کیٹ فش فیملی کی مچھلیاں
پاکستان میں یوں تو کیٹ فش کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں مگر ان میں قابل ذکر تین ہیں آگے فرداَ فرداَ ان کا ذکر آئے گا۔
سنگھاڑہ یا سنگھاڑی
کیٹ فش کے خاندان میں یہ سب سے نفیس مچھلی ہے اسکا رنگ ہلکا سرمئی اور چمکدار ہوتا ہے دائیں بائیں اور پشت والے پنکھ میں مضبوط اور نوکدار کانٹے ہوتے ہیں جسم لمبوترا تھوتھنی لمبی اور سخت ہڈی کی ہوتی ہے منہ کے اگلے سرے پر اوپری اور نچلے لب پر چار سے چھ اینٹینا نما مونچھیں ہوتی ہیں یہ چیز کیٹ فش کی
تمام اقسام میں مشترک ہے ان کے ذریعے انہیں اپنے شکار کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے یہ گوشت خور مچھلی ہے اسکی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں اور
دیگر آبی جانور شامل ہیں اس کا گوشت ہلکا ذردی مائل رنگ کا ہوتا ہے ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی ہے اور کافی مہنگےداموں فروخت ہوتی ہے اسکا وزن 12 کلو تک دیکھا گیا ہے برصغیر کے تمام دریاؤں میں عموماَ اور دریائے سندھ میں بالخصوص تونسہ بیراج اور چشمہ بیراج میں کثرت سے پائی جاتی ہے
اس کا زیادہ سے زیادہ وزن 18 کلو تک ریکارڈ کیا گیا۔
گونچ یا سندھی کھگہ
یہ ایک بے ڈھنگی شکل کی مچھلی ہے اس کا شمار تازہ پانی کی سب سے زیادہ وزن والی مچھلیوں میں ہوتا ہے اس کا وزن 80 کلو تک ہو جاتا ہے 60 کلوکی میں نے خود دیکھی ہےعادتاَ بہت خونخوار ہوتی ہے اسکا منہ چوڑائی میں بہت زیادہ ہونٹ موٹے موٹے اور سخت ہوتے ہیں جن میں اوپر اور نیچے کی طرف نوکدار دانت ہوتے ہیں اس کا رنگ کمانڈو کی وردی کی طرح ہوتا ہے جوکہ ماحول سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے اس کا شمار بھی گوشت خور مچھلیوں میں ہوتا ہے یہ ایک بہت ہی بیسار خور مچھلی ہے غالباَ اسی لئے اس کا وزن دوسری مچھلیوں کی نسبت تیزی سے بڑھتا ہے اسی وجہ سے یہ بہت سست ہوتی ہے کانٹے میں پھنسنے کے بعد یہ پانی کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے اسی وجہ سے وزنی ہونے کے باوجود اسے پانی سے باہر نکالنے میں مشکل پیش نہیں آتی اس میں دیگر مچھلیوں کی طرح کانٹے نہ ہونے کے برابر ہیں درمیان میں کے بجائے فقاریہ جانوروں کی طرح ہڈی ہوتی ہے ذائقے میں کچھ خاص نہیں ہوتی البتہ اس کا شوربہ اچھا بنتا ہے اس کی عادت ہے ہر متحرک چیز پر حملہ آور ہوتی ہے اور اسے اپنے نوکیلے دانتوں سے کتر دیتی ہے یہ دنیا کے کئی ممالک میں پائی جاتی ہے انڈیا میں اکثر ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں کہ اس مچھلی نے چھوٹے جانوروں اور بچوں پر حملہ کیا اور بعض اوقات انہیں گھسیٹ کر پانی میں بھی لے گئی اس سلسلے میں انگریز ما ہر حیاتیات جرمی ویڈ کی دستاویزی فلم ریور مانسٹرز دیکھنے والی فلم ہے جو کہ گونچ کےبارے میں ہے
ملّی یا wallago attu
ملّی کیٹ فش خاندان کی سب سے زیادہ خونخوار مچھلی ہے یہ ہر چیز ہڑپ کر جاتی ہے بہت ایگریسو( غصہ ور ) مچھلی ہے جس کی وجہ سے اسے میٹھے پانی کی شارک مچھلی کہا جاتا ہے اس کا منہ چوڑائی میں زیادہ بالائی اور زیریں ہونٹ سخت اور ان میں سوئی کی طرح باریک اور نوکدار کانٹے ہوتے ہیں جو شکار کو گرفت میں لینے اور اسے چیرنے پھاڑنے میں مددگار ہوتے ہیں اس کا جسم چپٹا گہرائی میں زیادہ اور رنگت سیاہی مائل سرمئی ہوتی ہے زیریں حصے میں معقد سے لے کر دم تک جھالر نما پنکھ ہوتا ہے جو اس کو تیزی سے حرکت کرنے میں مدد دیتا ہے کبھی یہ 40 کلو تک عام پائی جاتی تھی مگر بے ذریع شکار پانی کی کمی اور کاحولیاتی آلودگی کی وجہ سے 14 یا 15 کلو سے زیادہ کی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے اس کے بارے میں ہمارے گاؤں کے ایک بوڑھے نے چشم دید واقعہ سنایا تھا جو محفلین کی معلومات میں اضافے کے لئے شریک کر رہا ہوں"یہ غالباَ 1978 کی بات ہے کہ میں ھیڈ قادر آباد پر ملازم تھا ایک دن میں حسب معمول گشت پر تھا کہ پانی میں مسلسل زوردار چھپاکوں کی آواز آئی میں اس طرف بھاگا جدھر سے آواز آ رہی تھی
کیا دیکھتا ہوں کہ بہت بڑی ملّی نے پانی میں اچھل کود مچائی ہوئی ہے جیسے سخت تکلیف میں مبتلا ہو مچھلی بار بار پانی کی سطح پر اچھلتی اپنے جسم کو زور زور سے دائیں بائیں مارتی کافی دیر پانی میں اچھل کود مچاتی کنارے کے قریب ہوتی گئی اور یکبار چھلانگ لگا کر کنارے پر چڑھ گئی مچھلی کا وزن محتاط اندازے کے مطابق 50 کلو تک تھا میں نے ایک آدمی کو دوڑایا اور ریڑھے پر لاد کر مچھلی کو گھر لے گیا جب گھر جا کر مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو اس میں سے گیدڑ برامد ہوا گمان غالب ہے کہ گیدڑ اپنی پیاس بچھانے یا کسی شکار کی تلاش میں پانی میں داخل ہوا اور مچھلی کا لقمہ بن گیا مچھلی نے گیدڑ کو تو نگل لیا مگر گیدڑ کے پنجوں اور دانتوں کی ضرب سے بے چین ہو گئی اور آخر خود بھی شکار ہو گئی "