پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا:میلبرن ٹیسٹ

کیا یہی ایک بڑی کامیابی نہیں کہ خواجہ کو سنچری نہیں کرنے دی. کیوں ڈاکٹرعامر شہزاد بھائی؟
:p
تابش بھائی آپ کارنامے کو کامیابی کہہ رہے ہیں ۔۔۔ :D
ہم پاکستانی تو ویسے بھی کسی کو کچھ کرنے نہیں دیتے ۔۔ وہ خواجہ ہو یا خواجہ سرا :p
 

یاز

محفلین
اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان نے آسٹریلیا میں آخری دفعہ 1990 میں اننگز ڈکلیئر کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد اب جا کے اننگز کو مشرف بہ ڈکلیریشن کرنے کا موقع ملا ہے۔
 

عثمان

محفلین
میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ 443 پر بھی ڈکلیئر نہیں کرنا چاہئے تھا۔

ڈکلیئر کرنے کے متعلق میری دیرینہ رائے یہ ہے کہ اس کو میتھس یعنی ریاضی کی رو سے دیکھا جانا چاہئے۔ اس کی وضاحت کے لئے ایک سچویشن فرض کریں کہ ایک ٹیم پہلی اننگز میں اچھی بیٹنگ کر رہی ہے اور دوسرے دن کے چائے کے وقفے کے قریب اس نے 550 رنز کے قریب سکور کر لیا ہے۔ ایسے میں سب کمنٹیٹرز اور ٹی وی کے سپورٹس تجزیہ کاروں وغیر ہ کی چیخیں شروع ہو جاتی ہیں کہ جلدی جلدی ڈکلیئر کریں، دیر کیوں کر رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھا جائے تو اگر چائے کے وقفے پہ ڈکلیئر کر دیا جائے تو ابھی بھی سوا تین دن کا کھیل باقی ہے، اور اگر دوسری ٹیم اپنی دونوں اننگز میں کل ملا کر اڑھائی دن بھی کھیل گئی تو بھرپور امکانات ہیں کہ وہ 550 سے کہیں زیادہ رنز کر لے گی۔ اور اگر رن ریٹ کچھ زیادہ ہو تو پہلی ٹیم کو میچ ہارنے کی سچویشن پیدا کرنے کے لئے ایک چھوٹا موٹا کولیپس کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر آپ اس ٹیم کو اڑھائی دن میں دو بار آؤٹ نہیں کر سکتے تو میچ نہیں جیت سکیں گے، تو کیوں نہ اس کو وقت ہی اڑھائی دن کے قریب قریب دیا جائے۔

اس کی ایک مشہور مثال ایڈیلیڈ ٹیسٹ 2005 کے کیس میں دیکھی جا سکتی ہے۔ میں اس کو سراسر غلط ڈکلیریشن کا نتیجہ قرار دوں گا۔ حال ہی میں پاکستان بھی ویسٹ انڈیز سے یہ میچ ہارتے ہارتے بچا تھا، جبکہ میرے خیال میں مزید 100 سے 150 رنز کرنے کے بعد ڈکلیئر کرنا چاہئے تھا۔ آج کے دوسرے میچ میں جنوبی افریقہ کی بابت بھی تیسرے دن کے اختتام پر ہی ڈکلیئر کرنے کی بات بھی کی جا رہی ہے جبکہ ابھی ان کی لیڈ 450 رنز کی بھی نہیں ہوئی۔ اب اگر وہ اسی مقام پہ ڈکلیئر کر دیں تو سری لنکا کو 6 تو کیا 5 سیشن میں بھی آؤٹ کرنے میں ناکام رہیں تو 90 فیصد امکان ہے کہ ٹارگٹ ہی چیز ہو جائے گا۔
امید ہے کہ میں اپنا موقف سمجھا پایا ہوں۔
فرض کیجیے کہ ٹیم اے پہلے کھیلتے ہوئے دوسرے دن چائے کے وقفے کی بجائے تیسرے دن کھانے کے وقفے تک ۷۵۰ رنز بنا کر اننگز ڈکلئیر کر دیتی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بھلے ٹیم اے کے پاس بہت بڑی لیڈ ہے۔ لیکن سوا دو دن کا میچ تو ہوچکا ہے۔ ٹیم بی کے نزدیک میچ جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تاہم اس کے نزدیک میچ ڈرا کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں رہا۔ پہلی اننگز سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ بیٹنگ پچ ہے۔ ٹیم بی کو رنز تیزی سے بنانے کے چکر میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا کام محض دفاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے باقی پونے تین دن کے میچ میں دو دفعہ کھیلتے رہنا ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرتا جائے اور ٹیم بی کی وکٹیں موجود رہیں ۔۔ ویسے ویسے ٹیم بی کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف ٹیم اے کا اس کی بڑی لیڈ کا جوش مانند پڑتا جائے گا کہ میچ ڈرا کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔
تاہم اگر ٹیم اے پہلے دن چائے کے وقفے پر ۵۵۰ رنز بنا کر اننگز ڈکلئیر کر دیتی تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔ ۵۵۰ کی لیڈ ۷۵۰ کی نسبت بڑی نہیں اور سوا تین دن کا کھیل باقی ہے۔ ٹیم بی میچ جیت بھی سکتی ہے، اور واقعی دو دفعہ آوٹ بھی ہوسکتی ہے۔ میچ ڈار ہونے کے بھی امکانات ہیں۔ وقت اور رنز کے مابین یہ توازن ٹیم بی پر کسی حکمت عملی اپنانے کے معاملے میں بہت پریشر پیدا کرتا ہے۔ دوسرے دن چائے کے وقفے کے بعد اگر ٹیم بی کا ایک بھی اوپنر آوٹ ہوجائے تو اس کی صفوں میں کھلبلی مچ سکتی ہے۔ اب ٹیم بی کو وکٹ روکنے کے ساتھ ساتھ معقول رفتار سے رنز بنانے رہنا لازمی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ٹیم اے کے پاس بھی معقول وقت ہے ٹیم بی کو آوٹ کرنے کے لیے۔
دراصل معاملہ سیدھے سیدھے رنز کی حسابی جمع تفریق کا نہیں ہے۔ رنز اور کھیل کے وقت میں توازن ضروری ہے۔ یہ مخالف ٹیم پر کھیل کا پریشر ترتیب دیتا ہے جو میچ کا حتمی نتیجہ نکالنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اس لیے میری رائے میں سپورٹس تجزیہ کاروں کا دوسرے دن چائے کے وقفے پر ۵۵۰ رنز کی اچھی خاصی لیڈ پر اننگز ڈکلئیر کرنے کا اصرار درست ہے۔ :)
 
آخری تدوین:
آج اظہر علی میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو میں اپنے خیالات بدل دوں گا ۔۔ اور یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاوں گا کہ واقعی اس میں کوئی بات ہے ۔۔
 
Top