جاسم محمد

محفلین
یہ واقعی بہت افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ملک کے لوگ کب ذمہ داری کا احساس کریں گے!
کچھ روز قبل ایک دوست نے جو شمالی علاقہ جات گیا ہوا تھا یہ تصویر بھیجی:
Whats-App-Image-2019-07-21-at-05-47-50.jpg

سچ پوچھیں تو اسے دیکھ کر دل حلق کو آگیا کہ یہ لوگ کیسے اپنے ہی ملک سے دشمنوں والا سلوک کرتے ہیں۔
 
سری کے آس پاس ایک چھپٹڑ؟ اچھا لگ رہا تھا ویسے

احباب کی معلومات کے لیے چھپڑ کی کچھ تاریخ جو سنی پڑھی ہے وہ یوں کہ انگریز نے ہر بڑے گاؤں میں دو دو جوہڑ بنائے تھے۔ ایک ہندو، سکھ اور ایک مسلمانوں کے لیے۔ چھوٹے دیہات جہاں صرف کوئی ایک مذہب والے ہی قیام پذیر تھے وہاں ایک اور جو گاؤں زیادہ بڑے تھے وہاں تین۔

ایک اور جگہ کہیں پڑھا تھا کہ اصل منصوبہ کسی مغل بادشاہ کے دور میں شروع ہوا تھا اور بعد میں انگریز نے اسے بہتر طریقے سے تجویز اور تیار کیا۔ لیکن یہ چھپڑی داستان پنجاب اور شاید کچھ اور علاقوں کے لیے ہی ہے۔

اور ہاں، یقیناً یہ چھپڑ اس دور کا نہیں ہے۔
 

زیک

مسافر
یہ گائیں وہیں پھر رہی تھیں اور انسانی کوڑے سے کھانے کو کچھ تلاش رہی تھیں۔ بیگم کے پرزور اعتراض پر تصویر کراپ کر کے خوبصورت کی گئی

 

زیک

مسافر
واپس شوگران پہنچے۔ وہاں سے اپنی گاڑی پر نیچے جا رہے تھے کہ ہمارے رات کے ہوٹل والے کا فون آیا۔ اس نے کچھ عجیب و غریب کہانی سنائی کہ کسی کے زخمی ہونے اور پولیس وغیرہ کی وجہ سے بٹہ کنڈی کا ان کا ہوٹل آج کی رات شاید بند ہے اور چونکہ وہاں موبائل فون سروس بھی کام نہیں کرتی لہذا ہم وہاں نہ جائیں۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے ہم وہاں نہیں جاتے لیکن پھر ہمیں اپنے ناران والے ہوٹل میں کمرہ دے دیں۔ اس نے کچھ ہی دیر میں کنفرم کر دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ ڈبل بکنگ کا چکر تھا اور باقی کہانی اس نے ایسے ہی سنائی۔ خیر اب ہمارا پلان بٹہ کنڈی کی بجائے ناران ٹھہرنے کا ہو گیا۔

نیچے کیوائی پہنچ کر لیٹ لنچ کیا۔ پاکستان میں لنچ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لنچ اور ڈنر کے مینو میں کوئی فرق نہیں۔ نہ ہی لنچ میں سینڈوچ وغیرہ ملتے ہیں۔ آپ لنچ کا آرڈر دیتے ہیں۔ ریستوران والے گھنٹے بعد اسے تیار کر کے لاتے ہیں۔ اگر آپ وہ تمام کھا لیں تو پھر وہیں قیلولہ بھی کرنا پڑے گا۔ سیر سپاٹے کے علاقوں میں تو آپ کو ایسا لنچ چاہیئے جو فوری ملے اور آپ کو تازہ دم کر دے تاکہ آپ مزید ہائیک وغیرہ کر سکیں۔

لنچ کے بعد کیوائی سے ناران چلے۔ اب ٹریفک کچھ بڑھ گئی تھی۔ ناران پہنچ کر مین بازار میں اپنا ہوٹل ڈھونڈنا شروع کیا۔ وہاں سامان کمرے میں رکھا، کچھ فریش ہوئے اور بازار میں نکل کھڑے ہوئے کہ کچھ پھرتے ہیں اور پھر ڈنر کریں گے۔

میں ناران آخری بار 1994 میں گیا تھا۔ اس عرصے میں ناران بہت پھیل گیا ہے۔ دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ تمام بازار اور ہوٹل ہیں۔ اب آپ دریا کے کنارے نہیں چل سکتے۔ جھیل روڈ اور بائی پاس کی طرف بھی کافی کچھ بن چکا ہے۔ مین بازار میں خوب شور اور ٹریفک ہے۔ سڑک پر گاڑیاں پارک ہوتی ہیں اور گاڑیاں ان کے بیچ میں سے جگہ نکال کر گزرتی ہیں۔ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کی بجائے دکانداری چل رہی ہے۔ اس صورتحال میں آپ ہر منٹ میں کئی بار ہارن سنتے ہیں۔

بازار کی ایک تصویر

 

زیک

مسافر
اندھیرا بڑھا تو ریستوران کی تلاش شروع کی۔ چارپائیوں والا یہ مون ریستوران کچھ مقبول لگ رہا تھا لہذا یہیں کھانا کھایا۔

 

زیک

مسافر
20 جون

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ صبح اٹھے تو بیٹی کو قے اور پیٹ خراب۔ پیٹ میں شدید درد سے وہ بہت تنگ تھی۔ اس کی قے اور nausea کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اس کو پانی میں الیکٹرولائٹ گھول کر دیئے تاکہ ڈی ہائیڈریشن نہ ہو۔ یہ خطرہ تو ایسے سفر میں رہتا ہی ہے اور ہماری احتیاط کے باوجود ہم سب کے ساتھ اس ٹرپ میں یہ پیش آیا۔ شکر ہے شام تک اس کی طبیعت سنبھل گئی۔

پاکستان ایک کیش اکانومی ہے۔ یہاں اسلام آباد سے باہر کارڈ کم ہی چلتے ہیں۔ ایک منی چینجر کے پاس گیا تاکہ کچھ روپے گلگت بلتستان کے سفر کے لئے ہوں۔ اس نے 156.20 روپے فی ڈالر کا ریٹ دیا لیکن رسید میں معمولی سا مختلف لکھا (شاید اس لئے کہ یہ پاکستان ہے اور یہی یہاں کی روایت ہے)

بہرحال بیٹی کی بیماری کی وجہ سے 20 تاریخ کو کچھ قابل ذکر نہ کر سکے۔
کون لوگ ہیں جنہوں نے اس مراسلے کو پسندیدہ ریٹنگ دی ہے؟
 

ابن توقیر

محفلین

فرقان احمد

محفلین
اندھیرا بڑھا تو ریستوران کی تلاش شروع کی۔ چارپائیوں والا یہ مون ریستوران کچھ مقبول لگ رہا تھا لہذا یہیں کھانا کھایا۔

چارپائیوں کا آئیڈیا اچھا تھا، تاہم، جگہ کی مناسبت سے چارپائیں ذرا بھی جچ نہیں رہی ہیں۔
 

زیک

مسافر
23 جون
آج لمبی ڈرائیو کا دن تھا۔ ناران سے ہنزہ۔ لہذا رات ہی کو ہوٹل والوں سے ناشتے کا وقت معلوم کیا لیکن وہ صبح 7 بجے ناشتہ نہ دیتے تھے۔ قریب ہی ایک ریستوران والوں نے کہا کہ ان کا ناشتہ سات بجے شروع ہوتا ہے لیکن جب ہم صبح ادھر پہنچے تو ان کو ناشتہ تیار کرنے میں کم از کم آدھ گھنٹہ چاہیئے تھا۔ یہ بات پاکستان میں عام دیکھی کہ جلد ناشتے کا کوئی رواج نہ تھا۔ ہمارے ہاں اکثر چھ بجے ناشتہ ملتا ہے۔

لہذا ہم نے راستے میں ناشتے کا ارادہ کیا اور روانہ ہوئے۔

ناران بازار ہی میں سٹاربکس کے متاثرین میں سے ایک دیکھا۔



سٹاربکس نام رکھنے کی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ پاکستان جیسے ڈرائی ملک میں آئرش کریم کافی کیسے بیچ رہا تھا؟
 
Top