ہمارا سب سے بڑا المیہ جو شروع سے رہا ہے وہ یہ کہ ہم "دھکا اسٹارٹ" قوم ہیں، یعنی ایسی قوم جو اپنے زور بازو پر تو کوئی تبدیلی نہ لا سکے اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھ نہ لکھ سکے لیکن اگر انہیں کوئی ایسا رہنما مل جائے جو انہیں متحرک کردے تو وہ انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔ بالکل یہی کچھ قیام پاکستان کے وقت بھی دیکھا گیا کہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت ہی قیام پاکستان کا محرک بنی اور چند دہائیوں کی کوشش نے ہی دنیا کے نقشے پر اس ریاست کا اضافہ کیا جسے "مملکت خداداد پاکستان" کہا جاتا تھا۔ اس کیفیت کو جذباتی پن بھی کہہ سکتے ہیں جو آج تک ہمارے تمام رویوں سے جھلکتا ہے۔ مثلاً اردو ایسی بولیں گے کہ 65 فیصد الفاظ انگریزی کے ہوں لیکن اگر کوئی اردو کے خلاف کچھ کہہ دے تو مرنے مارنے پر تُل جائیں۔(یہ میرا ذاتی تجربہ ہے اس لیے کہہ رہا ہوں)
بہرحال 47ء کے بعد کیا ہوا؟ ہم اپنے مربی و محسن سے محروم ہو گئے اور اس عظیم المیے پر بھی مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور ایک اور ایسے ہی رہنما و قائد کا انتظار کرنے لگے، یہ نہ سوچا کہ وہ رہنما یا قائد ہم میں سے ہی نکلے گا، کوئی آسمان سے نہیں اترے گا!
اس کے بعد بدقسمتی سے ایسا کوئی رہنما ہمارے ہاں پیدا نہ ہو جو قوم کو اس کی حقیقی منزل پر پہنچاتا اس لیے ہم خاموشی کے ساتھ بھیڑ بکریوں کی طرح ان حکمرانوں کے تلوے چاٹتے رہے جن کا ذکر آج بھی جن الفاظوں میں کیا جاتا ہے وہ بیان نہیں کیے جاسکتے۔
اور اب آجکل ہماری نئی حکومت نے نام نہاد دانشوروں اور مذہب دشمنوں کی جو نئی کھیپ تیار کی ہے حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس حقیقت تک سے انکاری ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک کا بنیادی نعرہ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" تھا۔
47ء سے اب تک کی پاکستان کی تاریخ مذہبی تاریخ ہر گز نہیں بلکہ یہ مذہب مخالفین کی تاریخ ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ پاکستان نے ترقی تو ان "اللہ و رسول کے دشمنوں" کی وجہ سے نہ کی لیکن ہمارے "مفتی مشرف" کہتے ہیں کہ پاکستان مذہبی انتہا پسندوں کی وجہ سے ترقی نہیں کر پایا۔ سبحان اللہ!! "مستند" ہے آپ کا فرمایا ہوا
موجودہ دور کے ایک دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا ذہنی سانچہ بحیثیت مجموعی سیکولر اور لبرل ہے، اس میں مذہب کہیں ہے ہی نہیں یا ہے تو برائے ہیبت اور برائے مصرف لیکن اس سانچے کے پیدا کیے گئے مسائل کو کوئی مسائل نہیں کہتا۔ اس سانچے کی پیدا کردہ خرابیوں کو کوئی خرابی نہیں گردانتا۔ البتہ مذہب اور مذہبی طبقات کی رائی کو پہاڑ بنایا جارہا ہے۔ (میرا تبصرہ: بہرحال رائی موجود تو ہے کہ جس کا پہاڑ بنایا جارہا ہے اور جس دن یہ رائی ختم ہو گئی وہی تبدیلی کا دن ہو گا)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب کا یہ "حشر" اس کے باوجود ہورہا ہے کہ اسلام عالمی افق پر ایک نئی قوت کے ساتھ ابھر چکا ہے۔ اس کے موجودہ اور ممکنہ عالمی کردار پر بھی ساری دنیا میں گفتگو ہو رہی ہے اور یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ سیکولر اور لبرل فکر کے پاس ہمارے مسائل کا حل تو دور ان مسائل کا درست تجزیہ تک نہیں ہے۔ ہوتا تو وہ اب تک سامنے آ چکا ہوتا اور اس کی بنیاد پر ہمارے کچھ نہ کچھ مسائل حل ہو چکے ہوتے لیکن یہاں مسائل بجائے حل ہونے کے بڑھ رہے ہیں ان کی پیچیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے یہاں تک کہ مسائل کی درست تشخیص بھی محال ہوتی جا رہی ہے۔
ایک بات واضح کردوں کہ موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہی پیدا کی جارہی ہے کہ نماز روزہ حج ادا کرو اور بس اسلام مکمل ہو گیا۔ بھائی! ہم 5 کے بجائے 10 وقت نمازیں پڑھیں، طاغوت کہے گا یہ ایک اچھی activity ہے، ہم 30 کے بجائے 300 روزے رکھیں، جواب: اچھا ہے غذائی قلت نہیں ہوگی، ہم زندگی میں ایک کے بجائے ہر سال حج ادا کریں وہ کہے گا اچھا ہے سیاحت کو فروغ مل رہا ہے، مفادات کو ٹھیس تب پہنچتی ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، یہیں سے طاغوت کی چوہدراہٹ کو ٹھیس پہنچتی ہے اور یہیں سے وہ دیوانہ وار ہو کر اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگاتا ہے اور دنیا کو ڈراتا ہے تاکہ خالق کے بندوں کے لیے خالق کے نظام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں۔
بہرحال اس وقت ہمیں سب سے زيادہ ضرورت اتحاد بین المسلمین کی ہے، طاغوت ہمارے درمیان فرقہ واریت کے فروغ کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر رہا ہے اور امریکہ نے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی ہے اور یہاں تک کہ انہوں نے مقامات مقدسہ کو بھی نہیں بخشا اور یہ حکمت عملی کچھ نہ کچھ تو کامیاب رہی ہے لیکن اس کی بڑی حد تک ناکامی کا ثبوت بغداد میں شیعہ اور سنی علاقوں کے درمیان تعمیر کا آغاز ہے۔ دیوار برلن کا یہ نیا ایڈیشن مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کی گئی دیوار کا تسلسل ہے۔
فرقہ واریت کے حوالے سے حالات پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں، اس کی ایک صورت مجلس عمل بھی ہے (آپ اسے سیاسی اتحاد کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں مختلف مسالک کا اتحاد تو ہوا)۔
مسلمانوں کے انقلابی رہنما (جس کا سب انتظار ہی کررہے ہیں) کے بارے میں حکیم الامت محمد اقبال فرما گئے ہیں:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
ایسے رہنما کو نہ کوئی خرید سکتا ہے، نہ ڈرا سکتا ہے، نہ فریب دے سکتا ہے۔ یہ قیادت کی اہلیت کا اصول ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ معاشرہ ایمان کے بغیر قائم رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں۔ یہاں عدل اہلیت کا دوسرا نام ہے۔ قائد اعظم کے رہنما اصول ایمان، اتحاد اور تنظیم تھے لیکن پاکستان میں یہ تماشا ہوا کہ زندگی کے ہر شعبے میں مصنوعی اور جعلی قیادت ابھاری گئی۔ مصنوعی دانشور، مصنوعی صحافی، مصنوعی سیاسی رہنما، مصنوعی علماء۔ اس کا نتیجہ ایک بیکراں انتشار کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کہنے والے نے بالکل ٹھیک کہا کہ قائد اعظم کے بغیر پاکستان کا تصور نہیں کیا جاسکتا تو کیا ہم جعلی اور مصنوعی قیادت سے نجات حاصل کیے بغیر پاکستان کو پاکستان بنا سکتے ہیں؟ آخر ہم زندگی کے ہر شعبے میں اپنا قائد اعظم کب تلاش کریں گے؟
یہ قائد اعظم اس وقت بھی موجود ہو سکتا ہے، بس ارد گرد نظر ڈالنے کی اور اس گوہر نایاب کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر منتظر فردا رہنے کی نہیں بلکہ میدان عمل میں نکلنے کی ضرورت ہے۔
بہر حال حالات کی تمام تر خرابی کے باوجود مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان میں اسلام کا مستقبل روشن ہے کیونکہ اندھیرا جس قدر زیادہ ہو گا سحر اتنی ہی قریب ہوگی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں ہمیں بھی اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق دے اور ہماری زندگی میں ہمیں وہ مبارک ساعت دیکھنا نصیب فرمائے۔
اقبال کیا خوب فرما گئے ہیں:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
یعنی جس میں انقلاب کی طلب کا جذبہ نہ ہو وہ زندگی موت ہے۔ یہی تڑپ اور یہی جستجو آجکل درکار ہے۔
اور آخر میں
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے
نوٹ: حیرانگی ہوتی ہے کہ اس قدر واضح الفاظ کے باوجود "روشن خیال دانشور" (بشمول صاحبزادۂ اقبال) علامہ کی فکر کا اپنا مطلب نکالتے ہیں۔