بڑے بھیا ۔۔۔
۔۔۔ آپ کی خبر لینی ہے آپ ذرا تسلی تو رکھیں۔۔۔۔۔۔
خُود کُش حملے: ایک اور سوال
بڑے بھیا ۔۔۔
۔۔۔ آپ کی خبر لینی ہے آپ ذرا تسلی تو رکھیں۔۔۔۔۔۔
ایک سوال اور جو لوگوں کو پریشان رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کچھ دینا چاہیں تو کس طرح اور کیا کرکے وہ پاکستان کو کچھ لوٹا سکتے ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ ہر شخص مالی مدد نہیں کر سکتا ہر شخص کوئی تنظیم نہیں بنا سکتا ہر شخص کفالت نہیں کر سکتا ہر شخص پڑھا بھی نہیں سکتا مگر ہر شخص زبان اور تحریر سے پاکستان کا مثبت اور روشن تصور ضرور پھیلا سکتا ہے اور قائم کر سکتا ہے۔
ماشاءاللہ یہاں تو بہت رونق لگی ہوئی ہے۔ میں نے کچھ دن پہلے یہ تھریڈ دیکھا تھا مجھے حمزہ کی جھنڈیاں ہی نظر آئیں تھیں۔ اور میں سمجھی کہ گوشہءاطفال میں کچھ ہو رہا ہے۔
یہ سوال تو کچھ دن پہلے امی سے بھی پوچھ رہی تھی۔ امی کو سننے کے بعد مجھے لگا کہ میں نے تو اپنے ملک کو کچھ دیا ہی نہیں۔ شاید بڑی ہو کر کچھ دے سکوں۔ پھر لکھوں گی۔
شگفتہ بہن
میں تو باہر والا ہوں مجھے کیوں پکڑتی ہیں
شاید یہ چیزیں کاونٹ ہوں۔
لاس انلیجس کی ایک یونورسٹی میں پہلی پاکستانی اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن بنانے کرنے والوں میں شامل ہوں۔
وینٹورا کانوٹی کیلی فورنیا میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل ہوں۔
پاکستان کےشہر کراچی کی بلدیہ کالونی میں ایک اسکول کا خرچہ دیتا ہوں تاکہ ان بچوں کومفت بنیادی تعلیم مل سکے جن کے ماں باپ نوکری کی تلاش میں اندرون ملک سے کراچی آتے ہیں ۔ اس اسکول کے ساتھ ایک ڈسپنسری بھی ہے.
دوستوں کے بچوں کو سکالرشپ دیتاہوں ۔
یہاں نوکری سے چھٹی لے کر پاکستان کے فارن ٹیلنٹ پروگرام میں ایک سال سروس دی۔
پاکستان میں عورتوں پر ظلم کے خلاف دو کتابیں مکمل حل کے ساتھ لکھیں ہیں۔ ان کے نام پختون کی بیٹی" اور "حیوانوں کی بستی ہیں۔ان کے لکھنے کا مقصد یہ ہےکہ پاکستانی عورتوں کو پتہ چلے کہ ان کی بہنوں کو ان کی مدد کی ضرورت ہے۔
ایک ایجوکیشنل ارگینائیزیشن Global Exchange Ventura County Chapter
کا فاونڈینگ ممبر ہوں ۔اس آرگینایزیشن کا مقصد شوشل اینڈ اِ کنامیکل جسٹیس ، ہیومن رائٹس اور ایکولوجیکل سسٹین ایبیلیٹی کو عام کرنا ہے۔
اردو محفل پر اخلاقی مضامین لکھتا ہوں۔ جن کا مقصد لوگوں کی توجہ قومی کردار اور بنیادی تعلیم کی طرف دلانا ہے۔ میرے خیال میں قومی کردار کو بلند کرنا ہی پاکستان کی نجات ہے۔ قومی کردار کو بلند کیسے کرنا ہے؟ میں اس متعلق لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جہاں تک ہوسکے اردو محفل کی بھی مدد کردیتاہوں۔
اور تمام بہنوں کو بہت تنگ کرتا ہوں ۔
( میرا سب سے زیادہ پسندیدہ contribution )
محب، ہر شخص انفرادی حیثیت میں بھی بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں برائی نمایاں ہو گئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ قائم ہے اور اس کے استحکام کی وجہ معاشرے کا درد رکھنے والے نیک لوگ ہیں۔
اس تھریڈ میں انفرادی اور اجتماعی کاوشوں کے فرق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال لوگ خیرات اور زکوۃ کی مد میں مجموعی طور پر ستر ارب روپے کے قریب خرچ کرتے ہیں۔ لیکن یہ معاشرے میں تبدیلی لانے کا باعث نہیں بنتا کیونکہ یہ زیادہ تر انفرادی سطح پر کیا جانے والا عمل ہے۔
کچھ دیا ہوتا تو ضرور بتاتے ۔۔۔۔اور۔۔۔۔وطن نے جو دیا اس کا شمار نہیں۔
پاکستان کو نہیں لیکن پاکستانیوں کو یہ نغمہ دیتا ہوں۔
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=ZL9VSHXuOeo[/youtube]
ابھی تو میں سلو کنکشن پر ہوں۔ اگر کسی اور رکن نے نہ ترجمہ کیا اور مجھے پیر کے دن تیز کنکشن ملا تو میں انشاءاللہ بول لکھ دوںگااگر ممکن ہو تو کوئی رکن اس کے بول یہاں لکھ دیں ۔
شکریہ
شگفتہ جی
بہت اچھی پوسٹ ہے۔
مجھے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی بے عملی اور کم ہمتی پر افسوس ہوتا ہے کہ میں اب تک پاکستان کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکی۔
سوائے اس کےکہ کچھ غریب بچوں کی کی فیس ادا کردی اور اور کچھ غریب بچیوں کی شادیاں کروادی اور ایک دو غریب لوگوں کو اپنا گھر بنانے مین مدد کی۔
مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ میں کوئی منظم کوشش نہیں کر سکی ۔البتہ کچھ منظم کام کرنے کا جذبہ ابھی زندہ ہے
میں یتیم بچوں کے لئے ایک سکول بنانا چاھتی ہوں
کچھ ذہین بچے غربت کی وجہ سے سکول کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے ایسے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک فنڈ قائم کرنا چاہتی ہوں۔
میں چاھتی ہوں کہ ایک ایسا اسلامی بنک زکٰوۃ فنڈ سے قائم کیا جائے جو غریب لوگوں بالخصوص عورتوں کروزگار کے لئے قرضَِ حسنہ فراہم کرے ۔
پسماندہ علاقوں میں ہنر سکھانے کے لئے ورکشاپس قائم کرنا چاہتی ہوں
مجھے معلوم ہے کہ میرے جیسے بہت سے پاکستانی ہیں جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کسی کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں۔مگر اجتماعی کوشش میں جو برکت ہوتی ہے وہ انفرادی کام میں نہیں ہوتی
مجھے فرحت کیانی کی پوسٹ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی
ان کے لئے دُعا گو ہوں
والسلام
زرقامفتی
السلام علیکم فرحت شاندار ، بے حد خوشی ہوئی اور ہو رہی ہے۔ بہت خوبصورت کوشش۔
بے شک فرحت قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتا ہے۔ انفرادی ہو یا اجتماعی۔۔۔ کوئی بھی مثبت کوشش ، کوئی بھی تعمیری قدم ہو ، اہم ہے قابل ستائش ہے۔۔۔ آپ کا جس قدر بھی حصہ ہے کسی طور کم نہیں۔۔۔ میں اس پر آپ سے اور بھی بات کرنے کو دل ہو رہا ہے میرا۔۔۔ ابھی تو میری دعا ہے کہ آپ کو وہ سب کرنے کو موقع اور ہمت ملے جو آپ کرنا چاہیں۔۔۔
بے حد شکریہ شیئر کر نے کے لئے ۔۔۔ خوش رہیں
اپنے خرچ پر
السلام علیکم سرمحترمات و محترمین ۔ السلام علیکم
میری بُری عادت ہے کہ جو بات دل میں آ جائے کہہ دیتا ہوں لیکن محفل میں نیا ہونے کی وجہ سے دُبکا بیٹھا تھا ۔ اُوپر کی تحاریر پڑھ کر مجھے لکھنے کا حوصلہ ہوا ۔ میں اُن بچے کھُچے لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے تحریکِ پاکستان اپنی آنکھوں سے دیکھی اور جو غدر دشمنوں نے مچایا اس کی جھلک بھی دیکھی ۔ اتنی محنت اور قربانیوں کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی خاص مہربانی سے یہ عظیم ملک حاصل ہوا جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑ ۔ گلیشیئر ۔ سرسز پہاڑ ۔ چٹِیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ ہرے بھرے میدان ۔ صحرا ۔ دریا ۔ سمندر ۔ سرد ترین سے لے کر گرم ترین موسم ۔ ہر قسم کے اور بہترین پھل ۔ ہر قسم کی اور بہترین سبزیاں ۔ دنیا کی بہترین گندم اور بہترین چاول ۔ دھاتی نمک ۔ قیمتی پتھر ۔ قیمتی جڑی بوٹیاں بشمول کھُمب اور گُچھیاں ۔ عمدہ کپاس اور گنا ۔ دنیا میں کونسا اور ملک ہے جس میں یہ سب کچھ ہے ؟
کونسی نعمت ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اس ملک میں عطا نہیں کی ؟ اور ہم ہیں تو بولیں گے تو پاکستان کے خلاف ۔ کام کریں گے تو پاکستان کے خلاف ۔ ہم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے ان کی توہین کی ۔ میں ملک سے باہر جہاں بھی گیا کسی ہموطن کے منہ سے اپنے وطن کی تعریف نہ سُنی ۔ میرا پھر اُن سے یہی سوال ہوتا تھا "آپ کا پاکستان نے کیا بگاڑا ہے اور آج تک آپ نے پاکستان کی کیا خدمت کی ہے ؟" اس پر وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ۔
کسی بھائی یا بہن نے اُوپر لکھا کہ چھوٹے چھوٹے کام بھی ہوتے ہیں ۔ بالکل یہ چھوٹے چھوٹے کام ہی اصل کام ہوتے ہیں کہ قومیں اور ملک بنتے ہی انہی سے ہیں ۔ اپنے گھر کے ارد گرد کا علاقہ صاف رکھیں ۔ کسی مستحق غریب بچے کو پڑھا دیں ۔ کسی غریب نے بچی کی شادی کرنا ہے اس کی مدد کر دیں ۔ کوئی لاچار یا لاغر شخص سڑک پار کرنا چاہتا ہے تو ٹریفک روک کر سڑک پار کرا دیں ۔ کھانا زیادہ پکا کر ضائع نہ کریں بلکہ جب خود کھائیں تو کسی ایسے شخص کا خیال کریں جو بھوکا ہو ۔ ایسے بہت سے چھوٹے چھوٹے عمل ہیں جو مل کر ملک کو ترقی کی تیز رفتار ٹرین پر چڑھا دیتے ہیں ۔ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جا اے پاکستانی ۔ ذرا سوچو تو ۔ ایک اکیلا ہوتا ۔ اس کے ساتھ ایک اور کھڑا ہو جائے تو گیارہ کے برابر ہوتے ہیں ۔ غور کیجئے
1
1 1
1 1 1
1 1 1 1
1 1 1 1 1
1 1 1 1 1 1
1 1 1 1 1 1 1
سات پرخلوص اور باہمت اکٹھے کھڑے ہو جائیں تو گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ کے برابر ہو جاتے ہیں ۔ آزمائش شرط ہے
السلام علیکم زرقا جی!شگفتہ جی
بہت اچھی پوسٹ ہے۔
مجھے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی بے عملی اور کم ہمتی پر افسوس ہوتا ہے کہ میں اب تک پاکستان کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکی۔
سوائے اس کےکہ کچھ غریب بچوں کی کی فیس ادا کردی اور اور کچھ غریب بچیوں کی شادیاں کروادی اور ایک دو غریب لوگوں کو اپنا گھر بنانے مین مدد کی۔
مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ میں کوئی منظم کوشش نہیں کر سکی ۔البتہ کچھ منظم کام کرنے کا جذبہ ابھی زندہ ہے
میں یتیم بچوں کے لئے ایک سکول بنانا چاھتی ہوں
کچھ ذہین بچے غربت کی وجہ سے سکول کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے ایسے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک فنڈ قائم کرنا چاہتی ہوں۔
میں چاھتی ہوں کہ ایک ایسا اسلامی بنک زکٰوۃ فنڈ سے قائم کیا جائے جو غریب لوگوں بالخصوص عورتوں کروزگار کے لئے قرضَِ حسنہ فراہم کرے ۔
پسماندہ علاقوں میں ہنر سکھانے کے لئے ورکشاپس قائم کرنا چاہتی ہوں
مجھے معلوم ہے کہ میرے جیسے بہت سے پاکستانی ہیں جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کسی کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں۔مگر اجتماعی کوشش میں جو برکت ہوتی ہے وہ انفرادی کام میں نہیں ہوتی
مجھے فرحت کیانی کی پوسٹ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی
ان کے لئے دُعا گو ہوں
والسلام
زرقامفتی
السلام علیکم شگفتہ
آپ کا سوال اس لحاظ سے بہت مشکل لگتا ہے کہ ہر کسی کے ذہن میں یہ ہوتا ہے ناں کہ شاید کوئی بہت بڑا کام کیا ہو تو ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہاں ہم نے پاکستان کو کچھ دیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ وطن کی محبتوں کا قرض تو ہم ساری زندگی بھی اتارتے رہیں تو بھی نہیں کم ہے۔۔بس طے ہی کرنا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہم یہ سب کیسے کر سکتے ہیں؟؟۔۔اور اس سلسلے میں میں سوچتی ہوں کہ اگر میں نے ایک بھی ایسا کام کر لیا جس سے ایک انتہائی معمولی لیکن مثبت تبدیلی آ سکتی ہے تو وہ بھی بہت ہے۔۔بہت سی چھوٹی تبدیلیاں ایک بڑی تبدیلی لاتی ہیں اور ایسا ہونے میں عمریں گزر جاتی ہیں۔۔ اور میرا اس پر ہمیشہ یقین رہا ہے۔۔میں نے اتنا خاص تو کچھ نہیں کیا لیکن میرے بھیا جی اور ان کے دوستوں نے آج سے بہت سال پہلے جب وہ کالج میں تھے ،ایک چھوٹی سی فلاحی تنظیم بنائی تھی۔۔ جو وہیں آس پاس کے لوگوں کی مدد کرتی تھی۔۔پھر آہستہ آہستہ ان سب دوستوں کے دوسرے بہن بھائی اور ان کے دوست بھی شامل ہوتے گئے۔۔میں بھی سکول کے زمانے میں ہی ممبر بن گئی تھی لیکن صحیح طور سے کام کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں شروع کیا۔۔ شروع میں ہم لوگ کیونکہ خود سٹوڈنٹس تھے اور اخراجات کے لئے رقم اکٹھی کرنی پڑتی تھی تو ہم صرف ان بچوں کو جو فیس نہیں دے سکتے تھے یا یونیفارم اور کتابیں نہیں لے سکتے تھے ، کی مدد کرتے تھے اس کے لئے ٹورنامنٹس،،مینا بازار وغیرہ کراتے تھے اور مہمانِ خصوصی ان لوگوں کو بلاتے تھے جو کچھ نہ کچھ ڈونیٹ کر جائیں۔۔پھر سکولز کالجز گھر والوں ، رشتے داروں سے بھی کافی مدد لے لیتے تھے لیکن بعد میں ہم لوگ خود بھی عملی زند گی میں آ گئے اور جیسے جیسے لوگوں کو پتہ چلتا گیا اتنے لوگ مدد کے لئے آ گئے کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔اب اس تنظیم نے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی ہے جہاں کچھ ڈاکٹرز ہر ہفتے کچھ وقت فری دیتے ہیں ۔۔پھر ہر دو تین ماہ کے بعد آس پاس کے دیہات میں اور مین شہر میں بھی فری میڈیکل کیمپس لگاتے ہیں۔۔اس کے علاوہ الشفاء آئی ٹرسٹ راولپنڈی کے تعاون سے فری آئی کیمپس بھی لگاتے ہیں۔۔پچھلے کچھ سالوں سے ہم لوگوں نے بلڈ بینک کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے اور اب ایسا ہوتا ہے کہ اتنے لوگ اس کا حصہ بن چکے ہیں کہ اکثر دوسرے شہر کے ہسپتالوں میں بھی خون کے عطیات دیئے جاتے ہیں۔۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں آزاد کشمیر سے قریب ہونے کی وجہ سے بہت سے زخمی ہمارے شہر کے ہسپتالوں میں بھیجے گئے تھے اور تب بھی خون کی ساری ڈیمانڈ ہمارے شہر میں سے ہی پوری ہو گئی تھی۔
اور اس بات سے ہم لوگوں نے یہ سیکھا کہ قطرہ قطرہ کیسے سمندر بنتا ہے اور کام بے شک آہستگی سے ہو لیکن اگر اس میں تسلسل ہو تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔۔ اگرچہ یہ کام میں نے اکیلے نہیں کیا اور میرا انفرادی حصہ شاید اتنا زیادہ نہیں ہے کہ میں مطمئن ہو کر یہ کہہ سکوں کہ میں نے پاکستان کو واقعی کچھ دیا ہے لیکن تھوڑی سی تسلی ہے دل کو کہ میں بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں ۔۔۔باقی یہ ہے کہ جب تک زندگی ہے مقدور بھر کرنے کی پوری کوشش رہے گی انشاءاللہ۔۔۔
فرحت اس تنطیم کا تعارف ضرور لکھیں اور ہو سکے تو اس کے چند ممبران کو یہاں پر ضرور لائیں تاکہ سب کو پتہ ہو اور مزید کام بھی کیا جا سکے۔
بہت اچھا دھاگہ شروع کیا گیا ہے اور اس سے بہت سے لوگوں کے جذبہ حب الوطنی کا اور ان کی نیک خواہشات کا پتہ چلا ہے۔ جو لوگ کچھ کام کر چکے یا کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی اس سے بہت تحریک ملے گی اور شاید کچھ خیالات جو کسی کا خواب ہی ہیں اب تک انہیں کوئی پڑھ کر مستقبل قریب میں تعبیر دے سکے۔
دینے کے حوالے سے تو چیزیں بہت کم ہیں لینے کے مقابلے میں مگر اتنا ضرور ہے کہ جو لیا اس پر احسان مند ہوں اور اپنے ملک پر فخر ہے اور گردن جھکی ہوئی نہیں۔ ملک کا ذکر جب بھی چھڑا محبت سے ہی چھڑا اور ہر محاذ پر پرزور دفاع کیا اور پاکستان کے مثبت پہلوؤں کا اجاگر کیا اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والوں سے کھل کر اختلاف کیا۔ اگر کسی نے ملک کی برائیاں ہی بتلائیں تو اسے ملک کی اچھائیوں کی طرف بھی نظر ڈالنے کو کہا اور جس کے برتے پر برائیاں گنوائی اس کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرکے سمجھانے کی کوشش کی کہ اچھائیاں برائیاں ہر جگہ ہیں تو آپ جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے ملک کی صرف برائیاں اور دوسرے ممالک کی صرف اچھائیاں ہی کیسے گنوا سکتے ہیں۔
زیادہ کام زبان سے ملک و قوم کے تشخص اور تصور کا بہتر طور پر اجاگر کرنے کا ہی کیا ہے جہاں پوری دنیا اور بہت سے نادان ہم وطن پاکستان کی برائیاں کرنے میں ہی مصروف نظر آتے ہیں وہاں انہیں پاکستان کی خوبیاں گنوانے میں کبھی ہچکچاہٹ اور تامل محسوس نہیں کیا اور اس معاملے میں اپنے پرائے کی بھی کبھی تمیز نہیں رکھی۔
ایک عمومی رویہ جس سے میں شاکی رہا ہوں اور تا عمر رہوں گا وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ بیرون ملک جا کر یا باہر سے آنے والوں کے زیر اثر آ کر پاکستان میں ہر وقت کیڑے تلاش کرتے رہتے ہیں اور ان کی زبان تھکتی نہیں پاکستان پر تنقید کرتے اور باقی ممالک کی تعریفیں کرتے۔ ایسے لوگوں سے میں ہمیشہ الجھ پڑتا ہوں ، میرے چچا ، میرے کچھ کزن ، دوست جو بھی اس رویے کا مرتکب ہوا اس سے میں نے تعلق کی پرواہ نہیں کی اور خاموشی سے پاکستان پر تنقید نہیں سنی بلکہ انہیں ان کی تصوراتی جنت سے نکال کر حقیقی دنیا میں لانے کا کام ضرور کیا۔ بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ آپ نے باہر کی دنیا نہیں دیکھی اس لیے یہ بات کر رہے ہیں مگر ایک سال میں باہر بھی رہ آیا اور میں اپنے تجربے کی حد تک یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر زندگی عمارتوں ، ٹیکنالوجی ، سسٹم کا نام ہے تو وہ مغرب میں ہے مگر اگر زندگی رویوں ، اخلاص ، محبت اور تہذیب کا نام ہے تو پاکستان میں زندگی رواں دواں ہے ، میری اس بات سے زندگی کو مادیت سے ہٹ کر محسوس کرنے والے وہ دوست جو بیرون ملک زندگیاں گزار رہے ہیں ضرور تائید کریں گے۔
سب سے بڑھ کر اپنی شناخت پر شرمندہ ہونے کی بجائے اسے من و عن قبول کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ہم اچھے لوگ ہیں چند لوگوں کی برائی پر آپ ساری قوم کو برا مت سمجھیں۔ ایک واقعہ اور مجھے یاد آ رہا ہے مگر بات اور طرف چلی جائے گی ویسے بھی موضوع سے ہٹ کر کافی باتیں کر دی ہیں میں نے ، شاید پاکستان کو حقیقی طور پر کچھ نہ دینے کا احساس ہے جو شرمندہ کیے ہوئے ہیں مگر مجھے خوشی ہے کہ کم از کم مجھے یہ احساس تو ہے کہ میں مقروض ہوں اور مجھے اس مٹی کے بہت سے قرض اتارنے ہیں اپنے بہت سارے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر۔
ایک سوال اور جو لوگوں کو پریشان رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کچھ دینا چاہیں تو کس طرح اور کیا کرکے وہ پاکستان کو کچھ لوٹا سکتے ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ ہر شخص مالی مدد نہیں کر سکتا ہر شخص کوئی تنظیم نہیں بنا سکتا ہر شخص کفالت نہیں کر سکتا ہر شخص پڑھا بھی نہیں سکتا مگر ہر شخص زبان اور تحریر سے پاکستان کا مثبت اور روشن تصور ضرور پھیلا سکتا ہے اور قائم کر سکتا ہے۔ نبیل نے بہت سے لوگوں کی مشکل یہ فورم قائم کرکے ختم کر دی ہے اور لوگ یہاں اظہار کرکے اپنے جذبات رقم کرکے کم از کم اپنے خوابوں کا اظہار اور اپنی غلطیوں کا اعتراف ضرور کر سکتے ہیں اور اردو کی ترقی و ترویج کرکے ملک کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکتے ہیں۔
غلط سلط بول یہ رہے
میرے یار میرے دوست میری کائنات مدہو
سب کھو گئے ہیں کہاں میرے دوست
میرے یار میرے دوست
میرا ڈھونڈتا دل بیہوش
سب سو گئے ہیں کہاں
میرے دوست میرے یار
میرے دوست میری آرزو
خاموش کیوں بھول گئے سب میرے دوست
پر جو آج ہے کل نہ ہو
چاہے دل نہ ہو میرا آج جو بھی ہے کل نہ ہو
بھولو نا بھولو نا میرے یار
ایک بار ہے ستار
تم بدلو بدلے دل بدلنے لوگ
میرے یار میرے دوست
میری بندگی کے ہیرو
کب جاگ اٹھیں گے سب میرے دوست
میرے یار میرے دوست
اب دوں میں کس کو دوش
کیوں بھول گئے سب میرے نام
جو آج ہے کل نہ ہو
چاہے یہ دل نہ میرا
جو آج جو بھی ہے کل نہ ہو
بھولو نہ بھولو نہ میرے یار
ایک بار ہے اس بار تم بدلو
بدلے دل بدلے لوگ
جو آج ہے کل نہ ہو
چاہے یہ دل نہ ہو
آج جو بھی ہے کل نہ ہو
بھولو نہ بھولو نہ میرے یار
ایک بار ہے اس پار
تم بدلو بدلے دل بدلے لوگ