22رجب المرجب 577 ہجری (1181ئ) کو تریپن سال کی عمر میں جب آپ کی شہادت ہوئی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچ گئے۔ لاکھوں محبین کےقلوب ورد و غم اور ہجر و فراق سےفگار ہو گئے۔ مختلف محبین و مریدین نےآپ کےمزارِ اقدس کی تعمیر میں وقتاً فوقتاً حصہ لیا لیکن بستی سخی سرور کےمکینوں کےبقول مزار کی عمارت کی تعمیر بادشاہ بابر نےاپنی نگرانی میں کرائی تھی اور اس ضمن میں اس نےایک مہر شدہ دستاویز بھی لکھی تھی۔ مغرب کی جانب ایک بہت بڑا حوض بنوایا تھا تاکہ اس میں پانی جمع رہی۔ مسجد کی محراب کےنیچےاور سطح زمین سےتقریباً پچاس فٹ اونچی بابا گوجر ماشکی سیالکوٹی کی قبر ہےکہتےہیں کہ آپ پہاڑ پر سےپانی لا کر نمازیوں کو وضو کرایا کرتےتھے۔ حضرت سخی سرور شہید کی یاد میں ہر سال مختلف شہروں میں میلہ لگتا ہےجس میں بےشمار لوگ حصہ لیتےہیں۔ پشاور میں اسےجھنڈیوں والا میلہ کہتےہیں۔ دھونکل میں جون ‘ جولائی کےمہینےمیں بہت بڑےمیلےکا اہتمام ہوتا ہی۔ لاہور میں اسےقدموں اور پار کا میلہ کہا جاتا ہےاور ڈیرہ غازی خاں میں آ پ کا عرس گیارہ اپریل کو بڑی دھوم دھام سےمنایا جاتا ہی۔ اس میں لوگ دور و نزدیک سےشریک ہو کر اپنی محبتوں اور عقیدتوں کےچراغ روشن کرتےاور فیضیاب ہوتےہیں۔ ماخذ
آپ کی نوازش ہے آپ نے یاد رکھا ۔۔۔اصل میں کچھ کام سووئنیر کے حوالے سے میرے ذمہ ہے۔۔۔۔ کچھ دوستوں نے سالگرہ کے حوالے سے مزید ڈیمانڈ کیا ہے۔۔اور آپ نے بجا فرمایا رمضان بھی ہے۔۔۔اس لیے ابھی سیر رکی ہوئی ہے مجھے اس کا احساس ہے۔۔۔
جلد باقی کام نپٹا کے ادھر توجہ کرتا ہوں۔۔۔