پولنگ سٹیشن سے ابھی تھوڑا دور ہی تھا کہ باہر شدید حبس میں لمبی لائین لگی دیکھ کر تھوڑی کوفت ہوئی۔ نزدیک پہنچا تو پتا لگا کہ چار بوتھ بنے ہیں اور ہر بلاک کی الگ الگ لائین ہے۔ میں نے قد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی بھائی کو دور سے ہی بلاک کوڈ کا آخری نمبر ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔ اس نے بآواز بلند پوچھا ۔۔۔ 703.. میں نے جواباً دہرایا 703. بولا سر آپ اندر آجائیں۔
703 کی کوئی لائین نہیں تھی۔
رش نے خود ہی پیچھے ہٹ کر راستہ بنا دیا۔ گیٹ پر پہنچا۔ پولیس والے نے پرچی چیک کرتے ہوئے پوچھا، ۔۔ موبائل ؟۔۔۔ اور نہیں میں جواب ملنے پر راستہ چھوڑ کر پہلے بوتھ کی طرف اشارہ کر دیا۔
بوتھ کے باہر ائیر فورس کا ایک باریش نوجوان معہ ہتھیار کے بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک صاحب اندر ہیں وہ نکلیں تو آپ چلے جائیے گا۔ شاید آدھا پونا منٹ بعد ہی وہ صاحب باہر نکل آئے اور میں اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر کے سامنے کھڑا تھا۔ پولنگ ایجنٹس میں سے ایک نے نمبر پوچھا، میں نے بتایا اور وہ اپنی فہرستوں میں کھو گئے۔ یہی کام انتخابی عملے نے شناختی کارڈ لے کر کیا۔ دو فہرستوں اور دو بیلٹ پیپرز پر انگوٹھے لگائے، نشان لگوایا۔ مہر دی گئی، کیبن میں جا کر زندگی میں پہلی بار شیر کے نشان پر ٹھپے لگائے اور باہر آ کر دونوں ووٹ الگ الگ ڈبوں میں ڈال دیئے۔
ایک پولنگ ایجنٹ نے باہر رش کی صورتحال پوچھی اسے جواب دیا اور باہر نکل آیا۔
گیٹ سے داخل ہونے اور واپس پہنچنے تک بمشکل چار سے پانچ منٹ لگے۔
باہر نکلا تو ان چہروں کی طرف دیکھا جو پسینے میں شرابور لائینوں میں کھڑے اپنی باری کے منتظر تھے۔ دل ہی دل میں شکر کیا کہ گھر اس علاقے میں ہے جہاں سے بہت کم لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں۔