پاکستان میں پائی جانے والی تازہ پانی کی مچھلیاں

واہ سرکار۔۔ آپ تو مچھلیوں کے بارے میں بڑی معلومات رکھتے ہیں۔۔۔ :sneaky: چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی۔۔۔ :p زبردست۔۔۔ ۔ (y)
ڈمرہ بھی تو تازہ پانی کی مچھلی ہے۔۔۔ ۔ اور ٹراؤٹ بھی۔۔۔ ان کی بابت کب لکھ رہے ہیں۔۔۔ :notworthy:
ڈمرہ بھی رہو کی ہی ایک قسم ہے
ٹراؤٹ کے شکار کا کبھی اتفاق نہیں ہوا
اس کے بارے میں کچھ معلومات ہیں اگلی قسط کا انتطار کریں :)
نیرنگ خیال
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ڈمرہ بھی رہو کی ہی ایک قسم ہے
ٹراؤٹ کے شکار کا کبھی اتفاق نہیں ہوا
اس کے بارے میں کچھ معلومات ہیں اگلی قسط کا انتطار کریں :)
نیرنگ خیال
یہ بات میرے علم میں نہ تھی۔۔۔ دریائے سندھ میں یہ کافی پائی جاتی ہے۔۔۔ گدو بیراج پر ڈمرہ عام ملتی ہے۔۔۔ :)
اب آپ پوچھیں کہ گدو بیراج ہی کیوں۔۔۔۔ تو وہ اس لیے کہ وہ میرے شہر کے پاس ہے۔ :)
 
بجا فرمایا کھگہ مچلی کا گوشت کچھ خاص نہیں ہوتا بام مچھلی کے گوشت کی تو کیا ہی بات ہے
سب سے لذیز اور قوت بخش گوشت اسی کا ہوتا ہے پنجاب میں تو مارکیٹ میں نہیں ملتی ایک دفعہ مارکیٹ میں دیکھ کر قیمت پوچھی تو 550 روپے کلو بتائی سول کا گوشت بھی بہت لذیز ہوتا ہے پنجابی میں ایک مثل ہے سول سول اے تے باقی مخول اے
روحانی بابا
میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اکثر بازار میں جو پھیری والے ہوتے ہیں ان کے پاس جو کگھہ ملتی ہے یہ زیادہ تر گندے ندی نالوں اور جوہڑوں سے پکڑی ہوئی ہوتی ہے؟؟؟؟
ایک مرتبہ ایک بندے کے ساتھ فیصل آباد کے جھال کے پل کے پاس صابر دواخانے کے پاس ہی ایک دکان میں ایک مچھلی دیکھی تو مقامی بندے نے کہا کہ یہ ڈمرا ہے اور اس کا منہ اتنا چھوٹا ہے کہ یہ صرف اور صرف گھاس پھونس ہی کھا سکتی ہے کوئی جاندار نہیں کھاتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟؟؟
 
میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اکثر بازار میں جو پھیری والے ہوتے ہیں ان کے پاس جو کگھہ ملتی ہے یہ زیادہ تر گندے ندی نالوں اور جوہڑوں سے پکڑی ہوئی ہوتی ہے؟؟؟؟
ایک مرتبہ ایک بندے کے ساتھ فیصل آباد کے جھال کے پل کے پاس صابر دواخانے کے پاس ہی ایک دکان میں ایک مچھلی دیکھی تو مقامی بندے نے کہا کہ یہ ڈمرا ہے اور اس کا منہ اتنا چھوٹا ہے کہ یہ صرف اور صرف گھاس پھونس ہی کھا سکتی ہے کوئی جاندار نہیں کھاتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟؟؟
سبزی خور مچھلی کا منہ چھوٹا ہوتا ہے کچھ تہہ سے خوراک حاصل کرتی ہیں مثلاَ گلفام تصویر ذرا غور سے دیکھیں ان کے ہونٹوں نیچے کی طرف جھکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انکو تہہ میں سے خوراک کھانے میں آسانی ہوتی ہے اکثر و بیشتر سبزی خور مچھلیاں تہہ سے ہی خوراک حاصل کرتی ہیں ایک مچھلی چائینا سے برامد کی گئی ہے جسے گراس کارپ کہتے ہیں یہ تالاب کے درمیانی اور بالائی حصے سے خوراک حاصل کرتی ہے گراس کارپ کی تصویر دیکھیں
images

گراس کارپ

ذرا غور کریں اس کے ہونٹ اوپر کی طرف اٹھے ہوئے ہیں جبکہ اسی طرح رہو بھی تالاب کے درمیانی اور بالائی حصہ سے خوراک حاصل کرتی ہے
Fresh_Water_Fish_Rohu.jpg

رہو مچھلی
اس چیز کا مچھلی کے ذائقے پر بھی بہت اثر پڑتا ہے جو مچھلیاں تالاب کہ تہہ سے خوراک حاصل کریں ان کا گوشت اوسط درجے کا ہوتا ہے
 
کیا یہ صحیح ہے کہ نر اور مادہ بام مچھلی کی پہچان آسانی سے ہو جاتی ہے؟
مچھلیوں میں خاص طور پر دریائی مچھلیوں میں نر مادہ کی پہچان آسان نہیں یہ پہچان کوئی ماہر ہی کر سکتا ہے اس معاملے میں میر ی معلومات زیادہ نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
بام جیسا کہ دریائی مچھلی ہے، بہت طاقتور ہوتی ہے، بہت لذیذ ہوتی ہے، مجھے ایک مچھلی فروش نے بتایا تھا کہ جب اس کو شکار کرتے ہیں اور پانی سے باہر نکالتے ہیں تو اس کے جسم پر بہت لیس ہوتی ہے، اس لیے یہ ہاتھ میں آسانی سے پکڑی نہیں جاتی اور ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔
 
بام جیسا کہ دریائی مچھلی ہے، بہت طاقتور ہوتی ہے، بہت لذیذ ہوتی ہے، مجھے ایک مچھلی فروش نے بتایا تھا کہ جب اس کو شکار کرتے ہیں اور پانی سے باہر نکالتے ہیں تو اس کے جسم پر بہت لیس ہوتی ہے، اس لیے یہ ہاتھ میں آسانی سے پکڑی نہیں جاتی اور ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔
لیس تو ہر مچھلی کے جسم پر ہوتی ہے مگر بام مچھلی کے جسم پر کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ دریاؤں اور نہروں کے کنارے پتھروں میں گھسی رہتی ہے شاید اسی لئے قدرت نے اس کے جسم پر لیس دار مادہ زیادہ رکھا ہے کہ اسے پتھروں کے درمیان گھسنے میں آسانی ہو
مزید اس کی کمر پر نوکدار کانٹوں کی لمبی قطار ہوتی ہے جس کے کانٹے بلی کے پنجوں سے مشابہہ ہوتے ہیں نیز پیٹ پر معقد کے ساتھ ایک لمبا نوکدار کانٹا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے پکڑنے کیں اور مشکل ہتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دریا میں پائی جانے والی مچھلیوں میں لذیز ترین مچھلی ہے
 
پلا مچھلی کے بارے میں کچھ معلومات ہے ۔
پلا مچھلی اب صرف دریائے سندھ کوٹری بیراج کے ڈاؤن سٹریم میں ہی ملتی ہے کبھی یہ تونسہ بیراج تک پائی جاتی تھی مگر اب نایاب ہوتی جا رہی ہے
پلہ مچھلی کے شکار کا کبھی اتفاق نہیں ہوا اسے لئے اس کی عادات و خصائل کے بارے میں زیادہ علم نہیں
 
ایک بات سنی تھی آپ وضاحت کریں۔
دس ہزار بام مچھلیوں میں کوئی ایک نر بام ایسا ہوتا ہے جو انسانی ہاتھ میں آتے ہے تیل بن جاتا ہے۔
 
ایک بات سنی تھی آپ وضاحت کریں۔
دس ہزار بام مچھلیوں میں کوئی ایک نر بام ایسا ہوتا ہے جو انسانی ہاتھ میں آتے ہے تیل بن جاتا ہے۔
میں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں سنی
ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ سب سے زیادہ قوت بخش گوشت اس مچھلی کا ہی ہوتا ہے


ZigZagkEelWFE_Ap4C.jpg

بام مچھلی
 

ملائکہ

محفلین
بہت زبردست معلومات ہیں۔۔ ہم تو ان لوگوں میں سے ہیں جو فروزن مچھلی یا مارکیٹ میں جو ملتی ہیں انھیں کھا کر خوش ہو جاتے ہیں:)
 
مچھلیوں میں خاص طور پر دریائی مچھلیوں میں نر مادہ کی پہچان آسان نہیں یہ پہچان کوئی ماہر ہی کر سکتا ہے اس معاملے میں میر ی معلومات زیادہ نہیں
ہمم میرے ناقص خیال کے مطابق جو بام زیادہ کالا ہوتا ہے یعنی پیٹ کی طرف سے تو وہ نر ہوتا ہے اس کے علاوہ نر کو جب کانٹے کے ذریعے پکڑ کر باہر نکالتے ہیں تو یہ بہت زیادہ اچھل کود کرتا ہے۔
 
ہمم میرے ناقص خیال کے مطابق جو بام زیادہ کالا ہوتا ہے یعنی پیٹ کی طرف سے تو وہ نر ہوتا ہے اس کے علاوہ نر کو جب کانٹے کے ذریعے پکڑ کر باہر نکالتے ہیں تو یہ بہت زیادہ اچھل کود کرتا ہے۔
بہت ممکن ہے ایسا ہی ہو اور نر شاید لمبائی کے حساب سے وزن میں بھی زیادہ ہوتا ہے
 
پلا مچھلی کے بارے میں کچھ معلومات ہے ۔
پلا مچھلی سندھ میں پائی جاتی ہے اور بہت لذیز ترین مچھلیوں میں ایک مچھلی ہے جس کو صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جو کہ اس کے کھانے کا شوق رکھتے ہوں کیونکہ اس میں کانٹے زیادہ اور گوشت بہت کم ہوتا ہے
 
بام جیسا کہ دریائی مچھلی ہے، بہت طاقتور ہوتی ہے، بہت لذیذ ہوتی ہے، مجھے ایک مچھلی فروش نے بتایا تھا کہ جب اس کو شکار کرتے ہیں اور پانی سے باہر نکالتے ہیں تو اس کے جسم پر بہت لیس ہوتی ہے، اس لیے یہ ہاتھ میں آسانی سے پکڑی نہیں جاتی اور ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔
جناب اس مچھلی کو ہاتھ سے پکڑنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اس کی پشت پر آریاں ہوتی ہے جیسے ہی اس کو ہم لوگ پکڑتے ہیں تو ہمارے پاس لوہے کا ایک ڈنڈا ہوتا ہے ہم فورا اس کے سر پر وار کرکے اس کو مار دیتے ہیں کیونکہ اکثر یہ اتنی اچھل کود کرتی ہے کہ کانٹا چھڑوا کر دوبارہ دریا میں بھاگ جاتی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
ٹرائوٹ مچھلی
وادی کاغان میں جو ندی نالے پائے جاتے ہیں ان کی تہہ پتھریلی ہے‘ پانی کا بہائو تیز ہے‘ پتھروں کے ساتھ پانی کے ٹکرائو سے اضطراب آمیز نغمہ پھوٹتا ہے۔ دریائے نین سکھ یا دریائے کنہار سڑک کے ساتھ ساتھ کسی سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا مست اونٹ کی طرح جھاگ دیتا ہوا اور ہاتھی کی طرح چنگھاڑتا ہوا بہہ رہا ہے۔ اگر کوئی انسان بدقسمتی سے اس میں گرپڑے تو لاش تو کیا اس کا نشان تک بھی نہ ملے۔ کیا ایسے تندو تیز دریا اور ندی نالوں کی خوفناک موجوں میں نباتات اور حیوانات کی زندگی ممکن ہے؟ یقین جانیے کہ ایسا ہے بعض حیوانات اور پودے ان ندی نالوں اور دریا میں بڑے سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اگر ان کو میدانی علاقوں کے ندی نالوں اور دریا میں رکھا جائے تو یہ زندہ نہیں رہ سکتے۔
ان علاقوں میں جو مچھلیاں پائی جاتی ہیں ان مچھلیوں کی جسمانی ساخت اور فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ نہ صرف یہ پانی کی مخالف سمت میں بڑی تیزی سے تیر سکتی ہیں بلکہ پتھروں کے ساتھ چمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ اس طرح پتھروں کی موجودگی ان مچھلیوں کیلئے بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔ یہاں کے ندی نالوں میں عام قسم کے پودے پیدا نہیں ہوتے۔ کائی کی بعض قسمیں ایسی ہیںجو پتھروں کیساتھ چمٹ جاتی ہیں اور پانی اپنی پوری قوت کے باوجود انہیں علیحدہ نہیں کرسکتا۔ اکثر مچھلیاں اسی کائی پر گزارا کرتی ہیں مگر بعض مچھلیاں پتنگوں کے کِرم بھی کھاتی ہیں۔ یہ خاص قسم کے کِرم پتھروں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔
کاغان کی مچھلیوں میں سب سے خوبصورت اور طاقتور ”ٹرائوٹ مچھلی“ ہے ۔ آج سے بیسیوں سال پہلے یہ مچھلی یورپ سے کشمیر لائی گئی پھر کشمیر سے اس کی افزائش نسل وادی کاغان میں شروع کردی گئی۔ اب پاکستان کے دوسرے پہاڑی علاقوں میں بھی اس کی پرورش کی جارہی ہے۔ یہ مچھلی تقریباً 10 سے 16 انچ لمبی ہوتی ہے۔ سر کے علاوہ باقی جسم چھوٹے چھوٹے چانوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔ پشتی پنکھوں‘ سر اور جسم کے بالائی حصوں پر سرخ سیاہ دھبے ہوتے ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جسم کے زیریں حصے کا رنگ خاکستری ہوتا ہے۔ منہ میں تیز دانت ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ دوسری مچھلیوں کے علاوہ چھوٹی ٹرائوٹ مچھلیوں کو بھی ہڑپ کرجاتی ہے۔ اس وجہ سے اب اس کا وجود کاغان کی قدیم مچھلیوں کیلئے بلائے ناگہانی بن چکا ہے۔
اس کے جسم میں کانٹے بہت کم ہوتے ہیں۔ ذائقہ نہایت ہی لذیذ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر شکاری لوگ اسے باقی مچھلیوں پر ترجیح دیتے ہیں اور مزے لے لے کر اس کا گوشت کھاتے ہیں۔
ٹرائوٹ مچھلی اپنی عادات و اطوار کے لحاظ سے بڑی عجیب و غریب ہے۔ بڑی مچھلیاں اپنا ایک چھوٹا سا احاطہ منتخب کرتی ہیں۔ اس احاطے میں کسی دوسری مچھلی کا داخل ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ پانی کے بہائو کے خلاف برق رفتاری سے سفر کرنے والی یہ طاقتور مچھلی جب دریا کی تہہ میں پتھروں پر جلوہ فگن ہوتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شاہسوار گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر بیٹھا ہو۔
جب مادہ مچھلی کا انڈے دینے کا موسم قریب آتا ہے تو اس کے نر کا رنگ قدرتی طور پر زیادہ چمکدار ہوجاتا ہے۔ مادہ دریا کے کنارے پتھروںمیں چھوٹا سا گڑھا یا گھونسلا اپنی دم کی مدد سے تعمیر کرتی ہے۔ اس گھونسلے کا قطر 8 سے 12 انچ تک ہوتا ہے۔ مادہ مچھلی اس میں انڈے دیتی ہے نر ان انڈوں پر تولیدی مادہ چھڑک دیتا ہے اس کے بعد وہ انڈوں کی حفاظت شروع کردیتا ہے کسی دوسری مچھلی کو ان کے پاس پھٹکنے نہیں دیتا‘ حتیٰ کہ ان انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں جب یہ بچے ذرا بڑے ہوجاتے ہیں تو نر مچھلی کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر نر ایسا نہ کرے تو عین ممکن ہے کہ دوسری مچھلیاں ان انڈوں اور مچھلیوں کو کھاجائیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ قدرت نے نر کے دل میں پدرانہ شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہے اور ان بچوں کاکافی حد تک اسی پدرانہ شفقت پر انحصار ہے۔
بشکریہ
220px-Trout.jpg

250px-Rainbow_Trout.jpg
 
Top