السلام علیکم شگفتہ
آپ کا سوال اس لحاظ سے بہت مشکل لگتا ہے کہ ہر کسی کے ذہن میں یہ ہوتا ہے ناں کہ شاید کوئی بہت بڑا کام کیا ہو تو ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہاں ہم نے پاکستان کو کچھ دیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ وطن کی محبتوں کا قرض تو ہم ساری زندگی بھی اتارتے رہیں تو بھی نہیں کم ہے۔۔بس طے ہی کرنا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہم یہ سب کیسے کر سکتے ہیں؟؟۔۔اور اس سلسلے میں میں سوچتی ہوں کہ اگر میں نے ایک بھی ایسا کام کر لیا جس سے ایک انتہائی معمولی لیکن مثبت تبدیلی آ سکتی ہے تو وہ بھی بہت ہے۔۔بہت سی چھوٹی تبدیلیاں ایک بڑی تبدیلی لاتی ہیں اور ایسا ہونے میں عمریں گزر جاتی ہیں۔۔
اور میرا اس پر ہمیشہ یقین رہا ہے۔۔میں نے اتنا خاص تو کچھ نہیں کیا لیکن میرے بھیا جی اور ان کے دوستوں نے آج سے بہت سال پہلے جب وہ کالج میں تھے ،ایک چھوٹی سی فلاحی تنظیم بنائی تھی۔۔ جو وہیں آس پاس کے لوگوں کی مدد کرتی تھی۔۔پھر آہستہ آہستہ ان سب دوستوں کے دوسرے بہن بھائی اور ان کے دوست بھی شامل ہوتے گئے۔۔میں بھی سکول کے زمانے میں ہی ممبر بن گئی تھی لیکن صحیح طور سے کام کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں شروع کیا۔۔ شروع میں ہم لوگ کیونکہ خود سٹوڈنٹس تھے اور اخراجات کے لئے رقم اکٹھی کرنی پڑتی تھی تو ہم صرف ان بچوں کو جو فیس نہیں دے سکتے تھے یا یونیفارم اور کتابیں نہیں لے سکتے تھے ، کی مدد کرتے تھے اس کے لئے ٹورنامنٹس،،مینا بازار وغیرہ کراتے تھے اور مہمانِ خصوصی ان لوگوں کو بلاتے تھے جو کچھ نہ کچھ ڈونیٹ کر جائیں۔۔پھر سکولز کالجز گھر والوں ، رشتے داروں سے بھی کافی مدد لے لیتے تھے لیکن بعد میں ہم لوگ خود بھی عملی زند گی میں آ گئے اور جیسے جیسے لوگوں کو پتہ چلتا گیا اتنے لوگ مدد کے لئے آ گئے کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔اب اس تنظیم نے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی ہے جہاں کچھ ڈاکٹرز ہر ہفتے کچھ وقت فری دیتے ہیں ۔۔پھر ہر دو تین ماہ کے بعد آس پاس کے دیہات میں اور مین شہر میں بھی فری میڈیکل کیمپس لگاتے ہیں۔۔اس کے علاوہ الشفاء آئی ٹرسٹ راولپنڈی کے تعاون سے فری آئی کیمپس بھی لگاتے ہیں۔۔پچھلے کچھ سالوں سے ہم لوگوں نے بلڈ بینک کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے اور اب ایسا ہوتا ہے کہ اتنے لوگ اس کا حصہ بن چکے ہیں کہ اکثر دوسرے شہر کے ہسپتالوں میں بھی خون کے عطیات دیئے جاتے ہیں۔۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں آزاد کشمیر سے قریب ہونے کی وجہ سے بہت سے زخمی ہمارے شہر کے ہسپتالوں میں بھیجے گئے تھے اور تب بھی خون کی ساری ڈیمانڈ ہمارے شہر میں سے ہی پوری ہو گئی تھی۔
اور اس بات سے ہم لوگوں نے یہ سیکھا کہ قطرہ قطرہ کیسے سمندر بنتا ہے اور کام بے شک آہستگی سے ہو لیکن اگر اس میں تسلسل ہو تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔۔ اگرچہ یہ کام میں نے اکیلے نہیں کیا اور میرا انفرادی حصہ شاید اتنا زیادہ نہیں ہے کہ میں مطمئن ہو کر یہ کہہ سکوں کہ میں نے پاکستان کو واقعی کچھ دیا ہے لیکن تھوڑی سی تسلی ہے دل کو کہ میں بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں ۔۔۔باقی یہ ہے کہ جب تک زندگی ہے مقدور بھر کرنے کی پوری کوشش رہے گی انشاءاللہ۔۔۔