پاکستان عام انتخابات 2018ء ٭ تبصرے، صورتحال، نتائج

سید رافع

محفلین
کافی منتشر خیالات ہیں اور مطمحِ نظر غیر واضح ہے۔

آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ کچھ جلدی میں تھا سو نہ صرف خیالات منتشر تھے بلکہ املا کی اغلط بھی تھیں۔ معذرت۔ کچھ بہتر کر کے لکھا ہے۔ مطمحِ نظر عمران، مغرب، اسلامی ممالک، پاکستان کے اسلامی تشخص، اور مسلم جنگجووں پر تبصرہ کرنا تھا۔
------------------------
معلوم نہیں ہم نے عمران کو بین الاقوامی تناظر میں بھی دیکھا ہے کہ نہیں۔ اسکی ضرورت ہے تاکہ بہتر طور پر آنے والے حالات کے لیے تیار ہوں۔کیونکہ کینونس بین الاقوامی ہے سو اشاروں میں بات ہو گی کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے اور دنیا کہاں ہے؟ پاکستانی کہاں جانا چاہتے ہیں اور دنیا کہاں لے جانا چاہتی ہے؟ اور ان سب میں عمران کا کیا کر سکتا ہے اور اسکا نتیجہ کیا ہو گا۔

شروع کرتے ہیں افغانستان سے کیونکہ یہاں مغربی ممالک کی فوجیں ہیں جہاں چرچ اور اسٹیٹ الگ الگ ہیں۔ افغانستان میں موجود بین الاقوامی فوجوں کے مطالبات کی نوعیت صاف ہے۔ انکی حکومتیں چاہتں ہیں کہ مذہب کو ریاست سے علیحدہ کردیا جائے جیسا کہ بائے ڈئزائن ریاست کا تصور یو این او میں موجود ہے کہ چرچ اور اسٹیٹ الگ الگ شئے ہے۔ پاکستانی کیونکہ بار بار اسکو مکس کرتے ہیں سوان کی سلامتی داو پر لگ جاتی ہے۔عمران کی کوشش ہو گی کہ اسلام کو پاکستانی ریاست سے الگ کر دیا جائے۔ ظاہر ہے اس میں قانون 1835 کا ہی ہو گا، اسلامی شرعی قوانین نافذ نہیں ہوں گے لیکن امن و سلامتی پرطانیہ والی آ جائے گی۔ برطانیہ سیکولر ملک ہے سو ویسا ہی پاکستان کو بنانے کی کوشش ہو گی۔ پاکستان میں کیونکہ انصاف انتہائی گراوٹ پر ہے سو اگر 1835 کے قانون پر بھی من و عن عمل ہو جائے تو عمران کی عمر رضی اللہ تعالی عنہ والی عادل حکومت بن جائے گی اور کیونکہ بہرحال انصاف ہو رہا ہو گا سو مدینے جیسی ریاست بھی بن جائے گی۔ شرعی قوانین جیسے پابندی سود و خمر، قصاص و رجم وغیرہ عمران کے متعلقات نہیں۔

اگر اسلامی قوانین کے لحاظ سے پاکستانی حکمرانوں کی تاریخ دیکھیں تو اگر ان بین الاقوامی حکومتوں کے ایڈوینچر یا مس ایڈوینچر نے قائد اعظم کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کی بات کریں حالانکہ 1940 سے قبل وہ محض آئین ہند میں مسلمانوں کے حقوق کی بات ہی کرتے تھے، لیاقت علی خان کوہمت دی کہ وہ قرار داد مقاصد کو آئین کے دیباچے کے طور پر شامل کریں ، بھٹو کو دیگر کو مجبور کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا قانون بنائیں اور ضیاءالحق اور دیگر کو حوصلہ دیا کہ وہ حدود آرڈیننس، ناموس رسالت وغیرہ کے ایکٹ آئین میں شامل کریں تو اب عمران کی حکومت اسی صورت میں پنپے گی کہ اگر وہ ان تمام اسلامی قوانین کو اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر ایک ایک کر کے صاف کردے اور 1835 کا قانون یو این کے موجودہ چارٹر کے تحت بحال کرے۔ اندازہ ہے کہ اگر وہ ایسا کر دیتا ہے تو بہت عمدہ اور اگر اسلامائزیشن کی طرف جاتا ہے تو قتل کر دیا جائے گا جیسا کہ لیاقت علی خان جیسے مخلص لوگوں کو کیا گیا۔قریبی مثال مصر کی ہے۔ مصر میں مرسی باوجود جمہوری طریق پر صدر بننے کے اسی نوعیت کے قوانین کی طرف جانے کی وجہ سے جیل میں ہے اور اخوان المسلمین کے سربراہ سمیت 75 لوگوں کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

مسلمانوں سے ایک عرصے سے اپنا سیاسی تشخص سکیولر کر لینے کی درخواست کی جا رہی ہے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ میں وہ نور اور صالحیت نہیں کہ آپ انصاف کے ساتھ حکومتیں بنا سکیں۔ 1947 سے قبل کئی دفعہ مختلف انداز سے قائد اعظم اور دیگر سرکردہ مسلمان لیڈروں سے کہا گیا کہ پاکستان بنانے کی بات چھوڑ کر ہندو قوم کے ساتھ ہی ضم ہو جاو، آپ نہیں مانے دس لاکھ قتل ہوئے اور پاکستان بن گیا۔پھر جوڑ توڑ ہوتی رہی یہاں تک کہ 90 ہزار فوجی سرینڈر ہوئے او ر 1971 پاکستان کا ایک حصہ انڈیا کے زیر نگیں چلا گیا۔ ہندوپوری طرح سے سیکیولر ہیں ،اور ریاست اور مذہب کو علیحدہ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اب آپ سے یہ درخواست کی جا رہی ہے کہ انڈیا سے تعلقات بڑھاتے جائیں اور ان جیسے سیکولر بن جائیں۔ آپ شرعی قوانین اور خلافت کا نظام قائم کرنے کی طرف قانون سازی نہ لے جائیں کہ یہ سب ریاست کے اصول کے بھی خلاف ہے اور آپ جیسے چوپٹ مسلمانوں سے ممکن بھی نہیں۔ اب عمران 1835 کے قوانین کو ان کی روح کے مطابق عمل کرانے کے لیے بڑھے گا۔ جب انصاف عام ہو گا تو لوگ اسلامی قانون سازی کی بات کریں گے، اس موقعے پر ان لوگوں کو اس نوعیت کے مطالبے کرنے پر ایک جنگ میں مبتلا کیا جائے گا۔ عمران سے کہا جائے گا کہ آپ 1835 کے قوانین کی طرف توجہ رکھیے اور سیکیولر پرواز جاری رکھیے جبکہ ان گروہوں کو انڈیا سے کشمیر پر جنگ کے لیے اکسائیں۔ یہاں تک کہ ایک جنگ ہو گی اور جن کے سر پر دہلی کو فتح کرنے کا بھوت ہے اور اسلامی قوانین کو ریاست کا حصہ بنانے پر مصر ہیں ان کو قتل کیا جائے گا۔ اسی جنگ میں بات اتنی بڑھے گی کہ نیوکلر بم کے چلانے تک کا ڈرامہ ہو گا جس کو نیٹو ممالک ایک معاہدے کے ذریعے رکوائیں گے۔ اسی معاہدے کے ذریعے اس خطے نیوکلر بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ عمران اس سب ڈرامے میں دھرنے والا رول ادا کریں گے۔

آپ نے نواز شریف کو دیکھا ہے، وہ بغیر فوجی حمایت کے ایک سیاسی طاقت تھے۔ انہوں نے بھی سیکولر پرواز کی اور ممتاز قادری کو پھانسی دی تاکہ آئین میں اوپر رقم کیے گئے اسلامی قوانین کے ایڈوینچر سے نجات ملے، الیکشن فارم سے قادیانیوں کو ایک قانون سازی کے ذریعے اعلی عہدوں تک پہنچنے کا چور دروازہ دیا اورناموس رسالت ایکٹ قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہی نہیں بلکہ بھارت سے تعلقات قائم کئے۔یہ سب کا سب پاکستان کو سیکولر بنانے کے لیے اہم ہے تاکہ ایٹم بم سے نجات ملے اور پاکستان اور بھارت دو ملک ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہوں۔ آپ نوٹ کریں چاہے عمران ہوں یا نواز راستہ الگ الگ ہے لیکن منزل ایک۔

نوازشریف بین الاقوامی طاقتوں کے کہنے پر جیل میں رکھے جائیں گے۔ اگر عمران خان ناکام ہو جائے یا قتل، تو نواز کے ذریعے پاکستان میں لبرل ازم کا عمل مکمل کیا جائے ۔ پاکستانی قوم نے اپنے چہرے کو عمران جیسے لبرل سے بدل کر سیکولر راہ پر چلنے کا سگنل تقریبا دے ہی دیا ہے۔پاکستانی انصاف چاہتے ہیں شرعی انصاف سے انکو تقریبا اب کوئی سروکار نہیں رہا ہے۔ اگر عمران اسلام کی سمت میں چلتا ہے، تو اسے قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ 1835 کے تحت عدالتوں کو ٹھیک کرتا ہے تو بہت عمدہ۔ یوں سیکولرائزیشن کا عمل چلتا جائے گا۔

اب ہو گا کیا، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے اور مسلمانوں کا جوش ایمانی اور غیرت کسقدر ہے؟

سعودی عرب کی تبدیلوں کا عمران پر کچھ اثر ہو گا؟ سیکولر بننے کے لیے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی شہزادے کی حکمت عملی کو عمران بھی اختیار کرے گا۔ یعنی اسلام کی سخت اور برین واشنگ سے بھری تشریح کرنے والوں کو اوپر ذکر کی جانے والی جنگ کے لیے تیار کرے گا اور انکو وہاں مروا کر ختم کرے گا۔ ایسے برین واش لوگوں کی اب کسی کو ضرورت نہیں۔ اب بین الاقوامی حکومتوں کو برین واش جنگجو نہیں چاہیں کیونکہ انکے ذریعے اسلامی ممالک اور روس کا کچومر پہلے ہی نکالا جا چکا ہے۔ ان کا کام تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ وہ اسلام نہیں برین واشنگ کے تحت مغرب کی جنگ لڑ رہے تھے۔ فوج نے عوام کو تقسیم کرنے کے لئے مذہب کا استعمال کیا ہے اور تقسیم کرواور فتح کرو کے برطانوی راج کی حکمت عملی کا استعمال کیا۔اس کے لیے طرح طرح کی اسلامی جماعتوں کو اپنی بی ٹیم بنا کر خوب استعمال کیا کہ یہی ان طاقتوں کی مرضی تھی ۔لیکن وہ برین واش لوگ اب بھی اسے اسلام کی جنگ سمجھتے ہیں۔ سعودی شہزادہ کے اقدامات کو گزشتہ برس امریکہ، برطانیہ اور مغرب کی طرف سے پسند کیا گیا تھا لیکن ساتھ ہی ڈر کا اظہار کیا گیا کہ شہزادے کی اس برق رفتار لبرل تبدیلوں سے کہیں ان کے چہرے سے ہی پردہ نہ ہٹ جائے اور وہ اپنے لوگوں کی آنکھوں میں ہی ننگے نہ ہوجائیں کہ وہ اصل میں شہزادے کو کنٹرول کررہے ہیں جبکہ سعودی حکمراں ہمیشہ سے صرف کٹھ پتلی ہے۔

ذرا یمن کی جنگ اور عمران خان کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ان حالات میں یمن کو پاکستان سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ پاکستانی فوج انکو نصرہ فراہم کرے گی ۔یمن اور دنیا بھر میں حقیقی مسلمان جنگجوؤں کو سعودی اور دیگر سیکیولر حامی مسلمان حکومتیں ختم کر دیں گی۔ پاکستان سے ان اسلام کے مجاہدوں کو کوئی مدد نہیں پہنچے گی کیونکہ پاکستان سیکولرائزیشن کے راستہ پر ہے۔ آخر میں ان جنگجووں کے پاس کوئی کوئی زمین نہیں رہے گی اور 2020 تک 2035 تک گوریلا لڑائی رہے گی۔ وہ جھاڑیوں اور پہاڑوں میں چھپے جائیں گے جبکہ پاکستان کے تمام شہر سیکولر ہوں گے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر۔

واللہ اعلم
 
آخری تدوین:
آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ کچھ جلدی میں تھا سو نہ صرف خیالات منتشر تھے بلکہ املا کی اغلط بھی تھیں۔ معذرت

انتشار یہاں بال کھولے جاگ رہا ہے-

شاید ایسا ہی ہو۔۔ لیکن انہیں ہر بات پرمزاح لگتی تھی ۔۔ آپ پرانی رکن ہے اس لیے مجھ سے بہتر اندازہ ہوگا:)

اس دفعہ بہتر تکنیک سے کھیل رہے ہیں- دفاع مضبوط ہے- اوکھی گیند چھوڑ رہے ہیں- ہیلمٹ، ایلبو، چیسٹ کے لبادہ خوب اوڑھا ہے- صرف لوز پر بال شاٹ لگاتے ہیں وہ بھی پُرانی تکنیک سے- کریز سے باہر نکلنے اور سلاگ سے اجتناب رکھے ہوئے ہیں-
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
احمد بھائی کا مؤقف صحیح ہے۔۔۔
زلفی صاحب ، آپ کو اتنی موٹی سی بات کا علم نہیں کہ قائد اعظم نے اپنے کمالِ حسنِ تدبر سے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر پاکستان بنایا تھا۔۔۔
یہ جو قتل و غارت گری ہوئی یہ پاکستان بننے کے بعد کی بات ہے، جس کے مختلف عوارض تھے!!!

اسکے جواب میں کچھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

بات سادی ہے قائد اعظم انصاف پسند تھے۔ بجائے نام نہاد مسلمانوں کو ٹھنڈا کرتے انہوں نے پاکستان کا خنجر تیار کیا۔
 

سید رافع

محفلین

شاید ایسا ہی ہو۔۔ لیکن انہیں ہر بات پرمزاح لگتی تھی ۔۔ آپ پرانی رکن ہے اس لیے مجھ سے بہتر اندازہ ہوگا:)

اس دفعہ بہتر تکنیک سے کھیل رہے ہیں- دفاع مضبوط ہے- اوکھی گیند چھوڑ رہے ہیں- ہیلمٹ، ایلبو، چیسٹ کے لبادہ خوب اوڑھا ہے- صرف لوز پر بال شاٹ لگاتے ہیں وہ بھی پُرانی تکنیک سے- کریز سے باہر نکلنے اور سلاگ سے اجتناب رکھے ہوئے ہیں-

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
:)
 

جاسم محمد

محفلین
چین وہ ملک ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکہ کی ساری معاشی طاقت زمین بوس ہوجائے۔ چین کا سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر الیکٹ سے اس کی رہائش گاہ میں قائم دفتر میں ملاقات کرتا ہے، وہ خود سوٹڈ بوٹڈ ہو کر آتا ہے جبکہ کپتان ایک عام سی سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اس کا استقبال کرتا ہے۔ پیچھے دیوار پر ایک طرف درود شریف لکھا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف طرف غالباً آیت الکرسی۔

چینی سفیر کے ساتھ آنے والے وفد کو عام برتنوں میں مکس چائے پیش کی گئی اور وفد میں شامل چار اراکین کو گن کر ٹوٹل آٹھ بسکٹ دیئے گئے جو کہ ہر ایک کے حصے میں محض دو، دو ہی آئے۔

چینی وفد پاکستان کے سابق حکمرانوں کی عیاشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ قیمتی تحفہ بھی لایا تھا جو کہ خان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ خان صاحب چینی وفد کے سامنے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ بدقسمتی سے انہوں نے گفٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ چینی وفد نے یک زبان ہو کر نو پرابلم کہا اور ٹکٹکی باندھ کر اپنے سامنے کھڑے اس 68 سالہ شخص کو دیکھنے لگ گئے کہ جو ہرلحاظ سے پاکستان اور خطے میں موجود دوسرے ممالک کے روایتی سربراہان سے مختلف لگ رہا تھا۔

ہم بچپن سے خلفائے راشدین سے لے کر قائد اعظم تک کی جو سٹوریاں پڑھتے یا سنتے آئے تھے، اب انشا اللہ عمران خان کی شکل میں چند ایک عملی مثالیں بھی دیکھ لیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہوجائے، آپ یہ کبھی نہیں سنیں گے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے دس نئی شوگر ملیں، پانچ ٹیکسٹائل ملیں اور چھ سٹیل کے کارخانے قائم کرلئے۔ نہ ہی آپ یہ سنیں گے کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے سرے پیلس یا ایون فیلڈ میں فلیٹس خریدے۔

یہ مکروہ روایات اب ماضی میں دفن ہوجائیں گی، عمران خان انشا اللہ ایک بہتر حکمرانی کی روایت کو جنم دے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
38181967_1858873107513969_2567733325896613888_o.png
 

سین خے

محفلین
گفتگو کا رخ ایک خاص ادارے کی جانب مڑ گیا تھا۔ اس رخ کے بارے میں ایک دو باتیں عرض کرنا چاہوں گی۔

جیسے سکہ ہوتا ہے نا، اس کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ آپ نہ چاہ کر بھی اس کے کسی ایک ناپسندیدہ رخ سے جان نہیں چھڑا سکتے ہیں۔ یہی مثال اداروں پر بھی مصدق آتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر ادارے کا ایک ہی رخ ہو۔ دو رخ بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک بہترین اور ایک کچھ ایسا جس پر اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف ایک ہی رخ سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں کچھ ایسی برائی بھی نہیں ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ انسان آئیڈیلز بناتا ہے اور بنانا چاہتا ہے۔ بس جب بنا لیتا ہے تو اگر اس میں کوئی خامی نظر آتی ہے تو چونکہ وہ آئیڈیل ہوتا ہے تو اسے توڑنے میں مشکل تو کیا کافی تکلیف ہوتی ہے۔

لیکن جب مسئلہ انسانیت کا آجائے تو آئیڈیلز پر تنقید کرنے پر کوئی برائی نہیں ہے۔ اس تنقید کو مثبت لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہے اور اگر اسے احساس نہ دلایا جائے تو وہ جو کرتا رہا ہے وہ کرتا ہی رہے گا۔ لیکن اگر ہمارے احساس دلانے سے دال برابر بھی فرق پڑ جائے تو کیا ہی اچھی بات ہے :)

اب بھئی یہ ناممکنات میں سے ہے کہ ایک ادارے میں اگر ہزار دو ہزار لوگ بھی قابلِ اعتراض کام کر رہے ہیں تو ان کا نام لے لے کر الگ الگ تنقید کی جائے۔ اور سب سے مزے کی بات کہ یہ اس وقت اور ناممکن ہو جاتا ہے جب پورے ادارے میں سے کبھی کسی نے ان ہزار دو ہزار کی مخالفت نہ کی ہو اور نہ ہی کبھی انگلی اٹھانے کی جرات کی ہو۔ Self accountability بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے نا؟ مگر ایسا نہ ہو تو پھر اس ادارے کی ایک قابلِ اعتراض پہچان عام ہو جاتی ہے۔

بس کبھی کبھی کچھ ریٹائرڈ حضرات کچھ راز کی باتیں کہہ جائیں تو کہہ جائیں ورنہ بڑے حضرات تو صرف ایک دوسرے کے کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور ایک دوسرے کو بچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔

ہمیں جذبات کی دنیا سے باہر نکلنا ہوگا اور "حق اور سچ" کا ساتھ دینا ہوگا اور اس میں کسی شخصیت یا کسی ادارے کے آئیڈیل کو بیچ میں لانا چھوڑنا پڑے گا۔ ہماری قوم کا مسئلہ سب سے بڑا یہ ہے کہ ہمیں کسی شخص یا ادارے سے محبت ہو جائے تو ہم بس اس کی ہر برائی کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم اس کی برائیوں کا اسے احساس دلائیں اور اسے غلط راہ پر چلنے سے روکیں۔

جو ایک بہترین رخ ہے اس سے کوئی بھی پاکستانی کبھی بھی منہ نہیں موڑنا چاہے گا اور میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ کوئی پاکستانی کسی کی وطن کے لئے دی گئی قربانیوں سے انکاری نہیں ہے۔ اگر کوئی خائف ہے تو وہ ایک دوسرے رخ سے ہے جو کہ وہ اب بدقسمتی سے کسی کی ایک مخصوص پہچان بن چکا ہے۔

میرا اپنا خیال یہ ہے کہ دوسرے رخ پر بات ہونی چاہئے اور اگر تنقید تمیز کے دائرے میں رہ کر ہو رہی ہو تو پھر تو ضرور ہونی چاہئے۔ اسے تعمیری تنقید کے پیرائے میں لیا جانا چاہئے۔ اس سے کافی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ادارے کے لئے بھی اور سب سے بڑھ کر وطن کے لئے بھی!

اس سے مجھ جیسے لوگوں کو بھی کافی فائدہ پہنچتا ہے جن کی اتنی کچھ خاص معلومات نہیں ہیں اور جو صرف محفل کا چکر ہی کچھ سیکھنے کی خاطر لگاتے ہیں۔

پبلک فورم ہے :) عوامی شعور پیدا کرنے میں کافی اہم کردار ادا کر سکتا ہے :) اور سب سے بڑھ کر جو بات ہے وہ یہ کہ جو بات سچ ہے چاہے جتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو اسے کہنا چاہئے :)
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ کچھ جلدی میں تھا سو نہ صرف خیالات منتشر تھے بلکہ املا کی اغلط بھی تھیں۔ معذرت۔ کچھ بہتر کر کے لکھا ہے۔ مطمحِ نظر عمران، مغرب، اسلامی ممالک، پاکستان کے اسلامی تشخص، اور مسلم جنگجووں پر تبصرہ کرنا تھا۔
------------------------
معلوم نہیں ہم نے عمران کو بین الاقوامی تناظر میں بھی دیکھا ہے کہ نہیں۔ اسکی ضرورت ہے تاکہ بہتر طور پر آنے والے حالات کے لیے تیار ہوں۔کیونکہ کینونس بین الاقوامی ہے سو اشاروں میں بات ہو گی کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے اور دنیا کہاں ہے؟ پاکستانی کہاں جانا چاہتے ہیں اور دنیا کہاں لے جانا چاہتی ہے؟ اور ان سب میں عمران کا کیا کر سکتا ہے اور اسکا نتیجہ کیا ہو گا۔

شروع کرتے ہیں افغانستان سے کیونکہ یہاں مغربی ممالک کی فوجیں ہیں جہاں چرچ اور اسٹیٹ الگ الگ ہیں۔ افغانستان میں موجود بین الاقوامی فوجوں کے مطالبات کی نوعیت صاف ہے۔ انکی حکومتیں چاہتں ہیں کہ مذہب کو ریاست سے علیحدہ کردیا جائے جیسا کہ بائے ڈئزائن ریاست کا تصور یو این او میں موجود ہے کہ چرچ اور اسٹیٹ الگ الگ شئے ہے۔ پاکستانی کیونکہ بار بار اسکو مکس کرتے ہیں سوان کی سلامتی داو پر لگ جاتی ہے۔عمران کی کوشش ہو گی کہ اسلام کو پاکستانی ریاست سے الگ کر دیا جائے۔ ظاہر ہے اس میں قانون 1835 کا ہی ہو گا، اسلامی شرعی قوانین نافذ نہیں ہوں گے لیکن امن و سلامتی پرطانیہ والی آ جائے گی۔ برطانیہ سیکولر ملک ہے سو ویسا ہی پاکستان کو بنانے کی کوشش ہو گی۔ پاکستان میں کیونکہ انصاف انتہائی گراوٹ پر ہے سو اگر 1835 کے قانون پر بھی من و عن عمل ہو جائے تو عمران کی عمر رضی اللہ تعالی عنہ والی عادل حکومت بن جائے گی اور کیونکہ بہرحال انصاف ہو رہا ہو گا سو مدینے جیسی ریاست بھی بن جائے گی۔ شرعی قوانین جیسے پابندی سود و خمر، قصاص و رجم وغیرہ عمران کے متعلقات نہیں۔

اگر اسلامی قوانین کے لحاظ سے پاکستانی حکمرانوں کی تاریخ دیکھیں تو اگر ان بین الاقوامی حکومتوں کے ایڈوینچر یا مس ایڈوینچر نے قائد اعظم کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کی بات کریں حالانکہ 1940 سے قبل وہ محض آئین ہند میں مسلمانوں کے حقوق کی بات ہی کرتے تھے، لیاقت علی خان کوہمت دی کہ وہ قرار داد مقاصد کو آئین کے دیباچے کے طور پر شامل کریں ، بھٹو کو دیگر کو مجبور کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا قانون بنائیں اور ضیاءالحق اور دیگر کو حوصلہ دیا کہ وہ حدود آرڈیننس، ناموس رسالت وغیرہ کے ایکٹ آئین میں شامل کریں تو اب عمران کی حکومت اسی صورت میں پنپے گی کہ اگر وہ ان تمام اسلامی قوانین کو اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر ایک ایک کر کے صاف کردے اور 1835 کا قانون یو این کے موجودہ چارٹر کے تحت بحال کرے۔ اندازہ ہے کہ اگر وہ ایسا کر دیتا ہے تو بہت عمدہ اور اگر اسلامائزیشن کی طرف جاتا ہے تو قتل کر دیا جائے گا جیسا کہ لیاقت علی خان جیسے مخلص لوگوں کو کیا گیا۔قریبی مثال مصر کی ہے۔ مصر میں مرسی باوجود جمہوری طریق پر صدر بننے کے اسی نوعیت کے قوانین کی طرف جانے کی وجہ سے جیل میں ہے اور اخوان المسلمین کے سربراہ سمیت 75 لوگوں کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

مسلمانوں سے ایک عرصے سے اپنا سیاسی تشخص سکیولر کر لینے کی درخواست کی جا رہی ہے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ میں وہ نور اور صالحیت نہیں کہ آپ انصاف کے ساتھ حکومتیں بنا سکیں۔ 1947 سے قبل کئی دفعہ مختلف انداز سے قائد اعظم اور دیگر سرکردہ مسلمان لیڈروں سے کہا گیا کہ پاکستان بنانے کی بات چھوڑ کر ہندو قوم کے ساتھ ہی ضم ہو جاو، آپ نہیں مانے دس لاکھ قتل ہوئے اور پاکستان بن گیا۔پھر جوڑ توڑ ہوتی رہی یہاں تک کہ 90 ہزار فوجی سرینڈر ہوئے او ر 1971 پاکستان کا ایک حصہ انڈیا کے زیر نگیں چلا گیا۔ ہندوپوری طرح سے سیکیولر ہیں ،اور ریاست اور مذہب کو علیحدہ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اب آپ سے یہ درخواست کی جا رہی ہے کہ انڈیا سے تعلقات بڑھاتے جائیں اور ان جیسے سیکولر بن جائیں۔ آپ شرعی قوانین اور خلافت کا نظام قائم کرنے کی طرف قانون سازی نہ لے جائیں کہ یہ سب ریاست کے اصول کے بھی خلاف ہے اور آپ جیسے چوپٹ مسلمانوں سے ممکن بھی نہیں۔ اب عمران 1835 کے قوانین کو ان کی روح کے مطابق عمل کرانے کے لیے بڑھے گا۔ جب انصاف عام ہو گا تو لوگ اسلامی قانون سازی کی بات کریں گے، اس موقعے پر ان لوگوں کو اس نوعیت کے مطالبے کرنے پر ایک جنگ میں مبتلا کیا جائے گا۔ عمران سے کہا جائے گا کہ آپ 1835 کے قوانین کی طرف توجہ رکھیے اور سیکیولر پرواز جاری رکھیے جبکہ ان گروہوں کو انڈیا سے کشمیر پر جنگ کے لیے اکسائیں۔ یہاں تک کہ ایک جنگ ہو گی اور جن کے سر پر دہلی کو فتح کرنے کا بھوت ہے اور اسلامی قوانین کو ریاست کا حصہ بنانے پر مصر ہیں ان کو قتل کیا جائے گا۔ اسی جنگ میں بات اتنی بڑھے گی کہ نیوکلر بم کے چلانے تک کا ڈرامہ ہو گا جس کو نیٹو ممالک ایک معاہدے کے ذریعے رکوائیں گے۔ اسی معاہدے کے ذریعے اس خطے نیوکلر بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ عمران اس سب ڈرامے میں دھرنے والا رول ادا کریں گے۔

آپ نے نواز شریف کو دیکھا ہے، وہ بغیر فوجی حمایت کے ایک سیاسی طاقت تھے۔ انہوں نے بھی سیکولر پرواز کی اور ممتاز قادری کو پھانسی دی تاکہ آئین میں اوپر رقم کیے گئے اسلامی قوانین کے ایڈوینچر سے نجات ملے، الیکشن فارم سے قادیانیوں کو ایک قانون سازی کے ذریعے اعلی عہدوں تک پہنچنے کا چور دروازہ دیا اورناموس رسالت ایکٹ قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہی نہیں بلکہ بھارت سے تعلقات قائم کئے۔یہ سب کا سب پاکستان کو سیکولر بنانے کے لیے اہم ہے تاکہ ایٹم بم سے نجات ملے اور پاکستان اور بھارت دو ملک ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہوں۔ آپ نوٹ کریں چاہے عمران ہوں یا نواز راستہ الگ الگ ہے لیکن منزل ایک۔

نوازشریف بین الاقوامی طاقتوں کے کہنے پر جیل میں رکھے جائیں گے۔ اگر عمران خان ناکام ہو جائے یا قتل، تو نواز کے ذریعے پاکستان میں لبرل ازم کا عمل مکمل کیا جائے ۔ پاکستانی قوم نے اپنے چہرے کو عمران جیسے لبرل سے بدل کر سیکولر راہ پر چلنے کا سگنل تقریبا دے ہی دیا ہے۔پاکستانی انصاف چاہتے ہیں شرعی انصاف سے انکو تقریبا اب کوئی سروکار نہیں رہا ہے۔ اگر عمران اسلام کی سمت میں چلتا ہے، تو اسے قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ 1835 کے تحت عدالتوں کو ٹھیک کرتا ہے تو بہت عمدہ۔ یوں سیکولرائزیشن کا عمل چلتا جائے گا۔

اب ہو گا کیا، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے اور مسلمانوں کا جوش ایمانی اور غیرت کسقدر ہے؟

سعودی عرب کی تبدیلوں کا عمران پر کچھ اثر ہو گا؟ سیکولر بننے کے لیے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی شہزادے کی حکمت عملی کو عمران بھی اختیار کرے گا۔ یعنی اسلام کی سخت اور برین واشنگ سے بھری تشریح کرنے والوں کو اوپر ذکر کی جانے والی جنگ کے لیے تیار کرے گا اور انکو وہاں مروا کر ختم کرے گا۔ ایسے برین واش لوگوں کی اب کسی کو ضرورت نہیں۔ اب بین الاقوامی حکومتوں کو برین واش جنگجو نہیں چاہیں کیونکہ انکے ذریعے اسلامی ممالک اور روس کا کچومر پہلے ہی نکالا جا چکا ہے۔ ان کا کام تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ وہ اسلام نہیں برین واشنگ کے تحت مغرب کی جنگ لڑ رہے تھے۔ فوج نے عوام کو تقسیم کرنے کے لئے مذہب کا استعمال کیا ہے اور تقسیم کرواور فتح کرو کے برطانوی راج کی حکمت عملی کا استعمال کیا۔اس کے لیے طرح طرح کی اسلامی جماعتوں کو اپنی بی ٹیم بنا کر خوب استعمال کیا کہ یہی ان طاقتوں کی مرضی تھی ۔لیکن وہ برین واش لوگ اب بھی اسے اسلام کی جنگ سمجھتے ہیں۔ سعودی شہزادہ کے اقدامات کو گزشتہ برس امریکہ، برطانیہ اور مغرب کی طرف سے پسند کیا گیا تھا لیکن ساتھ ہی ڈر کا اظہار کیا گیا کہ شہزادے کی اس برق رفتار لبرل تبدیلوں سے کہیں ان کے چہرے سے ہی پردہ نہ ہٹ جائے اور وہ اپنے لوگوں کی آنکھوں میں ہی ننگے نہ ہوجائیں کہ وہ اصل میں شہزادے کو کنٹرول کررہے ہیں جبکہ سعودی حکمراں ہمیشہ سے صرف کٹھ پتلی ہے۔

ذرا یمن کی جنگ اور عمران خان کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ان حالات میں یمن کو پاکستان سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ پاکستانی فوج انکو نصرہ فراہم کرے گی ۔یمن اور دنیا بھر میں حقیقی مسلمان جنگجوؤں کو سعودی اور دیگر سیکیولر حامی مسلمان حکومتیں ختم کر دیں گی۔ پاکستان سے ان اسلام کے مجاہدوں کو کوئی مدد نہیں پہنچے گی کیونکہ پاکستان سیکولرائزیشن کے راستہ پر ہے۔ آخر میں ان جنگجووں کے پاس کوئی کوئی زمین نہیں رہے گی اور 2020 تک 2035 تک گوریلا لڑائی رہے گی۔ وہ جھاڑیوں اور پہاڑوں میں چھپے جائیں گے جبکہ پاکستان کے تمام شہر سیکولر ہوں گے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر۔

واللہ اعلم

یعنی مختصر یہ کہ اگر پاکستان کو سیکولر ریاست بنا دیا گیا تو بین الاقوامی طاقتوں اور خود پاکستانیوں کو سکون ملے گا اور اگر نہ بنایا گیا تو حالات مزید خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔

درست؟
 

محمداحمد

لائبریرین
چین وہ ملک ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکہ کی ساری معاشی طاقت زمین بوس ہوجائے۔ چین کا سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر الیکٹ سے اس کی رہائش گاہ میں قائم دفتر میں ملاقات کرتا ہے، وہ خود سوٹڈ بوٹڈ ہو کر آتا ہے جبکہ کپتان ایک عام سی سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اس کا استقبال کرتا ہے۔ پیچھے دیوار پر ایک طرف درود شریف لکھا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف طرف غالباً آیت الکرسی۔

چینی سفیر کے ساتھ آنے والے وفد کو عام برتنوں میں مکس چائے پیش کی گئی اور وفد میں شامل چار اراکین کو گن کر ٹوٹل آٹھ بسکٹ دیئے گئے جو کہ ہر ایک کے حصے میں محض دو، دو ہی آئے۔

چینی وفد پاکستان کے سابق حکمرانوں کی عیاشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ قیمتی تحفہ بھی لایا تھا جو کہ خان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ خان صاحب چینی وفد کے سامنے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ بدقسمتی سے انہوں نے گفٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ چینی وفد نے یک زبان ہو کر نو پرابلم کہا اور ٹکٹکی باندھ کر اپنے سامنے کھڑے اس 68 سالہ شخص کو دیکھنے لگ گئے کہ جو ہرلحاظ سے پاکستان اور خطے میں موجود دوسرے ممالک کے روایتی سربراہان سے مختلف لگ رہا تھا۔

ہم بچپن سے خلفائے راشدین سے لے کر قائد اعظم تک کی جو سٹوریاں پڑھتے یا سنتے آئے تھے، اب انشا اللہ عمران خان کی شکل میں چند ایک عملی مثالیں بھی دیکھ لیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہوجائے، آپ یہ کبھی نہیں سنیں گے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے دس نئی شوگر ملیں، پانچ ٹیکسٹائل ملیں اور چھ سٹیل کے کارخانے قائم کرلئے۔ نہ ہی آپ یہ سنیں گے کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے سرے پیلس یا ایون فیلڈ میں فلیٹس خریدے۔

یہ مکروہ روایات اب ماضی میں دفن ہوجائیں گی، عمران خان انشا اللہ ایک بہتر حکمرانی کی روایت کو جنم دے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
38181967_1858873107513969_2567733325896613888_o.png

صالح ظافر کا نیا جنم؟؟؟
 
چین وہ ملک ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکہ کی ساری معاشی طاقت زمین بوس ہوجائے۔ چین کا سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر الیکٹ سے اس کی رہائش گاہ میں قائم دفتر میں ملاقات کرتا ہے، وہ خود سوٹڈ بوٹڈ ہو کر آتا ہے جبکہ کپتان ایک عام سی سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اس کا استقبال کرتا ہے۔ پیچھے دیوار پر ایک طرف درود شریف لکھا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف طرف غالباً آیت الکرسی۔

چینی سفیر کے ساتھ آنے والے وفد کو عام برتنوں میں مکس چائے پیش کی گئی اور وفد میں شامل چار اراکین کو گن کر ٹوٹل آٹھ بسکٹ دیئے گئے جو کہ ہر ایک کے حصے میں محض دو، دو ہی آئے۔

چینی وفد پاکستان کے سابق حکمرانوں کی عیاشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ قیمتی تحفہ بھی لایا تھا جو کہ خان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ خان صاحب چینی وفد کے سامنے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ بدقسمتی سے انہوں نے گفٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ چینی وفد نے یک زبان ہو کر نو پرابلم کہا اور ٹکٹکی باندھ کر اپنے سامنے کھڑے اس 68 سالہ شخص کو دیکھنے لگ گئے کہ جو ہرلحاظ سے پاکستان اور خطے میں موجود دوسرے ممالک کے روایتی سربراہان سے مختلف لگ رہا تھا۔

ہم بچپن سے خلفائے راشدین سے لے کر قائد اعظم تک کی جو سٹوریاں پڑھتے یا سنتے آئے تھے، اب انشا اللہ عمران خان کی شکل میں چند ایک عملی مثالیں بھی دیکھ لیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہوجائے، آپ یہ کبھی نہیں سنیں گے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے دس نئی شوگر ملیں، پانچ ٹیکسٹائل ملیں اور چھ سٹیل کے کارخانے قائم کرلئے۔ نہ ہی آپ یہ سنیں گے کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے سرے پیلس یا ایون فیلڈ میں فلیٹس خریدے۔

یہ مکروہ روایات اب ماضی میں دفن ہوجائیں گی، عمران خان انشا اللہ ایک بہتر حکمرانی کی روایت کو جنم دے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
38181967_1858873107513969_2567733325896613888_o.png
اگر ایسا ہی ہو جیسا لکھا گیا ہے تو اچھی بات ہے تاہم کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اب تحریک انصاف کے جھنڈے کی بجائے پاکستان کا جھنڈا لگ جانا چاہئیے جب کہ آپ ابھی وزیراعظم کا حلف اٹھائے بغیر ہی چینی سفیر سے ملاقات کر رہے ہوں تو! :)
 
چین وہ ملک ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکہ کی ساری معاشی طاقت زمین بوس ہوجائے۔ چین کا سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر الیکٹ سے اس کی رہائش گاہ میں قائم دفتر میں ملاقات کرتا ہے، وہ خود سوٹڈ بوٹڈ ہو کر آتا ہے جبکہ کپتان ایک عام سی سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اس کا استقبال کرتا ہے۔ پیچھے دیوار پر ایک طرف درود شریف لکھا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف طرف غالباً آیت الکرسی۔

چینی سفیر کے ساتھ آنے والے وفد کو عام برتنوں میں مکس چائے پیش کی گئی اور وفد میں شامل چار اراکین کو گن کر ٹوٹل آٹھ بسکٹ دیئے گئے جو کہ ہر ایک کے حصے میں محض دو، دو ہی آئے۔

چینی وفد پاکستان کے سابق حکمرانوں کی عیاشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ قیمتی تحفہ بھی لایا تھا جو کہ خان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ خان صاحب چینی وفد کے سامنے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ بدقسمتی سے انہوں نے گفٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ چینی وفد نے یک زبان ہو کر نو پرابلم کہا اور ٹکٹکی باندھ کر اپنے سامنے کھڑے اس 68 سالہ شخص کو دیکھنے لگ گئے کہ جو ہرلحاظ سے پاکستان اور خطے میں موجود دوسرے ممالک کے روایتی سربراہان سے مختلف لگ رہا تھا۔

ہم بچپن سے خلفائے راشدین سے لے کر قائد اعظم تک کی جو سٹوریاں پڑھتے یا سنتے آئے تھے، اب انشا اللہ عمران خان کی شکل میں چند ایک عملی مثالیں بھی دیکھ لیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہوجائے، آپ یہ کبھی نہیں سنیں گے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے دس نئی شوگر ملیں، پانچ ٹیکسٹائل ملیں اور چھ سٹیل کے کارخانے قائم کرلئے۔ نہ ہی آپ یہ سنیں گے کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے سرے پیلس یا ایون فیلڈ میں فلیٹس خریدے۔

یہ مکروہ روایات اب ماضی میں دفن ہوجائیں گی، عمران خان انشا اللہ ایک بہتر حکمرانی کی روایت کو جنم دے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
38181967_1858873107513969_2567733325896613888_o.png
بابا کوڈا کی کافی تحاریر پڑھی ہیں پچھلے سالوں میں اور چند ایک بار یوں بھی لگا کہ حیران کن حد تک قلم کی طاقت رکھتا ہے یہ بندہ لیکن شاید اب یہ سمجھنا چاہئیے کہ ہمیں خان کی بجائے پاکستان کے ساتھ مخلص ہونے کی کوشش زیادہ کرنی چاہئیے. اللہ واسطے کی ہمدردی یا بَیر رکھنا اور وہ بھی جمہوری حکمرانوں سے کوئی احسن قدم نہیں. لوگ اتنے بھی کالے اور سفید نہیں ہوتے جتنے اپنے کنونسنگ سٹائل سے بعض لوگ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح شاید مجموعی فائدہ بھی بہت کم ہوتا ہے. :)
 
Top