تحریک انصاف کی کتھا کلی از وسعت اللہ خان
مجھے وہ نقاد ہرگز پسند نہیں آتے جنہیں بس بہانہ چاہیے کسی ایک جماعت کے پیچھے لٹھ لے کے دوڑنے کا۔ بھلے وہ کپتان کی تحریکِ انصاف ہی کیوں نہ ہو۔
ناقد کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اہم فیصلے غیر سنجیدگی سے نہیں نہایت سوچ سمجھ کر باہم صلاح مشورے سے کرنے چاہیں اور جب ایک بار کسی منظور آفریدی یا ناصر کھوسہ کو نگراں وزیرِ اعلی بنانے کا فیصلہ حزبِ اختلاف کے مشورے اور تائید سے ہو جائے تو اس پر قائم رہنا چاہیے بھلے اگلے دن اپنا ہی فیصلہ کیسا ہی ناقص کیوں نہ لگے۔
اہم فیصلے بار بار بدلنے سے قیادت کی نابلوغت، غیر سنجیدگی اور مسخرے پن کا احساس ہوتا ہے اور یہ خدشات بھی منڈلانے لگتے ہیں کہ کل کلاں اگر ایک سانس میں فیصلہ کر کے دوسرے سانس میں واپس لینے والی جماعت برسرِاقتدار آ گئی تو کیا اہم داخلی و خارجی حساس نوعیت کی فیصلہ سازی میں بھی یہی لونڈیہار پن اور کھلواڑ ہو گی؟
حاسد کہتے ہیں کہ یہ کوئی ٹیسٹ میچ تو نہیں ہو رہا کہ ایک کھلاڑی کو ون ڈاؤن میدان میں بھیجا جائے اور پھر میچ کے بدلتے حالات دیکھتے ہوئے اسے بیچ میدان سے واپس بلا کر کسی اور کو پیڈنگ کروا کے بلا پکڑا دیا جائے۔
مجھے کپتانیت کے معیار پر انگلی اٹھانے والوں سے بس یہ کہنا ہے کہ ایک بار فیصلہ کر کے اسے بدل دینا قوتِ فیصلہ کی کمزوری نہیں خود اعتمادی ظاہر کرتی ہے۔ یعنی ہمیں اپنا فیصلہ غلطی کا فوری احساس ہونے پر واپس لینا بھی آتا ہے۔ زبان دے کے مکر جانا کتابی باتیں ہیں۔ سیاست میں کوئی بھی وعدہ قرآن و حدیث نہیں ہوتا ( یہ بات ایک دگج سیاسی گرو پانچ برس پہلے فرما چکے ہیں)۔
ناصر کھوسہ نے اس چھیچھا لیدر سے خود کو بچاتے ہوئے نگراں وزیرِ اعلی بننے سے ہی معذرت کر لی۔ مگر جاتے جاتے یہ ضرور کہہ گئے کہ دس روز پہلے عمران خان نے ہی مجھے فون کر کے کہا کہ ہم آپ کا نام تجویز کر رہے ہیں کیونکہ آپ ایک اہل اور قابل بیوروکریٹ ہیں۔ اور آج انہی خان صاحب کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بندہ اس قابل نہیں۔
یہ واقعہ اسی گھسے پٹے لطیفے جیسا ہے جب کوئی راہ گیر ایک موٹے صاحب سے ٹکرا گیا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا ابے گینڈے دیکھ کے نہیں چلتا۔ اگلے روز موٹے صاحب کو یہی شخص بازار میں دوبارہ دکھائی دیا تو انہوں نے اسے گریبان سے پکڑ کر کہا کل تو نے مجھے گینڈا کیوں کہا تھا؟ راہ گیر نے کہا بھائی صاحب آپ کو میرے گریبان پر ہاتھ ڈالنا ایک دن بعد کیوں یاد آیا؟ موٹے نے کہا کہ آج ہی میں نے گینڈے کی تصویر پہلی بار دیکھی تو توہین کا احساس جاگ گیا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سارا کیا دھرا نواز شریف کا ہے۔ جنہوں نے تحریکِ انصاف کے نامزد کردہ ناصر کھوسہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بہت فرض شناس افسر ہیں۔ میرے پرنسپل سیکرٹری بھی رھ چکے ہیں۔ بس اس ایک جملے نے کپتان کے دل پر ناصر کھوسہ سے بیزاری کی مہر لگا دی۔
مگر خیبر پختونخوا کے نامزد نگراں وزیرِ اعلی منظور آفریدی کا نام کیوں واپس لے لیا گیا؟ ان کے بارے میں تو نہ نواز شریف نے منہ کھولا اور نہ ہی کے پی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف مولانا عطا الرحمان کے بھائی مولانا فضل الرحمان نے کوئی تعریفی کلمہ کہا۔
میں پی ٹی آئی کے ایک کٹر مخالف کے اس تبصرے سے ہرگز متفق نہیں کہ چونکہ انصافیوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انتخابات پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرنے والے ہیں لہذا ان کا حال اس بے قرار بچے جیسا ہے جسے ابا جان نے کھلونوں کی دوکان میں چھوڑ دیا ہے اور بچے کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کون سا کھلونا لینا ہے کون سا چھوڑنا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ تبصرہ بھی قابلِ مذمت ہے کہ ’اوچھے کے ہاتھ میں تیتر، باہر دھروں کہ بھیتر۔‘
ربط