واپس شوگران پہنچے۔ وہاں سے اپنی گاڑی پر نیچے جا رہے تھے کہ ہمارے رات کے ہوٹل والے کا فون آیا۔ اس نے کچھ عجیب و غریب کہانی سنائی کہ کسی کے زخمی ہونے اور پولیس وغیرہ کی وجہ سے بٹہ کنڈی کا ان کا ہوٹل آج کی رات شاید بند ہے اور چونکہ وہاں موبائل فون سروس بھی کام نہیں کرتی لہذا ہم وہاں نہ جائیں۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے ہم وہاں نہیں جاتے لیکن پھر ہمیں اپنے ناران والے ہوٹل میں کمرہ دے دیں۔ اس نے کچھ ہی دیر میں کنفرم کر دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ ڈبل بکنگ کا چکر تھا اور باقی کہانی اس نے ایسے ہی سنائی۔ خیر اب ہمارا پلان بٹہ کنڈی کی بجائے ناران ٹھہرنے کا ہو گیا۔
نیچے کیوائی پہنچ کر لیٹ لنچ کیا۔ پاکستان میں لنچ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لنچ اور ڈنر کے مینو میں کوئی فرق نہیں۔ نہ ہی لنچ میں سینڈوچ وغیرہ ملتے ہیں۔ آپ لنچ کا آرڈر دیتے ہیں۔ ریستوران والے گھنٹے بعد اسے تیار کر کے لاتے ہیں۔ اگر آپ وہ تمام کھا لیں تو پھر وہیں قیلولہ بھی کرنا پڑے گا۔ سیر سپاٹے کے علاقوں میں تو آپ کو ایسا لنچ چاہیئے جو فوری ملے اور آپ کو تازہ دم کر دے تاکہ آپ مزید ہائیک وغیرہ کر سکیں۔
لنچ کے بعد کیوائی سے ناران چلے۔ اب ٹریفک کچھ بڑھ گئی تھی۔ ناران پہنچ کر مین بازار میں اپنا ہوٹل ڈھونڈنا شروع کیا۔ وہاں سامان کمرے میں رکھا، کچھ فریش ہوئے اور بازار میں نکل کھڑے ہوئے کہ کچھ پھرتے ہیں اور پھر ڈنر کریں گے۔
میں ناران آخری بار 1994 میں گیا تھا۔ اس عرصے میں ناران بہت پھیل گیا ہے۔ دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ تمام بازار اور ہوٹل ہیں۔ اب آپ دریا کے کنارے نہیں چل سکتے۔ جھیل روڈ اور بائی پاس کی طرف بھی کافی کچھ بن چکا ہے۔ مین بازار میں خوب شور اور ٹریفک ہے۔ سڑک پر گاڑیاں پارک ہوتی ہیں اور گاڑیاں ان کے بیچ میں سے جگہ نکال کر گزرتی ہیں۔ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کی بجائے دکانداری چل رہی ہے۔ اس صورتحال میں آپ ہر منٹ میں کئی بار ہارن سنتے ہیں۔
بازار کی ایک تصویر