پاکستان میں نفاذ اسلام

پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے تمام مسالک کواحسن طریقہ سے مشترکہ کاوشیں کرنا ہوں گی۔

  • اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    33

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان کا مطلب کیا
لاالہ الا اللہ۔
بہت واضح بات تھی۔۔۔
لیکن۔۔
60 سال گذر گئے ، پاکستان میں اسلامی نظام کے بجائے انگریزوں کا دیا ہوا سسٹم قطع و برید کے ساتھ چلایا جارہا ہے۔
لال مسجد والوں نے نفاذ اسلام کی بات کی اس سے پہلے بھی نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نفاذ کے لیے آوازیں اٹھتی رہیں۔
قطع نظر اس سے کہ لال مسجد والوں کا یہ طریقہ کار صحیح ہے یا نہیں میرے ذہن میں ایک سوال بڑے عرصے سے اٹھ رہا ہے کہ اگر ایک فرقہ اسلام کے نفاذ کی بات کرتا ہے تو دوسرے فرقے عموما اس کا ساتھ نہیں دیتے ، جیسا کہ حالیہ واقعہ میں لال مسجد کے علاوہ دوسرے مسالک نے نفاذ اسلام کے بنیادی مطالبے کے حوالہ سے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔
اس کی کیا وجہ ہے ؟

بحث میں حصہ لینے والوں سے سنجیدہ گفتگو کی درخواست ہے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللہ!

میں بچپن سے سنتا آیا تھا کہ یہ تحریکِ پاکستان کا ایک مقبول عام نعرہ تھا۔ لیکن بھائی! اب تو اس سے بھی انکار ہونے لگا ہے۔ کہتے ہیں کہ بانی پاکستان، محترم قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے اور باقاعدہ اس حوالہ سے تحریریں لکھی جانے لگی ہیں۔ افسوس، صد افسوس!
قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی، اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں آیا، تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان سے قطعی مخلص نہ تھے۔ اسلام کی کوئی خاص سمجھ بوجھ بھی نہ تھی۔ اس طرف زیادہ دھیان بھی نہیں دیا گیا۔ اور دیکھیں! یہاں مذہبی جماعتیں تو ایک دوسرے کو مسلمان تک نہیں سمجھتیں، چاہے کھل کے اظہار نہ کریں۔ اب اگر ایک عام مسلمان کو اگر یہ اختیار ملتا بھی کہ وہ اسلام کے حوالہ سے قانون سازی کرے تو وہ کس کا اسلام مانے؟ ہر مذہبی جماعت ایک نئی بات لے کر کھڑی ہوگی۔ اور اگر مذہبی جماعتوں کو قانون سازی کا اختیار دیا جائے تو ہر جماعت اپنے آپ کو سب سے اونچا رکھنے کی کوشش کرے گی۔
شریعت اسلامی کے نفاذ کے لئے پہلے آپس میں اتحاد ضروری ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، اگر ملک کی تمام مذہبی جماعتیں متحد ہوکر نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لئے کوشش کریں گی تو کیا ان کو کامیابی نہ ہوگی؟ نہیں! بلکہ ہرگز ہرگز کامیاب ہوں گی۔۔۔ لیکن اختلافات کہاں جائیں گے؟ آپس کے جھگڑے کیونکر بھلائیں گے؟
لہذا
میری محدود نظر میں اسلامی نظام کے نافذ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ دینی جماعتوں کا آپس میں اختلاف ہے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جزاک اللہ بہت خوب میرے پاس ایک کتاب ہے جس کا عنوان ہے “ ۔۔۔ یہ تیرے پر اسرار بندے “ جس کو مفتی رفیع عثمانی صاحب نے لکھا ہے وہ کہتے ہیں جب ہم چھوٹے تھے تو ہم یہ نعرے لگاتے تھے
پاکستان کا مطلب کیا = لا الہ الا اللہ
مسلم مسلم = بھائی بھائی
لے کے رہے گے = پاکستان
دینا پڑے گا = پاکستان
بٹ کے رہے گا = ہندوستان
بن کے رہے گا= پاکستان
اپنا سر کٹائیں گے= پاکستان بنائیں گے
سینا پر گولی کھائیں گے = پاکستان بنائیں گے
خون کی ندیاں بہائیں گے= پاکستان بنائیں گے
پاکستان = زندہ باد
نعرہ تکبیر = اللہ اکبر

السلام علیکم
 

اظہرالحق

محفلین
نفاذ اسلام

السلام علیکم

نظامی صاحب آپکا شکریہ کہ آپنے مجھے اس بحث میں حصہ لینے کا موقع دیا ، میں نے اپنے بلاگ پر اور دوسری جگہوں پر اس کا تجزیہ کیا ہے ، میری نظر میں پاکستان میں اسلامی نظام نہ نفاذ ہونے کی بنیادی وجہ عوام میں تقسیم ہے ، یہ تقسیم طبقاتی بھی ہے اور سماجی بھی ، سیاسی تقسیم کواور مذہبی تقسیم کو میں وجہ نہیں مانتا ، کیونکہ میری نظر میں سیاسی تقسیم اور مذہبی تقسیم کا تعلق نظریے سے ہوتا ہے ، اور بعض دفعہ سیاسی وابستگی مذہب کی طرح عقیدہ بن جاتی ہے ، جسے بدلنا بہت مشکل اور بعض دفعہ ناممکن ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مثلاً ہمارے کچھ نعرے ایسے بھی ہیں “لچی ہے لفنگی ہے ، گنجے کولوں چنگی ہے“ ایسے نعرے ہماری عوامی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔۔ دوسری طرف مذہبی راہبروں کا اثر ہماری مذہبی زندگی پر تو ہو سکتا ہے سماجی زندگی پر نہیں ۔ ۔ یعنی ہم تبلیغ سے نماز روزہ شد و مد سے شروع کر دیں گے مگر ہمارے سماجی رویے نہیں بدلیں گے اور اسلام کے نفاذ کے لئے سماجی سوچ بدلنا ضروری ہے ، اور سماجی سوچ تبھی بدلی جا سکتی ہے جب طبقاتی کشمکش ختم ہو گی ، یعنی امیر و غریب کا تعلق ، مزارع و زمیندار کا تعلق ، آجر و اجیر کا تعلق اور ایسے ہی سماجی تعلقات جو ان فتنوں کی اصل وجہ ہیں ۔ ۔ ۔ہمیں یہ حدیث ذہن میں رکھنی چاہیے کہ “مسلمانوں کے لئے مال فتنہ ہے “

اسلام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اسلام نے سب سے پہلے جس چیز کو ختم کیا وہ طبقاتی تقسیم تھی ، آقا و غلام ، گورے اور کالے کو ، امیرو غریب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ۔ ۔ ۔ حضرت بلال (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور زید بن حارث(رض) کی مثالیں سامنے ہیں

جب اسلام نے طبقاتی نظام میں دراڑ ڈالی تو اسکی مخالفت شروع ہوئی ، مخالفت کی وجہ ایک خدا نہیں تھا ، بلکہ جہاں اتنے سارے خدا تھے وہاں ایک اور خدا کا اضافہ کوئی معنٰی نہیں رکھتا تھا ، مسلہ تھا تو اس مساوات کا جسکا مطالبہ اسلام کرتا تھا ، جو تاجر کے منافع کو کم کر رہا تھا ، جو طاقتور کی طاقت کو چیلنج کرتا تھا ، جو غلام کو آقا کے برابر کھڑا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ یہ وجہ تھی اسلام کی مخالفت کی ۔ ۔ ذرا غور کریں کیا آج بھی تو یہ ہی وجہ تو نہیں اتنی مخالفت کی ؟ اور کیا ایسی ہی مخالفت ہمیں قیام پاکستان کے وقت نہیں تھی ؟

پھر جب مخالفت بڑھی تو ہجرت کا کہا گیا ، جو میرے خیال میں ہم نے قیام پاکستان کے وقت کی تھی ۔ ۔ اسی لئے اس وقت کے کچھ لوگوں نے اسے (پاکستان کو) مدینہ ثانی بھی کہا ۔ ۔ ۔

پھر جب پاکستان بنا تو رہبر چلا گیا ۔ ۔ ۔ اور ایک بار پھر وہ ہی طبقاتی کشمکش شروع ہو گئ ۔ ۔ ۔ افسوس کہ ہم نے کشتی کنارے تک تو لے آئے ، مگر ساحل کو صرف چھوا اور دوبارہ بھنور میں چلے گئے ، غلام محمد (شرابی) سے لیکر جناب مشرف ( جنابی) تک ہمیں ایک سے ایک بڑا مداری ملا ، جو عوام کو نچاتا رہا ، ہم بھول گئے کہ ہمارا مقصد کیا تھا ، قرآن کہتا ہے جیسی قوم ہو گی ویسے ہی حاکم ہونگے ۔ ۔ ۔ بالکل یہ ہی ہمارے ساتھ ہوا ہے

اب جب بھی کبھی ہمیں اپنی اصل منزل دکھائی جاتی ہے ہم ۔ ۔ ۔ اسکی مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ، امیر اسلئے کہ انہیں امارت خطرے میں نظر آتی ہے ، غریب اسلئے کہ انہیں امیروں پر بھروسہ نہیں ۔ ۔

بات طویل ہوتی جائے گی ۔۔ ۔ مختصراً یہ ہی کہوں گا کہ اس وقت جو طبقاتی جبر ہے ، وہ ہی اصل رکاوٹ ہے نفاذ اسلام کے لئے ۔ ۔ مذہبی طور پر ہم سب انفرادیت کے قائل ہیں ، اسی لئے ہم نے دو مقولے ایجاد کئے ہیں ، کہ مذہب میرا ذاتی معاملہ ہے ، دوسرا اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں دوسروں کا چھیڑو نہیں ۔ ۔ ۔ اور جب ان پر دلائل دو تو ایک قرآنی جواب ملتا ہے “لکم دینکم ولیدین“ اسلئیے میری نظر میں قوم کی حالت کو دیکھتے ہوئے نفاذ اسلام کا طریقہ کار یہ ہونا چاہیے

- طبقاتی و سماجی تقسیم کو صرف پہچان کے لئے ہونا چاہیے
- امن و امان اور سماجی و طبقاتی روابط کا فروغ
- اسلامی قوانین کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا (یہ کوئی مشکل کام نہیں ، اسلام بہت آسانیاں دیتا ہے )
- بدتریج قوانین کا نفاذ ۔ ۔ ۔

اگر ہم اس نظریہ پر چلیں تو شاید ہم بہت کچھ حاصل کر سکیں ۔ ۔ ۔ اللہ ہمیں نیک ہدایت دے (آمین)
 

دوست

محفلین
پہلے تو یہ کرپٹ چہرے بدلیں اور یہ کسی خونیں انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے بعد معاشی نظام بدلا جائے اور پھر اسلام کا نفاذ ہو۔۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
یہ ایک بہت ہی اچھی موضع ہے اس پر جتنی بھی تجاویز دی جائے کم ہیں آخر کار اس کے انشاء اللہ اچھے نقاط سامنے آئنیگے
جہاں تک پاکستان میں اسلام نفاذ کی بات ہے تو پہلے تو ہم اپنے اپ سے شروع کریں کہ آیا ہم نے اپنے آپ پر نافذ کیا ہے کہ نہیں۔

کیا ہم پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں؟
کیا ہم زاکوۃ دیتے ہیں؟
کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت سے محبت ہے ہمیں تو (نعوذ بااللہ من ذلک) ان کی صورت سے نفرت ہے کیونکہ ان کی سنت ہم روزانہ پیشاپ کے ساتھ لیٹرین میں بہہ دیتے ہیں جب صورت سے نفرت ہے تو کیا سیرت سے ہوگی؟
آج صبح میں ایک ساتھی سے سن رہا تھا کہ ایسا کام بالکل مت کرنا کہ تم تو مر جاؤ مگر تمھارا کام باقی رہے(بداعمال) اج صرف تم اس فورم پر دیکھو کتنے دوست گناہ کی دعوت دیتے ہیں اگر خدا نہ کرے وہ کل مر جائے تو ان کے لنکس تو زندہ ہونگے نہ؟
صرف اتفاق اور اعتماد کی ضرورت ہے اور اگر وہ قائم ہو جائے تو خدا کی قسم ایک مہینے کے اندر اندر اسلام اس ملک میں نافذ ہوجائےگا
کیونکہ
جمعیت+ جماعت اسلامی+ جہاد+ تبلیع+ مدارس+ خانقاہ+۔۔
جب یہ سب قوتیں اپس میں مل جائے تو پھر۔۔۔
اور یہ اختلاف تو میرے رب کی خصوصی مہربانی ہے کیونکہ وہ اپنے نبی کے ایک ایک ادا کو زندہ اور باعمل دیکھنا چاہتا ہے
کوئی اگر پگڑی کی فضیلت بیان کرتا ہے تو کوئی مسواک کی تو کوئی تلوار کی سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم


واجدحسین
 

نبیل

تکنیکی معاون
واجدحسین نے کہا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت سے محبت ہے ہمیں تو (نعوذ بااللہ من ذلک) ان کی صورت سے نفرت ہے کیونکہ ان کی سنت ہم روزانہ پیشاپ کے ساتھ لیٹرین میں بہہ دیتے ہیں جب صورت سے نفرت ہے تو کیا سیرت سے ہوگی؟

آپ اسلام بعد میں نافذ کریں پہلے کسی دماغی امراض کے معالج سے اپنا علاج کرائیں۔
 

ابوشامل

محفلین
ہمارا سب سے بڑا المیہ جو شروع سے رہا ہے وہ یہ کہ ہم "دھکا اسٹارٹ" قوم ہیں، یعنی ایسی قوم جو اپنے زور بازو پر تو کوئی تبدیلی نہ لا سکے اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھ نہ لکھ سکے لیکن اگر انہیں کوئی ایسا رہنما مل جائے جو انہیں متحرک کردے تو وہ انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔ بالکل یہی کچھ قیام پاکستان کے وقت بھی دیکھا گیا کہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت ہی قیام پاکستان کا محرک بنی اور چند دہائیوں کی کوشش نے ہی دنیا کے نقشے پر اس ریاست کا اضافہ کیا جسے "مملکت خداداد پاکستان" کہا جاتا تھا۔ اس کیفیت کو جذباتی پن بھی کہہ سکتے ہیں جو آج تک ہمارے تمام رویوں سے جھلکتا ہے۔ مثلاً اردو ایسی بولیں گے کہ 65 فیصد الفاظ انگریزی کے ہوں لیکن اگر کوئی اردو کے خلاف کچھ کہہ دے تو مرنے مارنے پر تُل جائیں۔(یہ میرا ذاتی تجربہ ہے اس لیے کہہ رہا ہوں)

بہرحال 47ء کے بعد کیا ہوا؟ ہم اپنے مربی و محسن سے محروم ہو گئے اور اس عظیم المیے پر بھی مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور ایک اور ایسے ہی رہنما و قائد کا انتظار کرنے لگے، یہ نہ سوچا کہ وہ رہنما یا قائد ہم میں سے ہی نکلے گا، کوئی آسمان سے نہیں اترے گا!

اس کے بعد بدقسمتی سے ایسا کوئی رہنما ہمارے ہاں پیدا نہ ہو جو قوم کو اس کی حقیقی منزل پر پہنچاتا اس لیے ہم خاموشی کے ساتھ بھیڑ بکریوں کی طرح ان حکمرانوں کے تلوے چاٹتے رہے جن کا ذکر آج بھی جن الفاظوں میں کیا جاتا ہے وہ بیان نہیں کیے جاسکتے۔

اور اب آجکل ہماری نئی حکومت نے نام نہاد دانشوروں اور مذہب دشمنوں کی جو نئی کھیپ تیار کی ہے حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس حقیقت تک سے انکاری ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک کا بنیادی نعرہ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" تھا۔

47ء سے اب تک کی پاکستان کی تاریخ مذہبی تاریخ ہر گز نہیں بلکہ یہ مذہب مخالفین کی تاریخ ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ پاکستان نے ترقی تو ان "اللہ و رسول کے دشمنوں" کی وجہ سے نہ کی لیکن ہمارے "مفتی مشرف" کہتے ہیں کہ پاکستان مذہبی انتہا پسندوں کی وجہ سے ترقی نہیں کر پایا۔ سبحان اللہ!! "مستند" ہے آپ کا فرمایا ہوا :?

موجودہ دور کے ایک دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا ذہنی سانچہ بحیثیت مجموعی سیکولر اور لبرل ہے، اس میں مذہب کہیں ہے ہی نہیں یا ہے تو برائے ہیبت اور برائے مصرف لیکن اس سانچے کے پیدا کیے گئے مسائل کو کوئی مسائل نہیں کہتا۔ اس سانچے کی پیدا کردہ خرابیوں کو کوئی خرابی نہیں گردانتا۔ البتہ مذہب اور مذہبی طبقات کی رائی کو پہاڑ بنایا جارہا ہے۔ (میرا تبصرہ: بہرحال رائی موجود تو ہے کہ جس کا پہاڑ بنایا جارہا ہے اور جس دن یہ رائی ختم ہو گئی وہی تبدیلی کا دن ہو گا)۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب کا یہ "حشر" اس کے باوجود ہورہا ہے کہ اسلام عالمی افق پر ایک نئی قوت کے ساتھ ابھر چکا ہے۔ اس کے موجودہ اور ممکنہ عالمی کردار پر بھی ساری دنیا میں گفتگو ہو رہی ہے اور یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ سیکولر اور لبرل فکر کے پاس ہمارے مسائل کا حل تو دور ان مسائل کا درست تجزیہ تک نہیں ہے۔ ہوتا تو وہ اب تک سامنے آ چکا ہوتا اور اس کی بنیاد پر ہمارے کچھ نہ کچھ مسائل حل ہو چکے ہوتے لیکن یہاں مسائل بجائے حل ہونے کے بڑھ رہے ہیں ان کی پیچیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے یہاں تک کہ مسائل کی درست تشخیص بھی محال ہوتی جا رہی ہے۔

ایک بات واضح کردوں کہ موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہی پیدا کی جارہی ہے کہ نماز روزہ حج ادا کرو اور بس اسلام مکمل ہو گیا۔ بھائی! ہم 5 کے بجائے 10 وقت نمازیں پڑھیں، طاغوت کہے گا یہ ایک اچھی activity ہے، ہم 30 کے بجائے 300 روزے رکھیں، جواب: اچھا ہے غذائی قلت نہیں ہوگی، ہم زندگی میں ایک کے بجائے ہر سال حج ادا کریں وہ کہے گا اچھا ہے سیاحت کو فروغ مل رہا ہے، مفادات کو ٹھیس تب پہنچتی ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، یہیں سے طاغوت کی چوہدراہٹ کو ٹھیس پہنچتی ہے اور یہیں سے وہ دیوانہ وار ہو کر اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگاتا ہے اور دنیا کو ڈراتا ہے تاکہ خالق کے بندوں کے لیے خالق کے نظام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں۔

بہرحال اس وقت ہمیں سب سے زيادہ ضرورت اتحاد بین المسلمین کی ہے، طاغوت ہمارے درمیان فرقہ واریت کے فروغ کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر رہا ہے اور امریکہ نے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی ہے اور یہاں تک کہ انہوں نے مقامات مقدسہ کو بھی نہیں بخشا اور یہ حکمت عملی کچھ نہ کچھ تو کامیاب رہی ہے لیکن اس کی بڑی حد تک ناکامی کا ثبوت بغداد میں شیعہ اور سنی علاقوں کے درمیان تعمیر کا آغاز ہے۔ دیوار برلن کا یہ نیا ایڈیشن مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کی گئی دیوار کا تسلسل ہے۔

فرقہ واریت کے حوالے سے حالات پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں، اس کی ایک صورت مجلس عمل بھی ہے (آپ اسے سیاسی اتحاد کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں مختلف مسالک کا اتحاد تو ہوا)۔

مسلمانوں کے انقلابی رہنما (جس کا سب انتظار ہی کررہے ہیں) کے بارے میں حکیم الامت محمد اقبال فرما گئے ہیں:

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
ایسے رہنما کو نہ کوئی خرید سکتا ہے، نہ ڈرا سکتا ہے، نہ فریب دے سکتا ہے۔ یہ قیادت کی اہلیت کا اصول ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ معاشرہ ایمان کے بغیر قائم رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں۔ یہاں عدل اہلیت کا دوسرا نام ہے۔ قائد اعظم کے رہنما اصول ایمان، اتحاد اور تنظیم تھے لیکن پاکستان میں یہ تماشا ہوا کہ زندگی کے ہر شعبے میں مصنوعی اور جعلی قیادت ابھاری گئی۔ مصنوعی دانشور، مصنوعی صحافی، مصنوعی سیاسی رہنما، مصنوعی علماء۔ اس کا نتیجہ ایک بیکراں انتشار کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کہنے والے نے بالکل ٹھیک کہا کہ قائد اعظم کے بغیر پاکستان کا تصور نہیں کیا جاسکتا تو کیا ہم جعلی اور مصنوعی قیادت سے نجات حاصل کیے بغیر پاکستان کو پاکستان بنا سکتے ہیں؟ آخر ہم زندگی کے ہر شعبے میں اپنا قائد اعظم کب تلاش کریں گے؟

یہ قائد اعظم اس وقت بھی موجود ہو سکتا ہے، بس ارد گرد نظر ڈالنے کی اور اس گوہر نایاب کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر منتظر فردا رہنے کی نہیں بلکہ میدان عمل میں نکلنے کی ضرورت ہے۔

بہر حال حالات کی تمام تر خرابی کے باوجود مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان میں اسلام کا مستقبل روشن ہے کیونکہ اندھیرا جس قدر زیادہ ہو گا سحر اتنی ہی قریب ہوگی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں ہمیں بھی اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق دے اور ہماری زندگی میں ہمیں وہ مبارک ساعت دیکھنا نصیب فرمائے۔

اقبال کیا خوب فرما گئے ہیں:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

یعنی جس میں انقلاب کی طلب کا جذبہ نہ ہو وہ زندگی موت ہے۔ یہی تڑپ اور یہی جستجو آجکل درکار ہے۔

اور آخر میں

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے​

نوٹ: حیرانگی ہوتی ہے کہ اس قدر واضح الفاظ کے باوجود "روشن خیال دانشور" (بشمول صاحبزادۂ اقبال) علامہ کی فکر کا اپنا مطلب نکالتے ہیں۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
نبیل بھائی پہلے تو میں معذرت چاہتا ہوں کہ اپ کو اتنا دکھ پہنچا لیکن یہ میری بات نہیں یہ ایک سائی کارٹ کی ہے جو کہ مفتی رشید احمد رحمہ اللہ ان کی ایک چارٹ ہے جو کہ ہر جگہ ملتی ہے ان پر لکھا ہے اور یہ میرے سامنے ہے
“ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم“
کل امتی معافی الاالمجاہرین (صحیح بخاری)
میری پوری امت کو معاف کیا جاسکتا ہے مگر اللہ تعالٰی کی اعلانیہ بغاوت کرنے والو کو ہر گز معاف نہیں کیا جائے گا

اللہ تعالٰی کی کھلی بغاوتیں ۔ داڑھی ایک مٹھی سے کم کرنا، کٹانا یا منڈوانا“ دل میں اللہ کی حبیب کی صورت سے نفرت تو ایمان کہا“
یہ ہے وہ الفاظ جو میں نے دیکھ کر یہاں لکھ لیے چارٹ پر اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اب پھر ہم دوسری طرف چلے چائنگے
اور ابھی بھی میرے دل میں اپ کے لیے بہت اچھے جذبات تھے اور ہے بھی کیونکہ ابھی میں اپ کا ایک بلاگ پڑھ رہا تھا جامعہ حفصہ اور الطاف حسین کے بارے۔۔
اصل میں ہم شیو اس نیت پر نہیں کرتے کہ ہمیں اللہ کی رسول کی صورت سے نفرت ہے لیکن اب جب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ شیو کرنے کا کیا مطلب ہے اسلام میں تو۔۔۔
میں پھر معذرت چاہتا ہوں
 
ایک چیز سے نفرت کرنا الگ بات ہے، اور اسے نہ اپنانا الگ۔ (خدا ہدایت دے انتہا پسندوں کو!)
ابو شامل کا تجزیہ کافی جامع ہے۔ بنیادی بات جو اب تک میں سمجھ سکا ہوں وہ قیادت کا مسئلہ ہے۔ ایک اچھی قیادت مل جائے تو ہمارے ہاں بہت سی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔۔۔ سماجی بھی، معاشرتی بھی، اور دینی سطح پر بھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
راہبر نے کہا:
شریعت اسلامی کے نفاذ کے لئے پہلے آپس میں اتحاد ضروری ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، اگر ملک کی تمام مذہبی جماعتیں متحد ہوکر نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لئے کوشش کریں گی تو کیا ان کو کامیابی نہ ہوگی؟ نہیں! بلکہ ہرگز ہرگز کامیاب ہوں گی۔۔۔ لیکن اختلافات کہاں جائیں گے؟ آپس کے جھگڑے کیونکر بھلائیں گے؟
لہذا
میری محدود نظر میں اسلامی نظام کے نافذ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ دینی جماعتوں کا آپس میں اختلاف ہے۔
بہت بنیادی بات ہے، نفاذ اسلام کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ضروری ہیں اور آپس کے اختلافات ختم کرنا ہوں گے۔
سیاسی اور معاشی سطح پر نفاذ اسلام سے پہلے کم ازکم معاشرتی سطح پر برائیوں کے انسداد کی بات تو کی جاسکتی ہے اسلامی معاشرہ کا قیام وغیرہ ، جس کا پاکستان کے آئین میں بھی تذکرہ ہے۔
ابوشامل کا کہنا ہے کہ پاکستانی دھکا سٹارٹ قوم ہیں، سوچ رہا ہوں کہ شاید یہ بات صحیح ہی ہو، اس قوم نے اسلام کے نام لیوا جماعتوں سے کبھی اسلام کے نفاذ کی بات کہی ہی نہیں اور کبھی ان پر دباو ہی نہیں ڈالا،لہذا مذہبی جماعتیں صرف اقتدار سے غرض رکھتی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ابوشامل نے کہا:
بہرحال اس وقت ہمیں سب سے زيادہ ضرورت اتحاد بین المسلمین کی ہے، طاغوت ہمارے درمیان فرقہ واریت کے فروغ کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر رہا ہے اور امریکہ نے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی ہے اور یہاں تک کہ انہوں نے مقامات مقدسہ کو بھی نہیں بخشا اور یہ حکمت عملی کچھ نہ کچھ تو کامیاب رہی ہے لیکن اس کی بڑی حد تک ناکامی کا ثبوت بغداد میں شیعہ اور سنی علاقوں کے درمیان تعمیر کا آغاز ہے۔ دیوار برلن کا یہ نیا ایڈیشن مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کی گئی دیوار کا تسلسل ہے۔
دشمن کے لیے بہت آسان ہے ، فرقہ واریت پیدا کرو اور مسلمانوں کو تقسیم کرو۔

ابوشامل نے کہا:
فرقہ واریت کے حوالے سے حالات پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں، اس کی ایک صورت مجلس عمل بھی ہے (آپ اسے سیاسی اتحاد کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں مختلف مسالک کا اتحاد تو ہوا)۔
اچھی بات ہے، منافقت کا خاتمہ بھی کریں اتحاد کے ساتھ تو کچھ بات بنے،
ویسے انہوں نے معاشرتی برائیوں کے خلاف کبھی بات نہیں کی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دوست نے کہا:
پہلے تو یہ کرپٹ چہرے بدلیں اور یہ کسی خونیں انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے بعد معاشی نظام بدلا جائے اور پھر اسلام کا نفاذ ہو۔۔
یہ بات بھی صحیح ہے ، کرپٹ سیاست دان اور جاہل سیاسی کارکن اس ملک میں کیا حالات بدلیں گے۔
سیاسی کارکنوں کی تعلیمی صورتحال کو اگر دیکھا جائے تو ان میں زیادہ تعداد اسلام سے نابلد ہوگی۔
 

ابوشامل

محفلین
الف نظامی نے کہا:
ابوشامل نے کہا:
بہرحال اس وقت ہمیں سب سے زيادہ ضرورت اتحاد بین المسلمین کی ہے، طاغوت ہمارے درمیان فرقہ واریت کے فروغ کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر رہا ہے اور امریکہ نے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی ہے اور یہاں تک کہ انہوں نے مقامات مقدسہ کو بھی نہیں بخشا اور یہ حکمت عملی کچھ نہ کچھ تو کامیاب رہی ہے لیکن اس کی بڑی حد تک ناکامی کا ثبوت بغداد میں شیعہ اور سنی علاقوں کے درمیان تعمیر کا آغاز ہے۔ دیوار برلن کا یہ نیا ایڈیشن مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کی گئی دیوار کا تسلسل ہے۔
دشمن کے لیے بہت آسان ہے ، فرقہ واریت پیدا کرو اور مسلمانوں کو تقسیم کرو۔

ابوشامل نے کہا:
فرقہ واریت کے حوالے سے حالات پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں، اس کی ایک صورت مجلس عمل بھی ہے (آپ اسے سیاسی اتحاد کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں مختلف مسالک کا اتحاد تو ہوا)۔
اچھی بات ہے، منافقت کا خاتمہ بھی کریں اتحاد کے ساتھ تو کچھ بات بنے،
ویسے انہوں نے معاشرتی برائیوں کے خلاف کبھی بات نہیں کی۔


ارے نظامی صاحب! آپ تو لگتا ہے مجلس عمل کے ذکر پر برا منا بیٹھے، یہ ذکر تو میں نے صرف بر سبیل تذکرہ کیا تھا بلکہ میں تو اسے صرف اتحاد بین المسلمین کی جانب عظیم سفر کا نکتۂ آغاز سمجھتا ہوں، ہمیں اس سے بہت آگے جانا ہے۔
باقی رہی بات معاشرتی برائیوں کے خلاف بات کرنے کی تو یہ ان کے کسی بندے سے پوچھ لیں، میں کیا جواب دوں :?:
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ایک اہم بات ہمارے نوجوان کو بھی اپنے اپ میں کچھ تبدیلیاں لاناہوگی یعنی جو وقت وہ میوزک اور کلب کو دیتا ہے وہ مسجد اور دینی طبقے کو دینا ہوگا چاہے اس کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہوں۔
کیا ہمیں اج کی ٹیکنالوجی یہ نہیں بتاتی کہ ہارد وئیر اور سوفٹ وئیر دو الگ چیزیں ہیں (فزیکل اینڈ لوجیکل) جسمانی اور روحانی تو ایک چیز میں تو ہم نہایت ہی احتیاط کرتے ہیں اور ایک گولی بھی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں لیتے تو پھر یہ دوری روحانی اطباء سے کیوں انسان کا جسم کس نے بنایا اس کا تازہ ترین مینول یا ھدایات (قرآن)کیا کہتا ہے کیا ہم ان کی بہتر تشریح کریں گے یا جو اس کے لیے بنائے گئے مخصوص انسٹیوٹ(مدارس) وہ کریں گے۔۔
یہاں برداشت کرنا ہوگا جب سوالات اٹھیں گے تو جواب ملے گا اور اس فورم کی ایک عجیب بات یہ ہے یہاں پر جتنے بھی الٹے سیدھے سولات کیے جاتے ہیں تو ہمیں اس کا فائدہ عام زندگی میں ہوتا ہے کیونکہ یہی سوالات اکثر لوگ پوچھتے ہیں تو پھر جواب دینے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
وجوہات تو بہت سی ہیں، لیکن میرا خیال صرف اتنا ہے کہ جب تک ہم دنیاوی تعلیم سے منہ موڑے رہیں گے، ہمارا یہی حال رہے گا۔ اس وقت ہمارے تمام مدارس وغیرہ دین کی تمام تر تعلیم دے رہے ہیں۔ لیکن جب طالبعلم فارغ التحصیل ہو کر باہر نکلتا ہے تو دنیاوی اعتبار سے “چٹ دوبہ“ ہوتا ہے۔ یعنی وہ روزی کمانے کے لئے یا تو کوئی مدرسہ پکڑتا ہے یا پھر کوئی نئی مسجد بنانے کی کوشش کرتا ہے

ہمارے پیارے نبی ص نے دنیا اور دین کو الگ نہیں‌ کیا۔ دنیا اور آخرت کا بتایا ہے۔ یعنی دنیا میں رہنے کے لئے ہمیں علم کی ضرورت ہے

ہمیں کہا گیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت کا فرض ہے۔ کوئی تخصیص نہیں‌ کی گئی۔ کیا ہم اس پر عمل کرتے ہیں؟ ہمیں کہا گیا کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ کیا اس دور میں چین کے مدرسے مشہور تھے یا وہاں اسلام کے بارے زیادہ تعلیم دی جاتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا یہی مطلب ہے کہ علم کے لئے جتنی دور جانا پڑے یا جتنی مشقت کرنی پڑے کرو

علم ہی ہمیں اچھے برے کی تمیز دیتا ہے

اس سلسلے میں صرف ایک مثال دینا چاہوں گا۔ یہ مثال بہت چھوٹے پیمانے کی ہے۔ لیکن شاید کچھ کام آجائے

بنیادی طور پر میں بلوچ قبیلے کی شاخ قیصرانی سے تعلق رکھتا ہوں۔ پاکستان کے قبائل کی روایات کے مطابق ہر سردار اپنے قبیلے کی زندگی اور موت کا مالک ہوتا ہے۔ تمام قبائل میں صرف قیصرانی ایسے قبائلی ہیں جن کا سردار محض ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں‌ کہ ہم لوگ تمام قبائل میں سب سے زیادہ خواندہ اور تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمیں تعلیم نے ہی سمجھایا ہے کہ سردار کو سردار رہنا چاہیئے، مالک نہیں بننا چاہیئے

فرقہ واریت کوئی اتنا گہرا مسئلہ نہیں‌ کہ اس سے نہ نکل سکیں۔ صرف درست سمت میں رہنمائی چاہیئے۔ اگر ہم باشعور ہیں تو ہمارے لیڈر کچھ نہیں کر سکیں گے مگر سوائے اس کے جو ہم چاہیں
 

ابوشامل

محفلین
بالکل ٹھیک کہا قیصرانی بھائی! میرے خیال میں دنیاوی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ دینی تعلیم۔ اس لیے کہ اگر ہمارا دشمن لڑاکا طیاروں کے ساتھ جنگ لڑے گا تو ہم گھوڑوں پر چڑھ کر اس سے لڑنے نہیں جائيں گے بلکہ ہمیں بھی اس کے مقابلے کے لیے زیادہ طاقتور اور تیز رفتار لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہوگی۔
بالکل اسی طرح دینی تعلیم بھی ضروری ہے تاکہ مومن دنیا کو اپنی ترجیح نہ بنائے اور آخرت میں جواب دہی کا خوف اس کے اندر رہے۔
یعنی ان دونوں کا توازن انتہائی ضروری ہے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جزاک اللہ منصور بھائی اپ کے ؟؟؟؟ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں بتہ نہیں کیوں۔
جہاں تک علم کی بات یا مسلمانوں میں ٹیکنالوجی کی بات ہے تو اس سے تو فعل حال میں اتفاق نہیں کرتا کیونکہ
ملائشیا دیکھے ٹیکنالوجی میں ؟
پاکستان دیکھے اٹامک میں؟
سعودی عرب دیکھے اسلحےمیں؟
اور اسی طرح۔۔۔۔
بات کہی اور ہے اگر اس کی وضاحت کر ےتو۔۔۔۔۔


اللہ اکبر کبیرہ


واجدحسین
 

شمشاد

لائبریرین
واجد حسین صاحب آپ جو الفاظ لکھتے ہیں ان الفاظ کی صحت کا خیال رکھیں۔ آپ جو بھی اور جس کے بھی حوالے دیں وہ مکمل تو نہ دے سکیں گے اور نہ ہی وہ حضرات قرآن اور حدیث پر اتھاڑٹی ہیں۔

جبکہ اللہ تعالٰی قرآن کی سورۃ الحجرات کی دوسری آیت میں فرماتا ہے “ اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ بلند کرو اپنی آوازیں اوپر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز کے اور نہ اونچی کرو اپنی آواز اس کے سامنے بات کرتے وقت جیسے اونچی آواز میں بولتے ہو تم ایک دوسرے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ غارت ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔“

اور اگر آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے تو آپ کو یہ تو پتہ ہی ہونا چاہیے کہ “ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں “
 
Top