18 جون
صبح ہی سے دوستوں کے میسج آنے لگے۔ سکیجلنگ کے بادشاہ ہونے کے ناطے میں نے اکثر کو آج ہی کے دن فٹ کرنے کی کوشش کی۔ نتیجتاَ ابو سے ان کی کار مانگنی پڑی کہ پلان اوبر یا کریم پر ممکن نہ تھا۔
لنچ کا پلان ٹیکسلا کا تھا کہ دو دوست وہاں موجود تھے۔ ایک سے 24 سال بعد ملاقات ہو رہی تھی اور دوسرے سے بھی شاید پندرہ بیس سال بعد۔ چونکہ ایک صاحب یو ای ٹی میں پروفیسر ہیں لہذا وہیں ملنا طے پایا۔
جی ٹی روڈ پر ڈرائیونگ کا اپنا مزا ہے۔ وہ رکشے جو رکشہ کہلوانا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور چیں چیں کرتے ہیں تکان کے مارے سپیڈ ہی نہیں پکڑ سکتے۔ سڑک پر باقی گاڑیاں ایسے چلتی ہیں جیسے براؤنیئن موشن۔ ایک آدھ میل طے کرنے میں اتنے منٹ لگاتے ہیں کہ میں سوچتا کہ میری سائیکل اس سے دگنی رفتار پر جاتی ہے۔ حد یہ ہے کہ ٹریفک کا نام و نشان نہیں خال خال ہی گاڑیاں سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔
خیر ٹیکسلا پہنچا۔ یو ای ٹی کا بڑا سا گیٹ دیکھ کر چونکا۔ گارڈ نے روکا لیکن پروفیسر کے نام پر جانے دیا۔ اندر داخل ہوا تو وہاں بھی مورچہ نما بیریئر لگے تھے۔ یہ یونیورسٹی کو کیا ہوا؟ ہمارے وقتوں میں تو ایسی نہ تھی۔ اور ان دنوں تو باقاعدگی سے جمیعت اور دوسرے غنڈوں کی جھڑپوں میں لوگ مارے جاتے تھے۔ یو ای ٹی کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ اتنی نئی عمارات کہ پرانی بھی پہچاننی ممکن نہ رہیں۔ دوستوں نے مسجد پر ملنے کا کہا تھا۔ کسی سے مسجد کا راستہ پوچھا۔ وہاں پہنچا تو شکر ہے کہ انہوں نے
میرے نام کی لاج رکھ لی اور باہر ہی موجود تھے ورنہ ایک پاکستانی نے تو مجھے یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی تھی کہ کافر مسجد میں داخل نہیں ہو سکتے۔
لنچ کا پلان پوچھا۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد جی ٹی روڈ کے پاس کسی ریستوران پر معاملہ طے ہوا اور میں یہ سوچتا رہا کہ مجھے اتنی اندر کیوں بلایا۔ ریستوران پہنچے، کھانے کا آرڈر دیا اور گپ شپ شروع۔ وقت کا پتا ہی نہیں چلا یہاں تک کہ ایک دوست کو دفتر سے کالیں آنا شروع ہو گئیں اور مجھے یاد آیا کہ:
But I have promises to keep,
And miles to go before I sleep
اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا۔ کوہسار مارکیٹ پہنچتے ہوئے کچھ دیر ہو گئی۔ وہاں دوست انتظار کر رہا تھا۔ یونیورسٹی کے بعد شاید ایک بار ہی ملاقات ہوئی تھی۔ چوبیس سال بعد ملے۔ کچھ نوٹس کمپیئر کئے کہ زندگی میں کیا ہو رہا ہے۔ کافی پی۔
واپس گھر پہنچا تو ایک کزن ملنے آیا ہوا تھا۔ چونکہ وہ بھی کافی عرصہ پاکستان سے باہر تھا لہذا 14 سال بعد ملاقات ہو رہی تھی۔
یہ ملاقات جاری تھی تو جارجیا ٹیک کا ایک دوست لینے آ گیا۔ ڈنر دو ٹیک کے دوستوں کے ساتھ تھا جو اب پاکستان واپس سیٹل ہو چکے ہیں۔